Dec 18, 2014

حضور اکرم ﷺ کے طائف کے سفر کا قصہ

 نبوت مل جانے کے بعد 9برس تک نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتےرہے،لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہوگئی تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونےکےآپ کی مدد کرتے تھے ۔ اکثر کفارمکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ ؓ کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے ۔ مذاق اڑاتےتھےاورجوہوسکتا تھا اس سے درگذر نہ کرتے تھے ۔ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب بھی انہی نیک دل لوگوں میں تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضور ﷺ کی ہر قسم کی مدد فرماتے تھے ۔
دسویں سال میں جب ابو طالِب کا بھی انتقال ہوگیا تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کھلے مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانےکاموقع ملا۔ حضور اقدس ﷺ اس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ وہاں قبیلہ ثقیف کی بڑی جماعت ہے، اگر وہ قبیلہ مسلما ن ہو جائے تو مسلمانوں کو ان تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائے ۔ وہاں پہنچ کرقبیلہ کے تین سرداروں سےجوبڑےدرجے کے سمجھے جاتے تھے گفتگو فرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بلایااور اللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا ۔ مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ دین کی بات کو قبول کرتے یا کم سے کم عرب کی مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نووارد مہمان
کی خاطرمدارات کرتے صاف جواب دے دیا اور نہایت بے رخی اور بد اَخلاقی سے پیش آئے۔
اُن لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قیام فرمالیں جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات کی تھی کہ وہ شریف ہوں گے اور مہذب گفتگوکریں گے اُن میں سے ایک شخص بولا کہ اوہو آپ ہی کو اللہ نے نبی بناکر بھیجا ہے۔ دوسرا بولا کہ اللہ کو تمہارے سوا کوئی اور ملتا ہی نہیں تھاجس کو رسول بناکر بھیجتے۔ تیسرے نے کہا کہ میں تجھ سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لئے کہ اگر تو واقعی نبی ہے جیسا کہ دعویٰ ہےتوتیری بات سے انکار کردینا مصیبت سے خالی نہیں ، اور اگر جھوٹ ہے تو میں ایسی شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد ان لوگوں سے نہ امید ہو کر حضورِاکرم ﷺ نے اور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا کہ آپ ﷺ تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھے مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا۔ بلکہ بجائے قبول کرنے کے حضور ﷺ سے کہا کہ ہمارے شہر سے فورًا نکل جاؤ۔ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہو وہاں چلے جاؤ۔حضورِاکرم ﷺ جب ان سے بالکل مایوس ہو کر واپس ہونے لگے تو ان لوگوں نے شہر کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپ ﷺکا مذاق اُڑائیں ، تالیاں پیٹیں ، پتھر ماریں ، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئے ۔ حضورِ اقدس ﷺ اسی حالت میں واپس ہوئے جب راستہ میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان ہوا تو حضور ﷺ نے یہ دُعا مانگی:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَ اَنْتَ رَبِّی اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ، اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ وَ لٰکِنْ عَا فِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَ جْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰاتُ وَ صَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنْزِلَ بِیْ غَضَبکَ اَوْ یَحُلَّمیں عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِک۔ فی سیرۃ ابن ھشام قلت: و اختلف الروایات فی الفاظ الدعاء کما فی قرۃ العیون۔
’’اے اللہ تجھی سے شکایت کرتا ہوں میں اپنی کمزوری اور بیکسی کی اور لوگوں میں ذلت اورسوائی کی ۔ اے ار حم الراحمین تو ہی ضعفاء کارب ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے، تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔ کسی اجنبی بیگانہ کے جو مجھے دیکھ کر ترش رُو ہوتا ہے اور منہ چڑھاتاہے یاکہ کسی دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر قابو دیدیا۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ تیری حفاظت مجھے کافی ہے میں تیرے چہرہ کے اُس نورکے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اورجس سے دنیا اور آخرت کےسارے کام درست ہو جاتے ہیں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو تیری نارضگی کا اس وقت تک دورکرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو، نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوتمالک الملک کی شان قہاری کو اس پر جوش آنا ہی تھا کہ حضرت جبرئیل نے آکر سلام کیا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگوجو آپ سے ہوئی سنی اور اُن کے جوابات سنےاورایک فرشتہ کو جس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم دیں ، اس کے بعد اس فرشتہ نے سلام کیا اور عرض کیا کہ جو اِرشاد ہو میں اس کی تعمیل کروں اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا اور جو سزا آپ تجویز فرمائیں ۔ حضور ﷺ کی رحیم وکریم ذات نے جواب دیا کہ میں اللہ سے اس کی امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہوئے تو اُن کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ کی پرستش کریں اور اس کی عبادت کریں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads