مختصر تعارف : دورجدید میں ڈیجیٹل سسٹم کے نام سے ایک نیانظام متعارف ہواہے ۔یہ نظام اپنی فنی تکنیک میں سابقہ تصویر ی نظام سے قدرے مختلف ہے ،کیونکہ پرانے نظام میں پہلے کیمرے کے ذریعے کسی منظرکاعکس لے کرریل پر محفوظ کیاجاتاتھااورپھراسے کیمیائی عمل سے گذاراجاتا اور پھر کسی پردے یاکاغذوغیرہ پرتصویر کوحاصل کیا جاتاتھا۔جب کہ اس نئے نظام میں کسی منظرکی روشنیوں کوہندسوں کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھراس محفوظ شدہ معلومات کی مدد سے نئی روشنیاں پیداکرکے اصل جیسامنظرپیداکیاجاتاہے ۔
قدیم اور جدید نظام کا فرق : کوئی بھی کیمرہ ہو، خواہ ڈیجیٹل ہو یا نان ڈیجیٹل ہو،تصویرکشی کرتے وقت پہلے مرحلے میں شبیہ حاصل کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے مرحلے میں محفوظ کی جاتی ہے اورتیسرے مرحلے میں اسکرین یاپردے پرظاہرکی جاتی ہے ۔گویا حصول شبیہ ،حفظ شبیہ اور اظہار شبیہ ان تین مراحل سے گذر کر تصویر مکمل ہو تی ہے۔
ڈیجیٹل کیمرہ ہویاروایتی کیمرہ، شبیہ حاصل ہونے کابنیادی سائنسی اصول آج بھی وہی ہے جواولین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھا۔اس میں سرموفرق نہیں آیا۔البتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طریقہٴ حفاظت میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ پُرانے طریقہٴ تصویر سازی میں عکس لے کر اسے فیتے پرنقش کرکے محفوظ کیاجاتاتھا،جب کہ ڈیجیٹل سسٹم میں کیمرے میں داخل ہونے والی روشنیوں کاعلم ”اعداد“ کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھرجس طرح کی روشنیوں کو بصورت اعداد محفوظ کرلیا گیا ہو، اسی طرح کی نئی روشنیاں پیداکی جاتی ہیں، یہ روشنیاں جب اسکرین پر جمع ہو تی ہیں تو ان کے اجتماع سے اسکرین پرتصویرنظر آتی ہے ۔
اب تک جوکچھ بیان ہوا،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تکنیک کے ذریعے پہلے ہندسوں کی صورت میں ڈیٹا (معلومات ) محفوظ کی جاتی ہیں اورپھران معلومات کی مددسے اصل کے مشابہ شکل وجود میں لائی جاتی ہے ۔
حکم ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے مناظرکوتصاویر کہاجائے گا،جس کی وجوہات درج ذیل ہیں :
۱… شریعت کا منشاء ”جاندار کی شبیہ محفوظ کرنے سے روکنا“ ہے۔ یہی مناط اور علت ہے۔کیونکہ طویل انسانی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہی چیز فتنے کا باعث بنتی ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم میں شبیہ کو محفوظ کرنے کی قباحت پائی جاتی ہے۔
۲… تصویر سازی کی روح” اصل کی نقل و حکایت اور اصل جیسا منظر “پیش کرنا ہے ،انسانی تاریخ میں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے ،ان طریقوں میں سے ڈیجیٹل سسٹم اب تک کی سب سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ شکل ہے۔ گو یا نظام نے ترقی کی ہے ،آلات کی شکلیں بدلی ہیں ،طریقہ کار مختلف ہو اہے، لیکن بنیادی حقیقت اور مرکزی نقطہ اب بھی و ہی ہے کہ” اصل کی مانند منظر پیش کیا جائے“ ۔
۳…نئے اور پُرانے نظام میں فرق صرف طریقہٴ حفاظت کا ہے ،تصویر سازی کی روح اور حقیقت دونوں میں مشترک ہے۔جب پرانے نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو اکابر نے تصویر قرار دیا تو جدید نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو بھی تصویر کہا جائے گا، کیونکہ جب حقیقت میں دونوں مشترک ہیں تو حکم میں بھی دونوں کومشترک ہو نا چاہیئے۔
۴․․․․․ڈیجیٹل مناظرکے پس پشت بھی تصویرسازی کے جذبات اورمحرکات ہیں اورنتائج ومقاصد کے حصول میں بھی ڈیجیٹل نظام پُرانے طریقہٴ کار کے برابرہے ،بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرہے ۔اس لئے دونوں نظاموں کے تحت بنائے گئے مناظر کو تصویر کہا جائے گا۔
۵․․․․․عرف دلیل شرعی ہے، کیونکہ اجماع عملی کی ایک قسم ہے۔عام لوگ اپنی بول چال میں کمپیوٹر،ٹی وی اورموبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویرکہتے اور سمجھتے ہیں۔شریعت نے” عرف متفاہم “کو حجت قراردیا ہے، اس لئے عام عرف کو دیکھتے ہوئے یہ مناظر تصویر کہلائیں گے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کاانکاربداہت کاانکارہے ۔
۶․․․․․․عرف کی طرف رجوع کی ضرورت اس بناء پر ہے کہ جاندارکی تصویرحرامت تو ہے، مگرتصویر ہے کیا؟شریعت نے تصویرکی کوئی نپی تلی تعریف نہیں کی ہے ۔ایسے امورجن کی شریعت نے تحدید و تعیین نہ کی ہو،ان میں عرف کو دیکھاجاتاہے اورعرف میں ٹی وی مانیٹروغیرہ پر ظاہر ہونے والی شبیہ کو تصویرہی کہا جاتا ہے ۔عوام و خواص دونوں ہی اسے تصویرہی سمجھتے ہیں۔
۷․․․․․کتب لغت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ تصویرکی حقیقت ”اصل کے مشابہ ہئیت اورشبیہ“بناناہے ۔تصویر کی یہ حقیقت جدید ڈیجیٹل سسٹم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ تصویر پر حقیقت کا اور نقل پر اصل کا گمان ہو تا ہے۔
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ: لغت کی رو سے ڈیجیٹل تصویر، تصویر ہی ہے۔ اگر کسی صاحب علم کو اسے لغت کی رو سے تصویر کہنے میں تأمل ہو تو حرج نہیں، ہمارا استدلال پھر بھی قائم رہتا ہے ۔پہلے گذر چکا کہ عرف میں ٹی وی، مانیٹر اور موبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویر سمجھا جاتا ہے اور جب لغت اور عرف میں ٹکراوٴ ہو تو پلہ عرف کا بھاری رہتا ہے ۔عرف کو لغت پر فوقیت حاصل ہے ۔ اصول فقہ کے علماء نے تو یہ بھی صراحت کی ہے کہ: قیاس کے ذریعے تو لغت کا اثبات جائز نہیں، مگر عرف کے ذریعے جائز ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ از روئے لغت بھی ڈیجیٹل طریقے کے مطابق بنایا گیا منظر تصویر ہے ۔
۸…امریکہ میں ایک شخص پر اس بناء پر فرد جرم عائد کی گئی ،کہ اس نے بچوں کی کچھ فحش ڈیجیٹل تصاویرمحفو ظ کر رکھی تھیں ،اورکچھ کو بذریعہ کمپیوٹر نشرکر دیا تھا۔ ملز م نے ا علیٰ عدالت میں اپیل کی اور یہ عذر پیش کیا کہ ایسی تصاویرقانون کی رو سے ممنوع ”تصاویر “ نہیں ،لیکن عدالت اپیل نے اس کا یہ موقف مسترد کیا اور اپنے فیصلے میں کمپیوٹر تصاویر کو تصاویرہی تصویر قرار دیا۔
۹…اسکرین پر جو صورت نمودار ہو تی ہے وہ یاتو عکس ہے یا تصویر ہے۔لیکن عکس نہیں ہو سکتی،کیونکہ:
الف:۔ عکس صاحبِ عکس کے تابع ہو تا ہے۔جب کہ ڈیجیٹل تصویر ایک مرتبہ بننے کے بعد اصل کے تابع نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مر کھپ گئے ہیں، ان کی تصویر یں دیکھنا آج بھی ممکن ہے ۔جب کہ عکس صاحبِ عکس کے ہٹتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔
ب:۔عکس کی حقیقت یہ ہے کہ” کسی چیز پر جو روشنی پڑتی ہے، وہی روشنی اپنی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ جب کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت تصویر سازی کرتے وقت روشنیوں کو برقی لہروں میں بدل دیا جاتا ہے، یہ لہریں رموز کی صورت میں پوشیدہ رہتی ہیں اور جب منظر کے اظہار کا وقت آتا ہے تو انہی رموز کی مدد سے کم و بیش قوت کی نئی برقی لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اصل منظر کے مشابہ منظر وجود میں لایاجاتاہے ۔
اس تجزیئے سے واضح ہوا کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت جو روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، وہ روشنی اصل منظر پر پڑ کر منعکس ہونے والی روشنی نہیں ہو تی اور نہ ہی وہ روشنی اپنی حالت پر برقرار رہتی ہے۔اس لئے ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر میں اور عکس میں فنی وجوہ سے فرق ہے، ایسے مناظر کو عکس کہنا درست نہیں۔
ج… جس طرح کی تصویر سازی جس زمانے میں رائج، تھی فقہاء نے اسی کے مطابق تصویر کی تعریف کی ہے۔فقہاء کی تعریفات کا قدر مشترک یہ ہے کہ” اصل منظر جیسی شبیہ بنانا ،تاکہ اصل کا تصور ہو جائے “ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی طریقہ کاراختیار کیا # جائے گایا جو بھی آلات استعمال کئے جائیں گے، اس سے حکم شرعی میں فرق نہیں پڑے گا۔کیونکہ آلات اور ذرائع غیر مقصود ہوتے ہیں۔
۱۰…کمپیوٹر پہلے پہل صرف حساب و کتاب کے لئے ڈیزائن کیا گیاتھا، خود کمپیوٹر کا مطلب بھی حساب کتاب یا گننا و شمار کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کا فی عرصے تک کمپیوٹر کا ماحول تحریر رہا ،یعنی ہم کمپیوٹر پر صرف اعداد و حروف ہی دیکھ سکتے تھے ۔مگر جب سے ”ونڈوز ‘ ‘کے پروگرام آئے ہیں، کمپیوٹر، آواز اور تصویر کی رنگ برنگی دنیا میں پہنچ گیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر تحریر ہو یا تصویر ، دونوں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نکات کا مجموعہ ہیں ۔او ر دونوں کی پائیداری اورنہ پائیداری یکساں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل پر لکھی جانی والی تحریر تو تحریر ہے، مگر ٹی وی اور موبائل پربنائی جانے والی تصویر، تصویر نہیں !
ایک شخص اپنے بیوی کو بذریعہ( ایس ایم ایس) یا ای میل )طلاق بھیجتا ہے تو کوئی بھی فقیہ اس کی تحریر کو پانی یا ہوا پر لکھی جانی والی تحریر قرار دیکر غیر موٴثر نہیں کہتا ۔
اس مقام پر یہ نقطہ بھی خوب واضح ہوگیا کہ جس طرح پُرانے زمانے میں کتابت کے لئے کاغذ،لکڑی،چمڑا ،اور ہڈی وغیرہ ٹھوس اشیاء استعمال ہو تی تھیں اور آج کمپیوٹر اور موبائل پر بھی تحریر لکھی جاتی ہے، اسی طرح زمانہ قدیم میں کاغذ ،دیوار یا کپڑے وغیر ہ ٹھوس اشیاء پر تصویر بنائی جاتی تھی اور آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت ٹی وی اور موبائل پر بھی بنائی جاتی ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائی گئی شبیہ بھی تصویر ہے اور اس پر تصویر کے احکام جاری ہونگے ۔تفصیلی دلائل، ماہرین کی آراء اور کتب کے حوالہ جات کے لئے دار الافتاء بنوری ٹاوٴن کراچی کا رسالہ(زیر طبع) ” ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر کا شرعی حکم “ ملاحظہ کیجئے۔
قدیم اور جدید نظام کا فرق : کوئی بھی کیمرہ ہو، خواہ ڈیجیٹل ہو یا نان ڈیجیٹل ہو،تصویرکشی کرتے وقت پہلے مرحلے میں شبیہ حاصل کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے مرحلے میں محفوظ کی جاتی ہے اورتیسرے مرحلے میں اسکرین یاپردے پرظاہرکی جاتی ہے ۔گویا حصول شبیہ ،حفظ شبیہ اور اظہار شبیہ ان تین مراحل سے گذر کر تصویر مکمل ہو تی ہے۔
ڈیجیٹل کیمرہ ہویاروایتی کیمرہ، شبیہ حاصل ہونے کابنیادی سائنسی اصول آج بھی وہی ہے جواولین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھا۔اس میں سرموفرق نہیں آیا۔البتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طریقہٴ حفاظت میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ پُرانے طریقہٴ تصویر سازی میں عکس لے کر اسے فیتے پرنقش کرکے محفوظ کیاجاتاتھا،جب کہ ڈیجیٹل سسٹم میں کیمرے میں داخل ہونے والی روشنیوں کاعلم ”اعداد“ کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھرجس طرح کی روشنیوں کو بصورت اعداد محفوظ کرلیا گیا ہو، اسی طرح کی نئی روشنیاں پیداکی جاتی ہیں، یہ روشنیاں جب اسکرین پر جمع ہو تی ہیں تو ان کے اجتماع سے اسکرین پرتصویرنظر آتی ہے ۔
اب تک جوکچھ بیان ہوا،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تکنیک کے ذریعے پہلے ہندسوں کی صورت میں ڈیٹا (معلومات ) محفوظ کی جاتی ہیں اورپھران معلومات کی مددسے اصل کے مشابہ شکل وجود میں لائی جاتی ہے ۔
حکم ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے مناظرکوتصاویر کہاجائے گا،جس کی وجوہات درج ذیل ہیں :
۱… شریعت کا منشاء ”جاندار کی شبیہ محفوظ کرنے سے روکنا“ ہے۔ یہی مناط اور علت ہے۔کیونکہ طویل انسانی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہی چیز فتنے کا باعث بنتی ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم میں شبیہ کو محفوظ کرنے کی قباحت پائی جاتی ہے۔
۲… تصویر سازی کی روح” اصل کی نقل و حکایت اور اصل جیسا منظر “پیش کرنا ہے ،انسانی تاریخ میں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے ،ان طریقوں میں سے ڈیجیٹل سسٹم اب تک کی سب سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ شکل ہے۔ گو یا نظام نے ترقی کی ہے ،آلات کی شکلیں بدلی ہیں ،طریقہ کار مختلف ہو اہے، لیکن بنیادی حقیقت اور مرکزی نقطہ اب بھی و ہی ہے کہ” اصل کی مانند منظر پیش کیا جائے“ ۔
۳…نئے اور پُرانے نظام میں فرق صرف طریقہٴ حفاظت کا ہے ،تصویر سازی کی روح اور حقیقت دونوں میں مشترک ہے۔جب پرانے نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو اکابر نے تصویر قرار دیا تو جدید نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو بھی تصویر کہا جائے گا، کیونکہ جب حقیقت میں دونوں مشترک ہیں تو حکم میں بھی دونوں کومشترک ہو نا چاہیئے۔
۴․․․․․ڈیجیٹل مناظرکے پس پشت بھی تصویرسازی کے جذبات اورمحرکات ہیں اورنتائج ومقاصد کے حصول میں بھی ڈیجیٹل نظام پُرانے طریقہٴ کار کے برابرہے ،بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرہے ۔اس لئے دونوں نظاموں کے تحت بنائے گئے مناظر کو تصویر کہا جائے گا۔
۵․․․․․عرف دلیل شرعی ہے، کیونکہ اجماع عملی کی ایک قسم ہے۔عام لوگ اپنی بول چال میں کمپیوٹر،ٹی وی اورموبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویرکہتے اور سمجھتے ہیں۔شریعت نے” عرف متفاہم “کو حجت قراردیا ہے، اس لئے عام عرف کو دیکھتے ہوئے یہ مناظر تصویر کہلائیں گے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کاانکاربداہت کاانکارہے ۔
۶․․․․․․عرف کی طرف رجوع کی ضرورت اس بناء پر ہے کہ جاندارکی تصویرحرامت تو ہے، مگرتصویر ہے کیا؟شریعت نے تصویرکی کوئی نپی تلی تعریف نہیں کی ہے ۔ایسے امورجن کی شریعت نے تحدید و تعیین نہ کی ہو،ان میں عرف کو دیکھاجاتاہے اورعرف میں ٹی وی مانیٹروغیرہ پر ظاہر ہونے والی شبیہ کو تصویرہی کہا جاتا ہے ۔عوام و خواص دونوں ہی اسے تصویرہی سمجھتے ہیں۔
۷․․․․․کتب لغت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ تصویرکی حقیقت ”اصل کے مشابہ ہئیت اورشبیہ“بناناہے ۔تصویر کی یہ حقیقت جدید ڈیجیٹل سسٹم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ تصویر پر حقیقت کا اور نقل پر اصل کا گمان ہو تا ہے۔
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ: لغت کی رو سے ڈیجیٹل تصویر، تصویر ہی ہے۔ اگر کسی صاحب علم کو اسے لغت کی رو سے تصویر کہنے میں تأمل ہو تو حرج نہیں، ہمارا استدلال پھر بھی قائم رہتا ہے ۔پہلے گذر چکا کہ عرف میں ٹی وی، مانیٹر اور موبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویر سمجھا جاتا ہے اور جب لغت اور عرف میں ٹکراوٴ ہو تو پلہ عرف کا بھاری رہتا ہے ۔عرف کو لغت پر فوقیت حاصل ہے ۔ اصول فقہ کے علماء نے تو یہ بھی صراحت کی ہے کہ: قیاس کے ذریعے تو لغت کا اثبات جائز نہیں، مگر عرف کے ذریعے جائز ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ از روئے لغت بھی ڈیجیٹل طریقے کے مطابق بنایا گیا منظر تصویر ہے ۔
۸…امریکہ میں ایک شخص پر اس بناء پر فرد جرم عائد کی گئی ،کہ اس نے بچوں کی کچھ فحش ڈیجیٹل تصاویرمحفو ظ کر رکھی تھیں ،اورکچھ کو بذریعہ کمپیوٹر نشرکر دیا تھا۔ ملز م نے ا علیٰ عدالت میں اپیل کی اور یہ عذر پیش کیا کہ ایسی تصاویرقانون کی رو سے ممنوع ”تصاویر “ نہیں ،لیکن عدالت اپیل نے اس کا یہ موقف مسترد کیا اور اپنے فیصلے میں کمپیوٹر تصاویر کو تصاویرہی تصویر قرار دیا۔
۹…اسکرین پر جو صورت نمودار ہو تی ہے وہ یاتو عکس ہے یا تصویر ہے۔لیکن عکس نہیں ہو سکتی،کیونکہ:
الف:۔ عکس صاحبِ عکس کے تابع ہو تا ہے۔جب کہ ڈیجیٹل تصویر ایک مرتبہ بننے کے بعد اصل کے تابع نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مر کھپ گئے ہیں، ان کی تصویر یں دیکھنا آج بھی ممکن ہے ۔جب کہ عکس صاحبِ عکس کے ہٹتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔
ب:۔عکس کی حقیقت یہ ہے کہ” کسی چیز پر جو روشنی پڑتی ہے، وہی روشنی اپنی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ جب کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت تصویر سازی کرتے وقت روشنیوں کو برقی لہروں میں بدل دیا جاتا ہے، یہ لہریں رموز کی صورت میں پوشیدہ رہتی ہیں اور جب منظر کے اظہار کا وقت آتا ہے تو انہی رموز کی مدد سے کم و بیش قوت کی نئی برقی لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اصل منظر کے مشابہ منظر وجود میں لایاجاتاہے ۔
اس تجزیئے سے واضح ہوا کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت جو روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، وہ روشنی اصل منظر پر پڑ کر منعکس ہونے والی روشنی نہیں ہو تی اور نہ ہی وہ روشنی اپنی حالت پر برقرار رہتی ہے۔اس لئے ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر میں اور عکس میں فنی وجوہ سے فرق ہے، ایسے مناظر کو عکس کہنا درست نہیں۔
ج… جس طرح کی تصویر سازی جس زمانے میں رائج، تھی فقہاء نے اسی کے مطابق تصویر کی تعریف کی ہے۔فقہاء کی تعریفات کا قدر مشترک یہ ہے کہ” اصل منظر جیسی شبیہ بنانا ،تاکہ اصل کا تصور ہو جائے “ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی طریقہ کاراختیار کیا # جائے گایا جو بھی آلات استعمال کئے جائیں گے، اس سے حکم شرعی میں فرق نہیں پڑے گا۔کیونکہ آلات اور ذرائع غیر مقصود ہوتے ہیں۔
۱۰…کمپیوٹر پہلے پہل صرف حساب و کتاب کے لئے ڈیزائن کیا گیاتھا، خود کمپیوٹر کا مطلب بھی حساب کتاب یا گننا و شمار کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کا فی عرصے تک کمپیوٹر کا ماحول تحریر رہا ،یعنی ہم کمپیوٹر پر صرف اعداد و حروف ہی دیکھ سکتے تھے ۔مگر جب سے ”ونڈوز ‘ ‘کے پروگرام آئے ہیں، کمپیوٹر، آواز اور تصویر کی رنگ برنگی دنیا میں پہنچ گیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر تحریر ہو یا تصویر ، دونوں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نکات کا مجموعہ ہیں ۔او ر دونوں کی پائیداری اورنہ پائیداری یکساں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل پر لکھی جانی والی تحریر تو تحریر ہے، مگر ٹی وی اور موبائل پربنائی جانے والی تصویر، تصویر نہیں !
ایک شخص اپنے بیوی کو بذریعہ( ایس ایم ایس) یا ای میل )طلاق بھیجتا ہے تو کوئی بھی فقیہ اس کی تحریر کو پانی یا ہوا پر لکھی جانی والی تحریر قرار دیکر غیر موٴثر نہیں کہتا ۔
اس مقام پر یہ نقطہ بھی خوب واضح ہوگیا کہ جس طرح پُرانے زمانے میں کتابت کے لئے کاغذ،لکڑی،چمڑا ،اور ہڈی وغیرہ ٹھوس اشیاء استعمال ہو تی تھیں اور آج کمپیوٹر اور موبائل پر بھی تحریر لکھی جاتی ہے، اسی طرح زمانہ قدیم میں کاغذ ،دیوار یا کپڑے وغیر ہ ٹھوس اشیاء پر تصویر بنائی جاتی تھی اور آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت ٹی وی اور موبائل پر بھی بنائی جاتی ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائی گئی شبیہ بھی تصویر ہے اور اس پر تصویر کے احکام جاری ہونگے ۔تفصیلی دلائل، ماہرین کی آراء اور کتب کے حوالہ جات کے لئے دار الافتاء بنوری ٹاوٴن کراچی کا رسالہ(زیر طبع) ” ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر کا شرعی حکم “ ملاحظہ کیجئے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔