Dec 21, 2014

دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کا وبال


سوال: کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض تنظیموں کی جانب سے دین کے نام پر جو مختلف جرائم اور تخریبی کارروائیاں کی جاتی ہیں ، ان کے پیچھے صرف خفیہ طاقتیں اور بیرونی ہاتھ ہے؟ اور یہ واقعات آج کل کیوں ہورہے ہیں ؟

جواب: اسلام کا دعویٰ کرنے والے بعض لوگ آج بارود بھری گاڑیاں بے گناہ لوگوں کو قتل اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، جبکہ یہ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہےلیکن افسوس یہ واقعات ایک ایسی زمینی حقیقت ہیں جو ایمان والے دلوں کو گھائل کرتی ہے اور ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جی ہاں ، ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور ان کے خبیث اور مرتب منصوبے بھی ہیں لیکن اسلام کی سمجھ اور اس کی تشریح میں انحراف بھی ان کا ایک سبب ہے، جبکہ اس انحرانف کے جرائم اسلامی دنیا کے لئے صلیبی جنگوں اور تاتاریوں کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اور یہ ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔

شجاعت اور بہادری کے مفہوم میں غلطی

میں سمجھتا ہوں کہ جرأت و بہادری کو سمجھنے میں غلطی ان معاملات میں سرفہرست ہے جن کی غلط تشریح اور ان کے بارے میں غلط فہمی ان واقعات میں پڑنے کا سبب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن دل کو جرأت و بہادری سے مزین ہونا چاہئے لیکن بصیرت، حکمت اور ایسے حال کے ساتھ جو مخاطبین کو امن و امان کا پیغام دے۔ اسے چاہئے کہ وہ ہر حال میں دین کے نظریات پر کاربند رہے خواہ حالات کچھ بھی ہوں اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ مقصد و سائل کی دلیل فراہم نہیں کرتا یعنی جائز اہداف کے لئے جائز وسائل بھی ضروری ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں سچی جرأت اور شجاعت یہ ہے کہ مسلمان اپنے اقدار کے دفاع کے لئے سینہ سپر رہے اور ہمیشہ حق پر ثاقت قدم رہے اور اپنے اوپر آنے والے مصائب پر صبر کرے اگرچہ اس کی خاطر اس کا ایک ایک عضو کیوں نہ کاٹ دیا جائے۔

جو شخص عصر سعادت (اسلام کے عصر اول) کو اس کی روشنی میں دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ فخر انسانیت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے مکی زندگی کے تیرہ سالوں میں اتنے زیادہ مصائب جھیلے جو انسان کے بس سے باہر ہیں ، یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اکثر اوقات غم کی وجہ سے اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کراللہ تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور سلطان ادب و اخلاق جس کو رب تعالیٰ نے ا نسانیت کی نجات کے لئے بھیجا تھا ان کی اور ان پر ایمان لانے والوں کو پیش آنے والی طرح طرح کی تکلیفوں کو دیکھتے اور کہتے ،’’ اے ہمارے رب تو کس قدر بردبار ہے!‘‘ کیونکہ وہ اس منظر کے سامنے حیران و پریشان ہوتے تھے جس کی حکمت کو وہ کماحقہ نہیں سمجھ پاتے تھے۔

آپ کو معلوم ہے کہ ایک جاہل منکر نے فخر انسانیت سید نا ومولانا حضرت محمدﷺکے سر پر اس وقت اونٹ کی اوجڑی رکھ دی تھی جب آپ علیہ السلام کعبہ کے پاس سجدے ریز تھے۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو کتنی بار پتھر مارے حالانکہ وہ خود ان کے زیادہ حق دار تھے لیکن اس کے باوجود رسول اکرم ﷺ نے کبھی بھی ان کو بددعا نہیں دی اور یہ نہیں فرمایا کہ : ’’ یا اللہ ان پر اپنے ہاں سے پتھروں کی بارش فرما‘‘ بلکہ آپ علیہ السلام پر سنگ باری کی گئی اور اگلے دندان مبارک شہید ہوگئے، آپ ﷺ کا چہرہ انور زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا تو بھی آپ ﷺ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند فرمائے اور یہ دعا فرمائی: ’’ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي (أو: اِهْدِ قَوْمِي) فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ‘‘ (سنن سعید بن منصور:353/2، البہقیھ ، شعب الایمان:45/3) (اے ا للہ میری قوم کو معاف فرما دے (یا ہدایت دے دے) کیونکہ وہ نہیں جانتے)۔ اس دعا کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’اگر انہوں نے مجھے پہچانا ہوتا اور میری دعوت کو سمجھا ہوتا اور یہ جانا ہوتا کہ میں ان کی خاطر بار بار مراور جی سکتا ہوں تو انہوں نے وہ کچھ نہ کیا ہوتا جو انہوں نے کیا۔ قرآن کریم کی یہ آیت : ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾ )سُورَةُ الْكَهْفِ: (6 ((اے پیغمبر) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کرکر کے اپنے تئیں ہلاک کر دو گے) مشرکین کے منتخب کردہ غلط رستے کے بارے میں آپ علیہ السلام کا موقف واضح کررہی ہے۔

جی ہاں ، فخر انسانیت ﷺ جنہوں نے دلوں کو فتح کیا ، کلیجوں کو نرمادیا ، لوگوں کو حقیقی انسانیت کا رستہ بتایا اور اپنی فطرت میں پوشیدہ انسانیت کاملہ کے ذریعے انسانوں کو یکجا فرمایا، انہوں نے اپنے دشمنوں کے غصے اور حسد کا جواب ان کی طرح نہیں دیا بلکہ آپ ﷺ نے ایسی بری اور سخت باتوں پر عمل کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس ابو جہل کے لئے بھی بد دعا نہیں فرمائی جس نے پندرہ سال آپ ﷺ سے دشمنی کی لیکن جب اللہ تعالی نے ابو جہل کے بیٹوں جویریہ اور عکرمہ کے دل اسلام کے لئے کھول دئے تو انہوں نے وہ وہ جوہر دکھائے جن پر عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے، چنانچہ حضرت عکرمہ نے غزوۂ یرموک میں رومیوں کا مقابلہ کیا اور شدید زخمی ہوئے اور خیمے میں منتقل کئے گئے تو اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ’’ یا رسول اللہ کیا آپ نے قدم رنجہ فرما کر ہمیں شرف بخشا؟ ‘‘ حالانکہ ابھی آپ علیہ السلام سے جان پہچان ہوئے دو برس سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا۔ سچی بات ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں ان کی اس عمودی بلندی کی وضاحت مشکل ہے کہ آپ معرفت کے اس رتبے اور اس داخلی گہرائی تک کس طرح پہنچے؟ اس لئے اگر نبی کریم ﷺ اپنے دشمنوں سے بھی بردباری اور حکمت کا برتاؤ نہ کرتے تو اس طرح کی کوئی بات ہوسکتی تھی؟

سچی بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ اگر اس مشکل وقت میں صحابہ کرام کو انگلی کا ایک معمولی اشارہ بھی فرما دیتے تو وہ ابتدائی زمانے کے بہادر اور جرأت مند مسلمان اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک بغیر کسی سستی،کمزوری اور بزدلی کے مشرکین سے لڑتےلیکن انہوں نے طرح طرح کی اذیتیں سہنے اور ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے جانے کے باوجود کوئی انفرادی، فوری اور جذباتی کام نہیں کیا جس سے ان پر کیا گیا اعتماد متزلزل ہو اور کبھی بھی وحشیانہ اور خوفناک کام نہیں کئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی رحمت کا رستہ تمام لوگوں کی ابدی سعادت کے لئے دلوں کو فتح اور عقلوں کو قائل کرنا ہے اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے حکمت، نرمی اور رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔

جی ہاں ، ہم بارہاکہتے ہیں کہ ان وحشیانہ کاموں کا کتاب و سنت اور فخر انسانیت ﷺ کے طریقے، آپ کی منصوبہ بندی، آپ کے طرز فکر اور آپ کی رہنمائی کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں۔

بضر کے بیج بونے والے کو محبت نہیں مل سکتی

اس بات کے شواہد عصر اول میں کس قدر زیادہ ہیں ۔ جس وقت بیت المقدس فتح ہوا حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں تھے تو آپ اور آپ کا غلام شہر کی چابیاں وصول کرنے تشریف لائے تو اپنے ہمراہ پھٹے کپڑوں کو سینے کے لئے سوئی دھاگا اور بیت ا لمال سے ایک سواری بھی لے لی جس پر دونوں باری باری سوار ہوتے تھے۔ آپ نے دو سواریاں لینا گوارا نہیں فرمایا۔ چنانچہ بیت المقدس کے قریب پہنچے تو غلام کی باری آگئی تو اس نے قسم دے کر کہا کہ آپ سوار ہوں لیکن آپ نے انکار کردیا۔ اس کے بعد عیسائی مذہبی رہنماؤں نے شہر کے باہر آپ کا استقبال کیا، آپ کا احترام کیا اور مہمان نوازی کی اور کہنے لگے:’’ آپ ہی وہ شخص ہیں جن کے اوصاف ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھے ہیں جو بیت المقدس کو فتح کرے گا کہ وہ خود اس شہر میں پیدل اور اس کا غلام سواری پر داخل ہوگا اور اس کے کپڑوں پر سترہ پیوند لگے ہوں گے ‘‘۔ بعد ازاں بیت المقدس کے بڑے راہب صفر و نیوس نے شہر کی چابیاں آپ کے حوالے کردیں اورجب نماز کا وقت ہوا تو آپ نے راہب کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ میں نماز کہاں پڑھوں ؟ تو وہ بولا: ’’اپنی جگہ پڑھ لیں‘‘ تو حضرت عمر فرمانے لگے کہ ’’ عمر کلیسہ قیامت میں نماز نہیں پڑھ سکتاکہ کل کو میرے بعد مسلمان آکر یہ نہ کہیں کہ یہاں عمر نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ مسجد بنا لیں ‘‘۔ چنانچہ آپ وہاں سے ایک پتھر پھینکنے جتنی مسافت دور ہوگئے اور اپنی عبا زمین پر بچھا کر نماز ادا فرمائی۔ ذرا حضرت عمر کی اس بصیرت ، باریک بینی ،نرمی اور دیگر ادیان کی عبادتگاہوں کی تعظیم کو دیکھئے اور پھر ان گندے حملوں کے مناظر بھی دیکھ لیجئے جو اسلام کے نام پر ہورہے ہیں حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور پھر ان میں موازنہ کریں 

ایک اور منظر بھی ہمارے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ جب فتنوں نے سر اٹھایا اور پھیل گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بالکل اسی طرح انتہا تک پہنچ گئے جس طرح آج ہورہا ہے اور آپ کی مخالفت میں خوارج نے (نہروان میں ) خروج کیا اور حضرت علی سے کہا گیا کہ : ’’ خوارج نے نرجوان میں لشکر اکٹھے کئے ہیں ۔ آپ صبح سویرے حملہ کرکے اس سے پہلے سب کو کاٹ کر رکھ دیں کہ وہ آپ پر حملہ آور ہوں‘‘۔ اس پر اس عظیم رہنما، حیدر کرار اور اس امام الاولیاء کا جواب جس نے قلعہ خیبر کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکا تھا اور جو تلوار کوبے نیام کرتے تھے تو کئی کئی سروں کو ایک ساتھ قلم کردیتے تھے، ان کے شایان شان تھا۔ آپ نے فرمایا ’’ تم ان سے لڑ ائی کی پہل نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے لڑیں ۔ تمہیں کیا معلوم کہ وہ حملہ کرنے والے ہیں؟‘‘خدا کے لئے غور کیجئے کہ آ پ کی فہم میں کس قدر احتیاط ہے ! میں خیبر کے قلعے کا دروازے کو اکھاڑنے یا عمرو بن عبدود کو ایک ہی وار سے قلے کرنے کو حضرت علی کی سب سے بڑی بہادری نہیں سمجھتا بلکہ آپ کی سب سے بڑی بہادری اپنے نفس پر اس وقت قابو پانا ہے جب آدمی کے دل میں انانیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ببانگ دہل ’’ انا انا‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہے اور دوسری بہادری اپنے ارادے کا حق ادا کرنا ہے۔ جی ہاں ،میں بنیادی بہادری، شجاعت اورجرأت اس نظرئے پر قائم رہنے میں سمجھتا ہوں کہ ’’ کس کو معلوم کہ وہ حملہ کرنے والے ہیں ؟‘‘ اور وہ بھی ایسے خطرناک وقت ۔ اسی سے امام ا عظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر باغی کسی جگہ اکٹھے ہوجائیں تو ان سے اس وقت تک لڑائی نہیں کی جائے گی جب تک وہ لڑائی میں پہل نہ کریں ۔

جی ہاں ، ضروری بات یہ ہے کہ ضرر کو کم سے کم نقصان اور ایک مضبوط، مربوط اور قابل عمل منصوبے کے ذریعے دور کیا جائے۔ آ پ فتح مکہ پر غور فرمائیں تو نظر آئے گا کہ رسول اکرم ﷺ نے خون نہ بہانے کے تمام اقدامات کئے تاکہ دشمنی اور بغض میں اضافہ نہ ہو اور مشکل مسائل بھی نرمی اورآسانی سے حل ہوجائیں ۔ جی ہاں ، فخر انسانیت ﷺ مکہ میں داخل ہوئے جبکہ وہاں کے اکثر باشندے مشرک تھے مگر اکادکا معمولی واقعات کے علاوہ کہیں بھی خون نہیں بہایا گیا بلکہ جب آ پﷺ وہاں داخل ہوئے تو اہل مکہ سے سوال فرمایا : ’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ ‘‘ تو بچپن سے جاننے والے مشرکین نے جواب دیا: ’’آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں‘‘ تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا: ’’ آج تمہاری کوئی پکڑ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ: 74/5) آپ علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان کلمات نے اتنا اچھا اثر چھوڑا کہ گویا وہ جبریل کی سانسوں کی خوشبو ہے اور مشرکین مکہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ کس قدر سرکشی میں حیران و سرگرداں تھے۔ چنانچہ صبح سویرے آپ ﷺ کے پاس آ کر یوں اکٹھے ہوگئے جس طرح چاند کے گرد ہالہ ہوتا ہے۔ جی ہاں ، برسوں دشمنی کرنے والے باغیوں کی طبیعت اور اخلاق میں نرمی آگئی اور جب نرمی اور حسن سلوک نے ان کو اسلام کی خوبصورت فضا کی جانب کھینچا تو وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

جی ہاں ، آپ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ اس لئے جو شخص اچھا پھل چننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد بھلائی اور اچھائی کے بیج بوئے۔

جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو اسلامی دنیا بھی شکست و ریخت کے ایک سلسلے سے دوچار ہوئی جس کے بعد ایسی کوششیں شروع ہوئیں جن کا مقصد مسلمانوں کی دوبارہ شیرزاہ بندی، اپنی ذات کی جانب واپسی اوردوبارہ اپنی روح کو حاصل کرنا تھا۔ ان کوششوں میں سے وہی کوششیں آپ کے لئے کافی ہیں جو ترکی میں ہوئیں جبکہ اسلامی دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والی کوششوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔اگر آپ ان پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ چار یا پانچ دہائیوںمیں بہت سی چیزیں بدل گئیں اور کوئی شے اپنی پرانی حالت پر برقرار نہ رہی چنانچہ عالم اسلامی میں وقوع پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں اور تغیرات کی وجہ سے دنیا کی قوت کے مراکز میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چنانچہ ان مراکز نے بعض ایسے لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی جن میں جوش و جذبہ تو بہت تھا مگر اسلام کے بنیادی عناصر اور اس کے قواعد و ضوابط کا کوئی علم نہ تھا اور ان کو اپنے مکروہ عزائم کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔

فریب خوردہ عوام اور عظمت کا جنون

نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی دنیا کے باشندوں میں تو ازن اور سمجھداری کے ساتھ سوچ اور بنیادی مصادر کا علم عام بات نہیں رہی ۔ اسی وجہ سے جو لوگ عظمت کے جنون کے جذبات کے ذریعے اپنی مصلحتوں کے مطابق ایک عام سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، انہوں نے ہماری ان کمزوریوں کو پہچان لیا جن کی بنیادجہالت اور غربت ہے اور اپنے منظرنامے تیار کئے ۔ اس کے بعد ان منظر ناموں کے مناسب لوگوں کوچنا اور پھر ان کو کبھی دھوکے اور کبھی دواؤں کے ذریعے دور رہ کر استعمال کیا۔

جی ہاں انہوں نے جہالت کی شکار نسلوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دیا جبکہ اس صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی دفاعی نظام کو مضبوط کریں کیونکہ جب یہ نظام طاقتور ہوگا تو عمارت میں داخل ہونے والے ہر جراثیم کو روکا جاسکتا ہے لیکن آپ کے دفاعی نظام کی کمزوری نے دوسروں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ جراثیمی ٹیکے لگا کر بنیادی عمارت کو کمزور کریں جبکہ اس وقت تم ان کو روک سکتے ہو اور نہ ان کا مقابلہ کرسکتے ہو۔

اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان نبی کریم ﷺ کی اتباع کریں اور اس دنیا میں مزید عقلمندی اور حکمت سے کام کریں جو سمٹتے سمٹتے ایک چھوٹے سے گاؤں کی شکل اختیار کرگئی ہے ا ور کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل اس کے بارے میں سوچیں اور کوئی بھی لفظ منہ سے نکالنے سے قبل یہ سوچیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس اثر کے بارے میں غور کریں جو مخاطبین پر مرتب ہوگا… ان پر لازم ہے کوئی بھی لفظ کہنے سے قبل پوری باریک بینی سے ہزار مرتبہ اس کے نقصان اور فائدے کے بارے میں سوچیں اور اندازہ لگائیں اور یہ بات ان لوگوں کے لئے اور بھی ضروری ہے جو کسی تنظیم یا لوگوں کے کسی گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ اس کا زیادہ خیال رکھیں اور زیادہ باریک بینی کا اہتمام کریں کیونکہ ان میں سے کسی ایک شخص کی غلطی کی سزا اس تنظیم کے تمام لوگوں کو دی جائے گی جس سے وہ منسوب ہے۔ مثلاً اگر ایک عام آدمی آکر یہ کہے کہ:’’ فلاں لوگوں نے ہماری مساجد کو نقصان پہچاکیا ہے چلو ان پر حملہ کریں‘‘۔تو اس کی جانب کوئی بھی متوجہ نہیں ہوگا لیکن یہی بات اگر کوئی ایسا شخص کہے جس کی بات سنی جاتی ہے تو لوگ اس کی بات مان لیں گے اور ایسی تخریب کاری ہوگی جس کی اصلاح کرنا مشکل ہوجائے گا۔

جی ہاں، جرأت و بہادری کے ساتھ علم و حکمت اور فراست و بصیرت بھی ہونی چاہئے ورنہ آدمی پاگل پن کا شکار ہوجائے گا اور اس وقت کئے جانے والے فیصلوں کی اصلاح نہایت مشکل ہوگی۔ اس لئے اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا غلط ہے۔

اسلام کے دشمن نہیں چاہتے کہ لوگ اسلام کے جمال کامشاہدہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس سے سجائیں۔ اس لئے وہ اسلام کے آغاز سے ہی اس طرح کی سازشیں اور حیلے بناتے رہتے ہیں۔ چنانچہ خلفائے راشدین اور ان کے بعد ان کے طریقے پر چلنے والے ہر سمجھدار حاکم نے ان سازشوں کا دوازہ بند کیا لیکن گزشتہ دو یا تین دہائیوں سے سازشی عناصر ایک خاص رنگ کے لوگوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں چنانچہ (افسوس کی بات ہے) انہوں نے اسلام کے روشن چہرے کو داغدار کردیا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام نے کسی بھی زمانے میں ایسی وحشیانہ کارروائیاں نہیں دیکھیں جن کا ارتکاب دین کے نام پر آج ہو رہا ہے۔ جی ہاں، تاریخ میں فرقہ موحدین اور قرامطہ نے ایسی کارروائیاں کیں مگر ان خود کش حملوں کی کوئی مثال نہیں ملتی جو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں میں کوئی فرق کئے بغیر قتل عام کا سبب بنتی ہیں۔

مومن کی جنگ اور اس کا مناسب طریقہ

یہاں پر میں ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بار میرے پاس ایک مہمان آیا اور مجھ سے مغرب میں اسلام فوبیا کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا کہ مغرب مسلمانوں کو وحشی جانور سمجھتا ہے اور اخبارات اور مغربی ذرائع ابلاغ میں ہونے والے اسلام مخالف پروپیگنڈے کا تذکرہ کرنے لگا، تو میں نے کہا کہ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جذبات کے پیچھے چلتے ہیں اور جب اسلام پر ظلم کیا جاتا ہے تو وہ ایسا جواب دیتے ہیں جو اسلام کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس لئے اپنے آپ کو بالکل پاک قرار دینا غلط ہوگا۔ اس جواب نے ہمارے مہمان کو حیران کردیا کیونکہ اس کو اس کی توقع نہ تھی۔ جی ہاں، ہم پر لازم ہے کہ جب ہم کسی ظلم کا جواب دیں تو اس کا طریقہ ایسا ہونا چاہئے جو ہم مسلمانوں کے شایان شان ہو، ورنہ (چند لوگوں کی غلطیوں سے) سارے مسلمان مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ ان سے قوت کے بعض غلط مراکز کو مسلمانوں کی کردار کشی کے لئے ایک ہتھیار مل جاتا ہے،جبکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کے اصولوں کی اچھی طرح پیروی کرکے ان حملوں کا جواب دیں اور اچھی طرح جان لیں کہ ہمارا برتاؤ اورہمارا اسلوب ہماری عزت اور عصمت ہے۔

وحشیانہ کارروائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

کیا آپ نے کبھی سنا کہ سختی، طاقت کا ظالمانہ استعمال ، شدت اور زبردستی نے دین کو کسی آدمی کے لئے محبوب بنایا ہو یا اسے دین کے قریب کیا ہو؟ آپ جانتے ہیں کہ دین کی تعریف یہ ہے’’ ایک ایسا خدائی نظام جو عقل والوں کواچھائی اختیار کرنے کی وجہ سے بذات خود بھلائی تک پہنچاتا ہے‘‘۔ چنانچہ اس تعریف میں موجود آزادی، جمہوریت کی تمام قسموں کی آزادی سے بڑھ کر ہے کیونکہ انسان کا ارادہ اس کا رکن ہے جواسے اس کے آزاد ارادے کے حوالے کرتا ہے اور چونکہ انسان اسلام میں محترم ہے اس لئے وہ فطری طور پر اچھائی کی قدر کرتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے ۔ اس لئے اگر مسلمان اسلام کی حقیقی نمائندگی کریں اور اپنی زندگیوں کواس کے ان محاسن سے سجا لیں جو انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتے ہیں تو لازمی طورپر لوگ اس رستے کو اختیار کرلیتے۔

جی ہاں اگر آپ اسلام کے محاسن کو ظاہر کریں، دین کو لوگوں کے لئے پسندیدہ بنائیں اور ان کے دلوں میں دین کا شوق پیدا کریں تو وہ محض اپنے ارادے سے اختیار کرلیتے جبکہ اس پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں کیونکہ ہر انسان اپنے پسندیدہ دین کو اختیار کرنے میں آزاد ہے اوراس کا بنیادی رکن دین کو اچھے طریقے سے پیش کرنا ہے جبکہ یہ بات فخر انسانیت ﷺ کے ہاں آپ کی دلکش تبلیغ سے کم نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ کی جانب سے دین پر عمل، تبلیغ کے نقش قدم پر تھا کیونکہ آپ ﷺ نے جس بات کی تبلیغ کی اس کو پورا پورا کرکے بھی دکھایا اوراس طرح آپ دلوں میں اتر گئے۔

ہم نبی کریم ﷺ کی امت بھی پہلے ایسے ہی تھے یہاں تک کہ فاسد لوگوں نے چند صدیوں سے ہماری جنیا ت کو خراب کردیا چنانچہ(افسوس کہ ) ہمارے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے دین کے نام پر بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ۔ اس لئے وحشی کارروائیاں کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔میں کتنی بارکہہ چکا ہوں اوربار بار کہہ رہا ہوں کہ مسلمان دہشت گرد اور دہشت گردمسلمان نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اگر مسلمانوں میں کوئی دہشت گرد ظاہر ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اسلامی صفات سے عاری ہوگیا ہے۔ اس لئے اسے صحیح مسلمان کہنا قطعاً ناممکن ہے ۔ اسے مسلمان کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ جنگ کے بھی اسلام میں اپنے مخصوص ضوابط ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ نبی کریم ﷺ لشکر کو الوداع کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ :’’ کسی نہایت بوڑھے شخص کو قتل نہ کرنا اورنہ کسی بچے یا چھوٹے کو اورنہ ہی کسی عورت اور عبادت خانوں والوںکو‘‘۔[1]چنانچہ کتاب و سنت کے اصولوں اور آج دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کو یکجا کرنا ناممکن ہے۔

اس بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دین پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام لوگوں کا احترام کریں اور ہر سوچ اور رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ طاقت کے بل پر اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنا اسلام کی اصل کے خلاف ہے۔ اسی طرح لوگوں پر توپوں اور بندوقوں سے ظلم اور سختی، شدت اور ظالمانہ طاقت کا استعمال اور کسی تجارتی مرکز پر قبضہ کرکے عام لوگوں کو یرغمال بنانا اور اپنی خواہش کے تقاضے کے مطابق جنگ کا اعلان کرنے کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم فرزندان اسلام برابر سرابر جواب دینے کو ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور مطلقاً مروت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مومن کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کے تصرفات کے لئے گڑھے میں گرا ہےاورنہ کرے گا۔

اے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی حکمت سے زندہ فرما اور ہمیں ہر اس شے سے محفوظ فرما جو تیری مراد کے مخالف ہو اور ہم سب کو رسول اکرم ﷺ کے رستے پر چلا اور ہمیں آپ ﷺ کے رستے پر چلنے والوں کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور یہ کام ہمارے لئے آسان فرما۔

  البہقیے ، معرفۃ السنن والآثار:365/14

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads