Dec 30, 2014

اک بہادر لڑکی

جس میں غیرت ہو وہی بہادر ہوتا ہے اور جو بہادر ہو وہی لڑتا ہے۔ اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی پاک بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا!

اے (میرے پیارے) نبیﷺ کی خواتین! تمہارا مقام عام عورتوں سے بہت اونچا ہے۔ اسے برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے کہ (اللہ سے) ڈرتی رہو۔ (کسی شخص سے بات کرنا پڑ جائے) تو گفتگو میں ایسی نزاکت و نرمی نہ ہو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ لالچ کرنے لگ جائے لہٰذا بات کرو تو معروف طریقے سے بات کرو (احزاب: 32)

سبحان اللہ!

اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیﷺ کی پاک خواتین کو مزید پاکیزگی کا درس دے رہا ہے۔ عزت کی حفاظت میں پاکیزگی سے ہی غیرت اور بہادری پیدا ہوتی ہے لہٰذا ہماری ساری مائیں بڑی بہادر تھیں۔ حضرت عائشہؓ کی بہادری تو احد کے غزوہ میں بھی نظر آتی ہے جہاں آپ زخمیوں کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے نظر آتی ہیں، دیگر صحابیات آپ کے ہمراہ دکھائی دیتی ہیں۔

سورۂ احزاب میں اس تاریخی غزوہ کا تذکرہ ہے جس میں دس ہزار کی تعداد میں مکہ کے مشرک مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے آئے تھے، ایک مہینہ کے قریب یہ محاصرہ جاری رہا، اللہ کے رسولﷺ اپنے سات سو کے قریب دلیر صحابہ کے ساتھ خندق کھود کر دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے۔ مدینہ شہر میں ایک جگہ عورتوں اور بچوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا۔

یہودی جو اندر سے مشرکوں سے ملے ہوئے تھے، ان کا پروگرام تھا کہ اندر سے ہم حملہ کریں گے، انہوں نے اپنا ایک یہودی جاسوس بھیجا کہ وہ معلوم کرے کہ جہاں عورتیں اور بچے ہیں وہاں اگر مسلمان مرد حفاظت کے لئے نہ ہوں تو عورتوں اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔ اب جب ان کا جاسوس آیا اور مطلوبہ جگہ کے اردگرد پھرنے لگا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی جان حضرت صفیہؓ نے اسے دیکھ لیا چنانچہ انہوں نے خطرہ بھانپتے ہوئے اوپر سے پتھر پھینکا جو اس یہودی کے سر پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
باقی یہودی جو پیچھے فاصلے پر کھڑے تھے وہ سہم گئے اور کہنے لگے، یہاں تو مسلمانوں کا لڑاکا دستہ موجود ہے۔ یوں مسلمان خواتین اور بچوں کی جان اور عزتوں کو بچایا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے بچایا۔ اللہ کے رسولﷺ ساری امت سے بڑھ کر بہادر تھے۔ آپ کی پھوپھی جان بھی بہادر تھیں اور پھوپھی جان کے بھائی حضرت حمزہؓ بھی بہادر تھے وہ تو سید الشہداء تھے۔

فلسطینی بہادر لڑکیوں کے بھی کئی واقعات ہیں۔ کشمیری لڑکی مجھے نہیں بھولتی جس کی عزت کے درپے ایک ہندو مشرک فوجی ہوا تو اس نے خنجر کا وار کر کے مشرک ہندو فوجی مردار کر دیا۔ عراق میں ایک عرب لڑکی نے بھی امریکی فوجی کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر کے مار دیا لیکن پیچھے کھڑے دوسرے فوجی نے اس دلیر لڑکی کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ وہ دلیر مسلمان لڑکی اپنی عزت بچا لے گئی۔ امریکی درندے کو جان سے مار گئی اور خود شہادت پا گئی (ان شاء اللہ)

فرانس وہ ملک ہے جس میں باقی یورپین ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ وہاں تعصب بھی بہت زیادہ ہے۔ حجاب اور سکارف کا مسئلہ سب سے زیادہ یہیں پیدا ہوا۔ سکارف لینے والی غیرت مند مصری خاتون مروہ کا قتل بھی یہیں ہوا۔ عدالت میں انہیں شہید کیا گیا۔ جرمنی کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ عامر چیمہ کو جرمنی نے ہی شہید کیا تھا اور اب بہادری کا ایوارڈ بھی جرمنی کے ملک نے ایک مسلمان لڑکی ہی کو دیا۔ اس لڑکی کا نام ’’نوبچے‘‘ ہے۔ یہ مسلمان لڑکی ہے جو جرمنی میں پیدا ہوئی اور جوان ہوئی۔
برلن کے بعد فرینکفرٹ جرمنی کا ایک بڑا شہر ہے، اس شہر کے نواح میں ایک قصبہ ہے جس کا نام ’’اوفن باخ‘‘ ہے۔ یہاں کے ایک ریسٹورنٹ میں دو لڑکیاں کھانا کھانے کے بعد واش روم میں گئیں تو ایک جرمن گورے صلیبی نے ان کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔ انہوں نے شور مچایا تو مسلمان لڑکی نے مظلوم لڑکیوں کی مدد کے لئے گورے صلیبی پر حملہ کر دیا۔ یوں لڑکیاں بچ گئیں۔ بعد میں موقع پا کر اسی گورے صلیبی نے ریسٹورنٹ کے پارکنگ ایریا میں مسلمان لڑکی پر حملہ کر دیا۔ سر میں چاقو کے وار کئے تو نو بچے زخمی ہو گئی۔ ہسپتال میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد آخرکار اپنے اللہ سے جا ملیں۔ —

جرمنی کے لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا، وہاں کے اخبارات نے نوبچے کی بہادری کو سراہا، اسے خراج تحسین پیش کیا اور پھر جرمنی کے لوگوں نے ایک لاکھ سے زائد دستخطوں کے ساتھ اپنے صدر سے مطالبہ کیا کہ جرمنی کا سب سے بڑا بہادری کا ایوارڈ نوبچے کو دیا جائے۔ جرمنی کے صدر گاؤک نے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا اور یوں اب مسلمان لڑکی نوبچے سرکاری سطح پر جرمنی کی بہادر لڑکی قرار دی گئی ہے۔ میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں اپنی اس مسلمان بیٹی کو کہ اس نے اسلام کی بہادرانہ روایت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا اور یورپ کے اہم اور طاقتور ملک جرمنی میں اپنی بہادری کا لوہا منوا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس عطا فرمائے (آمین)

حق تو یہ ہے کہ اس کے قاتل گورے صلیبی کو قتل کی سزا دی جائے کیونکہ بائبل میں بھی قاتل کی سزا قتل ہے اور ہر زخم کا بدلہ ہے۔ کاش! اگر اہل کتاب اس پر عمل کر لیں تو امن کا پروانہ حاصل کر لیں مگر اہل کتاب کو کیا کہوں یہاں تو اپنے مسلمان ملک بھی قرآن کے قانون سے لاپروا ہیں، قصاص سے نابلد ہیں اور یوں قتل عام ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو ہدایت دے۔ قرآن کا قانون نافذ کر دیں تو ہر جان محفوظ ہو جائے ہر کلی درندوں کے ہاتھوں میں مسلے جانے سے بچ جائے۔ اگر نوبچے کی بہادری ہمارے بزدل حکمرانوں کو بہادربنا دے اور وہ ہمت کر کے اسلام کا قانون قصاص نافذ کر دیں۔ عملدرآمد کر دیں تو میرا پاکستان بھی میری بہنوں اور بیٹیوں کے امن کا باغ بن جائے۔ —
آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads