احادیث


محبوب چیز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی فرماتا ہے کہ جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اِس دنیا سے اٹھا لیتا ہوں پِھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے ، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے ( صحیح بخاری ، جلد سوم ، حَدِیث : 1355 ...
مکمل تحریر >>

مسواک

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک کیا کرو اِس لیے کے مسواک منه کو صاف کرنے والی اور پروردگار کو راضی کرنے والی ہے . جب بھی میرے پاس جبرائیل آئے مجھے مسواک کا کہا حتی کے مجھے اندیشہ ہوا کے مسواک مجھ پر اور میری امت پر فرض ہو جائے گی اور اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں مسواک کو اپنی امت پر فرض کر دیتا اور میں اتنا مسواک کرتا...
مکمل تحریر >>

نبی کی دعا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول کی جاتی ہے جب بھی وہ اپنی امت کے لیے اس دعا کو مانگتا ہے تو اسے وہ دیا جاتا ہے اور میں نے ( اپنی دعا ) قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے سنبھال رکھی ہے ( صحیح مسلم : جلد اول : حدیث 492 ...
مکمل تحریر >>

نیکی کرنے میں جلدی

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیکی کرنے میں جلدی کرو اِس سے پہلے کے ( یہ ) 6 چیزیں واقع ہوں دجال کا ظہور دھواں زمین کا جانور سورج کا مغرب سے نکلنا انتشار کا عام ہونا جس سے بڑے پیمانے پہ قتل عام ہو گا ( رواہ مسلم ، کتاب 41 ، حدیث 7040 )...
مکمل تحریر >>

غصے پہ قابو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے قوی وہ نہیں کے جو ( کشتی میں کسی کو ) پچھاڑے بلکہ قوی وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ( صحیح بخاری : جلد سوم ، حدیث : 1054 ...
مکمل تحریر >>

بیواؤں اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے بیواؤں اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا الله کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ، یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے . ( صحیح بخاری : جلد سوم : حدیث 951 ...
مکمل تحریر >>

ستر ہزار جنتی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میری امت میں سے ستر ہزار آدمی جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے ، اور نہ شگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ( صحیح بخاری : جلد سوم : حدیث 1402 ...
مکمل تحریر >>

مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ

کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں ، اس لئے یہی کہا کرو ( میرے متعلق ) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔صحیح بخاری ، حدیث نمبر 344...
مکمل تحریر >>    



نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بندہ مسلمان جہنم میں ہزار سال تک فریاد کرتے ہوئے کہے گا، یاحنان یا منان، تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیں گے جا میرے اس بندے کو میرے پاس لے کر آ۔
جبرائیل علیہ السلام جائیں گے تو سب اہل جہنم کو اوندھے منہ روتے ہوئے پائیں گے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف لوٹیں گے اور اس حال کی خبر کریں گے تو اللہ تعالی فرمائیں گے، تم اسے میرے پاس لے کر آؤ وہ ایسے ایسے مقام پر ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کو لے کر آئیں گے اور رب تعالی کے سامنے کھڑا کردیں گے تب اللہ تعالی پوچھیں گے اے میرے بندے تو نے اپنا ٹھکانا کیسا پایا؟ تو وہ عرض کرے گا بہت بُری جگہ ہے اور بہت بُرا مقام ہے تو اللہ تعالی فرمائیں گے میرے بندے کو واپس لے جاؤ، وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے یہ امید نہیں تھی کہ آپ مجھے وہاں سے نکال کر پھر واپس ڈال دیں گے، تو اللہ حکم دیں گے کہ میرے بندے کو چھوڑ دو اور جنت میں داخل کردو
مسند احمد، باب مسند انس بن مالک، حدیث نمبر:۱۲۹۳۱

جو شخص مقروض مر جائے اس پر نماز پڑھنا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو مومن ہے میں اس کا دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ دوست ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو “ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں” (الاحزاب: 6) لہٰذا جو مومن مر جائے اور کچھ مال چھوڑے تو اس مال کے وارث تو اس کے اعزاء ہیں جو کوئی ہوں اور جو شخص کچھ قرض، بچے یا کوئی ضائع ہو جانے والی چیز چھوڑے تو وہ میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا بندوبست کروں گا۔

صحیح بخاری




نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جو انکار کرے گا (وہ داخل نہیں ہو گا)۔” لوگوں نے عرض کی کہ وہ کون ہے (جس نے انکار کیا)؟ فرمایا: “ جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری (عملاً) نافرمانی کی اس نے انکار کیا (اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا)۔”

صحیح بخاری




اللہ تعالیٰ کا فرمان “وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔” الفتح: 15

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ برائی کرنے کا ارادہ کر لے تو (اے فرشتو!) تم اس کو مت لکھو جب تک کہ وہ اس کو کرے نہیں۔ پھر اگر کرے تو ایک برائی لکھ لو اور اگر میرے خوف سے اس کو ترک کر دے (یعنی اس برائی کو نہ کرے) تو اس کو بھی ایک نیکی لکھ لو اور جب وہ کسی نیکی کے کرنے کا ارادہ کرے اور اس کو کرے نہیں تو اس کو بھی ایک نیکی لکھ لو اور پھر اگر اس کو کرے تو اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک لکھو۔”

صحیح بخاری




نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کو اللہ جل شانہ، کی توحید کی طرف بلانے کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک لشکر کا سردار بنا کر روانہ کیا۔ وہ شخص جب نماز پڑھاتے تو قل ھو اﷲ احد پر قرآت مکمل کرتے۔ جب یہ لوگ واپس ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟” لوگوں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا (کہ میں اس لیے اس کو زیادہ پڑھتا ہوں کہ) یہ رحمن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی صفت ہے اور میں اس کے پڑھنے کو محبوب رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اس سے کہہ دو کہ اللہ اس کو محبوب رکھتا ہے۔”

صحیح بخاری




جو شخص لوگوں کا مال قرض لے اور وہ اس کے ادا کرنے یا ضائع کر دینے کا ارادہ رکھتا ہو (تو اس کا کیا حکم ہے؟)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو شخص لوگوں کا مال قرض لے اور وہ اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ادا کرا دے گا اور جو شخص (لوگوں کا) مال لے اور وہ اس (مال) کو ضائع کر دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع کر دے گا۔”

صحیح بخاری




قیامت میں قصاص لیے جانے کا بیان۔

سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ سب سے پہلے جس چیز کا لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا وہ خون خرابے کا فیصلہ ہے۔”

صحیح بخاری




جب کوئی مسجد میں آئے تو (اسے چاہیے کہ) دو رکعت نماز پڑھ لے۔

سیدنا ابوقتادہ السلمیی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔”

صحیح بخاری




مردوں کا مسجد میں سونا (درست ہے)۔

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟” وہ بولیں کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ (تنازعہ) ہو گیا تو وہ مجھ پر غضبناک ہو کر چلے گئے اور میرے ہاں نہیں سوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: “ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ (دیکھ کر) آیا اور اس نے کہا کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) تشریف لے گئے اور وہ لیٹے ہوئے تھے، ان کی چادر ان کے پہلو سے گر گئی تھی اور ان کے (جسم پر) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کے جسم) سے مٹی جھاڑتے اور یہ فرماتے تھے: “ اے ابوتراب! اٹھو۔ اے ابوتراب! اٹھو۔”

صحیح بخاری




علم کا اٹھ جانا اور جہالت کا ظاہر ہونا۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ بیشک (یہ باتیں) قیامت کی علامات میں سے ہیں کہ علم اٹھ جائے اور جہالت باقی رہ جائے اور شراب نوشی (کثرت سے) ہونے لگے اور علانیہ زنا ہونے لگے۔”

صحیح بخاری




جو شخص علم (کو بیان کرنے) میں اپنی آواز بلند کرے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس حال میں ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کر دی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے تو (جلدی کی وجہ سے) ہم اپنے پیروں پر پانی لگانے لگے (کیونکہ دھونے میں دیر ہوتی) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کو آگ کے (عذاب) سے خرابی (ہونے والی) ہے (یعنی خشک رہنے کی صورت میں)۔

صحیح بخاری



جس نے کہا کہ ایمان عمل (کا نام) ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا” ۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: “ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا” ۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا: “ حج مبرور” ۔

صحیح بخاری



حیاء (بھی) ایمان سے ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری مرد کے پاس سے گزرے اور (ان کو دیکھا کہ) وہ اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ (حیاء کے بارے میں) اس کو (نصیحت کرنا) چھوڑ دو، اس لیے کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔”

صحیح بخاری




اس بیان میں کہ پکا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ایذا نہ پائیں۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ (پکا) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان ایذا نہ پائیں (اور اصل) مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی۔”

صحیح بخاری




چور پر لعنت کرنے کے بیان میں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے (کم بخت) انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے تو بھی اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔”

صحیح بخاری




اولاد آدم کے اعمال اور اقوال قیامت کے دن تولے جائیں گے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ دو کلمے، جو اللہ کو پیارے ہیں، زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں (از روئے ثواب) بھاری ہیں (وہ یہ ہیں) سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم “ میں اللہ تعالیٰ کی (تمام عیوب و نقائص سے) پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کی تعریف و تحمید کرتا ہوں۔ بیشک وہ باعظمت اللہ (تمام عیوب و نقائص سے) پاک ہے۔”

صحیح بخاری




قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا انبیاء علیہ السلام سے کلام کرنے کا بیان

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو میں شفاعت کروں گا (کہ اللہ، لوگوں کو میدان حشر کی ہولناکیوں سے نجات دے اور حساب شروع کرے) اور کہوں گا کہ اے رب! ان لوگوں کو جنت میں داخل کر جن کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہے چنانچہ وہ لوگ داخل کیے جائیں گے۔ پھر میں کہوں گا کہ (اے اللہ!) ان کو بھی جنت میں داخل کر جن کے دل میں (انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا) ذرہ بھر ایمان ہو۔” سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک کو دیکھ رہا ہوں (جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا)۔

صحیح بخاری




جس نے (لوگوں کو) مشقت میں ڈالا، اللہ اس کو مشقت میں ڈالے گا۔

سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: “ جس نے لوگوں کو سنانے کے لیے نیک اعمال کیے، اللہ اس کے پوشیدہ (یعنی نیت فاسدہ) کو قیامت کے دن لوگوں پر ظاہر کرے گا اور جس نے لوگوں پر مشقت ڈالی تو اللہ قیامت کے دن اس پر مشقت ڈالے گا۔” لوگوں نے ان سے کہا کہ اور کچھ نصیحت فرمائیے تو انھوں نے کہا: “ انسان (کے بدن) میں سے سب سے پہلے جو چیز سڑتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے پس جو شخص پاکیزہ چیز کھانے کی طاقت رکھے وہ ایسا ہی کرے (یعنی پاکیزہ حلال چیز ہی کھائے) اور جس سے ہو سکے وہ چلو بھر (ناحق) خون بہا کر، اپنے آپ کو جنت میں جانے سے نہ روکے۔”

صحیح بخاری




جس شخص نے عید کے دن جب واپس ہونے لگا تو راستہ بدل دیا۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک راستے سے عیدگاہ جاتے اور واپسی پر راستہ بدل دیتے تھے۔

صحیح بخاری




زکوٰۃ کا واجب ہونا شریعت سے ثابت ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: “ اے معاذ! تم وہاں کے لوگوں کو اس امر کے اقرار پر رغبت دلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں پس اگر وہ اس بات کو مان لیں تو انہیں بتا دینا کہ اللہ نے ہر رات اور دن میں پانچ نمازیں ان پر فرض کی ہیں پھر اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو انہیں بتا دینا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔”

صحیح بخاری




عیدالفطر کے دن (نماز کے لیے) نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نمازعید سے پہلے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے۔

صحیح بخاری






صدقہ فطر، آزاد اور غلام دونوں پر واجب ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صدقہ فطر، ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد، عورت اور آزاد اور غلام سب پر فرض کر دیا ہے۔

صحیح بخاری




جمعہ کے لیے )پیدل(چلنے کا بیان۔

سیدنا ابوعبس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اور وہ اس وقت نماز جمعہ کے لیے جا رہے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: “ جس کے دونوں پاؤں اللہ کی راہ میں غبارآلود ہو جائیں تو اس کو اللہ نے )دوزخ کی( آگ پر حرام کر دیا ہ )یعنی دوزخ کی آگ اس کو نہیں چھو سکتی(۔”

صحیح بخاری




کیا جب کسی روزہ دار کو گالی دی جائے تو وہ یہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کے تمام اعمال اسی کے لیے ہوتے ہیں سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔” اور (حدیث کے) آخر میں ارشاد فرمایا: “ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے (تو دلی) خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو گا۔”

صحیح بخاری




یتیموں کو خیرات دینا بہت ثواب کا کام ہے۔

سیدنا ابوسعیدخدری ٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں اپنے بعد جن باتوں کا خوف تمہارے لیے کرتا ہوں ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ تم پر دنیا کی تازگی اور اس کی آرائش کھول دی جائے گی۔” تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (مال کی زیادتی سے کیا خرابی ہو گی؟ مال تو اتنی اچھی چیز ہے) کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی؟ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے تو اس سے کہا گیا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے کلام نہیں فرماتے۔ پھر ہم کو یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے (اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا ہے چنانچہ جب وحی اتر چکی تو) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے سے پسینہ پونچھا اور فرمایا: “ سائل کہاں ہے؟” گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے سوال) کو پسند فرمایا: “ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں یہ صحیح ہے کہ) اچھی چیز پر برائی نہیں پیدا کرتی مگر (بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) دیکھو فصل ربیع کے ساتھ ایسی گھاس بھی پیدا ہوتی ہے جو (اپنے چرنے والے جانور کو) کو مار ڈالتی ہے یا بیمار کر دیتی ہے۔ مگر اس سبزی کو چرنے والوں میں سے جو چر لے یہاں تک کہ جب اس کے دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ آفتاب کے سامنے ہو جائے پھر لید کرے اور پیشاب کرے اور (اس کے بعد پھر) چرے (ایک دم بے انتہا نہ چرتا چلا جائے تو وہ نہیں مرتا) اور بیشک یہ مال ایک خوشگوار سبزہ زار ہے پس کیا اچھا مال ہے مسلمان کا کہ وہ اس میں سے مسکین کو اور یتیم کو اور مسافر کو دے۔ یا اسی قسم کی کوئی اور بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی: “ اور بیشک جو شخص اس مال کو ناحق لے گا وہ اس شخص کے مثل ہو گا جو کھائے اور سیر نہ ہو اور وہ مال اس پر قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔”

صحیح بخاری





زکوٰۃ میں بجائے نقدی کے مال و اسباب کا دینا۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے وہ بات لکھی جس کا اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ جس کسی پر صدقہ میں ایک برس کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے گی اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے گا اور اگر اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو اور (دو برس کی بھی نہ ہو بلکہ) اس کے پاس دو برس کا اونٹ ہو تو وہ اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اسے کچھ نہیں دیا جائے گا۔

صحیح بخاری




جس نے روزے میں جھوٹ بولنا اور لغو کام کرنا نہ چھوڑا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ وہ (روزہ کا نام کر کے) اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔”

صحیح بخاری





بیت المقدس تک جانے کا قصہ۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: “ جب قریش نے مجھے (معراج کے بارے میں) جھٹلایا تو میں حطیم (کعبہ) میں کھڑا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا (حجاب اٹھا دیا) پس میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کی علامات بیان کرنا شروع کر دیں۔”

صحیح بخاری





زکوٰۃ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے۔

سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ جسے مال دے اور وہ اس مال کی زکوٰۃ نہ دے تو اس کا مال قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کے ہم شکل کر دیا جائے گا جس کے منہ کے دونوں کناروں پر زہریلا جھاگ ہو گا۔ وہ سانپ قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنایا جائے گا پھر اس کے دو جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورۃ آل عمران کی) یہ آیت نمبر “ 180” کی تلاوت فرمائی: “ جو لوگ ان چیزوں میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ روش ان کے لیے بہتر ہے۔ نہیں بلکہ یہ ان کے لیے بہت ہی بری ہے۔ (اور) جس چیز میں انہوں نے بخل کیا، اس کا انہیں قیامت کے دن طوق پہنایا جائے گا۔”

صحیح بخاری





نمازعید سے پہلے صدقہ (فطر دے دینا چاہیے)۔

سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں کو) دیا کرتے تھے اور ہمارا کھانا “ جو، خشک انگور، پنیر اور کھجور” تھا۔

صحیح بخاری





کوئی مسلمان جمعہ کے دن اپنے بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ: “ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔” عرض کیا گیا کہ کیا صرف جمعہ میں؟ فرمایا: “ جمعہ اور اس کے علاوہ اور موقع پر بھی۔”

صحیح بخاری





رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ عبادت کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے اور (ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی) خوب شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے۔

صحیح بخاری





بچوں کا روزہ رکھنا۔

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح کو انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا: “ جس نے بغیر روزہ کے صبح کی ہو وہ اپنے باقی دن میں کچھ کھائے نہ کچھ پیے۔ اور جس شخص نے روزہ کی حالت میں صبح کی ہو وہ روزہ رکھے۔” ربیع رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم برابر عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی رکھواتے اور ان کے لیے روئی کے کھلونے بنا لیا کرتے تھے کہ جب کوئی ان میں سے کھانے کے لیے روتا تو ہم وہی کھلونا اس کو دے دیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت آتا۔

صحیح بخاری





جو شخص مسلسل (بلا سحری و افطاری) زیادہ روزے رکھے اسے تنبیہ کرنا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل (بلاسحری و افطاری) کے روزوں سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ تو وصال کرتے ہیں (یعنی طے کے روزے رکھتے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ تم میں سے کون شخص میرے مثل ہے؟ میں رات کو سوتا ہوں تو میرا پروردگار مجھے کھلا دیتا ہے مگر جب وہ لوگ باز نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن وصال کیا (یعنی کچھ نہ کھایا پیا) دوسرے دن بھی وصال کیا (یعنی کچھ نہ کھایا پیا) کئی دن طے کے روزے رکھے، اس کے بعد (عید کا) چاند نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نہ ماننے پر بطور خفگی کے فرمایا: “ اگر ابھی چاند نہ نکلتا تو میں اور زیادہ روزے تم سے رکھواتا۔” اور ایک دوسری روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ تم اسی قدر عبادت اپنے ذمہ لو جس کی تمہیں طاقت ہو۔”

صحیح بخاری





صرف) رات میں اعتکاف کرنا

امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ نذر کی تھی کہ ایک رات کعبہ میں اعتکاف کروں گا (تو آیا اس نذر کو پورا کروں یا نہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ تم اپنی نذر کو پورا کرو۔”

صحیح بخاری





لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرنا۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کو لیلۃالقدر رمضان کی آخری سات راتوں میں خواب میں دکھائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہو گئے ہیں پس جو کوئی لیلۃالقدر کا متلاشی ہو تو وہ اس کو آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔”

صحیح بخاری





صدقہ فطر کی مقدار کا بیان۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے لیے کھجوروں کا یا “ جو” کا ایک صاع مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد اور مرد اور عورت اور بچے اور بڑے سب پر فرض فرمایا اور لوگوں کو نماز (عید) کے لیے نکلنے سے پہلے اسے ادا کر دینے کا حکم دیا ہے۔

صحیح بخاری





جمعہ کے دن عمدہ سے عمدہ لباس جو میسر ہو پہنچے۔

امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد کے پاس دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مول لے لیتے اور اس کو جمعہ کے دن اور قاصدوں کے سامنے جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں، پہن لیا کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اسے تو وہی شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہو۔” اس کے بعد (کہیں سے) اسی قسم کے کئی ریشمی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس میں سے ایک حلہ (ریشمی جوڑا) دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے مجھے یہ دیدیا حالانکہ آپ حلہ عطارد کے بارے میں کچھ ارشاد فرما چکے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں نے تم کو اس لیے نہیں دیا کہ تم خود اس کو پہنو۔” پس عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں تھا پہنا دیا۔

صحیح بخاری





معراج کا قصہ۔

سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (صحابہ) سے معراج کی رات کا قصہ بیان فرمایا: “ میں حطیم (یا یوں کہا کہ) حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک آنے والا (فرشتہ) آیا تو اس نے یہاں سے یہاں تک چیر ڈالا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سینے کے سرے سے ناف تک (چیرا)۔ میرا دل نکالا پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا اس سے میرا دل دھویا گیا پھر اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا پھر میرے لیے ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے ذرا نیچا اور گدھے سے کچھ اونچا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ابوحمزہ! کیا یہ جانور براق تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ ) وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، پس میں اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ یہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام ہوں، کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ آدم علیہ السلام وہاں ہیں جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انہیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ کیا اچھا بیٹا اور کیا اچھا نبی ہے، پھر (ہم) اوپر چڑھے یہاں تک کہ دوسرے آسمان تک پہنچے تو وہاں بھی جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں خالہ زاد بھائی بیٹھے ہوئے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ مرحبا اچھا بھائی ہے اور اچھا پیغمبر ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ اوپر تیسرے آسمان تک چڑھے تو وہاں بھی جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ یہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں یوسف علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یوسف علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ یوسف علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیا، پھر کہا کہ مرحبا اچھا بھائی ہے اور اچھا نبی ہے، پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چوتھے آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا! خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ادریس علیہ السلام ہیں، جبرائیل نے کہا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا، انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ اچھے بھائی اور اچھے نبی کو مرحبا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ پانچویں آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں)۔ کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ہارون علیہ السلام ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ ہارون ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ مرحبا کیا اچھا بھائی ہے اور کیا اچھا نبی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ چھٹے آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو! پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں) کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا! خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا، میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انھیں سلام کرو۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا پھر کہا کہ مرحبا! کیا اچھا بھائی ہے اور کیا اچھا نبی ہے۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ میں اس لیے روتا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد (دنیا میں) نبی بنا کر بھیجا گیا اور اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ (تعداد میں) جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ ساتویں آسمان تک چڑھے اور کہا کہ دروازہ کھولو پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام (ہوں)۔ کہا گیا کہ تیرے ساتھ اور کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔ کہا گیا کہ وہ بلائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو کہا گیا کہ مرحبا خوب آئے اور دروازہ کھولا گیا۔ میں اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ابراہیم علیہ السلام ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کرو، میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا اور کہا کہ مرحبا کیا اچھا بیٹا ہے اور کیا اچھا نبی۔ پھر مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو (دیکھا کہ) اس کے پھل (بیر) (مدینہ کے قریب مقام) ہجر کے مٹکوں کے برابر کے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ سدرۃالمنتہیٰ ہے۔ (میں نے دیکھا کہ) وہاں (اس کی جڑ) سے چار نہریں نکل رہی ہیں، دو نہریں بند (ڈھانپی ہوئی) ہیں اور دو کھلی (ظاہر) ہیں۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کیسی نہریں ہیں؟ انھوں نے کہا کہ بند نہریں تو جنت میں (بہہ رہی) ہیں اور کھلی دو نہریں (دنیا میں) نیل اور فرات (ہیں)، پھر مجھے بیت المعمور بلند کر کے دکھایا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک دودھ کا اور ایک شہد کا بھرا ہوا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے (کر پی) لیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ اسلام کی فطرت ہے جس پر تم ہو اور تمہاری امت ہے پھر مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پس میں لوٹ کر آیا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا کہ تجھے کیا حکم ملا؟ میں نے کہا کہ ہر دن رات میں پچاس نمازوں کا حکم ہوا ہے، انھوں نے کہا کہ بیشک تمہاری امت ہر روز پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکتی اور اللہ کی قسم میں ان لوگوں پر تجربہ کر چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ کوشش کی ہے، پس تم اپنے رب کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو۔ پس میں لوٹا اور اللہ نے دس نمازیں مجھے معاف کر دیں۔ پھر میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا (جیسا پہلے کہا تھا) تو میں پھر لوٹ کر گیا تو دس نمازیں اور کم کر دی گئیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ گیا تو دس نمازیں اور کم کر دی گئیں پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ کر گیا اور دس نمازیں اور کم کر دی گئیں اور مجھے ہر روز دس نمازوں (کے پڑھنے) کا حکم دیا گیا پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر ویسا ہی کہا تو میں پھر لوٹ گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازوں (کے پڑھنے) کا حکم دیا گیا، میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم ہوا ہے تو انھوں نے کہا کہ بیشک تمہاری امت سے ہر روز پانچ نمازیں نہ پڑھی جا سکیں گی اور بیشک میں ان لوگوں پر تجربہ کر چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ کوشش کی ہے پس تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو تو میں نے کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تخفیف کا سوال کرتے کرتے شرمندہ ہو گیا، میں اسی پر راضی ہوں اور (اپنے رب کا حکم) مان لیتا ہوں۔ پھر فرمایا: “ جب میں آگے بڑھا تو ایک پکارنے والے نے پکارا کہ جو میرا ٹھہراؤ تھا وہ میں نے جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کی۔ (یعنی لوگ پڑھیں گے پانچ نمازیں اور انھیں ثواب پچاس کا ملے گا)۔” سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث پہلے کتاب الصلاۃ میں بھی گزر چکی ہے اور ان میں سے ایک روایت کے آخر میں جو باتیں ہیں وہ دوسری روایت میں نہیں ملتیں۔

صحیح بخاری





آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین ہونے کا بیان۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکمل گھر بنایا اور بہت اچھا بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگ اس گھر میں جانے لگے اور تعجب کرنے لگے کہ یہ اینٹ کی جگہ اگر خالی نہ ہوتی تو کیسا اچھا مکمل گھر ہوتا۔”

صحیح بخاری





رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا مسنون ہے اور اعتکاف سب مسجدوں میں ہو سکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں برابر اعتکاف کیا کرتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعتکاف کیا۔

صحیح بخاری





افطار میں جلدی کرنا افضل ہے۔

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ لوگ ہمیشہ نیکی پر رہیں گے جب تک کہ وہ جلد افطار کرنے میں جلدی کیا کریں گے۔”

صحیح بخاری





جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزوں کی قضاء واجب ہو تو ....؟

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو شخص مر جائے اور اس پر روزوں کی قضاء واجب ہو تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھ لے۔

صحیح بخاری





روزے کی فضیلت و عظمت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ روزہ (عذاب الٰہی کے لیے) ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ فحش بات نہ کہے اور جہالت کی باتیں (مثلا مذاق، جھوٹ، چیخنا چلانا اور شوروغل مچانا وغیرہ) بھی نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اسے چاہیے کہ دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) روزہ دار اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش و شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ (تو) روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے (لیکن روزہ کا ثواب اس سے کہیں زیادہ ملے گا)۔”

صحیح بخاری





نماز جمعہ کی فضیلت۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو شخص جمعہ کے دن مثل غسل جنابت کے (خوب اچھی طرح) غسل کرے، اس کے بعد (نماز کے لیے) چلے تو گویا اس نے ایک اونٹ کا صدقہ کیا اور جو دوسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی اور جو تیسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا اور جو چوتھی گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک مرغی صدقہ میں دی اور جو پانچویں گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک انڈا صدقہ میں دیا پس جس وقت امام (خطبہ دینے) نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے اندر آ جاتے ہیں (اور ثواب کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے)۔”

صحیح بخاری





روزہ داروں کے لیے )جنت کا دروازہ(” ریان” ہے۔

سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے “ ریان” کہتے ہیں، اس دروازہ سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے سوا کوئی )بھی اس دروازے سے( داخل نہ ہو گا۔ کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے سوا کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہو گا پھر جس وقت وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر لیا جائے گا غرض اس دروازہ سے کوئی داخل نہ ہو گا۔”

صحیح بخاری





نماز تراویح

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات نصف شب کو باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ دوسرے لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی (یہ حدیث کتاب الصلاۃ میں گزر چکی ہے ان دونوں حدیثوں میں کچھ لفظ مختلف ہیں۔ اس لیے یہ احادیث ملاحظہ فرمائیں باب: جب امام اور لوگوں کے درمیان کوئی دیوار یا سترہ ہو۔۔۔ اور باب: نماز تہجد۔۔۔)۔ اس حدیث کے آخر میں کہتی ہیں کہ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہی کیفیت رہی۔

صحیح بخاری





استغفار کے لیے افضل ترین دعا (کون سی ہے؟)

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ سب سے افضل استغفار یہ ہے (ترجمہ) “ اے اللہ! تو میرا مالک ہے تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو نے ہی مجھ کو پیدا کیا ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے قائم ہوں، میں نے جو (جو برے) کام کیے ہیں، ان سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں تیرے احسان اور اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہوں، (پس تو) میری خطائیں معاف فرما دے، بیشک تیرے سوا کوئی گناہوں کا معاف فرمانے والا نہیں ہے۔” اور فرمایا: “ جس نے اس (دعائے) استغفار کو، اس پر یقین کرتے ہوئے دن میں پڑھا اور اس روز وہ شام سے پہلے مر گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے رات کو کامل یقین کے ساتھ پڑھا اور صبح ہونے سے پہلے مر گیا، تو وہ بھی جنتی ہے۔”

صحیح بخاری






رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “ تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔ ہاں اگر کسی شخص کے روزے رکھنے کا دن آ جائے کہ جس دن وہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتا تھا تو اس دن روزہ رکھ لے۔ )خاص طور پر استقبال رمضان کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے(۔”

صحیح بخاری





تکلیف یا مشکل کے وقت دعا مانگنا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کے وقت یہ دعا مانگا کرے تھے: “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ بڑا تحمل والا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے۔”

صحیح بخاری





جان پہچان ہو یا نہ سب کو سلام کرنا چاہیے

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اسلام کا کون سا کام بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ (محتاجوں کو) کھانا کھلانا اور جس کو تو جانتا پہنچانتا ہو اور جس کو نہ جانتا پہچانتا ہو، غرض سب (مسلمانوں) کو سلام کرنا۔”

صحیح بخاری





صلہ رحمی کے بدلے صلہ رحمی (کرنا صلہ رحمی) نہیں۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف بدلہ چکائے (یعنی احسان کے بدلے احسان کر دے) بلکہ صلہ رحمی کرنے والا (رشتہ ناتا جوڑنے والا) وہ ہے جو اپنے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑے۔”

صحیح بخاری





کم آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کریں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: “ کم عمر والا بڑی عمر والے کو اور چلنے والا شخص بیٹھے ہوئے شخص کو اور کم آدمیوں کی جماعت زیادہ آدمیوں کی جماعت کو سلام کرے۔”

صحیح بخاری






پڑوسی کے ساتھ احسان کرنے کی وصیت۔

سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔” دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون شخص ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جس کا پڑوسی اس سے تکالیف اٹھاتا ہو۔”

صحیح بخاری





قطع رحمی کا گناہ۔

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: “ رحم کا قطع کرنے والا (یعنی رشتے ناتے توڑنے والا) جنت میں داخل نہ ہو گا۔”

صحیح بخاری





اچھے برتاؤ کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ میری بھلائی اور حسن معاملہ کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ تیری ماں” ۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ پھر بھی تیری ماں” ۔ اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا کہ اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ پھر تیرا باپ۔”

صحیح بخاری





قیامت کے دن مصوروں کا عذاب۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو لوگ تصویریں بناتے ہیں قیامت کے دن ان کو عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا اس کو (ذرا) زندہ تو کرو۔”

صحیح بخاری





سبحان اللہ کی فضیلت۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جس نے سبحان اللہ وبحمدہ ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا اس کے تمام گناہ مٹا دیے جائیں گے اگرچہ (اس کے گناہ) سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔”

صحیح بخاری





ذکر الہٰی کی فضیلت۔

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جو شخص اللہ کا ذکر کرے اور جو ذکر نہ کرے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ (یعنی ذکر کرنے والا زندہ اور ذکر نہ کرنے والا مردوں کی طرح ہے)

صحیح بخاری

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads