حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کو دو قسم کے علم عطا کئے گئے ہیں۔
ایک کائنات کے اسرار و رموز، اشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کا علم جسے “علمِ کائنات” یا “تکوینی علم” کہا جاتا ہے، تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی “علمِ کائنات” کی شاخیں ہیں، مگر معلوماتِ خداوندی کے مقابلے میں انسان کا یہ کائناتی علم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی اور پہاڑ کی مقابلے میں ایک ذرّہ کی نسبت بھی نہیں رکھتا۔
اور دُوسرا وہ علم جو خالقِ کائنات کی ذات و صفات، اس کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے، اسے “علم الشرائع” یا “تشریعی علوم” سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں، مگر دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں۔ قسمِ اوّل کے لئے احساس، عقل، تجربہ اور فہم و فراست عطا کئے گئے ہیں، اور جہاں انسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے، چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی سے متعلقہ تمام علوم کے مبادیات وحی و اِلہام کے ذریعہ سکھائے گئے: “وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمَآءَ کُلَّھَا”۔ مزید براں انسان کی فطرت میں عقلی و تجرباتی علوم میں ترقی کی وافر استعداد رکھی گئی۔
دوسری قسم کے علم میں خالقِ کائنات کی ذات و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی ادراک سے بالاتر تھی، بنابریں اس کا مدار محض عقل و تجربے پر نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کی تعلیم کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا گیا، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو معرفتِ ذات و صفات، مبداء و معاد، سعادت و شقاوت، فضائل و رذائل، عذاب و ثواب کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا، ان کو اس صراطِ مستقیم کی دعوت پر مأمور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولادِ آدم کا مقتدا بناکر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ کردیا گیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں، وہ صرف انہیں کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دُنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان علومِ نبوّت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کرسکیں، نہ وہ تمام علومِ نبوّت کا احاطہ کرسکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہوکر انہیں علومِ نبوّت کا کوئی شمہ نصیب ہوسکتا ہے۔
علمائے سائنس کی حقیقت کبری سے محرومی اور دہریت کی طرف رغبت کی وجہ :.
اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والأرض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔(آل عمران : ۱۹۰۔۱۹۱
بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور دن ورات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکرکرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں[یہ کہتے ہوئے] اے ہمارے رب! آپ نے اس کو باطل پیدا نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
فلسفہ و سائنس کے ماہرین، علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبے پر فائز ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بوقلمونیوں سے بہ نسبت دُوسروں کے زیادہ واقف اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ قدرتِ خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوّت کی ضرورت و اہمیت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ انہی پر کھلے گی، وحیٴ الٰہی سے جو انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے ’ سب سے زیادہ استفادہ وہی کریں گے، انبیائے کرام علیہم السلام سے وفاداری و جاں نثاری اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر انہی کی جانب سے ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سائنسدان معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کو عار سمجھا اور تعلیماتِ نبوّت سے استغنا کا مظاہرہ کیا، یوں ارشادِ خداوندی:
(“وَأَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ”) (اور گمراہ کردیا اس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے) ان پر صادق آیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے مقابلے میں سائنس دانوں کی اس متکبرانہ رَوِش کا سبب مادّیت کا غلط نشہ تھا، علمائے سائنس نے یہ فرض کرلیا کہ مادّیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوّت انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ سامانی ہے، فضاوٴں میں اُڑنا، دریاوٴں میں تیرنا، چاند پر پہنچنا، سورج کے طول و عرض کو ناپنا اور زہرہ و مشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری معراج ہے، اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس لئے نہ صرف یہ کہ سائنسی دور، دورِ نبوّت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو “مہذب دور” سے اور دورِ قدیم کو (جو انبیاء علیہم السلام کا دور تھا) “تاریک دور” سے تعبیر کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انا لله وانا الیہ راجعون!
بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے دور میں خود ان کے ہاتھوں مادّی ترقی کے نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دور آج کے دور کی بہ نسبت معاذ اللہ تاریک اور غیرمہذب تھا اور انسانیت نے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی تھیں، بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے مقابلے میں مادّیت کا یہ سارا کھیل بازیچہٴ اطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام “ایٹم” کی دریافت کے لئے نہیں آتے، بلکہ وہ اس ذاتِ عالی سے انسانیت کو آشنا کرتے ہیں جن کے ادنیٰ اشارہ “کُنْ” کے سامنے ہزار سورج کی طاقت ہیچ ہے، ان کی نگہِ بلند صرف کائنات کے باہمی ربط میں کھوکر نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ اس پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا، خالق کی قدرت سے کیا ربط ہے؟ ان کا موضوع چیزوں کی محنت نہیں ہوتا، بلکہ انسان سازی کی محنت ہوتا ہے، ان کے نزدیک ان چیتھڑوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو دُنیا کے نابالغوں نے بڑی خوبصورتی سے الماریوں میں سجا رکھا ہے، ان مٹی کے گھروندوں کی کوئی قیمت نہیں جن کو یہ نادان بچے نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، اور دُنیا کی ظاہری زرق برق میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں جس پر یہ طفلانِ بے شعور ریجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ما بعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس، جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے اس کو مشاہدے کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے، چونکہ اس حقیقت کو سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ “ایمان بالغیب” کے تمام سرمایہٴ نبوّت کو ایک خندہٴ استہزاء کی نذر کردیتی ہے، اور یہاں سے اس کی ملحدانہ شفقت کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہی جہل و غرور کی وجہ سے “نبوّت” سے کیا جانے والا انحراف سائنس دانوں کی تمام تر محرومی کا باعث ہے۔ اگر ان پر کائنات کی اندرونی حقیقت کھل جاتی تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کائنات صرف یہی نہیں جس کا تعلق موت سے قبل کے مشاہدے سے ہے، بلکہ یہ تو اصل کائنات کا ایک حقیر ذرّہ ہے، اور اس ایک ذرّہ کی حقیقت کا بھی ایک ذرّہ آج تک ان پر منکشف نہیں ہوا، اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالقِ کائنات کا راز ان پر کھل جائے تو انہیں معلوم ہوجائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرکے چاند سے چار سیر مٹی لے آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامنِ نبوّت سے کٹ کر سائنس کی اس “سفیہانہ محنت” نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و اضطراب کا “تحفہ” عطا کیا، اوراس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا۔ آج کا مفلوج انسان جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہٴ مشق بن کر رہ گیا ہے، اہلِ عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں “سائنسی ترقی” کا حصہ کتنا ہے؟
راقم الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوّت کے تابع نہیں ہوجاتی، جب تک سائنس کا رُخ دُنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑجاتا اور جب تک سائنس دان انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے، تب تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔
ایک کائنات کے اسرار و رموز، اشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کا علم جسے “علمِ کائنات” یا “تکوینی علم” کہا جاتا ہے، تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی “علمِ کائنات” کی شاخیں ہیں، مگر معلوماتِ خداوندی کے مقابلے میں انسان کا یہ کائناتی علم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی اور پہاڑ کی مقابلے میں ایک ذرّہ کی نسبت بھی نہیں رکھتا۔
اور دُوسرا وہ علم جو خالقِ کائنات کی ذات و صفات، اس کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے، اسے “علم الشرائع” یا “تشریعی علوم” سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں، مگر دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں۔ قسمِ اوّل کے لئے احساس، عقل، تجربہ اور فہم و فراست عطا کئے گئے ہیں، اور جہاں انسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے، چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی سے متعلقہ تمام علوم کے مبادیات وحی و اِلہام کے ذریعہ سکھائے گئے: “وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمَآءَ کُلَّھَا”۔ مزید براں انسان کی فطرت میں عقلی و تجرباتی علوم میں ترقی کی وافر استعداد رکھی گئی۔
دوسری قسم کے علم میں خالقِ کائنات کی ذات و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی ادراک سے بالاتر تھی، بنابریں اس کا مدار محض عقل و تجربے پر نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کی تعلیم کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا گیا، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو معرفتِ ذات و صفات، مبداء و معاد، سعادت و شقاوت، فضائل و رذائل، عذاب و ثواب کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا، ان کو اس صراطِ مستقیم کی دعوت پر مأمور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولادِ آدم کا مقتدا بناکر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ کردیا گیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں، وہ صرف انہیں کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دُنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان علومِ نبوّت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کرسکیں، نہ وہ تمام علومِ نبوّت کا احاطہ کرسکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہوکر انہیں علومِ نبوّت کا کوئی شمہ نصیب ہوسکتا ہے۔
علمائے سائنس کی حقیقت کبری سے محرومی اور دہریت کی طرف رغبت کی وجہ :.
اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والأرض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔(آل عمران : ۱۹۰۔۱۹۱
بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور دن ورات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکرکرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں[یہ کہتے ہوئے] اے ہمارے رب! آپ نے اس کو باطل پیدا نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
فلسفہ و سائنس کے ماہرین، علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبے پر فائز ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بوقلمونیوں سے بہ نسبت دُوسروں کے زیادہ واقف اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ قدرتِ خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوّت کی ضرورت و اہمیت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ انہی پر کھلے گی، وحیٴ الٰہی سے جو انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے ’ سب سے زیادہ استفادہ وہی کریں گے، انبیائے کرام علیہم السلام سے وفاداری و جاں نثاری اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر انہی کی جانب سے ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سائنسدان معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کو عار سمجھا اور تعلیماتِ نبوّت سے استغنا کا مظاہرہ کیا، یوں ارشادِ خداوندی:
(“وَأَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ”) (اور گمراہ کردیا اس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے) ان پر صادق آیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے مقابلے میں سائنس دانوں کی اس متکبرانہ رَوِش کا سبب مادّیت کا غلط نشہ تھا، علمائے سائنس نے یہ فرض کرلیا کہ مادّیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوّت انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ سامانی ہے، فضاوٴں میں اُڑنا، دریاوٴں میں تیرنا، چاند پر پہنچنا، سورج کے طول و عرض کو ناپنا اور زہرہ و مشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری معراج ہے، اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس لئے نہ صرف یہ کہ سائنسی دور، دورِ نبوّت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو “مہذب دور” سے اور دورِ قدیم کو (جو انبیاء علیہم السلام کا دور تھا) “تاریک دور” سے تعبیر کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انا لله وانا الیہ راجعون!
بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے دور میں خود ان کے ہاتھوں مادّی ترقی کے نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دور آج کے دور کی بہ نسبت معاذ اللہ تاریک اور غیرمہذب تھا اور انسانیت نے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی تھیں، بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے مقابلے میں مادّیت کا یہ سارا کھیل بازیچہٴ اطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام “ایٹم” کی دریافت کے لئے نہیں آتے، بلکہ وہ اس ذاتِ عالی سے انسانیت کو آشنا کرتے ہیں جن کے ادنیٰ اشارہ “کُنْ” کے سامنے ہزار سورج کی طاقت ہیچ ہے، ان کی نگہِ بلند صرف کائنات کے باہمی ربط میں کھوکر نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ اس پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا، خالق کی قدرت سے کیا ربط ہے؟ ان کا موضوع چیزوں کی محنت نہیں ہوتا، بلکہ انسان سازی کی محنت ہوتا ہے، ان کے نزدیک ان چیتھڑوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو دُنیا کے نابالغوں نے بڑی خوبصورتی سے الماریوں میں سجا رکھا ہے، ان مٹی کے گھروندوں کی کوئی قیمت نہیں جن کو یہ نادان بچے نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، اور دُنیا کی ظاہری زرق برق میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں جس پر یہ طفلانِ بے شعور ریجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ما بعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس، جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے اس کو مشاہدے کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے، چونکہ اس حقیقت کو سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ “ایمان بالغیب” کے تمام سرمایہٴ نبوّت کو ایک خندہٴ استہزاء کی نذر کردیتی ہے، اور یہاں سے اس کی ملحدانہ شفقت کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہی جہل و غرور کی وجہ سے “نبوّت” سے کیا جانے والا انحراف سائنس دانوں کی تمام تر محرومی کا باعث ہے۔ اگر ان پر کائنات کی اندرونی حقیقت کھل جاتی تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کائنات صرف یہی نہیں جس کا تعلق موت سے قبل کے مشاہدے سے ہے، بلکہ یہ تو اصل کائنات کا ایک حقیر ذرّہ ہے، اور اس ایک ذرّہ کی حقیقت کا بھی ایک ذرّہ آج تک ان پر منکشف نہیں ہوا، اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالقِ کائنات کا راز ان پر کھل جائے تو انہیں معلوم ہوجائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرکے چاند سے چار سیر مٹی لے آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامنِ نبوّت سے کٹ کر سائنس کی اس “سفیہانہ محنت” نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و اضطراب کا “تحفہ” عطا کیا، اوراس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا۔ آج کا مفلوج انسان جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہٴ مشق بن کر رہ گیا ہے، اہلِ عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں “سائنسی ترقی” کا حصہ کتنا ہے؟
راقم الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوّت کے تابع نہیں ہوجاتی، جب تک سائنس کا رُخ دُنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑجاتا اور جب تک سائنس دان انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے، تب تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔