نماز کے لے جو اعمال شريعت ميں مقرر کيے گئے ہيں وہ يہ ہيں
نماز کی ابتدارفع يدين سے ، يعنی دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھا کرکی جائے
قيام کيا جائے،
پھر رکوع كيا جائے،
پھر آدمی قومہ کے لئے کھڑا ہو،
پھر يکے بعد دیگرے دو سجد ے کئے جائيں،
ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت ميں نماز پڑھنے والا دو زانوہوکر قعدے کے لئے بيٹھے،
نماز ختم کرنا پيش نظر ہو تو اِسی قعدے کی حالت ميں منہ پھير کر نماز ختم کردی جائے۔
نماز کے يہ اعمال اجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہيں۔ نبی صلی اللہ عليہ وسلم کاارشاد ہے : ` صلوا کما رايتمونی اصلی` ٦٠؎ (نما ز اُس طرح پڑھو ، جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے ديکھتے ہو )۔ چنانچہ آپ يہ اعمال جس اہتمام کے ساتھ اور جس طريقے سے انجام ديتے تھے ، اُس کی تفصيلات ہم اِسی مقصد سے يہاں بيان کيے ديتے ہيں۔
رفع يدين
رفع يدين آپ کبھی تکبير کے ساتھ ، کبھی تکبیر سے پہلے اور کبھی تکبير کے بعد کرتے تھے۔ ٦١؎ ہاتھ کھلے ہوتے اور ہاتھو ں کی انگلياں نہ بالکل ملاتے اور نہ پوری طرح کھول کر الگ الگ رکھتے تھے۔ ٦٢؎ ہاتھ اِس طرح اٹھاتے کہ کبھی کندھوں کے سامنے اور کبھی کانوں کے اوپر کے حصے تک آجاتے تھے۔ ٦٣؎
روايتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ رفع يدين بعض موقعوں پر آپ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی کرتے تھے۔ ٦٤؎ اِسی طرح کبھی تيسری رکعت سے اٹھتے وقت ،٦٥؎ اور کبھی سجدے ميں جاتے اور اُس سے اٹھتے ہوئے بھی کرليتے تھے۔ ٦٦؎
قيام
قيام ميں آپ سيدھے ٦٧؎ اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ ٦٨؎ ہاتھ اِس طرح باندھتے کہ دائيں ہاتھ کا کچھ حصہ بائيں ہاتھ کی پشت پر ، کچھ حصہ پہنچے پر اور کچھ کلائی پر ہوتا تھا۔ ٦٩؎ بایاں ہاتھ دائيں پر رکھ کر قيام کرنے سے آپ نے لو گو ں کومنع فرمايا ہے۔ ٧٠؎
بعض روايتو ں ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے سينے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے۔ ٧١؎ قيام کی حالت ميں ناف سے اوپر ہاتھ جہاں بھی باندھے جائيں گے ، اُس کے لئے يہ تعبير اختيار کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اِس سے يہ لازم نہيں آتا کہ آپ اپنے ہاتھ ، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہيں ، بالکل چھاتی پر باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔
رکوع
رکوع ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم ہتھيلياں اِس طرح گھٹنوں پر رکھتے کہ لگتا تھا اُنھيں پکڑے ہوئے ہيں۔ ٧٢؎ انگلياں گھٹنوں کے نيچے اورکھلی ہوتی تھيں، ٧٣؎ کہنيوں کو پہلووں سے الگ ر کھتے، ٧٤؎ دونوں ہاتھ کمان کے چلے کی طرح تان ليتے، ٧٥؎ سرکو نہ جھکاتے ، نہ اوپر کو اٹھاتے ، بلکہ پيٹھ کے برابر کرليتے ٧٦؎ او رفرماتے تھے کہ لوگو، جس نے رکوع و سجود ميں اپنی کمر سيدھی نہيں رکھی ، اُس کی نماز نہيں ہے۔ ٧٧؎
قومہ
رکوع سے قومے کے لئے اٹھتے تو بالکل سيدھے کھڑے ہوجاتے ، يہاں تک کہ ريڑھ کی ہر ہڈی ٹھکانے پر آجاتی تھی۔ ٧٨؎ عام طور پريہ قيام رکوع کے برابر ہی ہوتا ، ليکن کبھی کبھی اتنی دير کھڑے رہتے کہ خيال ہوتا، غالباًبھول گئے ہيں۔٧٩؎ فرماتے تھے: اُس شخص کی نمازاللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات سے محروم ہے جو رکوع سے اٹھ کر اپنی کمر سيدھی نہيں کر تا اور سجدے ميں چلاجاتاہے۔ ٨٠؎
سجود
سجدے ميں جاتے تو انگليوں کو ملا کر ہتھيليا ں پھيلاديتے، ٨١؎ انگلياں قبلہ رو ٨٢؎ او ر ہاتھ کبھی کندھوں کے برابر، کبھی کانوں کے سامنے ٨٣؎ اور اتنے کھلے ہوئے ہوتے کہ بکری کا بچہ اُن کے نيچے سے نکل جائے۔ ٨٤؎ بازو پہلووں سے اِس طرح الگ رہتے تھے کہ پيچھے بيٹھے ہوئے لوگو ں کو آپ کی بغلوں کا گورا رنگ نظر آ جاتا تھا۔ ٨٥؎ پاؤں کھڑے رکھتے، ٨٦؎ اور پاؤں کی انگليوں کو موڑ کر قبلہ رو کر ليتے۔ ٨٧؎ ایک موقع پر ایڑیاں ملانے کا بھی ذکر ہوا ہے۔٨٨؎ فرماتے تھے کہ مجھے پيشانی اور ناک، دونوں ہاتھوں ، دونوں گھٹنوں اوردونو ں پاؤں کے پنجوں پر سجدہ کرنے کا حکم ديا گيا ہے۔ ٨٩؎
جلسہ
دوسجدوں کے درميان ميں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم الٹا پير بچھا کر اُس پر اطمينان کے ساتھ بيٹھ جاتے تھے۔٩٠؎ جلسے ، سجود اور قومے ميں آپ کے ٹھيرنے کا وقت کم وبيش يکساں ہوتا تھا۔ ٩١؎ تاہم قومے کی طرح جلسے ميں بھی کبھی اتنی دير بيٹھے رہتے کہ خيا ل ہوتا ، غالباًبھول گئے ہيں۔٩٢؎ پھر یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد بعض اوقات آپ سيدھے کھڑے ہوجانے کے بجاے بيٹھ جاتے اور اِس کے بعد اگلی رکعت کے لئے اٹھتے تھے۔ ٩٣؎
قعدہ
قعدے میں بالکل اُسی طرح بيٹھتے، جس طرح جلسے ميں الٹا پير بچھا کر اُس پر بيٹھتے تھے۔ ٩٤؎ سيدھا پاؤں کھڑا ہوتا، ٩٥؎ داياں ہاتھ پھيلاکر دائيں گھٹنے پر اور باياں ہاتھ بائيں گھٹنے پر رکھ ليتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ ٩٦؎ اِس کی صورت يہ ہوتی تھی کہ بيٹھنے کے بعد باقی انگلياںسميٹ ليتے ، انگوٹھا درميا ن کی انگلی پر رکھتے اور کبھی کبھی اِن دونوں سے حلقہ بنا ليتے تھے۔ ٩٧؎
نماز کی آخری رکعت ميں بعض موقعوں پر اِس طرح بھی بيٹھتے کہ باياں کولھا زمين پر رکھتے اور الٹے پير کو دائيں پير کی طرف باہر کو نکال ليتے تھے۔ ٩٨؎
نماز ختم کرنے کے لیے آپ بالعموم دائیں اور بائیں، دونوں طرف منہ پھیرتے تھے۔ ٩٩
نمازکے يہ تمام اعمال نبی صلی اللہ عليہ وسلم غايت درجہ اعتدال اور نہایت اطمينان کے ساتھ انجام ديتے او رلوگو ںکو اِسی کی تلقين فرماتے تھے۔ ١٠٠؎
۔۔۔۔۔۔۔
٦٠؎ بخاری ، رقم ٦٣١ ۔
٦١؎ بخاری ، رقم ٧٣٥،٧٣٧ ۔ مسلم ، رقم ٨٦٢،٨٦٤،٨٦٥۔
٦٢؎ ابوداؤد، رقم ٧٥٣۔ ابن خزیمہ ، رقم ٤٥٩۔ السنن الکبریٰ للبیہقی،رقم٢٣١٧۔
٦٣؎ بخاری ، رقم ٧٣٦ ، ٧٣٨ ۔ مسلم، رقم ٨٦٦۔ ابوداؤد، رقم ٧٢٦۔ نسائی ، رقم ٨٨١۔
٦٤؎ بخاری ، رقم ٧٣٧ ۔ مسلم ، رقم ٨٦١۔
٦٥؎ بخاری ، رقم ٧٣٩ ۔
٦٦؎ نسائی ، رقم ١٠٨٦۔
٦٧؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ۔ ابن ماجہ ، رقم ٨٦٢ ۔
٦٨؎ مسلم ، رقم ٨٩٦۔ ابوداؤد، رقم ٧٥٩ ۔
٦٩؎ نسائی ، رقم ٨٩٠۔
٧٠؎ ابوداؤد، رقم ٧٥٥۔
٧١؎ احمد ، رقم ٢١٤٦٠۔ ابوداؤد، رقم ٧٥٩۔
٧٢؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٤ ۔
٧٣؎ احمد ، رقم ١٠٤٢٠۔
٧٤؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔
٧٥؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤ ۔
٧٦؎ مسلم ، رقم ١١١٠۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠۔
٧٧؎ ابوداؤد، رقم ٨٥٥ ۔ نسائی، رقم ١٠٢٨۔ ابن ماجہ ، رقم ٨٧٠۔ ٨٧١۔
٧٨؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔
٧٩؎ بخاری ،رقم ٨٠٠۔ مسلم ، رقم ١٠٦٠۔
٨٠؎ احمد ، رقم ١٠٤٢٠۔
٨١؎ ابن ابی شیبہ، رقم ٢٧١٦۔
٨٢؎ ابن ابی شیبہ ، رقم٢٧١٢، ٢٧١٦۔
٨٣؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔نسائی ، رقم ٨٩٠۔
٨٤؎ مسلم ، رقم ١١٠٧۔
٨٥؎ مسلم ، رقم ١١٠٦،١١٠٨۔
٨٦؎ مسلم ، رقم ١٠٩٠۔
٨٧؎ بخاری ، رقم ٨٢٨۔
٨٨؎ ابن خزیمہ ، رقم٦٥٤۔ابن حبان، رقم ١٩٣٣۔
٨٩؎ بخاری ، رقم ٨١٢۔ مسلم ، رقم ١٠٩٩۔
٩٠؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ، ٧٣٤ ۔
٩١؎ بخاری ، رقم ٧٩٢ ۔ مسلم ، رقم ١٠٥٧۔
٩٢؎ بخاری ، رقم ٨٢١۔ مسلم ، رقم ١٠٦٠۔
٩٣؎ بخاری ، رقم ٨٢٣۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ۔
٩٤؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد، رقم ٧٣١ ، ٧٣٤ ۔
٩٥؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد ، رقم ٧٣٠ ، ٧٣٤ ۔
٩٦؎ مسلم ، رقم ١٣٠٧۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔
٩٧؎ مسلم ، رقم ١٣٠٩،١٣١٠،١٣١١۔ یہ اشارہ کس لیے تھا؟ اِس کی کوئی وضاحت چونکہ آپ نے نہیںفرمائی، اِس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ یہ آپ کے لیے خاص کوئی عمل تھا جسے سنت کی حیثیت سے جاری کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں تھا۔
٩٨؎ بخاری ، رقم ٨٢٨۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ، ٧٣١۔
٩٩؎ مسلم ، رقم ١٣١٥۔
١٠٠؎ بخاری ، رقم ٧٩٣،٦٦٦٧۔ مسلم، رقم ١١١٠۔
نماز کی ابتدارفع يدين سے ، يعنی دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھا کرکی جائے
قيام کيا جائے،
پھر رکوع كيا جائے،
پھر آدمی قومہ کے لئے کھڑا ہو،
پھر يکے بعد دیگرے دو سجد ے کئے جائيں،
ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت ميں نماز پڑھنے والا دو زانوہوکر قعدے کے لئے بيٹھے،
نماز ختم کرنا پيش نظر ہو تو اِسی قعدے کی حالت ميں منہ پھير کر نماز ختم کردی جائے۔
نماز کے يہ اعمال اجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہيں۔ نبی صلی اللہ عليہ وسلم کاارشاد ہے : ` صلوا کما رايتمونی اصلی` ٦٠؎ (نما ز اُس طرح پڑھو ، جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے ديکھتے ہو )۔ چنانچہ آپ يہ اعمال جس اہتمام کے ساتھ اور جس طريقے سے انجام ديتے تھے ، اُس کی تفصيلات ہم اِسی مقصد سے يہاں بيان کيے ديتے ہيں۔
رفع يدين
رفع يدين آپ کبھی تکبير کے ساتھ ، کبھی تکبیر سے پہلے اور کبھی تکبير کے بعد کرتے تھے۔ ٦١؎ ہاتھ کھلے ہوتے اور ہاتھو ں کی انگلياں نہ بالکل ملاتے اور نہ پوری طرح کھول کر الگ الگ رکھتے تھے۔ ٦٢؎ ہاتھ اِس طرح اٹھاتے کہ کبھی کندھوں کے سامنے اور کبھی کانوں کے اوپر کے حصے تک آجاتے تھے۔ ٦٣؎
روايتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ رفع يدين بعض موقعوں پر آپ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی کرتے تھے۔ ٦٤؎ اِسی طرح کبھی تيسری رکعت سے اٹھتے وقت ،٦٥؎ اور کبھی سجدے ميں جاتے اور اُس سے اٹھتے ہوئے بھی کرليتے تھے۔ ٦٦؎
قيام
قيام ميں آپ سيدھے ٦٧؎ اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ ٦٨؎ ہاتھ اِس طرح باندھتے کہ دائيں ہاتھ کا کچھ حصہ بائيں ہاتھ کی پشت پر ، کچھ حصہ پہنچے پر اور کچھ کلائی پر ہوتا تھا۔ ٦٩؎ بایاں ہاتھ دائيں پر رکھ کر قيام کرنے سے آپ نے لو گو ں کومنع فرمايا ہے۔ ٧٠؎
بعض روايتو ں ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے سينے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے۔ ٧١؎ قيام کی حالت ميں ناف سے اوپر ہاتھ جہاں بھی باندھے جائيں گے ، اُس کے لئے يہ تعبير اختيار کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اِس سے يہ لازم نہيں آتا کہ آپ اپنے ہاتھ ، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہيں ، بالکل چھاتی پر باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔
رکوع
رکوع ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم ہتھيلياں اِس طرح گھٹنوں پر رکھتے کہ لگتا تھا اُنھيں پکڑے ہوئے ہيں۔ ٧٢؎ انگلياں گھٹنوں کے نيچے اورکھلی ہوتی تھيں، ٧٣؎ کہنيوں کو پہلووں سے الگ ر کھتے، ٧٤؎ دونوں ہاتھ کمان کے چلے کی طرح تان ليتے، ٧٥؎ سرکو نہ جھکاتے ، نہ اوپر کو اٹھاتے ، بلکہ پيٹھ کے برابر کرليتے ٧٦؎ او رفرماتے تھے کہ لوگو، جس نے رکوع و سجود ميں اپنی کمر سيدھی نہيں رکھی ، اُس کی نماز نہيں ہے۔ ٧٧؎
قومہ
رکوع سے قومے کے لئے اٹھتے تو بالکل سيدھے کھڑے ہوجاتے ، يہاں تک کہ ريڑھ کی ہر ہڈی ٹھکانے پر آجاتی تھی۔ ٧٨؎ عام طور پريہ قيام رکوع کے برابر ہی ہوتا ، ليکن کبھی کبھی اتنی دير کھڑے رہتے کہ خيال ہوتا، غالباًبھول گئے ہيں۔٧٩؎ فرماتے تھے: اُس شخص کی نمازاللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات سے محروم ہے جو رکوع سے اٹھ کر اپنی کمر سيدھی نہيں کر تا اور سجدے ميں چلاجاتاہے۔ ٨٠؎
سجود
سجدے ميں جاتے تو انگليوں کو ملا کر ہتھيليا ں پھيلاديتے، ٨١؎ انگلياں قبلہ رو ٨٢؎ او ر ہاتھ کبھی کندھوں کے برابر، کبھی کانوں کے سامنے ٨٣؎ اور اتنے کھلے ہوئے ہوتے کہ بکری کا بچہ اُن کے نيچے سے نکل جائے۔ ٨٤؎ بازو پہلووں سے اِس طرح الگ رہتے تھے کہ پيچھے بيٹھے ہوئے لوگو ں کو آپ کی بغلوں کا گورا رنگ نظر آ جاتا تھا۔ ٨٥؎ پاؤں کھڑے رکھتے، ٨٦؎ اور پاؤں کی انگليوں کو موڑ کر قبلہ رو کر ليتے۔ ٨٧؎ ایک موقع پر ایڑیاں ملانے کا بھی ذکر ہوا ہے۔٨٨؎ فرماتے تھے کہ مجھے پيشانی اور ناک، دونوں ہاتھوں ، دونوں گھٹنوں اوردونو ں پاؤں کے پنجوں پر سجدہ کرنے کا حکم ديا گيا ہے۔ ٨٩؎
جلسہ
دوسجدوں کے درميان ميں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم الٹا پير بچھا کر اُس پر اطمينان کے ساتھ بيٹھ جاتے تھے۔٩٠؎ جلسے ، سجود اور قومے ميں آپ کے ٹھيرنے کا وقت کم وبيش يکساں ہوتا تھا۔ ٩١؎ تاہم قومے کی طرح جلسے ميں بھی کبھی اتنی دير بيٹھے رہتے کہ خيا ل ہوتا ، غالباًبھول گئے ہيں۔٩٢؎ پھر یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد بعض اوقات آپ سيدھے کھڑے ہوجانے کے بجاے بيٹھ جاتے اور اِس کے بعد اگلی رکعت کے لئے اٹھتے تھے۔ ٩٣؎
قعدہ
قعدے میں بالکل اُسی طرح بيٹھتے، جس طرح جلسے ميں الٹا پير بچھا کر اُس پر بيٹھتے تھے۔ ٩٤؎ سيدھا پاؤں کھڑا ہوتا، ٩٥؎ داياں ہاتھ پھيلاکر دائيں گھٹنے پر اور باياں ہاتھ بائيں گھٹنے پر رکھ ليتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ ٩٦؎ اِس کی صورت يہ ہوتی تھی کہ بيٹھنے کے بعد باقی انگلياںسميٹ ليتے ، انگوٹھا درميا ن کی انگلی پر رکھتے اور کبھی کبھی اِن دونوں سے حلقہ بنا ليتے تھے۔ ٩٧؎
نماز کی آخری رکعت ميں بعض موقعوں پر اِس طرح بھی بيٹھتے کہ باياں کولھا زمين پر رکھتے اور الٹے پير کو دائيں پير کی طرف باہر کو نکال ليتے تھے۔ ٩٨؎
نماز ختم کرنے کے لیے آپ بالعموم دائیں اور بائیں، دونوں طرف منہ پھیرتے تھے۔ ٩٩
نمازکے يہ تمام اعمال نبی صلی اللہ عليہ وسلم غايت درجہ اعتدال اور نہایت اطمينان کے ساتھ انجام ديتے او رلوگو ںکو اِسی کی تلقين فرماتے تھے۔ ١٠٠؎
۔۔۔۔۔۔۔
٦٠؎ بخاری ، رقم ٦٣١ ۔
٦١؎ بخاری ، رقم ٧٣٥،٧٣٧ ۔ مسلم ، رقم ٨٦٢،٨٦٤،٨٦٥۔
٦٢؎ ابوداؤد، رقم ٧٥٣۔ ابن خزیمہ ، رقم ٤٥٩۔ السنن الکبریٰ للبیہقی،رقم٢٣١٧۔
٦٣؎ بخاری ، رقم ٧٣٦ ، ٧٣٨ ۔ مسلم، رقم ٨٦٦۔ ابوداؤد، رقم ٧٢٦۔ نسائی ، رقم ٨٨١۔
٦٤؎ بخاری ، رقم ٧٣٧ ۔ مسلم ، رقم ٨٦١۔
٦٥؎ بخاری ، رقم ٧٣٩ ۔
٦٦؎ نسائی ، رقم ١٠٨٦۔
٦٧؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ۔ ابن ماجہ ، رقم ٨٦٢ ۔
٦٨؎ مسلم ، رقم ٨٩٦۔ ابوداؤد، رقم ٧٥٩ ۔
٦٩؎ نسائی ، رقم ٨٩٠۔
٧٠؎ ابوداؤد، رقم ٧٥٥۔
٧١؎ احمد ، رقم ٢١٤٦٠۔ ابوداؤد، رقم ٧٥٩۔
٧٢؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٤ ۔
٧٣؎ احمد ، رقم ١٠٤٢٠۔
٧٤؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔
٧٥؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤ ۔
٧٦؎ مسلم ، رقم ١١١٠۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠۔
٧٧؎ ابوداؤد، رقم ٨٥٥ ۔ نسائی، رقم ١٠٢٨۔ ابن ماجہ ، رقم ٨٧٠۔ ٨٧١۔
٧٨؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔
٧٩؎ بخاری ،رقم ٨٠٠۔ مسلم ، رقم ١٠٦٠۔
٨٠؎ احمد ، رقم ١٠٤٢٠۔
٨١؎ ابن ابی شیبہ، رقم ٢٧١٦۔
٨٢؎ ابن ابی شیبہ ، رقم٢٧١٢، ٢٧١٦۔
٨٣؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔نسائی ، رقم ٨٩٠۔
٨٤؎ مسلم ، رقم ١١٠٧۔
٨٥؎ مسلم ، رقم ١١٠٦،١١٠٨۔
٨٦؎ مسلم ، رقم ١٠٩٠۔
٨٧؎ بخاری ، رقم ٨٢٨۔
٨٨؎ ابن خزیمہ ، رقم٦٥٤۔ابن حبان، رقم ١٩٣٣۔
٨٩؎ بخاری ، رقم ٨١٢۔ مسلم ، رقم ١٠٩٩۔
٩٠؎ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ، ٧٣٤ ۔
٩١؎ بخاری ، رقم ٧٩٢ ۔ مسلم ، رقم ١٠٥٧۔
٩٢؎ بخاری ، رقم ٨٢١۔ مسلم ، رقم ١٠٦٠۔
٩٣؎ بخاری ، رقم ٨٢٣۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ۔
٩٤؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد، رقم ٧٣١ ، ٧٣٤ ۔
٩٥؎ بخاری ، رقم ٨٢٨ ۔ ابوداؤد ، رقم ٧٣٠ ، ٧٣٤ ۔
٩٦؎ مسلم ، رقم ١٣٠٧۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٤۔
٩٧؎ مسلم ، رقم ١٣٠٩،١٣١٠،١٣١١۔ یہ اشارہ کس لیے تھا؟ اِس کی کوئی وضاحت چونکہ آپ نے نہیںفرمائی، اِس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ یہ آپ کے لیے خاص کوئی عمل تھا جسے سنت کی حیثیت سے جاری کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں تھا۔
٩٨؎ بخاری ، رقم ٨٢٨۔ ابوداؤد، رقم ٧٣٠ ، ٧٣١۔
٩٩؎ مسلم ، رقم ١٣١٥۔
١٠٠؎ بخاری ، رقم ٧٩٣،٦٦٦٧۔ مسلم، رقم ١١١٠۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔