Dec 18, 2014

عقیدہ توحید

عقیدہ توحید مذہب اسلام کا سرمایہ افتخارہے۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں کوئی مذہب نہیں جو توحیدِ خالص پر گامزن ہو۔ تمام مذاہب چاہے وہ سابقہ آسمانی مذاہب ہی کیوں نہ رہے ہوں اور ان کے اسلاف مسلمان ہی کیوں نہ رہے ہوں لیکن نبی ﷺ کی بعثت سے قبل ہی وہ عقیدہ توحید سے دستبردار ہو چکے تھےاور نبی ﷺ کی دعوت ِ توحید پر لبیک نہ کہنے کی وجہ سے اب تک شرک کی وادیوں میں سرگرداں ہیں۔ اور جس طرح مذہبِ اسلام ایک فطرتی مذہب ہے اسی طرح اس کا سرمایہ افتخار عقیدہ توحید بھی ایک فطرتی عقیدہ ہے ، اس کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو گرفتارِ مصیبت ہوتا ہے اور کسی طوفانِ بلا خیز میں پھنستا ہےاور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی یا اچانک اسے کوئی خوشی نصیب ہوتی ہے جس کی اسے قطعا کوئی توقع نہیں تھی تو اس کی نظرِ احتیاج اور اس کی دلی شکر گزاری ان شدید خطرات کے لمحات میں اور اس اچانک خوشی کے موقع پر کس ذات کی طرف ہوتی ہے؟ ظاہر ہے اکیلے اللہ وحدہ لاشریک کی طرف ہی۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: واذا مس الانسان ضر دعا ربہ منیبا الیہ (جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو خوب متوجہ ہو کر پکارتا ہے لیکن جب تکلیف دور ہو جاتی ہے تو پھر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔ تو انسان کا اس طرح شدید غمی اور شدید خوشی کے موقع پر ایک ہی ذات کی طرف متوجہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ عقیدہ توحید انسان کی اصل فطرت میں داخل ہے اور جنہوں نے انبیاء علیھم السلام کی ہدایات کے مطابق اس عقیدہ کی رعایت کی وہ موحد کہلائے اور جنہوں نے اپنی فطرت کو مسخ کیا وہ مشرک کہلائے۔
عقیدہ توحید فطرتی ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی بھی ہے کیونکہ عقلِ سلیم جب نظامِ عالم پر نظر کرتی ہے اور مشاہدہ کرتی ہے کہ نظامِ عالم کی تمام اکائیاں درست درست اپنی اسی ترتیب کے مطابق چل رہی ہیں جس ترتیب کے مطابق شروع سے چلتی آرہی ہیں اور کسی قسم کی بےترتیبی کا شکار نہیں جیسے سورج ، چاند، ستارے ،زمین وغیرہ اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں تو عقلِ سلیم سمجھ جاتی ہے کہ کوئی علیم و قدیر ذات اکیلی اس نظام کو چلا رہی ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ذات بابرکات اس نظام کو چلانے میں کسی کی محتاج نہیں ورنہ جہاں ایک سے دو منتظم ہوں وہاں ضرور بدنظمی پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ توحید کے وہ لوگ بھی مکلف ہیں جنہیں انبیاء علیھم السلام کی دعوت نہیں پہنچی اس لئے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت اور اس کی توحید کا اقرار ایک فطرتی اور بدیہی امر ہےانبیاء علیھم السلام کی بعثت پر موقوف نہیں بلکہ عقل بھی اس کا ادراک کر سکتی ہے بالفرض اگر دنیا میں ایک بھی نبی نہ آتا تو تب بھی تمام انسانیت توحید کی مکلف ہوتی۔
اس لئے ہمیں چاہیئے کہ اس فطرتی عقیدہ پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں اور ہر قسم کی شرکیات سے اپنے آپ کو بچائیں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو خوب بیان کریں کیونکہ جس چیز کا جتنا زیادہ تذکرہ کیا جاتا ہے وہ اتنی ہی زیادہ دل میں جگہ پکڑتی ہے۔اللہ ہمیں موحدین میں شامل فرمائے۔ اٰمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads