توحید پر ایمان کے بعدنمازہی دینِ اسلام کا اگلا اور اہم ترین رکن ہے۔ بندہ جونہی اپنی زبان سے اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے اس اقرارِ بندگی کی عملی تعبیرنماز کی صورت میں پیش کرنی فرض ہو جاتی ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے نماز کا انکار کرنے والے شخص کو فقہاء دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔نماز کا بنیادی مقصد خدا کی یاد ،اسکی حمدو ثنا اور اس سے اپنی بندگی کا اظہارہے۔ نماز کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اس ضمن میں غفلت کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مستقل نمازیوں کی تعداد محض پندرہ سے بیس فیصد ہے جبکہ اکثریت یا تو جمعہ کو نماز پڑھتی ہے یا سرے سے پڑھتی ہی نہیں۔
آرٹیکل کا بنیادی مقصد
اگر نمازسے متعلق دستیاب اردو لٹریچر کا جائزہ لیا جائے تو ا فقہی اور علمی پہلو پر تو بہت ضخیم مواد موجود ہے لیکن عملی اور نفسیاتی امور پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس مضمون کا بنیادی مقصدنماز کے ان پہلووٗں پر روشنی ڈالنا ہے جو عملی اورنفسیاتی ہیں مثلاََ نماز سے متعلق لوگوں کا رویہ ، نماز نہ پڑھنے کے اسبا ب اور انکا تدارک، نماز میں آنے والے وسوسوں اور دیگر آفات کا بیان وغیرہ۔ مزید یہ کہ ایک ایسا عملی پروگرام مرتّب کرنا کہ ہر قسم کے اشخاص استفادہ حاصل کرکے پانچ وقت کی نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہو جائیں۔
نماز سے متعلق لوگوں کی اقسام
نماز کے حوالے سے چار مختلف اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو پانچ وقت کے نمازی ہیں انہیں مستقل نمازی کہا جاسکتا ہے، دوسرے وہ جو جمعہ کے علاوہ بھی کچھ نمازیں پڑھ لیتے ہیں یہ غیر مسقل مزاج نمازی ہیں، تیسرے وہ جو فجر کی نماز کے علاوہ باقی تمام نمازیں وقت پر پڑھ لیتے ہیں انہیں فجر ترک کرنے والے نمازی کہہ سکتے ہیں اور چوتھے وہ جو صرف جمعہ کی نمازیں پڑھتے ہیں یا جمعے کی نماز سے بھی روگردانی کرتے ہیں انہیں تفہیم کے لئے بے نمازی کہا جاسکتا ہے۔آپ کا ابتدائی کام یہ ہے کہ آپ متعین کریں آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے پھر آپ اس گروہ سے متعلق تجزیہ اور ہدایات پر غور کرکے عمل کریں۔
الف۔ بے نمازی یا صرف جمعے کے نمازی
۔اس گروہ میں شامل افراد صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں یا وہ بھی نہیں پڑھتے ۔اگر آپکا تعلق اس گروہ سے ہے توآپ کی نماز نہ پڑھنے کے یہ اسباب ہو سکتے ہیں۔
اللہ پر ایمان اور یقین کی کمزوری
ایک بے نمازی کے نماز نہ پڑھنے کی ان میں سے کوئی ایک یا متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان تمام اسباب کا بنیادی سبب اللہ پر یقین کی کمی یا آخرت کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ اس ضمن میں آپ سے گذارش ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ نے اقرار کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اس قولی اقرار کے بعد آپ نے اپنے وجود، عمل اور طرزِ زندگی سے اس قول کو ثابت کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا ہے اور اس ثبوت کی فراہمی میں ناکامی کے نتائج خوشگوار نہیں۔
۔آخرت کی جوابدہی سے لاپرواہی :
کچھ مسلمان آخرت کو زبانی طور پر تو تسلیم کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے منکر ہوتے ہیں۔ وہ کبوتر کی طرح خطرے کو دیکھ کر آنکھ بند کرلیتے اور خود کو اس سے محفوط سمجھتے ہیں۔ آخرت کا دن یقینی ہے اور اس دن سے لاپرواہی ابدی خطرے میں خود کو ڈال دینا ہے۔ چنانچہ آخرت کے یقین کے لئے قرآن کا سمجھ کر مطالعہ اور اہل علم کی صحبت اختیا ر کریں۔
آخرت میں کسی کی شفاعت پر بھروسہ
آخرت کی شفاعت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے اصول اللہ تعالیٰ نے متعین کردیئے ہیں کہ یہ شفاعت اللہ کے اذن سے ہوگی لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا اپنے ہی حکم کو کسی کی سفارش سے باطل کروادے۔ اسی طرح شفاعت کرنے والا حق بات کے سوا کچھ نہ بولے گا یعنی وہ کسی باطل فعل کے حق میں سفارش نہیں کر سکتا۔
دنیا کی محبت اور دنیاوی مصروفیات کی زیادتی
دنیا کی محبت بھی دنیاوی مصروفیات کو بہت اہم بناتی اور نماز سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ دنیا وی امور میں دلچسپی بذاتِ خود کوئی بری شے نہیں لیکن اگر یہ محبت اور مصروفیت آخرت کی دائمی ناکامی کا باعث بنے تو عقل مندی نہیں کیونکہ عارضی کامیابی کبھی بھی دائمی ناکامی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
دنیا کی محبت بھی دنیاوی مصروفیات کو بہت اہم بناتی اور نماز سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ دنیا وی امور میں دلچسپی بذاتِ خود کوئی بری شے نہیں لیکن اگر یہ محبت اور مصروفیت آخرت کی دائمی ناکامی کا باعث بنے تو عقل مندی نہیں کیونکہ عارضی کامیابی کبھی بھی دائمی ناکامی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
نماز کی دینِ اسلام میں اہمیت سے ناواقفیت
اکثر لوگ نماز کی دین میں اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اسے فالتو کی ایکسرسائز سمجھتے ہیں اور کچھ اسے وقت کا ضیاع۔ چنانچہ اس قسم کے لوگ نماز کی اہمیت کو کم کرنے کے کئے نمازیوں کی برائیاں کرتے ہیں کہ فلاں شخص نمازی ہوکر بھی گالیاں دیتا ، جھوٹ بولتا اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے چنانچہ ایسی نماز کا کیا فائدہ۔ ایک دوسرا گروہ نماز کے مقابلے میں حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کرتا اور نماز سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ نماز نہ پڑھنے والے کا ایمان ہی مشکوک ہے چنانچہ اسکی دیگر نیکیوں کی قبولیت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ نماز کی اہمیت کو ذہن نشین کرے کے لئے قرآن اور احادیث کا مطالعہ کریں۔
اکثر لوگ نماز کی دین میں اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اسے فالتو کی ایکسرسائز سمجھتے ہیں اور کچھ اسے وقت کا ضیاع۔ چنانچہ اس قسم کے لوگ نماز کی اہمیت کو کم کرنے کے کئے نمازیوں کی برائیاں کرتے ہیں کہ فلاں شخص نمازی ہوکر بھی گالیاں دیتا ، جھوٹ بولتا اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے چنانچہ ایسی نماز کا کیا فائدہ۔ ایک دوسرا گروہ نماز کے مقابلے میں حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کرتا اور نماز سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ نماز نہ پڑھنے والے کا ایمان ہی مشکوک ہے چنانچہ اسکی دیگر نیکیوں کی قبولیت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ نماز کی اہمیت کو ذہن نشین کرے کے لئے قرآن اور احادیث کا مطالعہ کریں۔
سستی اور کاہلی
نماز کی اہمیت سے ناواقفیت اور سستی و کاہلی بھی نمازسے روگردانی کا سبب ہو سکتی ہے اسکا تعلق عملی کمزوری سے ہے جسکا علاج آگے بتایا گیا ہے۔ چنانچہ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ آپ دین کے بارے میں اپنے رویہ کا نیک نیتی سے جائزہ لیں اور اپنی منزل متعین کریں، اسلامی کتب کا مطالعہ کریں اور اہلِ علم سے اس مسئلے کو ڈسکس کریں جیسے آپ کسی موذی مرض کے لاحق ہونے پر معالج کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
ب۔غیر مستقل مزاج نمازی
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو جمعہ کے علاوہ بھی نماز ادا کرتے ہیں لیکن اس پر مستقل مزاجی نہیں رکھ پاتے جس کے نتیجے میں نمازیں قضا بھی ہو جاتی ہیں ۔اس رویہ کے مندرجہ بالا اسباب کے علاوہ درج ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔
۱۔سستی و کاہلی ۲۔ مصروفیت ۳۔قوتِ ارادی کی کمزوری ۴۔نماز میں دل نہ لگنا
اس گروہ کے اشخاص کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نماز کی ادائیگی پر نظری طور پر بالکل آمادہ ہیں لیکن چند عملی کوتاہیوں کے سبب اس تقاضے کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔سستی کا عذر، مصروفیت کا بہانہ، نماز میں دل نہ لگنا وغیرہ کا بنیادی سبب قوتِ ارادی کی کمی ہی ہے جو نماز کو بروقت یا پابندی سے ادا کرنے میں مانع ثابت ہوتی ہے۔اس صورتحال سے نبٹنے کے لیئے ذیل کی ہدایات پر عمل کریں۔
پہلے مرحلے میں یہ جائزہ لیں کہ کونسی نماز یا نمازیں آپ پر مشکل پڑتی ہیں اور انکے کیا اسباب ہیں مثال کے طور پر فجراور عشاء کی نماز چھوڑنے کا سبب بالعموم نیند ،تھکاوٹ اور سستی ہوتا ہے۔اسی طرح ظہر اور عصر ترک کرنے کا سبب کاروباری و دنیاوی مشاغل کا غلبہ ہے۔جبکہ مغرب سے فرار کی عمومی وجہ دورانِ سفر ہونا اور خواتین کا کھانا پکانے کی مصروفیت ہوسکتی ہے۔چنانچہ آپ یہ معلوم کرلیں کہ آپ کون سی نمازیں چھوڑتے ہیں اور اسکا سبب کیا ہے۔ سبب معلوم کرکے اسکا علاج دریافت کریں اور کسی مشکل کی صورت میں آخر میں دئیے گئے ای میل پر رابطہ کریں۔
دوسرے مرحلے میں۲۴ گھنٹوں میں کم از کم ایک وقت کی نماز اسکے وقت پڑھنے کی کوشش کریں اور رات کو سونے سے پہلے دن بھر کی تمام قضاہو جانے والی فر ض نمازیں ادا کریں۔ کم ازکم ایک مہینے تک آپ اس عمل کو جاری رکھیں۔ہر قضا ہو جانے والی نماز اللہ سے توبہ کریں اور اپنی ندامت کا اظہار کریں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہر قضا نماز پر اپنے اوپر جرمانہ مقرر کریں جو مالی، بدنی یا دونوں طرح کی مشقت کا ملغوبہ ہو سکتا ہے۔ مثلاََ ہر نماز قضا ہوجانے کی صورت میں ۵۰۰ روپے اللہ کی راہ میں کسی مستحق کو دے دیں۔ یا پھر ہر قضا نماز کی ادائیگی کے ساتھ چار نوافل اضافی پڑھیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ جرمانہ نہ تو اتنا آسان ہو کہ آپ کی طبیعت پر کوئی اثر نہ ہو اور نہ ہی اتنا مشکل کہ ناقابلِ عمل ہو۔
اس عمل کے دوران اللہ سے کامیابی کی دعا کرتے رہیں اور کسی بھی ناکامی کی صورت میں ہمت نہ ہاریں مثلاََ اگر کوشش کے باوجود کسی دن نماز نہ پڑھی تو یہ نہیں کہ اب خود کو بالکل ہی لعنت زدہ سمجھ کر آئندہ کی نمازوں سے بری الذمہ ہو گئے۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔کسی بھی ناکامی کی صورت میں سابقہ عمل پر استقامت اور جرمانے کا ارادہ ہی نفس کو نکیل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
قضا نمازوں کو رات میں پڑھنے کے عمل کو تقریباََ ایک سے دو مہینے تک جاری رکھیں۔ دو مہینے کے بعدآپ میں اتنی استقامت انشاء اللہ آجائیگی کہ آپ نماز اسکے وقت پر پڑھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ج۔ فجر ترک کرنے والے نمازی
ایک بہت بڑی تعدا ان نمازیوں کی ہے جو تمام نمازیں تو وقت پر پڑھ لیتے ہیں لیکن فجر کی نماز میں اٹھ نہیں پاتے۔اسکا بنیادی سبب تمدنی تقاضوں کی بنا پر رات کو دیر سے سونا ہے۔ نبی کریمﷺ کا دور چونکہ ایک زرعئی دور تھا لہٰذا فجر کی نماز پڑھنا اتنا مسئلہ نہ تھا لیکن اس دور کی مشکل نماز عصر کی تھی کیونکہ اس وقت کاروبارِ زندگی سمیٹا جارہا ہوتا اور لوگ اندھیرا ہونے سے قبل اپنے ٹھکانوں پر پہنچنے کے لئے بے چین ہوتے تھے۔ چنانچہ قرآن میں خاص طور پرہدایت دی گئی کہ بیچ کی نماز(یعنی عصر)کی خاص طور پر حفاظت کرو۔ اس ہدایت کی بنیاد یہی ہے کہ کون ہے جو اللہ کی محبت میں دنیا کو پسِ پشت ڈالتا اور خدا کی بندگی میں اپنے مفادات قربا ن کردیتا ہے۔ آج کے صنعتی دور میں فجر کی نماز نے بیچ کی نماز کی شکل اختیار کرلی ہے۔ آج بھی خدا کا تقاضا اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کون نیند کے خالق کے لئے اپنی نیند چھوڑتا ، کون آرام دینے والے کی پکار پر لبیک کہتا اور کون دنیا کے فانی بچھونوں کو چھوڑ کر جنت کے ابدی بستروں پر محوِ استرحت ہونے کی تیاری کرتا ہے۔
ایک بہت بڑی تعدا ان نمازیوں کی ہے جو تمام نمازیں تو وقت پر پڑھ لیتے ہیں لیکن فجر کی نماز میں اٹھ نہیں پاتے۔اسکا بنیادی سبب تمدنی تقاضوں کی بنا پر رات کو دیر سے سونا ہے۔ نبی کریمﷺ کا دور چونکہ ایک زرعئی دور تھا لہٰذا فجر کی نماز پڑھنا اتنا مسئلہ نہ تھا لیکن اس دور کی مشکل نماز عصر کی تھی کیونکہ اس وقت کاروبارِ زندگی سمیٹا جارہا ہوتا اور لوگ اندھیرا ہونے سے قبل اپنے ٹھکانوں پر پہنچنے کے لئے بے چین ہوتے تھے۔ چنانچہ قرآن میں خاص طور پرہدایت دی گئی کہ بیچ کی نماز(یعنی عصر)کی خاص طور پر حفاظت کرو۔ اس ہدایت کی بنیاد یہی ہے کہ کون ہے جو اللہ کی محبت میں دنیا کو پسِ پشت ڈالتا اور خدا کی بندگی میں اپنے مفادات قربا ن کردیتا ہے۔ آج کے صنعتی دور میں فجر کی نماز نے بیچ کی نماز کی شکل اختیار کرلی ہے۔ آج بھی خدا کا تقاضا اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کون نیند کے خالق کے لئے اپنی نیند چھوڑتا ، کون آرام دینے والے کی پکار پر لبیک کہتا اور کون دنیا کے فانی بچھونوں کو چھوڑ کر جنت کے ابدی بستروں پر محوِ استرحت ہونے کی تیاری کرتا ہے۔
فجر کی نماز وقت پر پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے ان ہدایات پر غور کریں۔
ا۔ فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا اور طلوعِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ گرمیوں میں صبح صادق اپنے انتہائی اوقات میں چار بج کر تیرہ منٹ سے شروع ہوتا اور طلوعِ آفتاب پانچ بج کر اکتالیس منٹ پر ہوتا ہے(اسکی تفصیل اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے جو ہر روز تبدیل ہوتی رہتی ہے)۔دفتر ، اسکول و کالج جانے والے حضرات اور ناشتہ بنانے والی خواتین اس کے درمیان کبھی بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اگر جماعت ممکن نہیں تو گھر پر یہ نماز پڑھ کر دوبارہ سونے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ نیند کا دوبارہ آنا بظا ہر نا ممکن لگتا ہے لیکن کچھ دنوں کی مشق سے نیند دوبارہ آنا شروع ہو جائے گی۔ اگر آپ سونا نہیں چاہتے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
ب۔ سردیوں کے موسم میں طلوعِ آفتاب دیر سے ہو تا ہے چنانچہ ان دنوں میں فجر کی نماز وقت پر پڑھ کے دنیاوی امور میں مشغول ہو جانا زیادہ مشکل نہیں۔
ج۔ رات کو جلد سونے کی عادت ڈالیں۔ ایک انسان کے لئے اوسط نیند چھ سے آٹھ گھنٹے ہے چنانچہ رات کو اس طرح سوئیں کہ نیند بھی پوری ہو جائے اور نماز بھی مل جائے۔ لیکن نیند کی کمی ہو تو ہو، نماز ضرور پڑھنی ہے۔ اس سلسلے میں اوپر بیان کئے گئے جرمانے کے نظام سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
د۔ اس عادت میں پختگی کے بعد با جماعت نماز کی عادت بھی ڈالی جاسکتی ہے۔
د۔ مسقل نمازی
آخری صورت ان لوگوں کی ہے جو پانچ اوقات کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔یہ ایک بہت ہی مستحسن مقام ہے لیکن چونکہ انسان کا ہر عمل کامل نہیں ہوتا لہٰذا پنج وقتہ نمازیوں کے لیئے بھی بہتری کی گنجائش اور متعلق آفات سے نبٹنے کے لئے مستعدی کی ضرورت ہے۔ مستقل نمازی جن آفات اور کوتاہیوں کا شکار ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔
وسوسوں کی یلغار
پہلی کوتاہی جس کا ایک نمازی شکار ہوسکتا ہے وہ وساوس کا حملہ ہے۔ عموماََ نماز ہی میں بھولی بسری باتیں یاد آتی ہیں بعض اوقات انہی لایعنی خیالات کی رو بہک کر نمازی رکوع کی جگہ سجدہ کر بیٹھتااور سورۂ فاتحہ کی جگہ التحیات پڑھ لیتاہے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وسوسے جو غیر اختیاری ہیں ان پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے پر نکیر ہے۔ وسوسوں کا بنیادی سبب نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کا ناقابلِ فہم ہونا ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سورۂ فاتحہ اور رکوع و سجود میں پڑھی جانے والی تسبیحات کا اردو ترجمہ یاد کرلیا جائے۔پھر ان سورتوں کا ترجمہ بھی یاد کیا جائے جو آپ نماز میں پڑھتے ہیں۔ ہر آیت یا تسبیح کی ادائیگی سے پہلے اسکے مفہوم کو ذہن میں لاکر کچھ توقف کیا جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ کوئی آیت یا تسبیح ادا کرتے وقت یہ سوچیں کہ آپ کلمہ ادا کرنے کی نیت کر رہے ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ نوافل اور جہری نمازوں میں ہلکی سی بلند آواز میں اس طرح قرآت کی جائے کہ دیگر نمازی متاثّر نہ ہوں۔ اس سے بھی وسوسہ رفع کرنے میں مدد ملے گی۔
ریا کاری
دوسری کوتاہی ریاکاری ہے۔ بعض اوقات اپنے ساتھیوں کو دکھانے یا متاثّر کرنے کے لئے بھی کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں ۔ اسکا علاج یہ نہیں کہ نماز چھوڑ دی جائے بلکہ ریا کاری کا سدّباب کیا جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے مقامات تبدیل کردیں جہاں ریاکاری ہونے کا اندیشہ ہو مزید یہ کہ تنہائیوں میں بھی نماز ادا کرنے پر زور دیا جائے۔
جلد بازی
تیسری آفت نماز جلد بازی سے ادا کرنا ہے۔ اسکا ایک سبب مفہوم وفلسفے سے نا بلد ہونا جبکہ دوسرا سبب نماز کے بعد کئے جانے والے دنیاویکاموں کا خیال ہے۔ پہلی وجہ کا تدارک تو وسوسوں کے علاج میں موجود ہے جبکہ دوسرا نسخہ یہ ہے کہ نماز کے بعد کئے جانے والے تمام ممکنہ امور کو ذہن سے نکال دیا جائے اور ہر نماز کے بعد کچھ دیر پانچ یا دس منٹ تسبیحات اور ذکر میں مشغول رہا جائے اسطرح ذہن اور اعضاء سکون میں رہیں گے۔
۴۔۔ نماز میں خشوع و خضوع سے محرومی
۴خشوع، خضوع ، ارتکاز، حضوری قلب اور خدا کی یاد کے ثمرات سے محرومی بھی ایک آفت ہے جسکا شکار اکثر نمازی ہوتے ہیں۔ اس محرومی کے اسباب نماز کے فلسفے سے ناواقفیت، مطلوب تصورات کی کمزوری، یکسانیت اور تنہائی کا میسّر نہ آنا ہیں۔اسکا علاج یہ ہے کہ نماز کے ہر رکن یعنی قیام، رکوع، سجدہ، جلسہ وغیرہ کی حکمت پر مطالعہ کیا جائے کہ میں کس طرح اللہ رب العٰلمین کے حضور کھڑا ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے میں اپنا چہرہ اسکے قدموں میں رکھ کر اسکی محبت، شفقت اور رحم کی بھیک مانگ رہا ہوں ۔کبھی کھڑا ہوکر، کبھی بیٹھ کرکبھی جھک کر اور کبھی اٹھ کراسکی یاد سے اپنے سینے کو منوّر کررہا ہوں۔
اسکا دوسرا طریقہ جائز تصورات کو دل میں لانا ہے مثلاََ جنّت و دوزخ کا تصور، خدا کے دربار کا خیال، قیامت کی ہولناکی کے مناظر وغیرہ۔تصوّر میں ارتکاز اور پختگی پیدا کرنے کے لئے اگر نفل نمازوں میں آنکھیں بند کرلی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
یکسانیت سے نبٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سورتیں اور تسبیحات کو بدل بدل کر پڑھا جائے۔ مثال کے طور پر رکوع میں سبحانَ ربی العظیم کی جگہ کوئی اور دعا پڑھی جائے،یا تکبیر کے بعد مروّجہ ثناء کی بجائے کسی اور مسنون کلمے سے ابتدا کی جائے۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین سے مدد لی جاسکتی ہے۔خشوع وخضوع کے حصول کا ایک اور طریقہ تنہائی ہے۔ نوافل کو بالخصوص تہجد کی نماز رات کی تنہائی میں ادا کی جائے۔
با جماعت نماز میں کوتاہی
باجماعت نماز ادا کرنے میں بھی اکثر نمازی تساہل کا شکار ہوتے ہیں۔اسکا بنیادی سبب سستی اور غفلت ہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت کے ثواب کو ذہن میں لاکر نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں بالکل ویسے ہی کہ جب دنیا میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔
نوافل ادا نہ کرنا
بعض اوقات نمازی سنّت و نوافل سے گریز کرتے ہیں جس کا آخری نتیجہ فرائض سے روگردانی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ خدا اور بندے کا تعلق نوافل کی ادئیگی ہی سے مظبوط ہوتا ہے۔نوافل کی ادائیگی کا بہترین وقت اور نماز تہجد کی نماز ہے اسکا افضل وقت تو رات کا آخری پہر ہی ہے ، لیکن آج کے مصروف دور میں رات کو نماز ادا کرنا اور دوسرے دن فرائض زندگی ادا کرنا اتنا آسان نہیں۔ لہٰذاعشاء کی نماز کے بعد بھی اس نماز کو ادا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔البتہ ہفتے میں کم ازاکم ایک مرتبہ(عموماََ ویک اینڈپر) یہ نماز اپنے اصل وقت میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
بعض اوقات نمازی سنّت و نوافل سے گریز کرتے ہیں جس کا آخری نتیجہ فرائض سے روگردانی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ خدا اور بندے کا تعلق نوافل کی ادئیگی ہی سے مظبوط ہوتا ہے۔نوافل کی ادائیگی کا بہترین وقت اور نماز تہجد کی نماز ہے اسکا افضل وقت تو رات کا آخری پہر ہی ہے ، لیکن آج کے مصروف دور میں رات کو نماز ادا کرنا اور دوسرے دن فرائض زندگی ادا کرنا اتنا آسان نہیں۔ لہٰذاعشاء کی نماز کے بعد بھی اس نماز کو ادا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔البتہ ہفتے میں کم ازاکم ایک مرتبہ(عموماََ ویک اینڈپر) یہ نماز اپنے اصل وقت میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
تکبر
ایک اور آفت جسکا شکار مستقل مزاج نمازی ہو جاتے ہیں وہ تکبر ہے۔ تسلسل سے نماز پڑھنے کی وجہ سے شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اب تو تو کامل ہوگیا اور تو خدا کے دربار میں مقبول ہو گیا ۔ اس خیال کی بنا پر انسان گناہوں کی جانب مائل ہوتا اور اخلاقیات سے صرف نظر کرلیتا ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ اس بات کا تصور کیا جائے کہ اللہ اس بات کا اختیا ر رکھتے ہیں کہ وہ میری نمازوں کو قبول کریں یا رد کریں۔ میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ اپنی نمازوں کی قبولیت کا علم حاصل کرسکوں لہٰذا ان پر نازاں ہونا بے وقوفی ہے۔
مسجد سے لاتعلقی
مسجد بنیادی طور پر سجدے کی جگہ کو کہتے ہیں۔اصطلاحی مفہوم میں مسجد مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے۔ ایک نمازی کا مسجد سے ویسا ہی تعلق ہوتا ہے جیسے غلاموں کا بادشاہ کے محل سے۔ مسلم کی حدیث ہے کہ مکانوں میں سب سے محبوب اللہ کی مساجد اور سب سے ناپسندیدہ بازار ہیں۔ ایک اور حدیث ہے کہ سات اشخاص ایسے ہیں جن کو اللہ قیامت کے روز اپنے سائے میں رکھے گا ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد ہی میں اٹکا رہے(متفق علیہ)۔چنانچہ ایک مستقل مزاج نمازی کو چاہئے کہ وہ مسجد سے زندہ تعلق قائم کرے اور نمازوں کے بعد کچھ دیر وہیں بیٹھ کر اللہ کی حمد و ثنا، تسبیح ، تذکر، تفکر اور مناجات کرتا رہے۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار اس عمل کو ضرور کیا جائے تاکہ خدا کے گھر سے تعلق برقرار رہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔