آج جدید تعلیم کی ایک خرابی یہ ہے کہ اسے حاصل کرکے انسان جس قدر ترقی کرتا چلا جاتا ہے ، خودغرض ، مکّار، بزدل
اور اپنوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب اس کی دنیا صرف اپنے بچوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ سماجی، خونی اور دوسرے تمام انسانی رشتے اس کے لیے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ان عیوب سے صرف وہی لوگ پاک ہوتے ہیں ، جنھیں دین کا کچھ شعور ہوتا ہے۔ ورنہ ان کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمالی جائے اور معاشرے میں کروفرکے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔اسی کو عقل مندی شمار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اگر دولت کمالینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے تو رشوت خور،گھوٹالے باز، اسمگلر، چور، ڈاکو اور انسانیت کے دوسرے تمام دشمن بھی اس طرح کی عقلمندی کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق تو ہر وہ شخص ناکام و نامراد ہے، جو آخرت کے امتحان میں ناکام ہوجائے۔ خواہ دنیا کی زندگی میں اس نے کتنا ہی عروج حاصل کیا ہو۔لیکن صرف دنیا کی زندگی کے اعتبار سے بھی اگر غور کیا جائے تو کسی انسان کاضمیر اگر اس قدر مردہ ہوچکا ہو کہ اپنےذاقی فائدے کے علاوہ اسے کچھ نظر ہی نہ آتا ہوتو ایسے شخص کو چالاک، مکّار، اور خود غرض تو کہا جاسکتا ہے ، عقلمند افراد میں اس کاشمارکرنا تو انسانیت کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ایسے ترقی یافتہ افراد سے تو دیہات کے وہ سیدھے سادے لوگ بہتر ہیں ، جن میں غربت اورتعلیم کی کمی کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں تو ہوسکتی ہیں ، لیکن وہ انسان اور جانور میں فرق کرنا جانتے ہیں ۔ نوجوان نسل کے کارناموں کودیکھ کر تو کئی بار دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اے رب رحیم و کریم میری اولاد کو ایسی ترقی سے محفوظ رکھ، جہاں پہنچ کر وہ اپنوں کوپہچاننےسے بھی انکار کردے۔
ایک صاحب نے شہر کی ایک بہترین کالونی میں ایک کوٹھی خریدی ۔ کوٹھی کا معائنہ کرتے ہوئے، جب وہ اس کی خوبیوں بگھاررہےتھےتوایک اہم خوبی انھوں نے یہ بھی بتائی کہ ’بڑا ہی پرسکون ماحول ہے ۔ یہاں شفٹ ہوئے ہم لوگوں کو 6ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے، لیکن ابھی تک نہ تو ہم نے ہی کسی سے ملنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہم سے ہی کوئی ملنے آیا ہے۔ پرانے پڑوس کی طرح نہیں ہےکہ جب دیکھا منھ اٹھائے چلے آرہے ہیں ۔ دراصل تعلیم اورجہالت کا یہی فرق ہوتا ہے۔ یہاں پر سب ہی لوگ پڑھے لکھے اور مہذب ہیں ۔ اُنھیں نہ اپنی زندگی میں کسی کادخل پسند ہے اور نہ خود کسی کی زندگی میں دخل انداز ہوتے ہیں ۔
غور کیجیے لوگوں کی سوچ میں کس قدر تبدیلی آچکی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ بہت ہی ملنسار ہونا خوش اخلاقی کی علامت تھی، لیکن جدیددورمیں جب لوگ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کردیں تو یہ ان کے مہذب ہونے کی علامت تصور کیا جانے لگا۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ایک صاحب ہیں ۔ خانپور کے کسی دیہات کے رہنے والے ہیں ۔ ایک بارانھوں نے خود بتایا کہ 36 سال کی نوکری ہے، لیکن آج تک گاؤں جانا نہیں ہوسکا ۔ والد، والدہ، بہن بھائی سب لوگ ہیں لیکن نوکری اور گھر کے اتنے کام لگے رہتے ہیں کہ گاؤں جانے کے لیے کبھی وقت ہی نہیں نکال سکا۔ کبھی کبھی وہی لوگ آجاتے ہیں تو ملاقات ہوجاتی ہے۔ غور کیجیے 36 سال کا عرصہ تھوڑانہیں ہوا کرتا۔ ان موصوف کو اس طویل عرصے میں کبھی اتنا وقت نہیں مل سکا کہ خود جاکر اپنے گاؤں والوں ، رشتے داروں اوراپنےوالدین کی خیرخیریت معلوم کرسکیں ۔ جناب جس وقت یہ سب کچھ بتا رہے تھے، ان کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کی گئی ۔ تو محسوس کر لیا گیا کہ اپنے کیے پر نہ انھیں کوئی افسوس ہے اورنہ احساس ندامت۔ ترقی کے غرور سے اکڑاہوا بالکل بے حس اورسپاٹ چہرہ سامنے تھا۔
انسان کس قدر گھٹیا، نیچ اور پتھر دل ہوسکتا ہے، اس سے متعلق اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک واقعہ دوست نے اس طرح بیان کیا:
شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے تو ملاقات نہیں ہوسکی۔ برآمدے میں بیٹھا ہوا ایک شخص کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ عمر تقریباً 70 سال تھی، بکھرے اور بے ترتیب بال، بڑھی ہوئی داڑھی، میلا کچیلا لباس، پھٹی ہوئی دھوتی، معلوم ہوا کہ وہ محترم ڈاکٹر صاحب کے والد ہیں ۔کوٹھی کے باہر ایک پیڑ تھا۔ ہم لوگ وہیں کھڑے ہوکر بات کرنے لگے۔
ضعیف آدمی نے اپنی داستان غم کچھ اس طرح بیان کی:
ہم لوگ مظفرنگر کے ایک دیہات کے رہنے والے ہیں ۔ ڈاکٹر میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ گاؤں میں تھوڑی بہت زمین تھی۔ زندگی مشکل ضرورتھی لیکن پھر بھی عزت و سکون کے ساتھ گزر رہی تھی۔ زمین بیچ کر اسے ڈاکٹر بنایا، زمین بیچ کر ہی اس کا کلینک اور نرسنگ ہوم بنوایاگیا۔ گھر، جانور اور جو بھی تھوڑی بہت زمین باقی بچی تھی اسے بیچ کر یہ کوٹھی بنوائی گئی۔ سب کچھ بک چکا تھا۔ لیکن اس کےباوجود میں خوش تھا۔ میں بھی اپنے کو بڑا آدمی شمار کر رہا تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ بڑا آدمی ہونے کا احساس ہی کچھ عجیب ہوتا ہے۔ بہت دن کھیتی میں ہڈیوں کو پانی کیا۔ سوچتا تھا اب کچھ عیش کی گزاری جائے۔ لیکن شہر آکر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ عیش کےدن تو وہی تھے، جو میں دیہات میں گزار کر آیا ہوں ۔ جب تک بیوی حیات تھی پھر بھی غنیمت تھا۔ لیکن اس کے بعد سے تو حال یہ ہے کہ نوکرانی بھی کھانا اس طرح پٹک کرجاتی ہے، جیسے وہی میری اَن داتا ہے۔ بیٹااور بہو، مجھ سے کبھی بات نہیں کرتے۔
پوتے کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا چاہتا ہوں ، لیکن کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اسے بھی بلالیاجاتا ہے۔ بوڑھا رورہا تھا، لیکن آخر میں اس نےجوکچھ کہا وہ بھی ترقی یافتہ معاشرے پر ایک بہترین تبصرہ ہے۔بیٹا یہ جو شاندار بنگلے اور کوٹھیاں تم دیکھ رہے ہو، ان میں انسان نہیں زندہ لاشیں بساکرتی ہیں ۔ یہ وہ تعلیم یافتہ ، مہذب اور بڑے لوگ ہیں جہاں والدین سے زیادہ کتوں کی قدر کی جاتی ہے۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ہم لوگ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ، جو ہمارے معاشرے کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی دلیل ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے میں جوبگاڑ آرہا ہے اس کا اصل ذمے دار کون ہے؟
اس کا ایک اہم سبب ہمارا نظام تعلیم ہے۔ غور کیجیے ہمارے تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کامقصد کیا ہے؟ ڈاکٹر،پروفیسر،انجینئر بناتے وقت ہم انھیں یہی تو تعلیم دیتے ہیں کہ دولت کمانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ گھر سے لے کر کالج تک ہرکوئی بڑا آدمی بننے کی تعلیم دے رہا ہوتا ہے۔ انسان بنانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ بڑاآدمی بننے کایہی جنون انسان کو جائز وناجائز دولت کمانےپر مجبور کرتا ہے۔ انسان جب زندگی کے 25،30 سال یہی سیکھنے اور سمجھنے میں گزاردیتا ہے تو بڑاآدمی بننے کایہ جنون اس پراس قدرسوار ہوچکا ہوتا ہے کہ یہی اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ ہر وہ رشتہ اور تعلق جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، اس سے وہ دامن بچاناچاہتا ہے ۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ وقت گزارنا اسے وقت کی بربادی دکھائی دیتا ہے۔ اپنے مقصدحیات کےسامنےیہ تمام رشتے اسے بونے نظر آنے لگتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ اپنوں سے اس قدر کٹ چکا ہوتا ہے کہ والدین بھی اسے ایک بوجھ نظر آنے لگتے ہیں اور ان کے لیے بھی وقت نکالنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ معاشرہ بھی عموماً اُنھی لوگوں کو عزت دیتا ہے ،جنکےپاس دولت ہوتی ہے ۔ اخلاق و کردار اور حرام وحلال ہمارے لیے بے معنی ہوچکے ہیں ۔ اگر ہمارا معیار یہی ہے تو ہمیں خوش ہوناچاہیےکہ ہماری نئی نسل ترقی کی تمام بلندیوں کو چھونے میں لگی ہوئی ہے اور اگر انسانی معاشرے کے لیے اخلاق وکردار کی بھی کوئی اہمیت ہے تو ہمیں اپنےطریقۂ تعلیم اور اس کا مقصد، دونوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
نئی نسل کے بگاڑ کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہم لوگ، اپنے چھوٹوں کے سامنے اپنے کردار کا کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کر رہے ہیں ۔ جب ہم ناجائز اور حرام طریقوں سے دولت حاصل کرکے گھر میں لا تے ہیں تو غیر شعوری طور پر ہم لوگ اپنی اولاد کی یہ تربیت کر رہے ہوتے ہیں کہ ہر وہ کام کرو جس میں تمھیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ ہر اس کام سے دوررہو جس میں کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو۔ اب اگر ہر کام کرتے وقت صرف ذاتی نفع ونقصان کو ہی اہمیت دی جانے لگے تو اس اعتبار سے توبوڑھے والدین کی ذمے داری قبول کرنافائدےکاسوداتونہیں ہوسکتا۔ ہمارا خود کا کردار اگر یہی ہے کہ معاشرے کے حقوق کی ہمیں کوئی پروا نہیں ہے تو آنے والی نسل سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پروا کرے گی۔ خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں ۔
کسی بھی نسل کا کوئی بگاڑ اس میں اچانک پیدا نہیں ہوا کرتا۔ برائی ہو یا بھلائی، دونوں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملا کرتی ہیں ۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ آنے والی نسل ہم سے دوچار قدم آگے نکل جائے، لیکن یہ بات طے ہے کہ جس خرابی کے برے نتائج آج ہم بھگت رہے ہوتے ہیں ، اس کی ابتدا پہلے ہی کبھی ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت جب برائی کی ابتدا تھی تو اس کے برے نتائج کا یا تو ہمیں پوری طرح احساس و شعور ہی نہیں تھا یا پھر ہم نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی تھی اور اگراصلاح کی کوئی کوشش ہوئی بھی تھی تو وہ اس
قدر کمزور تھی کہ اس برائی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ اس بگاڑ سے جڑا ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ والدین کو یہ حق کس نےدیاہےکہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیاجائے۔ یہ حق اسی مالک کائنات نے دیا ہے جو ہم سب کا رب ہے۔ قرآن کریم اس بات پر گواہ ہے کہ ہر بچہ نیک فطرت پر پیدا کیاجاتا ہے یہ ہم انسان ہی ہوتے ہیں جو اسے خدا کا کافر اور نافرمان بھی بناتے ہیں اور مومن ، مسلم اور مطیع فرمان بھی۔ کسی بچے کی پرورش اگر جانوروں کی طرح کی جائے گی تو جانوروں کی صفات ہی اس میں پیدا ہوں گی جو شہوت اور پیٹ سےآگے سوچ ہی نہیں پاتے۔ اولاد کی تربیت اگر اس طرح کی جائے کہ وہ خدا کا شکر کرنے والی بن جائے تو ایسی اولاد سے ضرور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام انسانوں کے حقوق کی قدر کرنے والی ہوگی۔ اگر ہم خود ہی اپنے مالک و آقا کے شکر گزار نہیں ہیں تو پھر اس بات کی ضمانت بھی کوئی ہیں دے سکتا کہ ہماری اپنی اولاد بھی ہمارے حقوق کااحترام کرنے والی ہوگی۔
اور اپنوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب اس کی دنیا صرف اپنے بچوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ سماجی، خونی اور دوسرے تمام انسانی رشتے اس کے لیے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ان عیوب سے صرف وہی لوگ پاک ہوتے ہیں ، جنھیں دین کا کچھ شعور ہوتا ہے۔ ورنہ ان کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمالی جائے اور معاشرے میں کروفرکے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔اسی کو عقل مندی شمار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اگر دولت کمالینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے تو رشوت خور،گھوٹالے باز، اسمگلر، چور، ڈاکو اور انسانیت کے دوسرے تمام دشمن بھی اس طرح کی عقلمندی کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق تو ہر وہ شخص ناکام و نامراد ہے، جو آخرت کے امتحان میں ناکام ہوجائے۔ خواہ دنیا کی زندگی میں اس نے کتنا ہی عروج حاصل کیا ہو۔لیکن صرف دنیا کی زندگی کے اعتبار سے بھی اگر غور کیا جائے تو کسی انسان کاضمیر اگر اس قدر مردہ ہوچکا ہو کہ اپنےذاقی فائدے کے علاوہ اسے کچھ نظر ہی نہ آتا ہوتو ایسے شخص کو چالاک، مکّار، اور خود غرض تو کہا جاسکتا ہے ، عقلمند افراد میں اس کاشمارکرنا تو انسانیت کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ایسے ترقی یافتہ افراد سے تو دیہات کے وہ سیدھے سادے لوگ بہتر ہیں ، جن میں غربت اورتعلیم کی کمی کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں تو ہوسکتی ہیں ، لیکن وہ انسان اور جانور میں فرق کرنا جانتے ہیں ۔ نوجوان نسل کے کارناموں کودیکھ کر تو کئی بار دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اے رب رحیم و کریم میری اولاد کو ایسی ترقی سے محفوظ رکھ، جہاں پہنچ کر وہ اپنوں کوپہچاننےسے بھی انکار کردے۔
ایک صاحب نے شہر کی ایک بہترین کالونی میں ایک کوٹھی خریدی ۔ کوٹھی کا معائنہ کرتے ہوئے، جب وہ اس کی خوبیوں بگھاررہےتھےتوایک اہم خوبی انھوں نے یہ بھی بتائی کہ ’بڑا ہی پرسکون ماحول ہے ۔ یہاں شفٹ ہوئے ہم لوگوں کو 6ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے، لیکن ابھی تک نہ تو ہم نے ہی کسی سے ملنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہم سے ہی کوئی ملنے آیا ہے۔ پرانے پڑوس کی طرح نہیں ہےکہ جب دیکھا منھ اٹھائے چلے آرہے ہیں ۔ دراصل تعلیم اورجہالت کا یہی فرق ہوتا ہے۔ یہاں پر سب ہی لوگ پڑھے لکھے اور مہذب ہیں ۔ اُنھیں نہ اپنی زندگی میں کسی کادخل پسند ہے اور نہ خود کسی کی زندگی میں دخل انداز ہوتے ہیں ۔
غور کیجیے لوگوں کی سوچ میں کس قدر تبدیلی آچکی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ بہت ہی ملنسار ہونا خوش اخلاقی کی علامت تھی، لیکن جدیددورمیں جب لوگ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کردیں تو یہ ان کے مہذب ہونے کی علامت تصور کیا جانے لگا۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ایک صاحب ہیں ۔ خانپور کے کسی دیہات کے رہنے والے ہیں ۔ ایک بارانھوں نے خود بتایا کہ 36 سال کی نوکری ہے، لیکن آج تک گاؤں جانا نہیں ہوسکا ۔ والد، والدہ، بہن بھائی سب لوگ ہیں لیکن نوکری اور گھر کے اتنے کام لگے رہتے ہیں کہ گاؤں جانے کے لیے کبھی وقت ہی نہیں نکال سکا۔ کبھی کبھی وہی لوگ آجاتے ہیں تو ملاقات ہوجاتی ہے۔ غور کیجیے 36 سال کا عرصہ تھوڑانہیں ہوا کرتا۔ ان موصوف کو اس طویل عرصے میں کبھی اتنا وقت نہیں مل سکا کہ خود جاکر اپنے گاؤں والوں ، رشتے داروں اوراپنےوالدین کی خیرخیریت معلوم کرسکیں ۔ جناب جس وقت یہ سب کچھ بتا رہے تھے، ان کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کی گئی ۔ تو محسوس کر لیا گیا کہ اپنے کیے پر نہ انھیں کوئی افسوس ہے اورنہ احساس ندامت۔ ترقی کے غرور سے اکڑاہوا بالکل بے حس اورسپاٹ چہرہ سامنے تھا۔
انسان کس قدر گھٹیا، نیچ اور پتھر دل ہوسکتا ہے، اس سے متعلق اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک واقعہ دوست نے اس طرح بیان کیا:
شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے تو ملاقات نہیں ہوسکی۔ برآمدے میں بیٹھا ہوا ایک شخص کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ عمر تقریباً 70 سال تھی، بکھرے اور بے ترتیب بال، بڑھی ہوئی داڑھی، میلا کچیلا لباس، پھٹی ہوئی دھوتی، معلوم ہوا کہ وہ محترم ڈاکٹر صاحب کے والد ہیں ۔کوٹھی کے باہر ایک پیڑ تھا۔ ہم لوگ وہیں کھڑے ہوکر بات کرنے لگے۔
ضعیف آدمی نے اپنی داستان غم کچھ اس طرح بیان کی:
ہم لوگ مظفرنگر کے ایک دیہات کے رہنے والے ہیں ۔ ڈاکٹر میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ گاؤں میں تھوڑی بہت زمین تھی۔ زندگی مشکل ضرورتھی لیکن پھر بھی عزت و سکون کے ساتھ گزر رہی تھی۔ زمین بیچ کر اسے ڈاکٹر بنایا، زمین بیچ کر ہی اس کا کلینک اور نرسنگ ہوم بنوایاگیا۔ گھر، جانور اور جو بھی تھوڑی بہت زمین باقی بچی تھی اسے بیچ کر یہ کوٹھی بنوائی گئی۔ سب کچھ بک چکا تھا۔ لیکن اس کےباوجود میں خوش تھا۔ میں بھی اپنے کو بڑا آدمی شمار کر رہا تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ بڑا آدمی ہونے کا احساس ہی کچھ عجیب ہوتا ہے۔ بہت دن کھیتی میں ہڈیوں کو پانی کیا۔ سوچتا تھا اب کچھ عیش کی گزاری جائے۔ لیکن شہر آکر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ عیش کےدن تو وہی تھے، جو میں دیہات میں گزار کر آیا ہوں ۔ جب تک بیوی حیات تھی پھر بھی غنیمت تھا۔ لیکن اس کے بعد سے تو حال یہ ہے کہ نوکرانی بھی کھانا اس طرح پٹک کرجاتی ہے، جیسے وہی میری اَن داتا ہے۔ بیٹااور بہو، مجھ سے کبھی بات نہیں کرتے۔
پوتے کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا چاہتا ہوں ، لیکن کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اسے بھی بلالیاجاتا ہے۔ بوڑھا رورہا تھا، لیکن آخر میں اس نےجوکچھ کہا وہ بھی ترقی یافتہ معاشرے پر ایک بہترین تبصرہ ہے۔بیٹا یہ جو شاندار بنگلے اور کوٹھیاں تم دیکھ رہے ہو، ان میں انسان نہیں زندہ لاشیں بساکرتی ہیں ۔ یہ وہ تعلیم یافتہ ، مہذب اور بڑے لوگ ہیں جہاں والدین سے زیادہ کتوں کی قدر کی جاتی ہے۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ہم لوگ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ، جو ہمارے معاشرے کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی دلیل ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے میں جوبگاڑ آرہا ہے اس کا اصل ذمے دار کون ہے؟
اس کا ایک اہم سبب ہمارا نظام تعلیم ہے۔ غور کیجیے ہمارے تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کامقصد کیا ہے؟ ڈاکٹر،پروفیسر،انجینئر بناتے وقت ہم انھیں یہی تو تعلیم دیتے ہیں کہ دولت کمانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ گھر سے لے کر کالج تک ہرکوئی بڑا آدمی بننے کی تعلیم دے رہا ہوتا ہے۔ انسان بنانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ بڑاآدمی بننے کایہی جنون انسان کو جائز وناجائز دولت کمانےپر مجبور کرتا ہے۔ انسان جب زندگی کے 25،30 سال یہی سیکھنے اور سمجھنے میں گزاردیتا ہے تو بڑاآدمی بننے کایہ جنون اس پراس قدرسوار ہوچکا ہوتا ہے کہ یہی اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ ہر وہ رشتہ اور تعلق جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، اس سے وہ دامن بچاناچاہتا ہے ۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ وقت گزارنا اسے وقت کی بربادی دکھائی دیتا ہے۔ اپنے مقصدحیات کےسامنےیہ تمام رشتے اسے بونے نظر آنے لگتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ اپنوں سے اس قدر کٹ چکا ہوتا ہے کہ والدین بھی اسے ایک بوجھ نظر آنے لگتے ہیں اور ان کے لیے بھی وقت نکالنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ معاشرہ بھی عموماً اُنھی لوگوں کو عزت دیتا ہے ،جنکےپاس دولت ہوتی ہے ۔ اخلاق و کردار اور حرام وحلال ہمارے لیے بے معنی ہوچکے ہیں ۔ اگر ہمارا معیار یہی ہے تو ہمیں خوش ہوناچاہیےکہ ہماری نئی نسل ترقی کی تمام بلندیوں کو چھونے میں لگی ہوئی ہے اور اگر انسانی معاشرے کے لیے اخلاق وکردار کی بھی کوئی اہمیت ہے تو ہمیں اپنےطریقۂ تعلیم اور اس کا مقصد، دونوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
نئی نسل کے بگاڑ کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہم لوگ، اپنے چھوٹوں کے سامنے اپنے کردار کا کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کر رہے ہیں ۔ جب ہم ناجائز اور حرام طریقوں سے دولت حاصل کرکے گھر میں لا تے ہیں تو غیر شعوری طور پر ہم لوگ اپنی اولاد کی یہ تربیت کر رہے ہوتے ہیں کہ ہر وہ کام کرو جس میں تمھیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ ہر اس کام سے دوررہو جس میں کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو۔ اب اگر ہر کام کرتے وقت صرف ذاتی نفع ونقصان کو ہی اہمیت دی جانے لگے تو اس اعتبار سے توبوڑھے والدین کی ذمے داری قبول کرنافائدےکاسوداتونہیں ہوسکتا۔ ہمارا خود کا کردار اگر یہی ہے کہ معاشرے کے حقوق کی ہمیں کوئی پروا نہیں ہے تو آنے والی نسل سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پروا کرے گی۔ خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں ۔
کسی بھی نسل کا کوئی بگاڑ اس میں اچانک پیدا نہیں ہوا کرتا۔ برائی ہو یا بھلائی، دونوں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملا کرتی ہیں ۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ آنے والی نسل ہم سے دوچار قدم آگے نکل جائے، لیکن یہ بات طے ہے کہ جس خرابی کے برے نتائج آج ہم بھگت رہے ہوتے ہیں ، اس کی ابتدا پہلے ہی کبھی ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت جب برائی کی ابتدا تھی تو اس کے برے نتائج کا یا تو ہمیں پوری طرح احساس و شعور ہی نہیں تھا یا پھر ہم نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی تھی اور اگراصلاح کی کوئی کوشش ہوئی بھی تھی تو وہ اس
قدر کمزور تھی کہ اس برائی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ اس بگاڑ سے جڑا ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ والدین کو یہ حق کس نےدیاہےکہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیاجائے۔ یہ حق اسی مالک کائنات نے دیا ہے جو ہم سب کا رب ہے۔ قرآن کریم اس بات پر گواہ ہے کہ ہر بچہ نیک فطرت پر پیدا کیاجاتا ہے یہ ہم انسان ہی ہوتے ہیں جو اسے خدا کا کافر اور نافرمان بھی بناتے ہیں اور مومن ، مسلم اور مطیع فرمان بھی۔ کسی بچے کی پرورش اگر جانوروں کی طرح کی جائے گی تو جانوروں کی صفات ہی اس میں پیدا ہوں گی جو شہوت اور پیٹ سےآگے سوچ ہی نہیں پاتے۔ اولاد کی تربیت اگر اس طرح کی جائے کہ وہ خدا کا شکر کرنے والی بن جائے تو ایسی اولاد سے ضرور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام انسانوں کے حقوق کی قدر کرنے والی ہوگی۔ اگر ہم خود ہی اپنے مالک و آقا کے شکر گزار نہیں ہیں تو پھر اس بات کی ضمانت بھی کوئی ہیں دے سکتا کہ ہماری اپنی اولاد بھی ہمارے حقوق کااحترام کرنے والی ہوگی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔