قرآن میں سحری کے اختتام اورروزہ کے آغازکوایک تمثیل سے بیان کیاگیاہے کہ’’تم کھاؤپیویہاں تک کہ سفیددھاری سیاہ دھاری سے جداہو جائے‘‘(البقرہ ۱۸۷:۲)۔
یہاں سفیددھاری سے مرادصبح کی سپیدی ہے۔حدیث میں آتاہے کہ ایک صحابی حضرت خاتم بن عدی نے اس آیت کامطلب کچھ اورلیا۔ وہ یوں کرتے کہ سحری کرتے وقت ایک سیاہ اورسفیددھاگہ سامنے رکھتے اورکھاتے پیتے رہتے۔یہاں تک کہ جب سفیداورسیاہ دھاگوں کارنگ نمایاں ہوجاتا تو سحری ختم کردیتے ۔جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے انہیں بتایا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ اور آپ نے ان کی تصحیح فرمائی کہ سفید اور سیاہ دھاری کے الگ الگ ہونے کا مطلب صبح کی سپیدی کا نمودار ہوجانا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ مسجدنبوی میں نبی صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیااورمسجدکے احاطے میں پیشاب کرنے لگا۔اصحاب رسول اٹھے کہ اسے سختی سے منع کریں لیکن آپ نے انہیں روک لیااورکہاکہ اسے اطمینان سے فارغ ہولینے دوکہیں وہ مزیدگندگی نہ پھیلائے۔پھرجب وہ فارغ ہوگیا توآپ نے بلاکراسے سمجھایاکہ یہ مسجدخداکاگھرہے اوریہاں گندگی پھیلانامناسب نہیں(صحیح بخاری ۔جلد اول حدیث نمبر ۲۱۷)۔
اسلامی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے اصحاب کوصرف لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی ہی نہیں کی بلکہ نے بلکہ انکی اصلاح اور تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ اسی تعلیم و تربیت دینے کے عمل کواصحاب رسول رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے بعدجاری رکھا اور مسلم معاشرے کی اصلاح میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حدِیث میں بیان ہوتا ہے"
کہ ہم لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصدا فحش کلامی فرماتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جوکے اعتبار سے بہتر ہوصحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر ۹۷۳)
آج ہم پاکستانی معاشرے کاجائزہ لیں توعلم ہوتاہے کہ ہر شخص دوسر ے کی غلطی تو واضح کررہا ہے لیکن اس کا کوئی حل نہیں بتارہا۔ ہمارا تعلیمی نظام ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر پیشہ ورانہ ماہرین تو پیدا کررہا ہے لیکن اچھے انسان نہیں پیدا کررہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہماری سوسائٹی کا تقریباََ ہر شعبہ کرپشن، خراب اورکردگی اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
اسی طرح ہماری تربیت کا ادارہ یعنی خاندان بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ والدین بچوں کو اسکول بھیج کر انکی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔جبکہ اساتذہ یہ دلیل دے کر جان چھڑالیتے ہیں کہ ہمارے پاس تو بچہ محض چھ گھنٹے ہی رہتا ہے لہٰذا اصل ذمے داری تو والدین ہی کی ہے۔ اسی طرح معاشرے کے بزرگوں کو پہلے ہی عضوِ معطل بنا کر بولنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اچھی کتب کا مطالعہ بھی مفقود ہوچکا۔چنانچہ نئی نسل کی تربیت کے لئے اب یا تو ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ جیسے بدچلن استاد بچے ہیں یا پھر ہم عمر نا تجربے کار دوست۔
آج ہمیں سنت نبوی ﷺ کے احیا کی ضرورت ہے جس کا مقصد دینی واخلاقی تعلیم بھی ہے اور تربیت بھی۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اس سنت کی پیروی کرے ۔ اس تعلیم و تربیت کی ذمہ داری صرف اساتذہ اور والدین تک محدود نہیں۔ بلکہ بزرگ ونوجوان، افسر و ماتحت، امیر و غریب، آجر و مزدور ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں اس کا مکلف ہے۔
اس کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ پہلے مرحلے میں بنیادی اخلاقیات کو ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگیوں میں نافذ کرے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں اس کا پرچار بھی کرے۔ دوسرے مرحلے میں کچھ ایسی تربیت گاہیں بنائی جائیں جہاں شارٹ کورسز کے ذریعے بنیادی تصورات کی اصلاح کی جائے اور جدید خطوط پر ان کی تربیت کی جائے ۔تیسر مرحلے میں اخلاقیات کو درس گاہوں میں ہر سطح پر شامل نصاب کرکے ہر پیشے کو ان پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک اور تجویز یہ ہے کہ ہمارے دینی لیڈران کو ترغیب دی جائے کہ وہ دینی تعلیمات کے ساتھ اخلاقیات پر بھی زور دیں اور اسکی اہمیت کوعبادات ہی کی طرح اجاگر کریں۔
ان اقدام کے بعد ہی امید کی جاسکتی ہے کہ ادارے درست ہوجائیں گے، کرپشن ختم ہوگی، انسانی جان کی حرمت بحال ہوگی اور دینی اور اخروی فلاح کے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر یہ نہ ہوا تو شاید حالات کبھی نہ سدھریں اور بلیم گیم میں ہم سب ہی فنا ہوجائیں۔
یہاں سفیددھاری سے مرادصبح کی سپیدی ہے۔حدیث میں آتاہے کہ ایک صحابی حضرت خاتم بن عدی نے اس آیت کامطلب کچھ اورلیا۔ وہ یوں کرتے کہ سحری کرتے وقت ایک سیاہ اورسفیددھاگہ سامنے رکھتے اورکھاتے پیتے رہتے۔یہاں تک کہ جب سفیداورسیاہ دھاگوں کارنگ نمایاں ہوجاتا تو سحری ختم کردیتے ۔جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے انہیں بتایا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ اور آپ نے ان کی تصحیح فرمائی کہ سفید اور سیاہ دھاری کے الگ الگ ہونے کا مطلب صبح کی سپیدی کا نمودار ہوجانا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ مسجدنبوی میں نبی صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیااورمسجدکے احاطے میں پیشاب کرنے لگا۔اصحاب رسول اٹھے کہ اسے سختی سے منع کریں لیکن آپ نے انہیں روک لیااورکہاکہ اسے اطمینان سے فارغ ہولینے دوکہیں وہ مزیدگندگی نہ پھیلائے۔پھرجب وہ فارغ ہوگیا توآپ نے بلاکراسے سمجھایاکہ یہ مسجدخداکاگھرہے اوریہاں گندگی پھیلانامناسب نہیں(صحیح بخاری ۔جلد اول حدیث نمبر ۲۱۷)۔
اسلامی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے اصحاب کوصرف لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی ہی نہیں کی بلکہ نے بلکہ انکی اصلاح اور تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ اسی تعلیم و تربیت دینے کے عمل کواصحاب رسول رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے بعدجاری رکھا اور مسلم معاشرے کی اصلاح میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حدِیث میں بیان ہوتا ہے"
کہ ہم لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصدا فحش کلامی فرماتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جوکے اعتبار سے بہتر ہوصحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر ۹۷۳)
آج ہم پاکستانی معاشرے کاجائزہ لیں توعلم ہوتاہے کہ ہر شخص دوسر ے کی غلطی تو واضح کررہا ہے لیکن اس کا کوئی حل نہیں بتارہا۔ ہمارا تعلیمی نظام ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر پیشہ ورانہ ماہرین تو پیدا کررہا ہے لیکن اچھے انسان نہیں پیدا کررہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہماری سوسائٹی کا تقریباََ ہر شعبہ کرپشن، خراب اورکردگی اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
اسی طرح ہماری تربیت کا ادارہ یعنی خاندان بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ والدین بچوں کو اسکول بھیج کر انکی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔جبکہ اساتذہ یہ دلیل دے کر جان چھڑالیتے ہیں کہ ہمارے پاس تو بچہ محض چھ گھنٹے ہی رہتا ہے لہٰذا اصل ذمے داری تو والدین ہی کی ہے۔ اسی طرح معاشرے کے بزرگوں کو پہلے ہی عضوِ معطل بنا کر بولنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اچھی کتب کا مطالعہ بھی مفقود ہوچکا۔چنانچہ نئی نسل کی تربیت کے لئے اب یا تو ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ جیسے بدچلن استاد بچے ہیں یا پھر ہم عمر نا تجربے کار دوست۔
آج ہمیں سنت نبوی ﷺ کے احیا کی ضرورت ہے جس کا مقصد دینی واخلاقی تعلیم بھی ہے اور تربیت بھی۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اس سنت کی پیروی کرے ۔ اس تعلیم و تربیت کی ذمہ داری صرف اساتذہ اور والدین تک محدود نہیں۔ بلکہ بزرگ ونوجوان، افسر و ماتحت، امیر و غریب، آجر و مزدور ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں اس کا مکلف ہے۔
اس کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ پہلے مرحلے میں بنیادی اخلاقیات کو ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگیوں میں نافذ کرے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں اس کا پرچار بھی کرے۔ دوسرے مرحلے میں کچھ ایسی تربیت گاہیں بنائی جائیں جہاں شارٹ کورسز کے ذریعے بنیادی تصورات کی اصلاح کی جائے اور جدید خطوط پر ان کی تربیت کی جائے ۔تیسر مرحلے میں اخلاقیات کو درس گاہوں میں ہر سطح پر شامل نصاب کرکے ہر پیشے کو ان پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک اور تجویز یہ ہے کہ ہمارے دینی لیڈران کو ترغیب دی جائے کہ وہ دینی تعلیمات کے ساتھ اخلاقیات پر بھی زور دیں اور اسکی اہمیت کوعبادات ہی کی طرح اجاگر کریں۔
ان اقدام کے بعد ہی امید کی جاسکتی ہے کہ ادارے درست ہوجائیں گے، کرپشن ختم ہوگی، انسانی جان کی حرمت بحال ہوگی اور دینی اور اخروی فلاح کے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر یہ نہ ہوا تو شاید حالات کبھی نہ سدھریں اور بلیم گیم میں ہم سب ہی فنا ہوجائیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔