Dec 24, 2014

قضا و قدر پر راضی رہنے والی ماں

اس واقعہ کے راوی ایک بڑے ہسپتال کے شعبہ امراض قلب کے سربراہ ہیں، وہ اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں

یہ منگل کا دن تھا جب میں ڈھائی سال کے ایک بچے کے آپریشن سے فارغ ہوا۔ اگلے روز اس بچے کی صحت قدرے بہتر تھی اور وہ کھیل رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی والدہ بیٹھی کافی مطمئن لگ رہی تھی۔ میں نے بچے کا چیک اپ کیا اور مجھے بھی اطمینان ہوا۔ جمعرات کے روز ٹھیک سوا گیارہ بجے نرس دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی: ڈاکٹر… ڈاکٹر! اس بچے کی سانس رک گئی ہے۔ لگتا ہے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں فوراً سارے کام چھوڑ کر اس بچے کی طرف دوڑا۔ میں نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور اسے آہستہ آہستہ ملنا شروع کیا۔ کم و بیش 45 منٹ تک میں اس کے دل کا مساج کرتا رہا۔ اس دوران اس کے دل کی دھڑکن بند رہی۔ مگر اللہ رب العزت نے اسے نئی زندگی عطا کی اور اس کے دل نے آہستہ آہستہ حرکت کرنا شروع کر دی۔ میں نے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور مجھے جب مکمل تسلی ہو گئی تو اس بچے کے لواحقین کو اس کی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے روانہ ہوگیا۔

اگر مریض کی حالت زیادہ خراب ہو اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو تو والدین کو اس کے بارے میں بتلانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ دل پر پتھر رکھ کر والدین کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہوتا ہے کہ والدین کو معلوم ہو کہ ان کے پیارے کی کیا حالت ہے۔ میں نے بچے کے والد کے بارے میں معلوم کیا مگر اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ البتہ بچے کی والدہ موجود تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ بچے کی حرکت قلب بند ہونے کا سبب یہ تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے دماغ کی طبعی موت واقع ہو چکی ہے۔

قارئین کرام! اگر کسی ماں کو بتایا جائے کہ اس بچے کے دماغ کی طبعی موت واقع ہو چکی ہے تو اس کا کیا ردعمل ہوگا۔ یقینا رونا، چیخ و پکار اور شوروغل؟ مگر یہ عظیم خاتون نہ تو چیخی، نہ روئی اور نہ اس نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کی وجہ سے میرے بیٹے کی حالت سخت خراب ہو گئی ہے۔ بلکہ اس نے نہایت صبر و تحمل سے میری بات سنی اور کہنے لگی: الحمدللہ! پھر مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔

بچہ انتہائی نگہداشت کے کمرے میں تھا۔ دس دن کے بعد بچے نے تھوڑی سی حرکت کی تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بچے کے دماغ کی حالت معقول ہے۔ بارہ دن کے بعد بچے کے دل نے پھر حرکت کرنا چھوڑ دی۔ ہم نے پھر اس کے دل پر مساج کرنا شروع کر دیا۔ 45 منٹ تک ہم دل کو ملتے رہے مگر اس نے حرکت نہ کی۔ میں نے اس کی والدہ سے کہا: اب امید کی گھڑیاں ختم ہو رہی ہیں۔ بچے کی والدہ نے سنا تو بجائے رونے دھونے کے کہنے لگی: الحمد للہ! اور پھر آسمان کی طرف منہ کر کے کہنے لگی:

’’اللھم ان کان فی شفائہ خیر فاشفہ یارب‘‘
’’اے اللہ! اگر اس بچے کی تندرستی میں خیر ہے تو میرے رب اسے شفاء عطا فرما۔‘‘

یکایک ایک معجزہ رونما ہوا کہ اس بچے کے دل نے ایک بار پھر حرکت شروع کر دی۔ ایک دفعہ پھر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جہاں تک اولاد کے معاملے میں ماں کی خوشی کا تعلق ہے اس کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔

وقت گزرتا چلا گیا۔ بچے پر کئی طرح کی کیفیات آتی رہیں۔ اس کی حالت بہتر ہو جاتی اور کبھی کافی خراب ہونے لگتی مگر اس کی والدہ نہایت مطمئن نظر آتی۔ اس کا اکثر وقت دعا میں گزرتا۔

ساڑھے تین ماہ گزر گئے اور بچہ مسلسل انتہائی نگہداشت کے کمرہ میں ہی رہا۔ اس کے سر میں ورم ہوگیا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم مسلسل علاج کرتی رہی مگر دن بدن بچے کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق بچے کا بچنا محال تھا۔ چونکہ میں ICU کا نگران تھا۔ لہٰذا میں نے بچے کی والدہ کو ذہنی طور پر تیارکرنا شروع کیا اور اسے بتایا کہ اب تمہارے بیٹے کا زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ اگر اس کو دل کا دورہ نہیں بھی پڑتا تو بھی اس کے سر میں ورم ہو چکا ہے جس سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔

اس خاتون نے پھر الحمد للہ کہا اور چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس خاتون کا اللہ رب العزت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس کے یہ الفاظ کہ ’’اے اللہ! اگر اس بچے کی تندرستی میں خیر ہے تو میرے رب! اسے شفا عطا فرما۔‘‘ اس کے ایمان باللہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے۔

محترم قارئین! اس بچے کے مرض کی کہانی خاصی لمبی ہے مگر ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ طبی نقطہ نظر سے اس بچے کی موت ایک سے زیادہ مرتبہ واقع ہو چکی تھی لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس بچے کی والدہ نہایت صابرہ اور شاکرہ خاتون ہے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ بچے کے گردوں نے کام کرنا بند کردیا۔ اب ہمارا یہی تجزیہ تھا کہ اس بار تو یہ نہیں بچے گا۔ میں نے پھر ہمت کر کے اس کی والدہ کو بتایا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح ’’الحمد للہ‘‘ کہا اور چلی گئی۔
یہ بچہ چار ماہ تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا کہ اچانک ایک دن بچے کو عجیب و غریب مرض لاحق ہوگیا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا خطرناک مرض نہیں دیکھا۔ ہم ڈاکٹر لوگ بہت پریشان تھے، اس کے سینے پر سوجن ہوگئی تھی۔ ہم نے سارے جتن کر ڈالے مگر بچے کی حالت بتدریج خراب ہوتی چلی گئی۔ میں نے اس کی والدہ سے کہا: اب تمہارے بیٹے کے زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کی والدہ نے حسب سابق ’’الحمدللہ‘‘ کہا اور کہنے لگی: ’’اے میرے رب! اگر اس بچے کے زندہ رہنے میں خیر ہے تو اسے زندگی عطا فرما۔‘‘ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ اب بچے نے بولنا، سننا اور دیکھنا بھی بند کر دیا، وہ حرکت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ مگر اس کی صابرہ والدہ بچے کے ساتھ چپکی ہوئی اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں کر رہی تھی۔

قارئین کرام! کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کی والدہ کے پاس ایک ہی سہارا تھا اور وہ تھا اپنے مولا سے دعا کا سہارا۔ بالآخر اس کی التجائیں رنگ لے آئیں۔

کم و بیش آٹھ ماہ کی شدید بیماری کے بعد ایک دن ایسا آیا کہ وہ بچہ بالکل تندرست ہوگیا اور اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال میں دوڑ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسے کوئی بیماری ہے۔
ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ ایک دن میں ہسپتال میں تھا کہ ہمارے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ کمرہ انتظار میں ایک آدمی، اس کی بیوی اور دو بچے بیٹھے ہیں اور وہ آپ سے ملنے کے خواہاں ہیں۔

میں نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: مجھے معلوم نہیں۔ میں ان کو ملنے گیا تو انہیں دیکھ کر پہچان گیا کہ وہی بچہ ہے جس کا ہم علاج کرتے رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ بچہ بالکل تندرست اور توانا ہے۔ بالکل خوبصورت پھول کی طرح، شوخ، چیخل ہر قسم کی بیماری سے پاک، والدین کے پاس کھیل رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا نومولود بھائی بھی ہے۔ اس کے والدین نہایت محبت سے ملے۔ وہ میرا شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔ میں نے نومولود کی طرف اشارہ کر کے مزاحاً اس کے والد سے پوچھا کہ اس کا اولاد میں کون سا نمبر ہے۔ 13 یا 14 نمبر میں خود ہی گنتا چلا گیا۔

میں نے باپ کی طرف دیکھا، اس نے میری طرف گہری نظروں سے دیکھا اور پھر کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! یہ میرا دوسرا بیٹا ہے اور بڑا بیٹا وہی ہے جس کا آپ علاج کرتے رہے ہیں۔ وہ میری شادی کے 17 سال کے انتظار کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میں اسے علیحدہ کمرے میں لے گیا اور کہا کہ دوست! میں نے اپنی تمام زندگی میں تمہاری بیوی سے زیادہ صابرہ اور شاکرہ عورت کوئی نہیں دیکھی۔ سترہ سال کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاں پھول کھلایا مگر وہ بچہ جس قسم کے امراض میں مبتلا تھا اور اس عورت نے جس محبت، محنت اور صبر سے اس بچے کی تیمارداری کی اس کی مثال بڑی مشکل سے ملتی ہے۔

اس کے خاوند نے میرا بازو تھام لیا اور کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! میری اس خاتون سے شادی 19 سال قبل ہوئی تھی۔ اس خاتون نے شرعی عذر کے بغیر کبھی نماز تہجد ترک نہیں کی۔ میں نے کبھی اسے جھوٹ بولتے، شغل و مذاق کرتے یا کسی کو بُرا بھلا کہتے نہیں سنا۔ میں جب بھی گھر جاتا یہ ہمیشہ نہایت خوش دلی سے میرا استقبال کرتی۔ اس کی زبان پر ہر وقت میرے لیے اور گھر کی خیر و برکت کے لیے دعائیں ہوتیں۔ ایک اتنی محبت کرنے والی خاتون، اللہ کا خوف رکھنے والی اس کے سامنے جھکنے والی اور رو رو کر دعائیں مانگنے والی خاتون پر میں سوتن کیسے لاتا۔ میں اس کا دل دکھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔

شوہر نے میرے سوال کا جواب خود ہی دے دیا اور میں ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔

تحریر: جناب مولانا عبدالمالک مجاہد

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads