Dec 18, 2014

روح اور اسکی غذا

آئیے روز پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہےآئیے جائزہ لیتے ہیں کہ روح کیا ہے اور اسکی غذا کیا ہے۔روح کی دو قسمیں ہیں ایک علوی دوسری سفلی۔روحِ علوی مادہ سے مجرد اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جسکی حقیقت کا ادراک مشکل ہے۔ اور روحِ سفلی وہ بخارِ لطیف ہے جو بدنِ انسانی کے عناصر اربعہ آگ، پانی، مٹی اور ہوا کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے اور اسی روحِ سفلی کو نفس بھی کہا جاتا ہےاور یہی روح جب جسم سے نکلتی ہے تو موت واقع ہو جاتی ہےاور اس روح کا ٹھکانہ انسان کا دل ہے وہیں سے یہ سارے جسم میں سرایت کرتی ہے۔(ملخص از تفسیرِ مظہری)
روحِ علوی تو مادے سے مجرد ہے اور ہے بھی عالمِ امر (عرشِ الٰہی سے اوپر کی کائنات ) کی مخلوق اس لئے دنیاوی علائق سے پاک ہےاور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے انوارات سے منور رہتی ہے اور انہی الہٰی تجلیات کو ہم اسکی غذا کہہ سکتے ہیں۔ – اس وقت روح علوی ہماری بحث سے خارج ہے، اس تحریر میں آگے روح اور نفس سے مراد روحِ سفلی ہی ہو گی- البتہ روحِ سفلی چونکہ عالم خلق (عرش اور عرش سے نیچے کی کائنات) کی مخلوق ہے اور اسمیں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی دونوں کی صلاحیت رکھ دی ہے چنانچہ سورۃ الشمس میں فرمان باری ہے :فالھمھافجورھا و تقواھا۔ قد افلح من زکٰھا۔ وقد خاب من دسٰھا۔( پس نفس میں اسکی بدی اور پرہیزگاری الہام کر دی، تحقیق کامیاب ہوا جس نے اسے (نفس کو) پاکیزہ رکھا، اور تحقیق ناکام ہوا جس نے اسے(نفس کو) گناہوں میں دھنسا دیا)اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی روح کو روح کے خالق کی فرمانبرداری اور رضا والے اعمال سے سیراب کرتے ہیں اور انہی اعمال کو روح کی غذا بناتے ہیں اور قد افلح من زکٰھا کے مستحق بنتے ہیں یا پھر اسے اللہ کی نافرمانی اور ناراضگی والے افعال سے خراب کرکے انہی ناجائز افعال کو روح کی غذا بناتے ہیں اور وقد خاب من دسٰھاکےمستحق بنتے ہیں۔
تو جس طرح ہم اپنے جسم کی غذا کے طور پراللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اور پاکیزہ اشیاء کا انتخاب کرتے ہیں اور حرام اور مشکوک اشیاء سے پرہیز اور اجتناب کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہمیں روح کی غذا، تروتازگی و سیرابی اورسرور و نشاط کے لئے بھی اللہ کی مرضیات کو اختیار کرنا اور اسکی ناراضگی کا سبب بننے والے اقوال و افعال سے اجتناب کرنا ضروری ہے ورنہ ہماری روح پژمردہ اور فساد زدہ ہو جائے گےاور پھر ہمارا پورا جسم اس فساد کی لپیٹ میں آ جائے گا۔اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا الا و ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب۔ بخاری (بیشک جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ، آگاہ رہو وہ دل ہے)چونکہ دل روح کا ٹھکانہ ہے اس لئے دل کی خرابی سے مراد اس حدیث میں روح کی خرابی ہے کیونکہ اس کے بغیر تو دل ایک بے جان لوتھڑا ہے اسی لئے مشائخِ صوفیاء بھی نفس (روح) کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔
نیز روحِ سفلی روحِ علوی کے لئے آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے اگر ہم اس آئینہ (روح سفلی) کو پاک و صاف رکھیں گے تو روحِ علوی پر جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تجلیات و انوارت کا نزول رہتا ہے ان کا عکس ہماری روحِ سفلی (نفس ) پر بھی پڑے گا اور ہمیں بھی عالم بالا کی سیر نصیب ہوگی لیکن اگر ہم نے گناہوں اور ناجائز کاموں کے ارتکاب سے اپنے آئینہ ( روح سفلی) کو پراگندہ و آلودہ کر دیا تو ظاہر ہے جس طرح آئینہ کو خاک آلود کر دیا جائے تو سورج کا عکس بھی اس پر نہیں پڑتا اسی طرح ہم بھی باری تعالیٰ کی تجلیات سے محروم ہو جائیں گے اور دنیا و آخرت کی رسوائی ہمارا نصیب ٹھیرے گی۔ تو معلوم ہوا کہ روح کی اصل غذا تو عبادات ہی ہیں البتہ جو ناجائز امور موسیقی وغیرہ کے ذریعہ روح کو پراگندہ اور آلودہ کر کے اللہ تعالیٰ کی تجلیات و انوارات سے اپنے آپ کو محروم رکھنا چاہیں تو وہ انکے اختیار میں ہے اور کل قیامت کو اللہ کے سامنے جوابدار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی روح کو پاکیزہ رکھنے اور تمام ناجائز کاموں کی آلودگی سے محفوظ رکھنے اور ذکر و تلاوت اور جملہ عبادات کے ذریعے اپنی روح کو مجلیٰ و مصفٰی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads