سوال: ایک حدیث شریف میں آیا ہے ’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ ‘‘ کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ آپ ہمیں کیا نصیحت فرمائیں گے کہ ہم اس نیک خصلت کو اپنی انسانی فطرت کا ایک رخ بنا سکیں؟
جواب: یہ حدیث ’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ صحیح احادیث کی کتابوں میں آئی ہے(البخاری، الایمان:4) جو سچے مسلمان کی تعریف کرتی ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو ضرر پہنچتا ہے اور نہ نقصان۔
اب سوال میں موجود مطلب کو سمجھنے اور اس حدیث شریف میں لفظ ’’ المسلم‘‘ پر ذرا غور کرلیتے ہیں۔
حدیث شریف میں لفظ ’’ المسلم‘‘ معرف باللام آیا ہے جس کا مطلب ہے کامل مسلمان کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ ’’ مطلق لفظ کو اپنے کامل معانی پر محمول کیا جاتا ہے‘‘۔ اس لئے یہاں مسلمان سے مراد وہ شخص نہیں جو اسلام کا اظہار کرے یا اس کا دعوی کرے بلکہ وہ شخص ہے جو حق پر ایمان لائے، اسے دل سے پسند کرے، اپنے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کرے اور اس ایمان کو اپنی زندگی کی روح بنا لے۔
اگر تفصیل میں جائیں تو لغت کے اعتبار سے ’’المسلم‘‘ ، ’’ أسْلَمَ‘‘ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ جو ’’ السلم‘‘ اور ’’ السلام‘‘ سے مشتق ہے۔ اس لئے مسلم کا جس طرح یہ مطلب ہے کہ وہ شخص جواپنی باگ ڈور اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے ، اس طرح اس سے مراد وہ شخص بھی ہے جو دوسروں کو ساحل سلامتی تک پہنچائے اور اپنے اور ان کے درمیان امن اور سلامتی کا پل تعمیر کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلم وہ شخص ہے جو حق تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے اور بدی سے بچنے کے لئے نہایت باریک بینی سے کام لیتا ہے اور اس طرح ا من اور سلامتی کے ماحول میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتا ہے مگر اسی وقت وہ ایسا سچا انسان ہے جو امن و سلامتی کی نمائندگی کرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس سے دوسروں کو اعتماد اور سلامتی کا احساس دلاتا ہے۔
مسلم اور اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ’’ السلام ‘‘ اور المؤمن‘‘
مسلم سے دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی باد نسیم چلتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر ہے اور ’’ ا سلام‘‘ اور المومن‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں اور دونوں سورۃ الحشر میں ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ ﴿هُوَ اللهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (الحشر:59) (وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی ) پاک ذات (ہر عیب سے) ، سلامتی، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زبردست بڑائی والا۔ اللہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے( ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ’’سلام ‘‘ ہے کیونکہ وہ مخلوق کے تمام عیبوں اور نقائص اور فنا سے پاک ہے اور وہی اپنی مخلوق کے درمیان امن اور سلامتی پھیلاتا ہے اور ’’المؤمن‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں ایمان پیدا فرماتا ہے اور ان کو امن و امان کی بشارت دیتا ہے اور اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ کرتا ہے تو اس سے زیادہ اس کو پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے اور یہی بات بندۂ مومن کے دل میں موجود امید کی بنیاد ہے۔
اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے کے لئے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے یا جس نے (ظلی اعتبار سے) ان اخلاق کو اپنانے کو اپنا منتہائے مقصود بنا لیا ہو ، اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کو امن و سلامتی کا احساس دلائے اور اس کی جانب سے کسی کو کوئی خوف یا قلق لاحق نہیں ہونا چاہیے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کی تصدیق کرے تاکہ اس کی لسان حال اس کے ارد گرد کے لوگوں کو امن کا احساس دلائے اور اس کی وجہ سے ان پر اعتماد اور امان کی ہوائیں چلیں جس کی وجہ سے وہ اپنی قیمتی ترین اشیاء کو بھی اس کے پاس رکھ کر اس طرح واپس لوٹ جائیں کہ کسی کے دل میں اس کے بارے میں کوئی پریشانی اوربدگمانی نہ ہو۔
سچائی اور امانتداری انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات ہیں اور اس بات کا بڑا زبردست اثر ہے جو اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جی ہاں، سچائی ہی کی بدولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمالات کی چوٹی تک پہنچے اور جھوٹ کی وجہ سے مسیلمہ کذاب اسفل سافلین میں۔
سچی بات یہ ہے کہ کفر ایک عظیم بہتان ہے جو منکرین گھڑتے ہیں کیونکہ کفر کا مطلب ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے والی تمام نشانیوں کا کائنات میں موجود ترتیب اور خوبصورت تناسب سے آنکھیں بند کرتا اور کائنات اور قرآن کریم کے درمیان موجود اس مطابقت کا انکار ہے جسے عقل ثابت کرتی ہے۔ اس لئے یہ نہایت گھناونا جرم ہے جس کا بدلہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے! اس کے مقابلے میں ایمان کے ذریعے مسلمان جنت میں داخلے کا اہل ہوتا ہے اور علیین کے اعلیٰ درجات تک جاپہنچتا ہے۔ جی ہاں، سچائی کی صفت ایمان کا چشمہ ہے اور اسی نے صحابہ کرام کو عموماً اور حضرت صدیق کو خصوصاً اونچے درجات تک پہنچایا۔
اب رہی بات امانت کی تو کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی زندگی امن و امان کی ایسی مثال نہ ہو جس سے ہمیشہ دوسروں کو طمانینت اور امن کا احساس نہ ہو جبکہ امانتداری میں آنحضرت ﷺ سب سے بڑھ کر ہیں ۔ آپ ﷺ اپنے اطوار اور احوال سے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو طمانینت کا احساس دلاتے تھے یہاں تک کہ جب لوگ کسی سفر کا ارادہ کرتے اور اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کسی کے حوالے کرنا چاہتے تو سب سے پہلے یہ بات ان کے دل میں آتی تھی کیونکہ ان کو اعتبار تھاکہ صادق ومصدوق ﷺ ان میں سے کسی کی بھی طرف آنکھ نہیں اٹھائیں گے کیونکہ آپ ﷺ ادب اور حیا کا نمونہ کامل تھے۔ اس لئے جس دن اس معلم ادب و حیاء کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ کو کتنی بار پسینہ آیا۔ جی ہاں، امانت آپ ﷺ کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اور آپ کی سرکی چوٹی سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر چھائی تھی جس کی وجہ سے آپ ﷺ لوگوں کے لئےقابل بھروسہ ہوگئے تھے۔
جواب: یہ حدیث ’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ صحیح احادیث کی کتابوں میں آئی ہے(البخاری، الایمان:4) جو سچے مسلمان کی تعریف کرتی ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو ضرر پہنچتا ہے اور نہ نقصان۔
اب سوال میں موجود مطلب کو سمجھنے اور اس حدیث شریف میں لفظ ’’ المسلم‘‘ پر ذرا غور کرلیتے ہیں۔
حدیث شریف میں لفظ ’’ المسلم‘‘ معرف باللام آیا ہے جس کا مطلب ہے کامل مسلمان کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ ’’ مطلق لفظ کو اپنے کامل معانی پر محمول کیا جاتا ہے‘‘۔ اس لئے یہاں مسلمان سے مراد وہ شخص نہیں جو اسلام کا اظہار کرے یا اس کا دعوی کرے بلکہ وہ شخص ہے جو حق پر ایمان لائے، اسے دل سے پسند کرے، اپنے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کرے اور اس ایمان کو اپنی زندگی کی روح بنا لے۔
اگر تفصیل میں جائیں تو لغت کے اعتبار سے ’’المسلم‘‘ ، ’’ أسْلَمَ‘‘ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ جو ’’ السلم‘‘ اور ’’ السلام‘‘ سے مشتق ہے۔ اس لئے مسلم کا جس طرح یہ مطلب ہے کہ وہ شخص جواپنی باگ ڈور اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے ، اس طرح اس سے مراد وہ شخص بھی ہے جو دوسروں کو ساحل سلامتی تک پہنچائے اور اپنے اور ان کے درمیان امن اور سلامتی کا پل تعمیر کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلم وہ شخص ہے جو حق تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے اور بدی سے بچنے کے لئے نہایت باریک بینی سے کام لیتا ہے اور اس طرح ا من اور سلامتی کے ماحول میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتا ہے مگر اسی وقت وہ ایسا سچا انسان ہے جو امن و سلامتی کی نمائندگی کرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس سے دوسروں کو اعتماد اور سلامتی کا احساس دلاتا ہے۔
مسلم اور اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ’’ السلام ‘‘ اور المؤمن‘‘
مسلم سے دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی باد نسیم چلتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر ہے اور ’’ ا سلام‘‘ اور المومن‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں اور دونوں سورۃ الحشر میں ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ ﴿هُوَ اللهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (الحشر:59) (وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی ) پاک ذات (ہر عیب سے) ، سلامتی، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زبردست بڑائی والا۔ اللہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے( ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ’’سلام ‘‘ ہے کیونکہ وہ مخلوق کے تمام عیبوں اور نقائص اور فنا سے پاک ہے اور وہی اپنی مخلوق کے درمیان امن اور سلامتی پھیلاتا ہے اور ’’المؤمن‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں ایمان پیدا فرماتا ہے اور ان کو امن و امان کی بشارت دیتا ہے اور اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ کرتا ہے تو اس سے زیادہ اس کو پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے اور یہی بات بندۂ مومن کے دل میں موجود امید کی بنیاد ہے۔
اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے کے لئے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے یا جس نے (ظلی اعتبار سے) ان اخلاق کو اپنانے کو اپنا منتہائے مقصود بنا لیا ہو ، اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کو امن و سلامتی کا احساس دلائے اور اس کی جانب سے کسی کو کوئی خوف یا قلق لاحق نہیں ہونا چاہیے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کی تصدیق کرے تاکہ اس کی لسان حال اس کے ارد گرد کے لوگوں کو امن کا احساس دلائے اور اس کی وجہ سے ان پر اعتماد اور امان کی ہوائیں چلیں جس کی وجہ سے وہ اپنی قیمتی ترین اشیاء کو بھی اس کے پاس رکھ کر اس طرح واپس لوٹ جائیں کہ کسی کے دل میں اس کے بارے میں کوئی پریشانی اوربدگمانی نہ ہو۔
سچائی اور امانتداری انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات ہیں اور اس بات کا بڑا زبردست اثر ہے جو اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جی ہاں، سچائی ہی کی بدولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمالات کی چوٹی تک پہنچے اور جھوٹ کی وجہ سے مسیلمہ کذاب اسفل سافلین میں۔
سچی بات یہ ہے کہ کفر ایک عظیم بہتان ہے جو منکرین گھڑتے ہیں کیونکہ کفر کا مطلب ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے والی تمام نشانیوں کا کائنات میں موجود ترتیب اور خوبصورت تناسب سے آنکھیں بند کرتا اور کائنات اور قرآن کریم کے درمیان موجود اس مطابقت کا انکار ہے جسے عقل ثابت کرتی ہے۔ اس لئے یہ نہایت گھناونا جرم ہے جس کا بدلہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے! اس کے مقابلے میں ایمان کے ذریعے مسلمان جنت میں داخلے کا اہل ہوتا ہے اور علیین کے اعلیٰ درجات تک جاپہنچتا ہے۔ جی ہاں، سچائی کی صفت ایمان کا چشمہ ہے اور اسی نے صحابہ کرام کو عموماً اور حضرت صدیق کو خصوصاً اونچے درجات تک پہنچایا۔
اب رہی بات امانت کی تو کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی زندگی امن و امان کی ایسی مثال نہ ہو جس سے ہمیشہ دوسروں کو طمانینت اور امن کا احساس نہ ہو جبکہ امانتداری میں آنحضرت ﷺ سب سے بڑھ کر ہیں ۔ آپ ﷺ اپنے اطوار اور احوال سے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو طمانینت کا احساس دلاتے تھے یہاں تک کہ جب لوگ کسی سفر کا ارادہ کرتے اور اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کسی کے حوالے کرنا چاہتے تو سب سے پہلے یہ بات ان کے دل میں آتی تھی کیونکہ ان کو اعتبار تھاکہ صادق ومصدوق ﷺ ان میں سے کسی کی بھی طرف آنکھ نہیں اٹھائیں گے کیونکہ آپ ﷺ ادب اور حیا کا نمونہ کامل تھے۔ اس لئے جس دن اس معلم ادب و حیاء کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ کو کتنی بار پسینہ آیا۔ جی ہاں، امانت آپ ﷺ کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اور آپ کی سرکی چوٹی سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر چھائی تھی جس کی وجہ سے آپ ﷺ لوگوں کے لئےقابل بھروسہ ہوگئے تھے۔
اعتماد کی دولت
وہ بات جو ہم یعنی آپ ﷺ کی امت اور خصوصاً ان عظیم لوگوں میں ہونی چاہیے جنہوں نے ا للہ اور اللہ کے رسول کی محبت کو لوگوں میں عام کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کررکھی ہیں، وہ یہ کہ ہر طرف امن کی ہوائیں چلائیں تاکہ تمام لوگوں کو ان پر اعتماد پیدا ہو اور وہ ان سے بالکل بے خوف ہوجائیں اور ان کے بارے میں کہنے لگیں کہ : ’’ اگر ان لوگوں نے کہا ہے تو سچ کہا ہوگا کیونکہ ان کا کلام ا عتماد اور سچ ہے‘‘ اور یاد رکھئے کہ ان لوگوں کا آپ پر بھروسہ ہی ان کی جانب سے آج آپ کو خوش آمدید کہنے اور آپ کی پیروی اور تعاون کا راز ہے۔
جی ہاں، لوگ بہت سے ذرائع سے واقعات کی فطری حرکت کے دوران بغیر کسی جاسوسی اور نگرانی کے آپ کو آزماتے ہیں اور پھر حکم لگاتے ہیں کہ : ’’ یہ قابل بھروسہ ہے‘‘۔ مثلاً جب آپ ملک کے اندر اور باہر ضرورت اور غربت کے مقام پر قربانی کے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ بلاتردد جلدی سے پچاس، سو یا اس سے زیادہ قربانیاں پیش کردیتے ہیں۔ اس لئے اس اعتماد کو حاصل کرنا اور اس کو انتہائی باریک بینی اور صاف ستھری سچائی سے برقرار رکھنا بہت اہم بات ہے۔
اس لئے آج جن لوگوں نے اپنی زندگیاں حق کی خاطر وقف کررکھی ہیں، اگر وہ بھروسے اور اعتماد کی ہوائیں چلانے میں کامیاب ہوگئے تو (اللہ کے فضل اور عنایت سے) جو لوگ بعد میں ان کو جانیں گے ، ان پر اعتماد کریں گے اور ان کے ہمرکاب ہوں گے، وہ جان لیں گے کہ ان کے ساتھ دھوکہ نہیں ہوگا، اس لئے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس لئے کسی اعلیٰ نظرئے کے لئے ہجرت کرنے والوں پر لازم ہے کہ حالات جیسے بھی دگرگوں ہوجائیں وہ اپنی ذمہ دا ریاں پوری کریں، جہاں حالت رباط میں ہوں ثابت قدم رہیں، ہمیشہ بنیادی نظریات کے مطابق چلیں اور اس بات سے بچتے رہیں کہ ہم آخرت کی زندگی پر دنیا کو ترجیح دے کر ان آیات میں وارد تھپڑوں کے مستوجب نہ ہوں: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ * وَتَذَرُونَ الآخِرَةَ﴾ (القیامہ:20-21) (مگر (لوگو) تم دنیا کو دوست رکھتے ہو اور آخرت کو ترک کئے دیتے ہو) اور ﴿اِسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الآخِرَةِ﴾ (انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں عزیز رکھا) ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔ سو دنیا کا اہتمام اس کے فنا کے بقدر اور آخرت کا اہتمام اس کی بقا کے بقدر ہونا چاہیے۔ اس لئے اگر آپ آخرت کا اس کی ذاتی قدرو قیمت کے مناسب اہتمام کریں گے تو درحقیقت آپ دنیاکی قدر وقیمت بھی بڑھا دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے جو لوگ اپنی زندگی اس توازن پر قائم کرتے ہیں وہ مخلص ہیں اور وفا کو پھیلا رہے ہیں اور امن و امان لے کر چل رہے ہیں یہاں تک کہ ان کے ہاں ہر شے کی اچھی طرح سرمایہ کاری ہوتی ہے اور کوئی شے ضائع نہیں ہوتی۔ اس طرح دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ جی ہاں، آپ کے دل میں ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ آج کے امانتدارلوگوں کے بس میں ہے (اگر وہ عزم مصمم کرلیں) کہ وہ ہماری اس دنیا کو اس زمانے میں اس طرح آباد کریں، جس طرح ماضی میں اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں نے اندلس اور ہراس علاقے کو آباد کیا جہاں سلطنت عثمانیہ کے دور میں ان کے قدم پہنچے۔
جس شخص نے اپنی زندگی حق کی خاطر وقف کردی ہے، اس پر لازم ہے کہ ہمیشہ عیش و عشرت سے گریز کرے اور سادگی اپنائے ، اس کا گھر بھی ایسا ہو نا چاہئے کہ یہاں تک کہ جب اسے موت آئے تو اس کے دوستوں کو اس کے کفن کی قیمت تلاش کرنے کی تکلیف کرنا پڑے کیونکہ جو شخص یکسو ہو کر خدمت کے لئے وقف ہو جائے اسے منصب اور راحت کا بندہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس نے اپنے دل کو صرف خدمت کے لئے خاص کردیا ہے۔ اس لئے کوئی بھی چیز اس کے ہاتھوں کی ہتھکڑی یا پاؤں کی بیڑی نہیں بن سکتی۔ میر ا مزاج یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہوں (اور ضرور ہوں) جن کا کام تجارت ہو اور وہ اس طرح خدمت میں لگیں یعنی حلال کمائی اور اللہ کی راہ میں خرچ کے ذریعے کیونکہ یہ ایک اور بات ہے۔ میں تو صرف اس بات کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں جو ان لوگوں پر لازم ہے جن کا خدمت کے سوا اور کوئی کام اور پیشہ نہیں۔
ذمہ داروں میں نمونہ بننے کی قوت
حق کی خاطر اپنی جانوں کو وقف کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ (اسی طرح) خدمت میں اپنے ساتھیوں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ ان کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ ایسے کسی بھی تصرف، برتاؤ اور سلوک سے بچتے رہیں جو ان پر ان کے ساتھیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتا ہو، ہمیشہ شفافیت سے کام کریں اور ہر اس کام کرنے سے گریز کریں جس سے ان کے بارے میں شک پیدا ہوسکتا ہو جس کے نتیجہ میں وہ ان کے اعتماد سے محروم ہوجائیں۔ ان لوگوں کو اس بارے میں نہایت حساس اور محتاط ہونا چاہئے تاکہ ان کے گرد موجود لوگوںمیں سے کوئی اس وہم میں نہ پڑ جائے کہ وہ فلاں شے سے محروم ہے یا اس کے کاموں میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی ہے۔
اس لئے ہم پر لازم ہے کہ جن لوگوں کے ہمراہ ہم چل رہے ہیں ان کے سامنے ہمیشہ شفافیت اور وضاحت کو اپنا وطیرہ بنائیں اور جو بھی مسئلہ ہو اس کے بارے میں ان سے مشورہ کریں اور کسی بھی برتاؤ اور تصرف میں استبدادی رویہ اپنانے سے نہایت گریز کرتے رہیں۔ ہمیں اپنے ساتھیوں کے جذبات اور آراء کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح جو کام ان کے حوالے کریں وہ ان کی استعداد اور توانائیوں کے مناسب ہوں اور اسی کے مطابق ان کے کام کے وقت کا بھی تعین کریں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس بارے میں ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو اعتماد میں لیں یہاں تک کہ جس شخص کو بھی کسی کام میں لگایا جائے وہ یہ محسوس کرے کہ جن لوگوں نے اس کے ذمہ وہ کام لگایا ہے وہ نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمیشہ مصلحت کے تقاضے کے مطابق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سنجیدہ طریقے سے ان کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے ذمے لگائے گئے کام زیادہ جذبے سے کریں، اس کو اپنی عادت بنائیں، اسے قبول کریں اور پوری طرح سمجھیں۔
المختصر یہ کہ کاموں کی تقسیم، ترتیب اور تنظیم اور ذمہ داری لگانے میں نہایت شفافیت سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کے دل میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ : ’’مجھ پر اعتماد نہیں کیا جاتا یا مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے‘‘۔ ان میں کوئی شک اور بے اعتمادی کا احساس نہیں پیدا ہونا چاہئے۔ اسی لئے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو فوج کے لشکر کی قیادت سے سبکدوش کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو ’’ ربذہ‘‘ بھیجا تو کسی نے بھی اس فیصلے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ فوراً حکم کی تعمیل کی گئی۔ یہ سب کچھ صرف اسی احساس کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس لئے اگر آپ اپنے ان تصرفات اور احوال کے ذریعے جن کا آپ نے بیان کیا ہے ان لوگوں میں اعتماد اور بھروسہ پیدا کرسکیں جو آپ کے ماتحت ہیں اور اپنی فکری ، حسی، عقلی اور منطقی عفت و عصمت کو برقرار رکھ سکیں تو آپ ان کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے گا اور جس شخص کو بھی جس نئی ذمہ داری پر متعین کیا جائے گا وہ بلا تردد یہ کہتے ہوئے چل پڑے گا کہ: ’’ مجھے یقین ہے کہ جس شخص نے میرے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے اس نے میرے لئے زیادہ اچھی اور نفع بخش بات کو پسند کیا ہوگا‘‘ اور پھر وہ جہاں بھی جائے گا ہرطرح کی مشقتوں اور فقر کو برداشت کرے گا، یہاں تک کہ اگر آپ اس سے کسی ایسی جگہ رہنے کے لئے کہہ دیں جو کال کوٹھڑی کی طرح ہو کہ ’’ یہاں رہو‘‘ تو وہ اس یقین کے ساتھ یہ کام بھی کرلے گا کہ اس کام میں بھی طرح طرح کی مصلحتیں اور منافع ہوں گے۔ اس لئے آپ جس قدر سچے اور قابل اعتماد منتظم ہوں گے، آپ کے ارد گرد لوگ آپ کی تجاویز اور اوامر کو اسی لحاظ سے قبول کریں گے کیونکہ سچائی، اعتماد اور امانتداری دلوں کو کھولنے کا سب سے اہم رستہ اور ذریعہ ہے۔ پس لوگوں کو آپ پر اس قدر بھروسہ اور اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ کہنے لگیں: ’’ جہاں بھی مجھ پر قرآنی اور ایمانی خدمت کا کوئی لازم قرار دیائے جائے گا ، اللہ کی مشیئت بھی وہاں ہوگی‘‘ اور یہ بات صرف اس نمونہ بننے کی صلاحیت کی برکت سے ہوسکتی ہے جو منتظمین میں ایک نہایت باریک اور حساس میزان کے مطابق ہونی چاہئے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔