اسلام وجمہوریت

مذہب ‘خاص طور پر اسلام حالیہ برسوں میں ایک مشکل موضوع سخن بن چکا ہے ۔ موجودہ کلچر خواہ اسے علم ابشریات یا مذہب کے تناظر میں دیکھیں نفسیات یا تحلیل نفسی کے تناظر میں دیکھیں مذہب کی چھان بین اختباری انداز میں کرتا ہے ۔ ایک طرف تو مذہب ایک ایسی چیز ہے جسے اندرونی طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ایک ایسی چیز جسکا تعلق زندگی کے دائمی پہلوﺅں کے ساتھ ہے ۔ دوسری طرف مذہب کو ماننے والے مذہب کو ایسے فلسفے کے طور پر دیکھتے ہیں جو عقلی اصولوں کا مجموعہ ہو یا اسے محض روحانی معاملہ سمجھتے ہیں اسلام کا جائزہ لیتے ہوئے مشکل بڑھ جاتی ہے ۔ بعض مسلمان اور پالیسی ساز اسے خالصتاً سیاسی ‘سماجی اور معاشی نظریے کے طور پر دیکھتے اور پیش کرتے ہیں نہ کہ مذہب کے طور پر۔ اگر ہم مذہب جمہوریت یا کسی دوسرے موضوع کا یا فلسفے کا درست تجزیہ کرنا چاہتے ہوں تو ہمیں انسانیت اور انسانی زندگی کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ اس تناظر میں مذہب بالعموم اور اسلام بالخصوص کا انہی بنیادوں پر جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی نظام سے موازنہ کیا جاسکتا ۔ مذہب کافوکس بنیادی طور پر زندگی کے نا قابل تبدل پہلو ہیںجب کہ سیاسی سماجی اور اقتصادی نظام یا نظریات زندگی کے محض متغیر معاملات سے واسطہ رکھتے ہیں ۔

مذہب جن موضوعات کو مرکزی حیثیت دیتا ہے وہ آج بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنا کہ انسانیت کی ابتداءکے وقت تھے اور آئندہ بھی اتنے ہی اہم اور متعلق رہیں گے ۔ دنیاوی نظام حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کا جائزہ صرف ان کے وقت کے حوالے سے لیا جاسکتا ہے ۔ اللہ پر ایمان ‘حیات بعد از موت ‘انبیاءآسمانی کتابیں فرشتے اور تقدیر جیسے معاملات کا زمانے کے بدلنے سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح عبادت اور اخلاقیات کے آفاتی اور نا قابل تبدل معیاروں کا بھی زمانے یا دنیاوی زندگی کے ساتھ خاص واسطہ نہیں ہے ۔

مذہب یا اسلام کا موازنہ جمہوریت کے ساتھ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جمہوریت ایک بتدریج فروغ پانے والا اصلاح پذیر نظام ہے۔جمہوریت کااطلاق مقام اور حالات کی مناسبت سے مختلف الشکل ہے دوسری طرف اسلام نے ایمان ویقین ‘عبادت اور اخلاقیات سے متعلق نا قابل تبدل اصول وضع کررکھے ہیں اس لئے اسلام کے دنیاوی امور سے متعلق پہلوﺅں کی جمہوریت سے موازانہ کیا جائے

اسلام کس طرز حکومت کی بات کرتا ہے ۔

اسلام کا بنیادی مقصد اوراس کی ناقابل ت بدل جہیات ان اصولوں اور ضابطوں پراثر انداز ہوتی ہیںجن کا تعلق زندگی کے متغیر پہلوو ¿ں سے ہے۔اسلام کسی لگے بند ہے نظام حکومت کی تجویز پیش نہیں کرتا جس میں تبدیلی ممکن نہ ہو بلکہ اسلام ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہوں اور وقت اور حالات کے مطابق مطلوبہ طرز حکومت کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیتا ہے ۔

اگر ہم اس موضوع کو اس چیز کی روشنی میں دیکھیں اور اسلام کا موازنہ آج کی جدید جمہوریت سے کریں تو ہم اسلام کی پوزیشن اور جمہوریت کو ایک دوسرے کے مقابلے میں بہتر طورپر سمجھ سکیںگے ۔

جمہوریت کے تصور کی شاخیں قدیم دور سے پھوٹتی ہیں جدید آزاد جمہوریت نے امریکی (1776) اور فرانسیسی انقلاب (1789-99) سے جنم لیا ۔جمہوری معاشروں میں لوگ مسلط کردہ حکومت کی بجائے اپنا نظام حکومت خود چلاتے ہیں اس طرز حکومت میں فرد کو کمیونٹی کے اوپر بر تری حاصل ہوتی ہے جو کہ اپنی زندگی گزارنے کے انداز کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے تاہم انفرادیت مطلق نہیں ہوتی ۔

لوگ معاشرے میں رہتے ہوئے بہتر زندگی گزارتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ اپنی سماجی زندگی کی کسوٹی کے مطابق اپنی آزادی کو ایک ترتیب اور حدیں رکھیں ۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں ہیں اسلام رنگ ونسل عمر قومیت یا جسمانی خوبیوں کی بناءپر انسانوں میں تمیز نہیں کرتا ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاﺅ ۔

وہ لوگ جو پہلے پیدا ہوئے یا جن کے پاس زیادہ دولت ہے یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وراثتی حق نہیں رکھتے۔

سچائی طاقت ہے

مزید برآں اسلام درج ذیل بنیادی اصول بھی پیش کرتا ہے ۔

 ٭طاقت حق میں پوشیدہ ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ حق کا دارومدار طاقت پر ہے

٭انصاف اور قانون کی حکمرانی لازمی ہے

٭عقیدے اور زندگی گزارنے کی آزادی ‘ذاتی ملکیت کی آزادی نسل کَشی کی آزادی ‘صحت ( جسمانی اور ذہنی ) کی آزادی اور ان کا
حق سلب نہیں کیا جاسکتا۔

٭فرداپنی انفرادی زندگی کسی بیرونی دخل اندازی کے بغیر گزارنے کا حق رکھتا ہے۔

٭ کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا یا اسے کسی
دوسرے کے جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔

٭مشاورت پر مبنی انتظامی نظام قائم کرنا لازمی ہے

انسان کے تمام حقوق یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور معاشرے کے لئے فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام معاشرے سے مراد ایسے انسانوں پر مبنی معاشرہ لیتا ہے جو کہ اپنی مرضی میں آزاد ہوں اور اپنی ذات اور دوسروں کے لئے ان کا رویہ ذمہ داری پر مبنی ہو اور اس سے بھی بڑھ کر اسلام انسانیت کو ایک ”موٹر “ کی طرح دیکھتا ہے جو کہ تاریخی عمل میں اپنا کردار ادا کررہی ہو جوکہ انیسویں صدی کے مغربی تصورات جدلیاتی مادیت اور تاریخیت کے برعکس ہے جس طرح اس دنیا اور آئندہ کی زندگی کا دار ومدار انسان کے ارادے اور طرز عمل پر ہے اسی طرح ایک معاشرے کی ترقی یا زوال کا دار ومدار بھی اس کے باسیوں کی قوت ارادی ‘دنیا کے بارے میں تصور اور طرز زندگی پر ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔

” اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی ۔“ (13:11
با الفاظ دیگرہرمعاشرے کے مقدرکی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ نبی پاک ﷺ کے قول کے مطابق" جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے ۔" (کنزالعمال6:89

یہ ہے جمہوریت کی بنیادی روح جو کہ کسی بھی اسلامی تصور سے باہم متصادم نہیں ہے ۔

چونکہ اسلام فرد اور معاشرے کو اپنی تقدیر کا خود ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس لئے لوگوں کو اپنا نظام انتظام چلانے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے قرآن پاک معاشرے سے مخاطب ہوتے ہوئے " اے انسانوں ‘اور اے ایمان والو‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ ایک جمہوری معاشرے پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں وہی ہیں جن کا ذکر اسلام کرتا ہے اور ان کی درجہ بندی ان کی اہمیت کے لحاظ سے انتہائی اہم‘ نسبتاً اہم اور واجبی کے طور پر کر تا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ۔

" اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ ۔" (2:208
"اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیںاور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالاہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔" (2:267)

"تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لے لو۔“ (4:15
”اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔“ ( 4:58)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔“ (4:135
”اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ ۔“ (8:61” اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو ۔“ (49:6
” اوراگراہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔“ (49:9
فی الجملہ یہ کہ قرآن پاک کل انسانیت سے مخاطب ہے اور جدید جمہوریہ کی تمام ذمہ داریاں اسے سونپتا ہے ۔

لوگ ان فرائض کی تقسیم کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ان کی بجا آوری کے لئے ضروری بنیاد قائم کرتے ہیں ۔ حکومت کے ادارے میں یہ تمام بنیادیں موجود ہوتی ہیں لہٰذا اسلام کی مجوزہ حکومت سماجی معاہدے پر قائم ہوتی ہے عوام الناس اپنے منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں اور عمومی مسائل پر بحث مباحثہ اور غور کرنے کے لئے ایک کونسل تشکیل دیتے ہیں اس کے علاوہ بحیثیت کل بھی انتظامیہ کا احتساب کرتے ہیں خاص طور پر ہمارے پہلے خلیفہ (632-661) کے عہد میں حکومت کے بنیادی اصولوں پر جنکا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے مکمل طور پر عمل کیا جاتا تھا چوتھے خلیفہ حضرت علی کی وفات کے بعد سیاسی نظام ملوکیت میں بدل گیا جس کی وجہ اندرونی کشمکش اور عالمی صورتحال تھی ۔ خلافت کے برعکس ملوکیت میں اقتدار سلطان کے خاندان میں ہی ایک دوسرے کو منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ آزادانہ انتخا بات کا انعقاد نہیں ہوتا ‘معاشروں نے ایسے اصول بر قرار رکھے جو کہ آج کی آزاد جمہوریت کی روح ہیں ۔

اسلام سب کو ساتھ لے کر چلنے والا مذہب ہے ۔ یہ خداکی واحدانیت پر یقین رکھتا ہے جو کہ سب کا خالق ‘مالک ‘رازق اور کل کائنات کا نظام چلانے والا ہے ۔ اسلام پوری کائنات کا مذہب ہے یعنی کہ پوری کائنات اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پابند ہے لہٰذا اس طرح کائنات کی ہر شے مسلمان ہے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر چل کر اس کی اطاعت کرتی ہے ۔ حتیٰ کہ خدا کو نہ ماننے والا شخص یا کسی دوسرے مذہب کا پیروکار بھی ، جہاں تک اس کے جسمانی وجود کا تعلق ہے۔ لازمی طور پر مسلمان ہی ہے پوری زندگی مادر رحم میں وجود میں آنے سے لے کر مٹی میں مل جانے تک انسان کا ریشہ ریشہ اس کا بدن خالق کائنات کے بنائے گئے قوانین کی پیروی کرتا ہے اس طرح اسلام میں خدا ‘فطرت اور انسانیت نہ تو ایک دوسرے سے دور ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے اجنبی۔ یہ اللہ کی ذات ہی ہے جو خود کو فطرت کے ذریعے انسانیت پر آشکار اکرتی ہے اور فطرت اور انسانیت تخلیق کی دو ایسی کتابیں ہیں جن کے ہر لفظ سے خدا کا وجود ظاہر ہوتا ہے ۔ اور اس سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ ہر شے کا مالک ایک خدا ہے ۔ اس طرح انسان کو کائنات میں کوئی بھی چیز اجنبی دکھائی نہیں دیتی ‘ انسان کی ہمدردی محبت اور خدمت صرف کسی ایک قوم ‘رنگ یا نسل کے انسانوں تک محدود نہیں رہتی ۔ حضور پاک نے یہ بات یوں کہی

" اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی (بہنیں ) بن جاﺅ ۔“

اسلام تمام مذاہب کو تسلیم کرتا ہے
اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام اپنے سے پہلے آنے والے تمام آسمانی مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام پہلے والے تمام انبیاءاور آسمانی حقائق کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے جو کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں آئے ۔نہ صرف یہ کہ اسلام انہیں تسلیم کرتا ہے بلکہ ان پر ایمان کو ،مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے ۔اس طرح اسلام تمام مذاہب کے بنیادی اشتراک کو تسلیم کرتا ہے ۔ ایک مسلمان بیک وقت حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ ‘حضرت داﺅد ‘حضرت عیسیٰ ‘اور دیگر تمام عبرانی انبیاءکو مانتا ہے ۔

اس ایمانی پہلو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی حکومتوں کے ماتحت رہنے والے عیسائی اور یہودی کیوں کر اپنے مذہبی حقوق سے مستفید ہوتے رہے ۔

اسلامی سماجی نظام ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ یہ انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے اس میں تصادم کی کوئی گنجائش نہیں تعلقات کی بنیاد ‘ایمان ویقین ‘پیار محبت ‘ باہمی احترام و تعاون اور ہم آہنگی کو ہونا چاہئے نہ کہ جنگ وجدل اور ذاتی مفادات کے فروغ کو ‘سماجی تعلیم بلند تر مقاصد کے حصول اور تکمیل ذات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اسکا مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کو ممکن بنانا ہوتا ہے ۔

حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے اور نیکی اور بھلائی تعاون اوریگانگت کو جنم دیتی ہے اور ایمان ویقین بھائی چارے کے ماحول کو یقینی بناتاہے۔ تکمیل ذات کے لئے قلب وروح کی حوصلہ افزائی سے ہم دونوں جہانوں میں کامیاب وکامران ہوسکتے ہیں ۔

جمہوریت نے وقت کے ساتھ ترقی کی ۔ جس طرح ماضی میں یہ کئی مراحل سے گزرتی رہیں اسی طرح مستقبل میں بھی اسکا ارتقاءاور ترقی جاری رہے گی اور اپنے اس عنصر میں یہ زیادہ انسانی اور منصفانہ شکل اختیار کرے گی ایک ایسا نظام جو راستگی اور سچائی پر مبنی ہوگا ۔

اگر بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی اس کے روحانی وجود اور اس کی روحانی ضروریات کو الگ کئے بغیر دیکھا جائے اور یہ بھلائے بغیر کہ انسان کی زندگی محض اس جہان فانی تک محدود نہیں بلکہ حیات جاودانی کی متمنی ہے تو پھر ممکن ہے کہ جمہوریت تکمیل کی انتہا کو پہنچ کر پوری انسانیت کے لئے باعث مسرت وشادمانی ہو ۔ برابری ‘برداشت اور انصاف کے اسلامی اصول ہی اسے ممکن بنا سکتے ہیں ۔

نئے ہزاریئے کے آغاز پر
جس طرح ہر صبح اور آنیوالی بہار اپنے جلو میں ایک نیا آغاز اور نئی امید لے کر آتی ہے اسی طرح ہرصدی اور ہزاریہ اپنے ساتھ یہی کچھ لے کر آتا ہے ۔ یوں وقت کی گاڑی پر سوار انسان جس کا اس پر کوئی اختیار نہیں ‘ ہمیشہ ایک ایسی چنگاری اورتازہ ہوا میں ایک ایسی گہری سانس کا متلاشی رہا ہے جو اس کی زندگی میں جوش و ولولہ بھر دے۔ اس کی ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے کہ یہ ظلمت سے نکل کر روشنی میں آجائے اس آسانی کے ساتھ جس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھتا ہے ۔ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا پر حقیقی مرد اور عورت کب نمو دار ہوئے ۔ تقویم کے مطابق جو کہ ہم آج استعمال کرتے ہیں ہم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد تیسرے ہزاریئے کے آغاز پر ہیں تاہم وقت کے گزرنے کا حساب لگانے کے اپنے پیمانے ہیں مثلاً مستند عالمی پیمانوں کے مطابق دنیا ایک نئے ہزاریئے کے آغاز پر ہے ۔ یہودی تقویم کے لحاظ سے ہم آٹھویں ہزاریئے کے دوسرے نصف میں ہیں ۔ ہندو تقویم کے مطابق ہم کالی یوگا کے دور سے گزررہے ہیں اور اسلامی تقویم کے مطابق ہم دوسرے ہزاریئے کے پہلے نصف کے اختتام کے قریب ہیں۔

البتہ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وقت کا ہر پیمانہ ایک نسبتی پیمانہ ہے ۔ اگر چہ کے ایک صدی سو سالوں پر محیط ہوتی ہے لیکن ایک اوسط آدمی کی عمر کے لحاظ سے جو کہ ساٹھ برس کے لگ بھگ ہوتی ہے ،60 برس کی صدی کا تصور بھی قابل ذکر ہے ۔ اس لحاظ سے ہم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد آج چوتھے ہزاریئے میں ہیں اور ہجرت کے بعد سے تیسرے ہزاریئے میں جو کہ اسلامی کیلنڈر کا نقطہ آغاز ہے ۔

اس بات کا ذکر میں اس شدید روحانی بے چینی کے حوالے سے کررہا ہوں جو کہ اس ہزاریئے سے وابستہ خوفناک بد شگونیوں کی وجہ سے خاص طور پر مغرب میں پائی جاتی ہے ۔

انسان ہمیشہ امید کے سہارے زندگی گزارتا ہے اور اس طرح سے امید ہی کی پیداوار ہے اور امید کے کھوجاتے ہی اس میں زندگی کا جوش بھی دم توڑ دیتا ہے، قطع نظر اس کے جسمانی وجود اپنی جگہ قائم ہوتا ہے ۔ امید کا تعلق ایمان سے ہے ۔جس طرح موسم سرما ایک برس کے چوتھائی حصے پر مشتمل ہوتا ہے اسی طرح انسانی زندگی کا موسم سرما بھی ایک مختصر مدت کے لئے ہوتا ہے ۔ خدائی کام انتہائی حکمت اور رحمت کے تحت جاری وساری رہتے ہیں جس طرح سلسلہ شب وروز انسان کی امید بند ھا تا ہے اور ہر نیا سال اپنے ساتھ موسم بہار اور موسم گرما کی حرارت کی امید لئے آتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی کا مایوس کن دور بھی مختصر ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والا دور ایک فرد اور قوم کی زندگی میں خوشی ومسرت کا دور ہوتا ہے ۔

سلسلہ شب وروز جس کے پیچھے خدائی حکمت کارفرما ہوتی ہے ایمان اور بصیرت والوں کے لئے خوف یا مایوسیت کا باعث نہیں ہے بلکہ نیک دل اور بصیرت رکھنے والوں کے لئے مسلسل غور وفکر یا د الٰہی اور اس کا شکر ادا کرنے کا موجب ہے جس طرح دن کی تخلیق رات میں ہوتی ہے جس طرح موسم بہار موسم خزاں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان کی زندگی کی تطہیر اس کی پختگی اور پابندی اور ثمر آوری بھی اس سلسلہ شب وروز کے دوران ہوتی ہے۔ اسی طرح شب وروز کے چکر میں انسان کی خداداد صلاحیتیں اس کی لیاقت اور کمال کی صورت میں نمو دار ہوتی ہیں سائنس کی مختلف شاخیں گلاب کے پھول کی طرح کھلتی چلی جاتی ہیں اور وقت کی کھڈ ی پر ٹیکنالوجی کی بنائی کرتی ہیں اور یوں انسان کا پہلے سے طے شدہ انجام کی جانب سفر جاری رہتا ہے ۔

اس عمومی نقشے کے بیان کے بعد جوکہ نہ تو ذاتی ہے اور نہ ہی موضوعی بلکہ انسانی تاریخ کی ایک معروضی حقیقت ہے ‘یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سرما یا سرمائی حالات کو جوکہ رنج وغم اور بیماری سے تشبیہ رکھتے ہیں۔ خوش آمدید کہتے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ عارضہ اور بیماری بالآخر ہمارے جسم کی مزا حمت کو بڑھاتے ہیں ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو تقویت دیتے ہیں اور جس کے نتیجے میں طبعی شعبے میں ترقی کا عمل آگے بڑھتا ہے اس کے باوجود یہ باعث آزار اور تکلیف ہے مذہبی اور اخلاقی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے گناہوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے جو کہ زمین اور آسمان کو ہلا سکتے ہیں ایسے اعمال جن کا کرنا حرام ہے اور جنہیں قانون اور اخلاقیات بھی سخت نا پسند کرتے ہیں ۔اگر چہ کہ یہ تباہی وبربادی انسان کو اپنی خطاﺅں اور لا پرواہی کا احساس دلانے کے لئے بیدار کرتی ہے اور جس کی وجہ سے ارضیات ‘تعمیرات ‘انجینئرنگ اور متعلقہ احتیاطی تدابیر کے شعبے میں ترقی ہوتی ہے ۔ باوجود اس کے ایمان والے اپنی کھوئی ہوئی میراث پھر سے حاصل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خیرات اور صدقات دینے لگتے ہیں اور حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اس کے باوجود یہ انسانیت کے لئے خاصی تباہ کن ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گر جا گھر اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔“ (22:40
با الفاظ دیگر اللہ کی ذات کی پہچان اس قدر کمزور ہوگی کہ مرد وزن جوکہ خود سے زیادہ طاقتور چیز کو تسلیم کرنے پر مائل نہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ آخرت میں ان سے ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہوگی ۔ مکمل طور پر بھٹک جائیں گے اور دنیا کو نا قابل رہائش مقام بنادیں گے ۔ قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہوتا ہے:

”کیاعجب ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اوروہ تمھارے حق میں بہتر ہو اورکیا عجبکہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اوروہ تمھارے حق میں باعث خرابی ہو ۔ (2:216
مثلاً جنگ جائز ہوسکتی ہے ۔ باوجود اس کے بعض جنگیں جو اصولوں کی خاطر حالات کی بہتری کے لئے لڑی جاتی ہیں ان کے فوائد ہوسکتے ہیں لیکن ان کی خواہش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جنگ سے بہر حال نقصان ہوتا ہے یہ اپنے پیچھے تباہ وبربادمکانات ‘خستہ حال خاندان اور روتے پیتے یتیم اور بیوائیں چھوڑ جاتی ہیں ۔

تاہم زندگی کے حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں نظر انداز کرنا چاہئے بنی نوع انسان اسمائے حسنیٰ اور صفات ربانی کا آئینہ ہے اسی لئے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو اس کے نام پر خوشگوار جگہ بنائے اگر بنی نوع انسان خیر وشر کے پیچھے کار فرما حکمت اور مقصد کو نہ سمجھ پائے جو کہ خالق کائنات کی طرف سے ہے تو پھر یہ مایوسیت اور قنوطیت سے دامن نہیں چھڑا سکتا وجودیت کے لٹریچر کے مطابق زندگی کے لئے بے معنی عمل ‘وجود ایک بے مقصد ویرانی بن جاتی ہے خود کشی ایک مستحسن عمل اور موت ایک ناگزیر حقیقت بن جاتی ہے ۔

بنی نوع انسان کی بنیادی فطرت
اس موضوع کے متعلق بنیادی معاملات ذکرکرنے کے بعدہم تیسرے ہزاریئے کی طرف چلتے ہیں انسانی تاریخ کا آغاز دو انسانوں سے ہوا جن میں انسانیت کا جوہر چھپا ہوا تھا ۔

اس دور کا انسان جو کہ اصل ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا آرام اور سکون میں تھا اور بعد میں آنے والے خاندان بھی مزے اور سکون کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ وہ ایک متحد معاشرے کی حیثیت سے زندگی گزاررہے تھے اور ان کے خیالات میں بھی یکسانیت تھی ۔

اس روز سے انسانیت کا جو ہر نہیں بدلا اور اسی طرح رہے گا ۔ ان کی زندگی کی اطرافی حقیقتیں ان کا جسمانی ڈھانچہ ان کے نمایاں خصائص ‘مقام پیدائش اور موت، بنیادی ضروریات ‘پیدائشی خواص اور اس کے علاوہ گرد وپیش کا فطری ماحول نہیں بدلا اس کے لئے بعض بنیادی اور نا قابل تبدل حقائق اور اقدار کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے زندگی کے ثانوی حقائق کی بنیاد پر بنیادی حقائق اور اقدار ہوتی ہیں ‘ تاکہ آسمان کے سائے تلے موجود یہ دنیا ارض جنت بن جائے ۔

اوپر ہم نے چند ایسے اشوز کا ذکر کیا جو کہ ضرر رساں اور نا خوشگوار ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح انسان کی بعض عادات پہلی نظر میں بری نظر آتی ہیں مثلاً نفرت ‘حسد ‘عداوت ‘ غلبہ پانے کی خواہش ‘لالچ ‘غصہ اور انا پرستی ‘ ایک انسان کے اندر بعض دیگر پیدائشی جبلتیں اور ضروریات ہوسکتی ہیں جو کہ اس کی دنیاوی زندگی کے تسلسل کو ممکن بناتی ہیں مثلاً خورد ونوش کی احیتاج اور ہوس اور غصے کی جبلت ‘تمام انسانی جبلتوں ‘ضروریات اور خواہشات کی تربیت ورہنمائی ان ابدی آفاقی اقدار کی سمت میں ہونی چاہئے جن کا تعلق انسانیت کے بنیادی پہلوﺅں کے ساتھ ہے اس طرح خورد ونوش کی احتیاج اور ہوس اور غصے کی جبلت کو قابو میں لایا جاسکتا ہے اور اسے مکمل اچھائی یا نسبتاً اچھا بنایا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح اناپرستی اور نفرت کو بھی اچھی عادات کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ حسد اور عداوت کو بھی اچھے کاموں میں مسابقت کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ۔ نفرت کی جبلت کو شیطان سے نفرت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جو کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور انہی جذبات کو بذات خود نفرت اور عداوت کی طرف بھی موڑا جاسکتا ہے ۔ ہوس اور غصے کی جبلت انسان کو اچھے کاموں کی انتھک ادائیگی پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ انا پرستی انسان کو اس کے نفس کی پہچان کرواسکتی ہے اور اس طرح انسان اس کی تربیت کرتے ہوئے اسے پاک صاف کرسکتا ہے ۔

تمام منفی احساسات اور جذبات کو جدوجہد کے ذریعے نیکی اور بھلائی میں بدلا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح انسان اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچ سکتا ہے ۔ اور یوں انسان ایک عام انسان سے حقیقی اور کامل انسان بن سکتا ہے ۔

اور اس طرح خود کو تخلیق کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کرسکتا ہے ۔ ان حقائق کے باوجود انسانی زندگی کے حقائق ان رہنما اصولوں کی پیروی نہیں کرتے ۔ منفی جذبات اور عادات انسان کو شکست سے دوچار کردیتے ہیں اور انسان اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کا سبق سکھانے والے مذاہب کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مثبت جذبات کو بھی روند دیا جاتا ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر انسان کی زندگی اندرونی کشمکش اور اس کے اظہار سے عبارت ہے ۔ کشمکش کی یہی لہریں ایک فرد کی ذاتی زندگی ‘معاشرے اور تاریخ کو جنگ وجدل ‘ظلم وجبر اور استبداد کا میدان بنادیتی ہیں اور اسکے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا انسان خود ہے ۔

مرد وزن دونوں کو اپنے اعمال کا ثمر ملتا ہے ۔ تاریخ کے پہلے دور میں انسان اتفاق کے ساتھ ایک معاشرے میں خوش وخرم زندگی بسر کررہا تھا جس کے ممبران خوشی اور غم میں شریک ہوتے لیکن اس کے بعد انسان نے اپنی گردن حسد ‘لالچ اور ایک دوسرے کے استحصال کے زنگ آلود جوے میں پھنسالی ۔ اس کے نتیجے میں قابیل نے ہا بیل کوقتل کردیا اس طرح انسانیت نفاق کی راہ پرچل پڑی۔ دنوں ‘موسموں اور سالوں کی طرح ہزار یئے یکے بعد دیگرے چلے آتے ہیں اور یہ چکر بدستور جاری ہے ۔

دوسرا ہزاریہ

دوسرے ہزاریئے کا آغاز صلیبی جنگوں سے ہوا اور اس کے بعد منگولوں نے مسلم دنیا پر چڑھائی کردی ۔ جو کہ اس وقت دنیا اور تاریخ کا دل تھی ۔ تمام تر تباہی اور بربادی کے باوجود اور مذہب اور بعض اوقات معاشی ‘سیاسی اور فوجی بر تری کے نام پر ہونے والے جرائم کے باوجود اس ہزاریئے نے مشرقی تہذیب کو اپنے عروج پر دیکھا جوالٰہیاتی آفاقی اور دیر پا اقدار پر قائم تھی اور مغربی تہذیب کی بنیاد طبیعاتی سائنس پر تھی۔ اس دوران کئی خطے دریافت ہوئے اور کئی سائنسی ایجادات ہوئیں البتہ مشرقی اور مغربی تہذیبیں ایک دوسرے سے الگ اپنی اپنی جگہ قائم تھیں ۔یہ دوری جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھی اس کی وجہ اول الذکر سائنس سے دور ہونا اور ثانی الذکر کی روحانیت الہات اور دیر پا اقدار سے دوری تھی اس کے نتیجے میں اس ہزاریئے کی آخری صدی میں وہ تباہی اور بربادی دیکھنے میں آئی جسکا تصور نا ممکن ہے۔ انسان کی رعونت اور انا پرستی کی بنا پر جس کا سبب اس کی کامیابیاں تھیں مرد وزن کو پوری دنیا میں نو آبادیاتی نظام ‘بڑے پیمانے پر خون ریزی ‘خونی انقلابات اور خونی جنگوں ‘نسلی تضادات اورشدید سماجی اور مالی نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے آہنی پردوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا جس میں انسانی آزادی ‘وقار اور اہلیت کی نفی کی گئی ۔

کسی حد تک یہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناءپر ہوا اور اس کے علاوہ بائیبل میں موجود پیش گوئیاں تھیں جس کی وجہ سے مغرب میں بہت سے لوگ اس خوف میں مبتلا تھے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دی جائے گی ۔ یہ لوگ نئے ہزاریئے کے حوالے سے خاصے نا امید اور متفکر ہیں ۔

ہماری توقعات
جدید ذرائع مواصلات اور ذرائع آمدورفت نے دنیا کو ایک بڑے گلوبل ولیج میں بدل دیا ہے ،لہٰذا وہ لوگ جن کے خیال میں کسی بھی ملک میں ہونے والی اہم اور بنیادی تبدیلیاں صرف اس ملک تک محدود رہیں گی در اصل حقائق سے بے خبر ہیں ۔ یہ باہمی تعلقات کا زمانہ ہے آج لوگوں کا ایک دوسرے پر زیادہ انحصار ہے اور ایک دوسرے کی زیادہ ضرورت ہے جس کی بنا پر باہمی تعلقات میں قربت آرہی ہے۔

تعلقات کا یہ جال جو کہ ظالمانہ نو آبادیاتی نظام کے دور کو پیچھے چھوڑ آیا ہے باہمی مفادات پر قائم ہے اور کمزور فریق کے لئے فائدہ مند ہے ۔ مزید برآں ٹیکنالوجی اور خاص کر ڈیجیٹل الیکٹرونک ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے معلومات کا تبادلہ اور ترسیل بتدریج ترقی کررہی ہے اس کے نتیجے میں فرد نے آگے بڑھ کر اس امر کو نا گزیر بنادیا ہے کہ انفرادی حقوق کا احترام کرنے والی جمہوری حکومتیں مطلق العنان حکومتوں کو ختم کردیں ۔

اس لحاظ سے فرد دیگر افراد کے مقابلے میں اپنی حیثیت رکھتا ہے ۔ فرد کے حقوق معاشرے کے لئے قربان نہیں کئے جاسکتے اور سماجی حقوق کا انحصار شخصی حقوق پر ہے یہی وجہ تھی کہ جنگ سے نڈھال مغربی معاشروں نے الہامی مذاہب میں موجود انسانی حقوق اور آزادی پر توجہ دی۔ تمام تر تعلقات میں انہیں فوقیت حاصل ہے ۔اان تمام حقوق میں زندگی کا حق جو کہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے اور لے سکتا ہے سر فہرست ہے۔ اس حق کی اہمیت جو کہ ایک بنیادی قرآنی اصول ہے قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے ۔

" جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ۔“ (5:32

دیگر حقوق میں مذہب اور عقیدے کا حق آزادی اظہار کا حق ‘ املاک کی ملکیت کا حق اور ایک انسان کی چار دیواری کا حق ‘ شادی اور اولاد پیدا کرنے کا حق ‘بات چیت اور سفر کا حق ‘اور تعلیم حاصل کرنے کی آزادی کا حق شامل ہیں ۔

اسلامی فقہ کے اصول اور چند دیگر حقوق پر قائم ہے اور جنہیں تمام جدید قانونی نظام قبول کرتے ہیں مثلاً نسل کَشی اور اپنی فکری صلاحیتوں کا استعمال اور بلا تفریق رنگ ونسل انسانی برابری پر یقین اور رنگ ونسل ‘ولسانی امتیاز کی نفی یہ تمام چیزیں نئے ہزاریئے کے لازمی اجزا ہوں گے اور ہونے چاہئیں ۔

مجھے یقین ہے کہ نئے ہزاریئے کی دنیا زیادہ خوشحال ‘انصاف پر مبنی اور زیادہ محبت والی جگہ ہوگی اسلام عیسائیت اور یہودیت کی جڑیں ایک ہی ہیں۔ ان کے لوازمات بھی ایک ہیں اور ان کی آبیاری کا منبع بھی ایک ہے ۔ اگر چہ کہ کئی صدیوں تک یہ مذاہب ایک دوسرے کے حریف رہے لیکن ان کی مشترک باتیں اور مخلوقات عالم کے لئے ایک خوشحال اور خوشگوار دنیا کی تعمیر کی مشترکہ ذمہ داری بین المذاہب مکالمہ کو لازمی بناتی ہیں ۔

اس ڈائیلاگ کا دائرہ ایشیائی مذاہب اور دیگر علاقوں تک وسیع ہوگیا ہے اور نتائج بہت مثبت نکلے ہیں

جب کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ ڈائیلاگ ایک ناگزیر عمل کے طور پر شروع ہوں گے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا طریقہ سمجھ میں آجائے گا ۔

گزشتہ قوموں نے ایک ایسی تلخ کشمکش دیکھی جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھی یعنی سائنس بمقابلہ مذہب اس کشمکش نے دہریت اور مادہ پرستی کو پروان چڑھایا اور اس نے کسی بھی مذہب سے زیادہ عیسائیت کو متاثر کیا۔ سائنس مذہب کے ضد نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد فطرت اور انسانیت کو سمجھنا ہے اور دونوں صفات ربانی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی قدرت کے مظہر ہیں ۔ مذہب کا منبع آسمانی کتابیں صحائف ہیں جو کہ اصل میں کلام اللہ ہیں ان میں قرآن ‘انجیل اور تورات اور دیگر صحائف شامل ہیں ۔ عیسائی اور مسلمان علماءکا شکریہ کہ جن کی کاوشوں کی بدولت یوں دکھائی دینے لگا ہے کہ چند ہی صدیوں میں مذہب اور سائنس کا تصادم ختم ہوجائے گایا کم از کم اس تصور کے غلط ہونے کا احساس پیدا ہوجائے گا۔

اس تصادم کے خاتمے سے ایک نئے طرز کی تعلیم سامنے آئے گی جس میں سائنس اور مذہب باہم پیوستہ ہوں گے اور اخلاقیات اور روحانیت کی تعلیم سے صحیح معنوں میں روشن فکر انسان جنم لیں گے جن کے قلب مذہبی سائنسوں اور روحانیت سے منور ہوں گے ۔ ان کے ذہن مثبت سائنسوں سے روشن ہوں گے جن میں تمام انسانی خوبیاں اور اقدار موجود ہوں گی جو اپنے دور کے سماجی معاشی اور سیاسی حالات سے آگاہ ہوں گے ۔

ہماری دنیا اپنے خاتمے سے قبل ایک شاندار دور بہار دیکھے گی اس دور بہار میں امیر اور غریب کے مابین فاصلہ کم ہوجائے گا ۔ دنیا کی دولت اور وسائل کی تقسیم انسان کی محنت اس کے سر مائے اور اس کی ضروریات کے مطابق ہوگی جہاں رنگ ونسل زبان اور عمومی تصور کی بنیاد پر امتیاز کا خاتمہ ہوگا اوربنیادی انسانی حقوق اورانسانی آزادی محفوظ ہوگی۔ افراد آگے بڑھ کر اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو سمجھ کر محبت ‘علم اور ایمان کے بال وپر کی طاقت سے پرواز کرتے ہوئے سر فرازی اور بلندی پالیں گے ۔ اس دور بہار میں جب موجودوہ سائنسی اورفنی ترقی کا جائزہ لیا جائے گا تو آج کے دور کی ترقی گھٹنوں کے بل چلتے بچے کا عہد طفولیت دکھائی دے گی ۔ انسان خلائی سیر اس طرح کرے گا جس طرح بیرون ملک کا سفر کیا جاتا ہے پیار ومحبت کا درس دینے والے وہ لوگ جن کے پاس بغض وکینہ کے لئے وقت نہیں ہوتا اپنا عزم دوسری دنیاﺅں میں لے جائیں گے ۔

جی ہاں اس دور بہار کی بنیاد محبت ‘ہمدردی ‘خداترسی ‘ڈائیلاگ ایک دوسرے کو قبول کرے باہمی احترام ‘انصاف اور حقوق پر قائم ہوگی ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب انسانیت اپنے اصلی جوہر کو پالے گی اچھائی اور بھلائی نیکی اور پاکبازی دنیا کا خاصہ ہوگی خواہ کچھ بھی ہودنیا اس راہ پر جلد یا بدیر آہی جائے گی کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا ۔

ہم اس انتہائی مہربان ذات سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری امیدوں اور توقعات کو دم توڑنے سے بچا لے۔

خصوصی تشکُر: فتح اللہ گلن

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads