Dec 18, 2014

جہاد بیزاری سے جہادی بیداری تک

جہاد وہ فریضہ ہے کہ غلبہ اسلام ، مسلمانوں کا عروج اور کفار کی شوکت کا خاتمہ صرف اسی فریضے کی ادائیگی پر موقوف ہے جیسا کہ خالقِ خیر و شر نے اپنے کلام پاک میں فرمایا ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ(سورہ فتح آیت 28 ) “اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہدایت اور دینِ حق دے کر تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے ” اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کیا کہ آپ کو بھیجنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ آپ لوگوں پر اسلام پیش کریں ،انہیں اسلام کی دعوت دیں اورجو اس دعوت کو قبول کر کے مسلمان ہو جائیں اور آپکی اتباع اختیار کر لیں تو آپ انکی اصلاح کریں ، انکی تعلیم و تربیت کریں انہیں چند عبادات پر کھڑا کریں اور انکے آپس کے معاملات کو درست کریں اور بس آپکا کام ختم، نہیں بلکہ آپکا کام اس سے بھی آگے کا ہے اور وہ ہے لیظھرہ علی الدین کلہ کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا ہے۔

ہادئ عالم ﷺ نے صحابہ کرام کی کیسی تربیت کی

اگر ہادئ عالم ﷺکی تیار کردہ جماعت کو دیکھا جائے تو یہی بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آپ ﷺنے صحابہ کرام کی تربیت اس نہج پر کی کہ پورا جزیرہ عرب تو آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی بزورِ شمشیر فتح ہو گیا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں نے اپنی طوفانی یلغاروں سے اس وقت کی سپر پاورز روم و فارس کو انکے منطقی انجام سے دوچار کیا یہاں تک کہ پورے روئے زمین پر کسی مذہب کے پیروکاروں کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کسی قسم کی فتنہ انگیزی کر سکیں، محسنِ کائنات ﷺ کی توہین کر سکیں، قراٰن مجید نذر آتش کر سکیں ،مسلمان ماؤوں بہنوں کی عزتیں پامال کر سکیں ، انہیں اپنی قید میں رکھ سکیں ، مسلمانوں کے معدنی وسائل غصب کر سکیں ، انکے علاقے تاراج کر سکیں یا اسلام کو ناقابلِ عمل دین قرار دے کر جمہوریت رائج کر سکیں ۔

کفار کے جرائم کی وجہ

کفار کے یہ سارے جرائم ہمارے جہادِ مقدس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے ہیں اور جب بھی ہم اجتماعی طور پر اس فریضے کی طرف لوٹیں گے تو اللہ کی مدد و نصرت سے ان ذلت کی گھاٹیوں سے نکل جائیں گے اور ان ذلتوں کا رخ کفار کی طرف مڑ جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قاتلواالذین لایؤمنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ماحرم اللہ (سورہ توبہ آیت 29) ” اہل ِکتاب میں سے جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں جانتے اور دینِ حق کو قبول نہیں کرتےان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ نہ ادا کر دیں ” اور اسی طرح آپ ﷺنے فرمایاکہ ” جب تم جہاد چھوڑ دو گے اورکاروبار میں لگ جاؤ گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے تو اللہ تم پر ذلت مسلط کر دے گا اور وہ ذلت اس وقت تک نہیں ہٹے گی جب تک تم واپس اپنے دین یعنی جہاد کی طرف نہیں لوٹ آؤ گے ” (ابو داؤد) اور اس سے بڑھ کر ذلت اور کیا ہے کہ آج مسلمان کفریہ نظام کے زیرِ سایہ جی رہے ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ نے صحابہ کرام میں جو صفات پیدا کیں ان میں سے ایک اہم صفت اشدآء علی الکفار ہے کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کی تربیت کے اثر کی وجہ سے کفار پر نہایت ہی سخت تھےلیکن آج ہم کفار کی ہمدردی میں اتنے آگے چلے گئےکہ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور کفار کے قتل پر بھی ہمارے دل دکھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے قراٰ ن مجید میں کفار کی ہلاکت و بربادی کو بیان کرنے کے بعد الحمد للہ رب العالمین کے الفاظ ذکر کئے ہیں اور دوسری جگہ فرمایا فما بکت علیھم السمآء والارض کہ انکی بربادی پر نہ آسمان میں کسی نے ماتم کیا نہ زمین میں ،اور خود آپ ﷺ نے کتنے کفار کو قتل کروایا اسکے لئے سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہےاسکی ایک مثال غزوہ بنو قریظہ میں جب یہودیوں نے شکست تسلیم کی اور اپنے آپ کو آپ ﷺ کے حوالے کر دیا تو آپ نے انکے جوانوں کو قتل کروا دیا جو کہ تعداد میں 600 کے قریب تھے۔تو معلوم ہوا کہ اسلام کے غلبے اور کفر کی مغلوبیت کا راستہ صرف اور صرف جہاد ہے باقی سب خام خیالیاں اور اٹکل پچو باتیں ہیں جو کہ قراٰن و حدیث کو اپنی عقل اور خود ساختہ نظریات کی روشنی میں دیکھنے کا نتیجہ ہیں ۔

ہماری جہاد سے بیزاری کی ایک وجہ یہ ہے کہ امت پر کئی صدیاں ایسی گزر چکیں کہ منبر و محراب عمومی طور پر جہاد کے بارے میں خاموش تھے جسکی وجہ سے گذشتہ کئی نسلیں اور حال کی بزرگ نسل فریضہ جہاد اور فلسفہ جہاد سے بے بہرہ رہیں اور جب تیس سال پہلے چند دیوانوں نے افغانستان میں علمِ جہاد بلند کیا اور امت پر طاری اس سکوت کو توڑا جو ہر ظالم حملہ آور کے سامنے اسکا پسندیدہ انتخاب اور حکمت کا تقاضہ بن چکا تھا تو ان خدا مستوں کو حقیقت میں ہی دیوانہ سمجھ لیا گیا لیکن انکی استقامت اور قربانیوں کے نتیجے میں جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور سرخ ریچھ کو شکست ہو گئی تو جہاد اور جہاد کا حکم دینے والے اللہ کی طاقت سے ناواقف اور احساس کمتری میں مبتلا لوگوں نے امت کی اس عظیم فتح کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا کہ یہ فتح تو امریکی میزائلوں کی وجہ سے ہوئی ہے تو غیور بادشاہ اللہ کی غیرت نے گوارا نہ کیا اور امریکہ کو پوری دنیا سمیت افغانستان کی دلدل میں لا پھنسایا کہ اب بتاؤ اب بھی میری طاقت کو مانتے ہو یا نہیں، اب بھی میرے حکمِ جہاد کی صداقت کو مانتے ہو یا نہیں ،اب بھی یہ بات تمہاری عقلوں میں آتی ہے یا نہیں کہ اسلام کا غلبہ صرف جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور کل جب مجاہدین یہ اشعار پڑھتے تھے

کل روس بکھرتے دیکھا تھا اب انڈیا ٹوٹتا دیکھیں گے

ہم برقِ جہاد کے شعلوں سے امریکہ جلتا دیکھیں گے

تو ان نعروں کو دیوانوں کی بڑ کہا جاتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دیوانوں کی بڑ کو بھی سچ کر دکھایا اب بھی کوئی جہاد کی اہمیت اسکی فرضیت اور اسکی طاقت کو نہ سمجھے تو اسکی تو عقل پر ماتم کرنا چاہئے کہ آنکھوں دیکھی بات کو جھٹلا رہا ہے۔

خلافت علی منہاج النبوۃ بذیعہ جہاد

اب امت کی نوجوان نسل جس نے کم عمری میں جہاد کی بدولت روسی طاقت کا پندار پاش پاش ہوتے دیکھا اور اب جوانی میں امریکی اور عالمی غرور و تکبر، ظلم و جبر اور وحشت و سربیت کے بت کو ریزہ ریزہ دیکھ رہی ہے وہ دل کی گہرائیوں سے فریضہ جہاد کی قائل اور جذبہ جہاد سے سر شار ہے،اور اب یہ سرمست نوجوان دنیا کے کونے کونے سے خیبر خیبر یا یہود جیش محمد سوف یعود کی صدائیں بلند کر رہے ہیں اور چیچنیا، افغانستان، عراق، شام، الجزائر ، مالی اور کشمیر سے لپک لپک مسجد اقصی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پکار رہے ہیں

اے اقصی تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا

ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں

اب امت کو نوید ہو کہ مصائب کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد جو جہادی بیداری امت میں پیدا ہو رہی ہے تو دراصل یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کی راہ ہموار ہو رہی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ “تمہارے اندر نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اسے اٹھا لے گا پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا پھر کاٹ کھانے والے بادشاہت ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا پھر ظالم و جبر کی حکومت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا پھر اسکے بعد دوبارہ نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو جائے گی”(مسند احمد)۔تو چودھویں صدی ہجری کے آغاز تک نبوت، خلافت اور کاٹ کھانے والی بادشاہتوں کاگزر چکااب عالمی استعمار کے مظالم کی چھتری تلے چوتھا دور گزر رہا ہے بلکہ آخری سسکیاں لے رہا ہے اور پانچویں دور یعنی خلافت بطرزِ نبوت کا آغاز مختلف ممالک میں جاری جہادی تحریکوں کی صورت میں ہو رہا ہے اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم بھی ان جہادی تحریکوں کو اپنی جانوں اور اموال کے ذریعے مضبوط کریں اور اس راہ میں حائل شیطانی وساوس و خیالات اور میڈیا کی پھیلائی ہوئی گمراہ کن باتوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور اسکے لئے اگر ہم ایک دفعہ عملی طور پر جہاد میں حصہ لے لیں تو خود ہی تمام اعتراضات اور میڈیا کے پھیلائے ہو جھوٹ و فریب کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ اللہ ہمیں جہاد کے لئے قبول فرمائے،اٰمینا

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads