سائنس میں بنیادی اہمیت کے علوم دوہیں جن پرٹکنالوجی یا(قرآن کی اصطلاح میں)تسخیرکامدارہے اوروہ ہیں علم کیمیااورطبیعات ۔ جدید سائنس کے ان بنیادی پہلوؤں کی طرف قرآن مجیدمیں بارہا توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔بلکہ یہ کہاجاسکتاہے کہ سائنسی ایجادات واختراعات کاداعی اول ،اسلام ہے۔اوریہی قرآن مجیدہے جس نے اکتشافات وایجادات کی راہیں کھولی ہیں۔چنانچہ اس نے ان لوگوں کی تعریف کی جوزمین وآسمان کی تخلیق ،رات اوردن کے تغیرات ،سمندرکے منافع،ہوااوربادلوں کی تسخیراورخدائے تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام پرغورکرکے اپنے رب کو پہچانتے ہیں۔فرمان خداوندی ہے ۔مفہوم ’’بیشک زمین وآسمان کے پیداکرنے ،رات اوردن کے بدلنے ،سمندرمیں کشتیوں کے چلنے ان چیزوں کی وجہ سے جولوگوں کوفائدہ پہونچاتی ہیں اورجوپانی اللہ نے آسمان سے اتاراجس کی وجہ سے زمین کوزندگی ملتی ہے ،اس زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد،ہواؤں کے چلنے اوربادلوں کے آسمان وزمین کے درمیان مسخرہونے میں بہت ساری نشانیاں ہیں ،ان لوگوں کیلئے جوعقل والے ہیں‘‘۔(پ۲،سورہ بقرہ آیت نمبر۱۶۴)یہ آیت حیوانات ،جمادات ،فلکیات ،موسمیات اوران کے نظاموں سے متعلق نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی ہدایت دیتی ہے ،اکتشافات وایجادات کی راہیں کھولتی ہے اوراس طرح کے کام کرنے والو ں کو’’عقلمند‘‘کی سند عطاکرتی ہے ۔ان ہی نئی نئی معلومات ،ایجادات واکتشافات کانام تو سائنس ہے گویاسائنسی ایجادات واختراعات کاداعی اول ،قرآن ہے ۔
قرآن مجید نے ہمیں دوسرے مقامات پربھی مظاہرکائنات اوراس کی مشنری پرغورکرکے مختلف علوم ومسائل میں ڈوب کرطرح طرح کی صنعتو ں کووجود میں لانے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
مفہوم’’اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے سمندر کومسخرکیاتاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤاورتم اس سے نکالتے رہوزیورجس کوتم پہنتے ہواورتم دیکھتے ہو کشتیوں کوتاکہ تم اللہ کے فضل کو تلاش کرواورشکراداکرو۔(پ۱۴سورہ نحل آیت نمبر۱۴)
اس آیت کریمہ میں سمندرکوتابعدار بتایاگیاہے اورظاہرہے کہ اس مقصد کاحصول بغیرکشتی ،جہاز اورسمندری بیڑابنائے حاصل نہیں ہوسکتا،پھرآگے تازہ گوشت حاصل کرنے اورسمندرسے موتی نکالنے کی ہدایت دی ہے جس کے لئے مختلف قسم کے اوزاربھی بنائے جانے ضروری ہیں ۔اس طرح آیت مذکورہ میں کئی صنعتوں کے حصول کی تعلیم پوشیدہ ہے جس کے لئے بہت سی فنی تجربات کی ضرورت پڑتی ہے اوران ہی فنی معلومات واکتشافات وایجادات کانام سائنس ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید نے انسان کو یہ حکم دیاہے کہ وہ علم اسماء کے رموز ودقائق اوردست تسخیرکی قوت سے مخفی نعمتوں کومنظر عام پرلائے ۔اسی کی طرف اشارہ ہے اس فرمان میں’’
’’اللہ نے زمین وآسمان کوپیداکیااورآسمان سے تمہارے فائدے کے لئے پانی اتاراپھراس کے ذریعہ تمہارے کھانے کے لئے رزق نکالا(پ۱۲سورہ ابراہیم آیت نمبر۳۲) نیز فرمایا’’کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لئے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو مسخرکردیااورپھیلادیاتم پراپنی نعمتوں کوجوظاہر بھی ہیں اورمخفی بھی ‘‘۔(پ۲۱رکوع نمبر۱۱آیت نمبر۲۰)
ان آیات میں جن نعمتوں کی طرف انسانی ذہن کو متوجہ کیاگیاہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے آج بھی بجلی اوربھاپ سے چلنے والی ہزاروں قسم کی مشینوں ، تمدنی ضروریات ،اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی جدید مشینوں،طب جدید میں طرح طرح کے آلات کی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں اورظاہر ہوتی رہیں گی ،قرآن کریم کادعویٰ ہے ’’وہ پیداکرتارہے گاان چیزوں کوجن کوتم نہیں جانتے ‘‘(نحل پارہ ۱۴)۔اس آیت کوسامنے رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ دنیاکی جس چیزکی بھی ایجادہو،نہایت ہی بلیغ اس آیت کریمہ میں ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔
اسی طرح اس آیت’’اوران کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ انسان کوبھری ہوئی کشتی میں سوارکیااورہم نے پیداکیااس جیسی اورچیزیں جس پروہ سوارہوتے ہیں‘‘۔(سورہ یسٓ پارہ۲۳) میں قیامت تک ظاہرہونے والی نئی نئی سواریاں ،ٹرین ،ہوائی جہاز،نقل وحمل کے دیگر ذرائع،وغیرہ سب شامل ہیں۔اس طرح قرآن کریم میں سائنسی علوم کی طرف متوجہ کرنے کی باربار کوشش کی گئی ہے ۔اوراس کی ترغیب دی گئی ہے ۔اسی طرح رحم مادرمیں بچے کی تخلیق اوراس کی نشو ونماسے متعلق کئی جگہوں پرجواہم انکشافات ’’الٹراساؤنڈ وغیرہ مشینوں کے سامنے آنے سے پہلے‘‘ کئے گئے ہیں،ان کے سامنے عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے ۔ساتھ ہی اس نے ایسے انکشافات بھی کئے جن کاحتمی علم کسی کونہ ہوسکتاتھا۔مثلا آسمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا۔مفہوم’’پھراللہ تعالی ٰآسمان کی طرف متوجہ ہوااس حال میں کہ آسمان دھواں تھا‘‘۔(پ۲۴سورہ حمٓ السجدہ آیت نمبر۱۱)معلوم ہواکہ سائنس اسلام کی ہی دین ہے ،ورنہ قرآن کے نزول سے پہلے سائنس نے ترقی نہیں کی اوراسے کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی جیسے ہی اسلام آیا،دنیا کوایک عظیم نعمت ،قطعی علم کے ذریعہ ملی جس سے ایجادات کی بھرمارلگ گئی۔
قرآن مجید سائنس کے تابع نہیں
یہ حقیقت بھی ساتھ ساتھ سامنے رہنی چاہئے کہ اسلام اورقرآن ،سائنس کے تابع نہیں ہیں بلکہ سائنسی تعلیمات، قرآنی نظریات کے تابع ہیں۔اگرکوئی سائنسی نظریہ، اسلامی نظریہ سے ٹکراتاہوانظرآئے تو قرآن کے فرمان کواس کے تابع نہیں کیاجاسکتا۔سائنس کے کئی نظریات بدلتے رہے ہیں،جب کہ قرآن کے نظریات،آج بھی وہی ہیں جس میں قیامت تک تغیروتبدل کاکوئی امکان نہیں۔پھریہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قرآن مجید ،سائنس کی کتاب نہیں ،طب کی کتاب نہیں،فلسفہ ،جغرافیہ کی کتاب نہیں ،بلکہ وہ صرف اورصرف ’’کتاب ہدایت ‘‘ہے جس کے نزول کامقصد سائنسی اکتشافات اورتاریخی معلوما ت کی فراہمی نہیں،صرف اور صرف بندوں کو اس کے معبود حقیقی اورخالق حقیقی سے جوڑنااورانسانیت کے ذہن میں تصورآخرت اوراحساس جوابدہی کوپیداکرناہے۔مفہوم ’’یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کربیان کی گئی ہیں جاننے والوں کے لئے ۔خوش خبری دینے والی ہے اورڈرانے والی ہے ‘‘۔(حمٓ السجدہ پ۲۴)پھراہل ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’بن دیکھے ایمان لائے ‘‘۔مفہوم ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں،ہدایت ہے ان متقین کے لئے جوایمان لاتے ہیں غیب پر‘‘ ۔(بقرہ پ۱آیت۲)یہ دونوں اوراسی مفہوم کی مزیدآیتیں ،اسی حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ’’ ایمان ‘‘ ،مشاہدات،تجربات اورریسرچ کے بغیر،خدائی فرمان کو’’مان لینے ‘‘کانام ہے اورقرآن اوراسلام کامقصد ، صراط مستقیم کی طرف صحیح راہنمائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پرقرآن مجید میں کوئی تاریخی واقعہ بیان کیاگیاہے وہاں یاتوبہت اختصار سے کام لیاگیاہے یاپھرغیرمرتب انداز میں،اسی طرح کہیں واقعہ کے کسی ایک دوجزئیہ کو بیان کیاگیاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن ،تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں موجودتاریخی واقعات کواپنی تاریخی معلومات پر،پرکھاجائے اسی طرح قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ ہرسائنسی تحقیق کوقرآن مجید میں تلاش کیاجائے اورسائنسی کسوٹی پراس کوپرکھاجائے ۔یہ توقرآن کااعجازہے کہ ایک امی ﷺکی زبان پرجاری ہونے والایہ کلام تمام علوم کاجامع ہے جوپیغمبراسلام اورقرآن کامعجزہ ہے۔ پھرسائنسی مضامین وغیرہ صرف ’’اثبات حق اورابطال باطل ‘‘کے دلائل کے طورپربیان کئے گئے ہیں۔ان ہی بنیادی باتوں سے ناواقفیت ،یاعدم توجہ کی بنیاد پریہ وبا،عام ہوگئی ہے کہ جوبھی نئی تحقیق سامنے آئے ،اسے قرآن اوراسلامی تعلیمات میں تلاش کیاجاتاہے ۔یازبردستی اسلامی مزاج اورروح کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اوراگریہ نہ ہوسکے تواس وقت اسلامی تعلیمات کوسائنس اورجدید تحقیقات کے تابع کیاجاتاہے ۔ اس سمت میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
قرآن مجید نے ہمیں دوسرے مقامات پربھی مظاہرکائنات اوراس کی مشنری پرغورکرکے مختلف علوم ومسائل میں ڈوب کرطرح طرح کی صنعتو ں کووجود میں لانے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
مفہوم’’اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے سمندر کومسخرکیاتاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤاورتم اس سے نکالتے رہوزیورجس کوتم پہنتے ہواورتم دیکھتے ہو کشتیوں کوتاکہ تم اللہ کے فضل کو تلاش کرواورشکراداکرو۔(پ۱۴سورہ نحل آیت نمبر۱۴)
اس آیت کریمہ میں سمندرکوتابعدار بتایاگیاہے اورظاہرہے کہ اس مقصد کاحصول بغیرکشتی ،جہاز اورسمندری بیڑابنائے حاصل نہیں ہوسکتا،پھرآگے تازہ گوشت حاصل کرنے اورسمندرسے موتی نکالنے کی ہدایت دی ہے جس کے لئے مختلف قسم کے اوزاربھی بنائے جانے ضروری ہیں ۔اس طرح آیت مذکورہ میں کئی صنعتوں کے حصول کی تعلیم پوشیدہ ہے جس کے لئے بہت سی فنی تجربات کی ضرورت پڑتی ہے اوران ہی فنی معلومات واکتشافات وایجادات کانام سائنس ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید نے انسان کو یہ حکم دیاہے کہ وہ علم اسماء کے رموز ودقائق اوردست تسخیرکی قوت سے مخفی نعمتوں کومنظر عام پرلائے ۔اسی کی طرف اشارہ ہے اس فرمان میں’’
’’اللہ نے زمین وآسمان کوپیداکیااورآسمان سے تمہارے فائدے کے لئے پانی اتاراپھراس کے ذریعہ تمہارے کھانے کے لئے رزق نکالا(پ۱۲سورہ ابراہیم آیت نمبر۳۲) نیز فرمایا’’کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لئے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو مسخرکردیااورپھیلادیاتم پراپنی نعمتوں کوجوظاہر بھی ہیں اورمخفی بھی ‘‘۔(پ۲۱رکوع نمبر۱۱آیت نمبر۲۰)
ان آیات میں جن نعمتوں کی طرف انسانی ذہن کو متوجہ کیاگیاہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے آج بھی بجلی اوربھاپ سے چلنے والی ہزاروں قسم کی مشینوں ، تمدنی ضروریات ،اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی جدید مشینوں،طب جدید میں طرح طرح کے آلات کی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں اورظاہر ہوتی رہیں گی ،قرآن کریم کادعویٰ ہے ’’وہ پیداکرتارہے گاان چیزوں کوجن کوتم نہیں جانتے ‘‘(نحل پارہ ۱۴)۔اس آیت کوسامنے رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ دنیاکی جس چیزکی بھی ایجادہو،نہایت ہی بلیغ اس آیت کریمہ میں ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔
اسی طرح اس آیت’’اوران کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ انسان کوبھری ہوئی کشتی میں سوارکیااورہم نے پیداکیااس جیسی اورچیزیں جس پروہ سوارہوتے ہیں‘‘۔(سورہ یسٓ پارہ۲۳) میں قیامت تک ظاہرہونے والی نئی نئی سواریاں ،ٹرین ،ہوائی جہاز،نقل وحمل کے دیگر ذرائع،وغیرہ سب شامل ہیں۔اس طرح قرآن کریم میں سائنسی علوم کی طرف متوجہ کرنے کی باربار کوشش کی گئی ہے ۔اوراس کی ترغیب دی گئی ہے ۔اسی طرح رحم مادرمیں بچے کی تخلیق اوراس کی نشو ونماسے متعلق کئی جگہوں پرجواہم انکشافات ’’الٹراساؤنڈ وغیرہ مشینوں کے سامنے آنے سے پہلے‘‘ کئے گئے ہیں،ان کے سامنے عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے ۔ساتھ ہی اس نے ایسے انکشافات بھی کئے جن کاحتمی علم کسی کونہ ہوسکتاتھا۔مثلا آسمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا۔مفہوم’’پھراللہ تعالی ٰآسمان کی طرف متوجہ ہوااس حال میں کہ آسمان دھواں تھا‘‘۔(پ۲۴سورہ حمٓ السجدہ آیت نمبر۱۱)معلوم ہواکہ سائنس اسلام کی ہی دین ہے ،ورنہ قرآن کے نزول سے پہلے سائنس نے ترقی نہیں کی اوراسے کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی جیسے ہی اسلام آیا،دنیا کوایک عظیم نعمت ،قطعی علم کے ذریعہ ملی جس سے ایجادات کی بھرمارلگ گئی۔
قرآن مجید سائنس کے تابع نہیں
یہ حقیقت بھی ساتھ ساتھ سامنے رہنی چاہئے کہ اسلام اورقرآن ،سائنس کے تابع نہیں ہیں بلکہ سائنسی تعلیمات، قرآنی نظریات کے تابع ہیں۔اگرکوئی سائنسی نظریہ، اسلامی نظریہ سے ٹکراتاہوانظرآئے تو قرآن کے فرمان کواس کے تابع نہیں کیاجاسکتا۔سائنس کے کئی نظریات بدلتے رہے ہیں،جب کہ قرآن کے نظریات،آج بھی وہی ہیں جس میں قیامت تک تغیروتبدل کاکوئی امکان نہیں۔پھریہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قرآن مجید ،سائنس کی کتاب نہیں ،طب کی کتاب نہیں،فلسفہ ،جغرافیہ کی کتاب نہیں ،بلکہ وہ صرف اورصرف ’’کتاب ہدایت ‘‘ہے جس کے نزول کامقصد سائنسی اکتشافات اورتاریخی معلوما ت کی فراہمی نہیں،صرف اور صرف بندوں کو اس کے معبود حقیقی اورخالق حقیقی سے جوڑنااورانسانیت کے ذہن میں تصورآخرت اوراحساس جوابدہی کوپیداکرناہے۔مفہوم ’’یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کربیان کی گئی ہیں جاننے والوں کے لئے ۔خوش خبری دینے والی ہے اورڈرانے والی ہے ‘‘۔(حمٓ السجدہ پ۲۴)پھراہل ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’بن دیکھے ایمان لائے ‘‘۔مفہوم ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں،ہدایت ہے ان متقین کے لئے جوایمان لاتے ہیں غیب پر‘‘ ۔(بقرہ پ۱آیت۲)یہ دونوں اوراسی مفہوم کی مزیدآیتیں ،اسی حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ’’ ایمان ‘‘ ،مشاہدات،تجربات اورریسرچ کے بغیر،خدائی فرمان کو’’مان لینے ‘‘کانام ہے اورقرآن اوراسلام کامقصد ، صراط مستقیم کی طرف صحیح راہنمائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پرقرآن مجید میں کوئی تاریخی واقعہ بیان کیاگیاہے وہاں یاتوبہت اختصار سے کام لیاگیاہے یاپھرغیرمرتب انداز میں،اسی طرح کہیں واقعہ کے کسی ایک دوجزئیہ کو بیان کیاگیاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن ،تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں موجودتاریخی واقعات کواپنی تاریخی معلومات پر،پرکھاجائے اسی طرح قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ ہرسائنسی تحقیق کوقرآن مجید میں تلاش کیاجائے اورسائنسی کسوٹی پراس کوپرکھاجائے ۔یہ توقرآن کااعجازہے کہ ایک امی ﷺکی زبان پرجاری ہونے والایہ کلام تمام علوم کاجامع ہے جوپیغمبراسلام اورقرآن کامعجزہ ہے۔ پھرسائنسی مضامین وغیرہ صرف ’’اثبات حق اورابطال باطل ‘‘کے دلائل کے طورپربیان کئے گئے ہیں۔ان ہی بنیادی باتوں سے ناواقفیت ،یاعدم توجہ کی بنیاد پریہ وبا،عام ہوگئی ہے کہ جوبھی نئی تحقیق سامنے آئے ،اسے قرآن اوراسلامی تعلیمات میں تلاش کیاجاتاہے ۔یازبردستی اسلامی مزاج اورروح کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اوراگریہ نہ ہوسکے تواس وقت اسلامی تعلیمات کوسائنس اورجدید تحقیقات کے تابع کیاجاتاہے ۔ اس سمت میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔