روزِ اول سے روزِ آخر تک کی ساری انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا منتخب کردہ مذہب اسلام ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ان الدین عند اللہ الاسلام۔ (بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے)۔ اسلام ہی سابقہ انبیاء کا مذہب تھا اور اسلام ہی آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مذہب ہے اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ایمان رکھتا ہے وہ اللہ کے نزدیک اورتمام انبیاء کے نزدیک گمراہ اور دینِ حق سے ہٹا ہوا ہے۔
سابقہ انبیاءِ کرام علیہم السلام نے بھی اپنے لائے ہوئے مذہب کے بارے میں اسلام کا لفظ ہی استعمال کیا اور اپنی امت کو بھی اسلام پر جمے رہنے کی وصیت کی ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ما کان ابراھیم یھودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما۔ (ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ تو یکسو مسلمان تھے۔)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس وصیت کا ذکر بھی کیا جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی: ووصی بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب یٰبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون۔ (اور ابراہیم و یعقوب (علیہما السلام ) نے اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے تمہارے لئے یہ دین منتخب کیا ہے پس تمہاری موت اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر ہر گز نہ ہو) اسی طرح یوسف علیہ السلام کی دعا کا ذکر بھی قرآن مجید میں موجودہے: انت ولی فی الدنیا والاٰخرۃ توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین۔ (الٰہی تو ہی دنیا و آخرت میں میرا کارساز ہے تو میری روح حالتِ اسلام میں ہی قبض کرنا)۔
اسی طرح انصاف پسند اور صاف دل اہلِ کتاب کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : واذا یتلیٰ علیھم قالوا اٰمنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔ (اور جب ان اہل کتاب پر آیاتِ قرانی تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان لائے کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو پہلے ہی سے مسلمان تھے)۔
اور نبی آخر الزماں، سرورِ کون ومکاں حضرت محمد ﷺ بھی دینِ اسلام کے ساتھ ہی مبعوث ہوئے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمانِ خداوندی ہے : ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (اور ہم نے تمہارے لئے اسلام کو ہی بطور دین پسند کیا) اور دوسری آیت میں فرمایا : ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاٰخرۃ من الخاسرین۔ (اور جس کسی نےاسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کیا تو اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا)۔
تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ، اگرچہ زمانوں اور امتوں کے احوال کے مختلف ہونے کی وجہ سے شرائع و احکام بدلتے رہے لیکن مذہب سب کا اسلام ہی تھا، عقائد سب کے ایک ہی تھے، بنیادی احکامات سب کے ایک ہی تھے لیکن آپس کے ضد و عناد اور تعصب کی وجہ سے انسانیت ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔تو اللہ تعالیٰ نے اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے اپنےاس آخری نبی کو مبعوث کیا جس کی تشریف آوری کی خوشخبری سابقہ انبیاء اپنی امتوں کو سناتے رہے اور اس کی تشریف آوری پر اس پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہےچنانچہ اس آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا : قل یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۔ ( اے محمد آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو بیشک میں تم سب کے سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں)۔ لہذا اب انسانیت کو شریعتِ محمدیہ کے علاوہ کسی اور مذہب و شریعت کی آغوش میں پناہ نہیں مل سکتی چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا : لو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی۔ (اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی گنجائش نہ ہوتی)۔
اس لئے ہر اس شخص کو جس نے آج تک اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو اپنائے رکھا اسے دعوت ہے کہ وہ اسلام قبول کرے اوراس کے لئے ہر قسم کے تعصب اور عناد سے بالاتر ہو کر مذہب اسلام کا مطالعہ کرے تو اسلام خود اس کے دل میں گھر کر جائے گا اور وہ اسلام پر عمل پیرا ہوکر دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کامستحق بن جائے گا۔
سابقہ انبیاءِ کرام علیہم السلام نے بھی اپنے لائے ہوئے مذہب کے بارے میں اسلام کا لفظ ہی استعمال کیا اور اپنی امت کو بھی اسلام پر جمے رہنے کی وصیت کی ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ما کان ابراھیم یھودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما۔ (ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ تو یکسو مسلمان تھے۔)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس وصیت کا ذکر بھی کیا جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی: ووصی بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب یٰبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون۔ (اور ابراہیم و یعقوب (علیہما السلام ) نے اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے تمہارے لئے یہ دین منتخب کیا ہے پس تمہاری موت اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر ہر گز نہ ہو) اسی طرح یوسف علیہ السلام کی دعا کا ذکر بھی قرآن مجید میں موجودہے: انت ولی فی الدنیا والاٰخرۃ توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین۔ (الٰہی تو ہی دنیا و آخرت میں میرا کارساز ہے تو میری روح حالتِ اسلام میں ہی قبض کرنا)۔
اسی طرح انصاف پسند اور صاف دل اہلِ کتاب کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : واذا یتلیٰ علیھم قالوا اٰمنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔ (اور جب ان اہل کتاب پر آیاتِ قرانی تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان لائے کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو پہلے ہی سے مسلمان تھے)۔
اور نبی آخر الزماں، سرورِ کون ومکاں حضرت محمد ﷺ بھی دینِ اسلام کے ساتھ ہی مبعوث ہوئے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمانِ خداوندی ہے : ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (اور ہم نے تمہارے لئے اسلام کو ہی بطور دین پسند کیا) اور دوسری آیت میں فرمایا : ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاٰخرۃ من الخاسرین۔ (اور جس کسی نےاسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کیا تو اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا)۔
تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ، اگرچہ زمانوں اور امتوں کے احوال کے مختلف ہونے کی وجہ سے شرائع و احکام بدلتے رہے لیکن مذہب سب کا اسلام ہی تھا، عقائد سب کے ایک ہی تھے، بنیادی احکامات سب کے ایک ہی تھے لیکن آپس کے ضد و عناد اور تعصب کی وجہ سے انسانیت ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔تو اللہ تعالیٰ نے اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے اپنےاس آخری نبی کو مبعوث کیا جس کی تشریف آوری کی خوشخبری سابقہ انبیاء اپنی امتوں کو سناتے رہے اور اس کی تشریف آوری پر اس پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہےچنانچہ اس آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا : قل یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۔ ( اے محمد آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو بیشک میں تم سب کے سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں)۔ لہذا اب انسانیت کو شریعتِ محمدیہ کے علاوہ کسی اور مذہب و شریعت کی آغوش میں پناہ نہیں مل سکتی چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا : لو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی۔ (اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی گنجائش نہ ہوتی)۔
اس لئے ہر اس شخص کو جس نے آج تک اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو اپنائے رکھا اسے دعوت ہے کہ وہ اسلام قبول کرے اوراس کے لئے ہر قسم کے تعصب اور عناد سے بالاتر ہو کر مذہب اسلام کا مطالعہ کرے تو اسلام خود اس کے دل میں گھر کر جائے گا اور وہ اسلام پر عمل پیرا ہوکر دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کامستحق بن جائے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔