عبادات

نماز

توحید پر ایمان کے بعدنمازہی دینِ اسلام کا اگلا اور اہم ترین رکن ہے۔ بندہ جونہی اپنی زبان سے اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے اس اقرارِ بندگی کی عملی تعبیرنماز کی صورت میں پیش کرنی فرض ہو جاتی ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے نماز کا انکار کرنے والے شخص کو فقہاء دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔نماز کا بنیادی مقصد خدا کی یاد ،اسکی حمدو ثنا اور اس سے اپنی بندگی کا اظہارہے۔ نماز کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اس ضمن میں غفلت کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مستقل نمازیوں کی تعداد محض پندرہ سے بیس فیصد ہے جبکہ اکثریت یا تو جمعہ کو نماز پڑھتی ہے یا سرے سے پڑھتی ہی نہیں۔

روزہ

رمضان قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، انسانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب گمراہی کے صحرا میں بھٹکتی انسانیت کی صدائے العطش، آسمان نے سنی اور بارانِ ہدایت کو عرب کے بیابانوں پر برسنے کا حکم دیا۔ پھر اس سرزمین سے ہدایت کے وہ چشمے ابلے جن سے پوری انسانیت سیراب ہوگئی۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ظلم کی چکی میں پستی اور سسکتی ہوئی انسانیت کی صدائے العدل کا جواب کائنات کے بادشاہ نے عدل سے نہیں، احسان سے دیا۔ اس طرح کہ قیامت تک کے لیے قرآن کو وہ فرقان بناکر زمین پر اتارا کہ جس کی ہدایت نے دھرتی کو امن و سکون سے بھردیا۔

زکوٰۃ

نماز کی طرح زکوٰۃ کو ماننا بھی دین اسلام میں لازم ہے بصورتِ دیگرنماز کے منکرین کی طرح زکوٰۃ کا انکار کرنے والے لوگ بھی دائرۂ اسلام سے خارج سمجھے جاتے ہیں ۔
قرآن میں زکوٰۃ کا واضح حکم موجود ہے جیسا درج ذیل آیات میں بیان ہوتا ہے:
۱۔اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ بیشک جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۱۱۰:۲ )۔
۲۔(مسلمانو،) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (النور ۵۶:۲۴)۔
احادیث میں بھی زکوٰۃ کی اہمیت جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بیان ہوتا ہے:
ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام (کا قصر پانچ ستونوں) پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 7 )۔
 



حج

حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔
میں حاضر ہوں اس اعتراف کے ساتھ کہ تعریف کے قابل توہی ہے۔ تو تنہا اور یکتا ہے، تجھ سا کوئی نہیں ۔ تیرا کرم، تیری شفقت، تیری عطا ، تیری کرم نوازی اور تیری عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ تیری عظمت ناقابل بیان ہے، تیری شان لامتناہی طور پر بلند ہے، تیری قدرت ہر امر پر حاوی ہے، تیرا علم ہر حاضر و غائب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔تجھ سا کوئی نہیں اور کوئی تیری طرح تعریف کے لائق نہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads