ماں،کیا
تعریف کروں میں اس لفظ کی شاید ایسے الفاظ ہی نہیںبنے جو اس لفظ کی اہمیت
کو بیان کر سکے دُنیا کو اگر کبھی تولنا ہو تو اُس کے مقابلے میں ماںکو
دوسری طرف رکھ دو۔
ماں،جنت
کو پانے کا ایک آسان راستہ۔ماں،جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا
رہتا ہے۔ماں،ایک پھول کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ماں،ایک سمندر جس کا
پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سلتا ہے مگر کبھی کم نہین ہو سکتا۔ماں،ایک ایسی
دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی
بیوفا نہیںہوتی۔ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ماں،ایک ایسا خواب
جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم
نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ستاھ یہ اور بڑھتی رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی
پرچھائی جو ہر مصیبت سے ہمیںبچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی
محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے۔ماں ایک دُعا جو ہر کسی کی لب پر
ہر وقت رہتی ہے۔
ماں،ایک ایسی خوشی ہے ساجد جو کبھی غم نہیںدیتی۔
ایک
واقعہ آپ کی نظر میں لاتا ہوں۔ایک شخص گرمی میں کچھ کام کر رہا تھا کہ اُس
کی ماں اُس کے پاس آئی اور کہا کہ بیٹا گرمی بہت ابھی کام نا کرو کہیں تم
بیمار نا پڑ جائو۔بیٹے نے پمٹ کر جواب دیا کہ ماں کچھ نہیںہوتا آپ
جائو۔ماں یہ سُن کر چلی گئی پھر کچھ دیر بعد وہ واپس آئی اور کہا کہ بیٹا
بس کرو اب آجائو گرمی بہت ہے بیٹے نے پھر یہی کہا کہ آپ ٹینشن نا لو کچھ
نہیںہوتا۔ماں نے اسی طرح دو تین مرتبہ اور کہا مگر بیٹے نے بات
نہیںمانی۔پھر اُس کی ماںچلی گئی اور اُس کے بیٹے کو اُٹھا کر لے آئی اور
دھوپ میں بیٹھا دیا۔جب اُس کے بیٹے نے دیکھا تو چِلا اُٹھا کہ ماںیہ کیا
کیا تم نے،تم نے میرے بیٹے کو گرمی میںبیٹھا دیا وہ بیمار ہو جائے گا۔تو
ماںنے پلٹ کر جواب دیا کہ بیٹا تو بھی تو کسی ماں کا بیٹا ہے۔
(ماں)
ہے دُنیا اگر اچھی تو اُس سے بھی اچھی ہے ماں میری۔
اپنا لے جو ہر درد میرا ایسی دوست ہے ماں میری۔
چوٹ لگے مجھے تو بہتے ہیںآنسو آنکھ سے اُس کی،
چُن لے جو ہر کانٹا میرے دامن سے ایسی ماں ہے میری۔
رکھ کر خود کو بھوکا بھرا ہے جس نے پیٹ میرا،
کیسے کروں بیاں کہ کیا ہے میرے لیے ماں میری۔
مہک اُٹھے جس کی خوشبو سے آنگن میرا،
پھولوں کی اِک ایسی وادی ہے ماں میری۔
نہیں دے سکتا مول اے ماں میں تیری محبت کا،
چاہیے بس ساتھ تیرا چاہے لے لے ساری دولت دُنیا میری۔
شُکر کروں میں کیسے ادا اُس پاک ذات کا ساجد،
دے دی جنت جس نے مجھے دُنیا میں میری۔
یوں
تو اللہ تعالی نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جس کے لیے اُس کا
جتنا شکر کیا جائے وہ کم ہے۔دنیا میںعطا کی گئی اللہ کی سب بڑی نعمت ماں
ہے جس کے لیے شُکر کرون میں جتنا اُتنا کم ہوگا۔لیکن شاید ہم اپنے فرض سے
دور ہو گئے ہیں۔ماں جس نے ہمیںپیدا کیا ہمیں پالا پوسا بڑا کیا اور اس
قابل بنیا کہ ہم دُنیا میں سر اُٹھا کر جی سکیں۔ماں جو ہمارے درد کو اپنا
بناتی رہی ہماری ہر خواہش کو پُورا کرتی رہی۔کیا ہم اُس کی محبت کو سمجھ
پاتے ہیں۔ہمیں جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بوکھلا سی جاتی ہے لیکن جب
اُسے کوئی درد یا تکلیف پہنچتی ہے تو ہم بیگانوں جیسا سلکوک کرتے ہیں اور
ایسے ری ایکٹ کرتے ہیںکہ جیسے ہمارا اُس سے کوئی رشتہ ہی نا ہو۔وہ ماں جو
رات گئے اپنے بیٹے کا گھر لوٹنے کا انتظار کرتی ہے مگر ہم اُس کے جذبات کا
احترام ہی نہیںکرتے۔مت کرو ایسا دوستو اس سے پہلے کہ تم اِس سائے سے محروم
ہو جائے۔پھر کیا کرو گے تم کون کرے گا معاف تمھیں،کس کو اپنی کہاںی سُنائو
گے کوں تمھارے درد کو سمجھے گا،نہیںہو گا اُس وقت تمھارے پاس کچھ۔بدقسمت
ہے وہ انسان جس کے پاس نہیں اور اُس سے بھی زیادہ بدقسمت وہ ہے جس کے پاس
ہوتے ہوئے بھی وہ اُس کی قدر نہیںکرتا۔کیا جواب دو گے جب پوچھا جائے گا
والدین کے حقوق کے بارے میں؟
کر دے معاف میری ہر خطا اےماں میری۔
اب پچھتائوے کیا حوت جب نہیں رہی اب ماں تیری۔
بھٹکتا رہے گا یونہی اب تو در بدر،
نکلے گی دُعا تیرے لب سے کہ اے اللہ لوٹا دے مجھ کو ماں میری۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔