نماز کی طرح زکوٰۃ کو ماننا بھی دین اسلام میں لازم ہے بصورتِ دیگرنماز کے منکرین کی طرح زکوٰۃ کا انکار کرنے والے لوگ بھی دائرۂ اسلام سے خارج سمجھے جاتے ہیں ۔
قرآن میں زکوٰۃ کا واضح حکم موجود ہے جیسا درج ذیل آیات میں بیان ہوتا ہے:
۱۔اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ بیشک جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۱۱۰:۲ )۔
۲۔(مسلمانو،) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (النور ۵۶:۲۴)۔
احادیث میں بھی زکوٰۃ کی اہمیت جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بیان ہوتا ہے:
ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام (کا قصر پانچ ستونوں) پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 7 )۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کو سخت وعید سنا ئی گئی ہے:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ اداء کی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کے سر کے پاس دو چینیاں ہوں گی قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر قرآن کی آیت پڑھی اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اسمیں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1319 )۔
زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمیاں اور کوتاہیاں
زکوٰۃ کی اس قدر اہمیت کے باوجود ہمارے معاشرے میں اس سے متعلق کئی عملی غلط فہمیاں اور کوتا ہیاں پائی جاتی ہیں۔ان کوتاہیوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات
ان مسائل کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت :زکوٰۃ کا بنیادی مقصد اسکے نام ہی سے ظاہر ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرکے اپنے نفس کو ان آلائشوں سے پاک کیا جائے جو مال کی محبت ، بخل اور دولت مندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔دولت کی محبت دنیا کی زندگی پر اکتفا کرنے کی تعلیم دیتی اور آخرت سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ زکوٰۃ درحقیقت اپنے اس محبوب مال کو خدا کی رضا کے لئے قربان کردینے کا نام ہے، یہ اپنا سرمایہ خدا کے ابدی بینک میں رکھنے کا عمل ہے جسکا منافع جنت میں ہمیشہ ملتا رہے گا،یہ تقوٰی کے حصول کا ذریعہ ہے، یہ اپنے دل کونوٹوں کی رنگینی سے آزاد کر کے خدا کی یادکا پابند کرنے کا عمل ہے۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب زکوٰۃ کا وقت آتا ہے تو کچھ لوگوں کے چہرے بجھ جاتے ہیں اور وہ لاپرواہی یا اعراض کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں ۔اسکا بنیادی سبب دنیا کی محبت اور اسکی آسائشوں کو دائمی سمجھنا ہے۔ جبکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر جلوہ آفرینیوں کے ساتھ ایک دن ختم ہوجانی ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہی محبوب مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بنا کر گردن میں ڈال دیا جائے گا(بخاری: رقم ۱۴۰۳)۔
زکوٰۃ کے بارے میں ایک اور رویہ اس عبادت کو ایک بوجھ اور زبردستی کی چٹی یا تاوان سمجھ کر ادا کرنا ہے۔ اس قسم کے لوگ زکوٰۃ ادا کرتے وقت منہ بناتے، بڑبڑاتے اور بے دلی کے ساتھ انفاق پر راضی ہوتے ہیں۔ حا لانکہ اللہ کو ہمارا مال نہیں بلکہ تقوٰی پہنچتا ہے۔ نفس کو خدا کی رضا پر راضی رہنے کی تربیت دیں اور اس کے لئے دنیاوی سازو سامان کی بے ثباتی اور حقیقت کا مطالعہ کریں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو اسے بوجھ تو نہیں سمجھتا لیکن اس عبادت کے ثمرات سمیٹنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ انفاق سے پیدا ہونے والے خشوع، خشیت، پاکی، اور تقویٰ جیسے جذبات سے عاری ہی رہتے ہیں۔ اسکا سبب زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت اور اللہ سے زندہ تعلق کی کمی ہے۔اس کے لئے زکوٰۃ کی فضیلت سے متعلق آیات، احادیث اور لٹریچر کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے۔
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
شرحِ زکوٰۃ سے متعلق ایک بہت عام سی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہرقسم کے مال و دولت پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے۔مال پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے جبکہ زرعئی پیداوار، مویشی، خدمات اور دیگر اثاثہ جات میں اسکی شرح مختلف ہے۔ اسکی تفصیل کسی بھی قابلِ اعتماد اہلِ علم سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی: زکوٰۃ سے متعلق ایک اور آفت یہ ہے کہ اکثر افراد اپنے اموال کا باقاعدہ حساب کتاب کرنے کی بجائے محض اندازے ہی سے زکوٰۃ کی ادائیگی پر اکتفا کرلیتے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ زکوٰۃ درست شرح سے ادا نہ ہو۔ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام اثاثہ جات کی ایک فہرست بنائی جائے اور دوسرے کالم میں انکی مالیت لکھ کر آخر میں کل مالیت معلوم کرلی جائے۔ نقد رقم پر تو زکوٰۃ کا حساب کرنا بہت آسان ہے البتہ کچھ اثاثوں میں حساب کتاب میں دقت یا غلط فہمی درپیش ہو سکتی ہے ۔انکی تفصیل درج ذیل ہے۔
زیورات کی مالیت کا حساب: سب سے مشکل کام سونے کے زیورات کی مالیت کا اندازہ لگانا ہے۔ اسکی وجوہات سونے کی مالیت میں اتار چڑھاؤ، سونے کے قیراط کا فرق ، وزن کا درست علم نہ ہونا اور تولہ اور دس گرام کے پیمانوں کا استعمال ہے۔ ان مشکلات سے نبٹنے کے لئے ان ہدایات پر عمل کریں:
ا۔زکوٰۃ کی ادائیگی کا کوئی ایک دن مخصوص کرلیں(مثلاََ رمضان کی پہلی تاریخ)، اور پھر سونے یا چاندی کے اس دن کے ریٹ پر حساب کریں۔
ب۔ اس کے بعد تما م زیورات کی ایک فہرست بنالیں اور یہ معلوم کریں کہ آپ کا زیور کتنے قیراط کا ہے یہ آپ اس زیور کی رسید سے یا جیولر کے پاس جاکر معلو م کرسکتے ہیں۔ عموماََ خالص سونا ۲۴ قیراط، جبکہ زیورات ۲۲ قیراط سے ۱۲ قیراط تک کے ہو سکتے ہیں اور قیراط میں کمی سے ریٹ بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔جیولر کو فون کرکے متعلقہ قیراط کے سونے کا ریٹ حاصل کرلیں کیونکہ اخبا رات میں صرف ۲۴ قیراط کے ریٹ آتے ہیں( آپ ۲۴ قیراط کے حساب سے بھی زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں جو کہ ایک مستحسن عمل ہے)۔
ج۔ اگلا مرحلہ وزن کا تعین کرنا ہے۔ زیور کی رسید پر جو قیمت لکھی ہوتی ہے اس میں زیور کا اصل وزن، ۱۵ سے ۲۰ ف صد ویسٹ(زیور بنانے میں ضایع ہو جانے والا سونا) اور مزدوری کی قیمت شامل ہوتی ہے۔ آپ نے زکوٰۃ صرف اصل وزن پر دینی ہے۔مثال کے طور پر انیلا کے پاس ایک سونے کی چین ہے جس کا وزن ایک ۱۱ گرام ہے۔رسید پر لکھا ہے کہ ویسٹ دس فیصد لگایا گیا ہے۔ چنانچہ ۱۱ گرام کا دس فیصد ایک گرام بنتا ہے۔ یہ ایک گرام مائنس کردینے کے بعد اصل وزن دس گرام ہے۔ چنانچہ زکوٰۃ دس گرام سونے کے وزن ہر ہی دی جائے گی۔
د۔ ایک اور مسئلہ گرام اور تولہ کے حساب کا ہے۔ وزن کے معاملے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک تولہ میں ۱۱ اعشاریہ ۶۶ گرام سونا ہوتا ہے۔
ہ۔ آخر میں وزن کو اسکے ریٹ سے ضرب دے کر کل قیمت معلوم کرلیں۔ اگر یہ نصاب سے زیادہ ہے تو کل مالیت کا ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں اد ا کریں۔
و۔ ایک مثال سے اس مسئلے کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ فرض کریں میرے پاس دو تولہ کے کڑے ۲۲ قیراط کے موجود ہیں۔ فون کرکے میں معلوم کیا تو علم ہو کہ ۲۲ قیراط سونے کی مالیت ۴۵۰۰۰ روپے فی تولہ ہے۔ چنانچہ ان کڑوں کی کل مالیت نوے ہزار روپے بنتی ہے۔چنانچہ مجھے زکوٰۃ نوے ہزار روپے پر ادا کرنی ہے۔
و۔ کچھ فقہا ء زکوٰۃ سے ان زیورات کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں جو روزمرہ کے استعمال میں ہوں مثلاََ وہ بالیاں یا کنگن جو ہر وقت زیرِ استعمال رہتے ہیں۔ اسکی تفصیل کے لیئے قابلِ اعتماد اہلِ علم سے رجوع کریں۔
پلاٹ پر زکوٰۃکا حساب: پلاٹ پر اسکی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اس ضمن میں ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ آج کل کچھ پلاٹ اور اپارٹمنٹ قسطوں پر لئے جاتے ہیں ۔ ان پر زکوٰۃ ہوگی یا نہیں، اس سلسلے میں دو آرا ء ہیں ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب تک یہ جائداد آپ کے قبضے میں نہ آجائے اس پر زکوٰۃ نہیں۔ دوسرا گروہ ادا شدہ قسطوں کی رقم پر زکوٰۃ کا قائل ہے۔اسی طرح ایک شخص کا وہ پلاٹ بھی زکوٰۃ کے زمرے میں نہیں آتا جو اس نے مکان بنوانے کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔ البتہ اگر پلاٹ خریدنے کی نیت سے رکھ چھوڑ ا ہے تو اس پر مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ لاگو ہوگی۔
دیگر اشیاء کی مالیت کا حساب: دیگر اشیاء مثلاََ شیئرز، بانڈز، بنک سیونگ اور دیگر سیونگز پر زکوٰۃ انکی موجودہ مالیت کے حساب سے ہوگی۔
زکوٰۃ سے استثنا: تین چیزیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں یعنی پیداواریا تجارت اور کاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی اشیاء اور حد نصاب سے کم سرمایہ۔مثال کے طور پر ٹریکٹر، ہل جوتنے والے جانور، ٹیکسی، کرائے پر دیا ہوا مکان، کسی مکینک کے اوزار ، فیکٹری کی مشینیں وغیرہ زکوٰۃ سے مستثنی ہیں کیونکہ یہ سب پیداوار یا تجارت کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی تمام اشیاء بھی مستثنی ہیں جیسے رہائشی مکان یا فلیٹ، مکان بنوانے والے پلاٹ،کپڑے، برتن، سواری، کمپیوٹر، فرج ، ٹی وی، اے سی وغیرہ۔ تیسرا یہ کہ اگر سیونگز نصاب سے کم ہیں تو وہ بھی زکوٰۃ سے مستثنی ہیں۔
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات :
زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جاسکتی ہے؟ اس کے متعلق بھی کئی عملی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو زکوٰۃ دینا: اس میں پہلا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ زکوٰۃ ریاست کو دی جائے یا افرا د کو۔ ہماری حکومت صرف بنک اکاؤنٹ، شیئرز، بانڈز وغیرہ پر زکوٰۃ لیتی ہے اگر آپ کا حکومت پر اعتماد ہے تو ٹھیک وگرنہ آپ ڈیکلریشن جمع کر کے اکا ؤنٹ پر زکوٰۃ سے استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔چنانچہ زکوٰۃ فقیروں، مسکینوں ، تاوان زدہ لوگوں، مسافروں کی بہبود اور اللہ کی راہ میں خرچ کی جاسکتی ہے(التوبہ ۹:۶۰)۔
ادارے کو زکوٰۃ دینا: اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ آیا زکوٰۃ فرد کو دینا لازم ہے یا یہ کسی ادرے کو بھی دی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے تملیک کی شرط کے بارے میں دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ کے لئے کسی شخص کو اسکا مالک بنانا ضروری ہے چنانچہ انکے مطابق زکوٰۃ فرد کو دی جائے گی، ادارے کو نہیں۔ البتہ وہ فقہی گروہ جو زکوٰۃ کے لئے ملکیت کی شرط عائد کرتے ہیں انکے مدارس اور ادارے بھی زکوٰۃ لینے کی اپیل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ دوسرے نقطۂ نظر کے مطابق زکوٰۃ فرد اور ادارے دونوں ہی کو دی جاسکتی ہے۔ان دو آراء میں آپ کا جس پر اطمینان ہو عمل کرلیں۔
۵۔دیگر ہدایات :
۱۔زکوٰۃ جس کو ادا کریں اسکی عزت نفس مجروح نہ ہونے دیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ رقم دیتے وقت یہ بتائیں کہ یہ زکوٰۃ ہے۔
۲۔ ان رشتے داروں اور ساتھیوں کو نظر میں رکھیں جو مستحق تو ہیں لیکن کھل کر اظہا ر نہیں کر سکتے۔
۳۔ زکوٰۃ میں کوشش کریں کہ زیادہ مال چلا جائے لیکن کم نہ جائے۔
۴۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کسی صاحبِ حیثیت ( صا حبِ نصا ب) شخص کو نہیں دی جا سکتی، یہ بات درست نہیں۔ اگر ایک صاحب نصاب شخص کسی مالی مشکل ( جیسے سفر کی بے سرو سامانی، قرض کی ادائیگی، بچوں کی شادی یا تعلیم وغیر ہ ) میں گرفتا ر ہو گیا ہے تو اسے بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
۵۔ زکوٰۃ کو دس لوگوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اگر ایک ہی فرد کو دی جائے تو اس سے وہ کوئی بڑی ضرورت پوری کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں آپ اور سامنے والے کی ترجیحات ہی کوئی حتمی فیصلہ کرسکتی ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ سید کو دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ قیامت تک اس کی ممانعت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ سید کو زکوٰۃ کی ممانعت نبی کریمﷺ کے دور تک محدود تھی کیونکہ آپ ﷺ کے لئے مال غنیمت میں ایک حصہ معین تھا جبکہ آج سید کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے لئے آج اس قسم کی کوئی سہولت نہیں۔
قرآن میں زکوٰۃ کا واضح حکم موجود ہے جیسا درج ذیل آیات میں بیان ہوتا ہے:
۱۔اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ بیشک جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۱۱۰:۲ )۔
۲۔(مسلمانو،) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (النور ۵۶:۲۴)۔
احادیث میں بھی زکوٰۃ کی اہمیت جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بیان ہوتا ہے:
ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام (کا قصر پانچ ستونوں) پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 7 )۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کو سخت وعید سنا ئی گئی ہے:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ اداء کی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کے سر کے پاس دو چینیاں ہوں گی قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر قرآن کی آیت پڑھی اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اسمیں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1319 )۔
زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمیاں اور کوتاہیاں
زکوٰۃ کی اس قدر اہمیت کے باوجود ہمارے معاشرے میں اس سے متعلق کئی عملی غلط فہمیاں اور کوتا ہیاں پائی جاتی ہیں۔ان کوتاہیوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات
ان مسائل کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت :زکوٰۃ کا بنیادی مقصد اسکے نام ہی سے ظاہر ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرکے اپنے نفس کو ان آلائشوں سے پاک کیا جائے جو مال کی محبت ، بخل اور دولت مندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔دولت کی محبت دنیا کی زندگی پر اکتفا کرنے کی تعلیم دیتی اور آخرت سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ زکوٰۃ درحقیقت اپنے اس محبوب مال کو خدا کی رضا کے لئے قربان کردینے کا نام ہے، یہ اپنا سرمایہ خدا کے ابدی بینک میں رکھنے کا عمل ہے جسکا منافع جنت میں ہمیشہ ملتا رہے گا،یہ تقوٰی کے حصول کا ذریعہ ہے، یہ اپنے دل کونوٹوں کی رنگینی سے آزاد کر کے خدا کی یادکا پابند کرنے کا عمل ہے۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب زکوٰۃ کا وقت آتا ہے تو کچھ لوگوں کے چہرے بجھ جاتے ہیں اور وہ لاپرواہی یا اعراض کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں ۔اسکا بنیادی سبب دنیا کی محبت اور اسکی آسائشوں کو دائمی سمجھنا ہے۔ جبکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر جلوہ آفرینیوں کے ساتھ ایک دن ختم ہوجانی ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہی محبوب مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بنا کر گردن میں ڈال دیا جائے گا(بخاری: رقم ۱۴۰۳)۔
زکوٰۃ کے بارے میں ایک اور رویہ اس عبادت کو ایک بوجھ اور زبردستی کی چٹی یا تاوان سمجھ کر ادا کرنا ہے۔ اس قسم کے لوگ زکوٰۃ ادا کرتے وقت منہ بناتے، بڑبڑاتے اور بے دلی کے ساتھ انفاق پر راضی ہوتے ہیں۔ حا لانکہ اللہ کو ہمارا مال نہیں بلکہ تقوٰی پہنچتا ہے۔ نفس کو خدا کی رضا پر راضی رہنے کی تربیت دیں اور اس کے لئے دنیاوی سازو سامان کی بے ثباتی اور حقیقت کا مطالعہ کریں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو اسے بوجھ تو نہیں سمجھتا لیکن اس عبادت کے ثمرات سمیٹنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ انفاق سے پیدا ہونے والے خشوع، خشیت، پاکی، اور تقویٰ جیسے جذبات سے عاری ہی رہتے ہیں۔ اسکا سبب زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت اور اللہ سے زندہ تعلق کی کمی ہے۔اس کے لئے زکوٰۃ کی فضیلت سے متعلق آیات، احادیث اور لٹریچر کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے۔
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
شرحِ زکوٰۃ سے متعلق ایک بہت عام سی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہرقسم کے مال و دولت پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے۔مال پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے جبکہ زرعئی پیداوار، مویشی، خدمات اور دیگر اثاثہ جات میں اسکی شرح مختلف ہے۔ اسکی تفصیل کسی بھی قابلِ اعتماد اہلِ علم سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی: زکوٰۃ سے متعلق ایک اور آفت یہ ہے کہ اکثر افراد اپنے اموال کا باقاعدہ حساب کتاب کرنے کی بجائے محض اندازے ہی سے زکوٰۃ کی ادائیگی پر اکتفا کرلیتے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ زکوٰۃ درست شرح سے ادا نہ ہو۔ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام اثاثہ جات کی ایک فہرست بنائی جائے اور دوسرے کالم میں انکی مالیت لکھ کر آخر میں کل مالیت معلوم کرلی جائے۔ نقد رقم پر تو زکوٰۃ کا حساب کرنا بہت آسان ہے البتہ کچھ اثاثوں میں حساب کتاب میں دقت یا غلط فہمی درپیش ہو سکتی ہے ۔انکی تفصیل درج ذیل ہے۔
زیورات کی مالیت کا حساب: سب سے مشکل کام سونے کے زیورات کی مالیت کا اندازہ لگانا ہے۔ اسکی وجوہات سونے کی مالیت میں اتار چڑھاؤ، سونے کے قیراط کا فرق ، وزن کا درست علم نہ ہونا اور تولہ اور دس گرام کے پیمانوں کا استعمال ہے۔ ان مشکلات سے نبٹنے کے لئے ان ہدایات پر عمل کریں:
ا۔زکوٰۃ کی ادائیگی کا کوئی ایک دن مخصوص کرلیں(مثلاََ رمضان کی پہلی تاریخ)، اور پھر سونے یا چاندی کے اس دن کے ریٹ پر حساب کریں۔
ب۔ اس کے بعد تما م زیورات کی ایک فہرست بنالیں اور یہ معلوم کریں کہ آپ کا زیور کتنے قیراط کا ہے یہ آپ اس زیور کی رسید سے یا جیولر کے پاس جاکر معلو م کرسکتے ہیں۔ عموماََ خالص سونا ۲۴ قیراط، جبکہ زیورات ۲۲ قیراط سے ۱۲ قیراط تک کے ہو سکتے ہیں اور قیراط میں کمی سے ریٹ بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔جیولر کو فون کرکے متعلقہ قیراط کے سونے کا ریٹ حاصل کرلیں کیونکہ اخبا رات میں صرف ۲۴ قیراط کے ریٹ آتے ہیں( آپ ۲۴ قیراط کے حساب سے بھی زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں جو کہ ایک مستحسن عمل ہے)۔
ج۔ اگلا مرحلہ وزن کا تعین کرنا ہے۔ زیور کی رسید پر جو قیمت لکھی ہوتی ہے اس میں زیور کا اصل وزن، ۱۵ سے ۲۰ ف صد ویسٹ(زیور بنانے میں ضایع ہو جانے والا سونا) اور مزدوری کی قیمت شامل ہوتی ہے۔ آپ نے زکوٰۃ صرف اصل وزن پر دینی ہے۔مثال کے طور پر انیلا کے پاس ایک سونے کی چین ہے جس کا وزن ایک ۱۱ گرام ہے۔رسید پر لکھا ہے کہ ویسٹ دس فیصد لگایا گیا ہے۔ چنانچہ ۱۱ گرام کا دس فیصد ایک گرام بنتا ہے۔ یہ ایک گرام مائنس کردینے کے بعد اصل وزن دس گرام ہے۔ چنانچہ زکوٰۃ دس گرام سونے کے وزن ہر ہی دی جائے گی۔
د۔ ایک اور مسئلہ گرام اور تولہ کے حساب کا ہے۔ وزن کے معاملے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک تولہ میں ۱۱ اعشاریہ ۶۶ گرام سونا ہوتا ہے۔
ہ۔ آخر میں وزن کو اسکے ریٹ سے ضرب دے کر کل قیمت معلوم کرلیں۔ اگر یہ نصاب سے زیادہ ہے تو کل مالیت کا ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں اد ا کریں۔
و۔ ایک مثال سے اس مسئلے کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ فرض کریں میرے پاس دو تولہ کے کڑے ۲۲ قیراط کے موجود ہیں۔ فون کرکے میں معلوم کیا تو علم ہو کہ ۲۲ قیراط سونے کی مالیت ۴۵۰۰۰ روپے فی تولہ ہے۔ چنانچہ ان کڑوں کی کل مالیت نوے ہزار روپے بنتی ہے۔چنانچہ مجھے زکوٰۃ نوے ہزار روپے پر ادا کرنی ہے۔
و۔ کچھ فقہا ء زکوٰۃ سے ان زیورات کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں جو روزمرہ کے استعمال میں ہوں مثلاََ وہ بالیاں یا کنگن جو ہر وقت زیرِ استعمال رہتے ہیں۔ اسکی تفصیل کے لیئے قابلِ اعتماد اہلِ علم سے رجوع کریں۔
پلاٹ پر زکوٰۃکا حساب: پلاٹ پر اسکی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اس ضمن میں ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ آج کل کچھ پلاٹ اور اپارٹمنٹ قسطوں پر لئے جاتے ہیں ۔ ان پر زکوٰۃ ہوگی یا نہیں، اس سلسلے میں دو آرا ء ہیں ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب تک یہ جائداد آپ کے قبضے میں نہ آجائے اس پر زکوٰۃ نہیں۔ دوسرا گروہ ادا شدہ قسطوں کی رقم پر زکوٰۃ کا قائل ہے۔اسی طرح ایک شخص کا وہ پلاٹ بھی زکوٰۃ کے زمرے میں نہیں آتا جو اس نے مکان بنوانے کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔ البتہ اگر پلاٹ خریدنے کی نیت سے رکھ چھوڑ ا ہے تو اس پر مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ لاگو ہوگی۔
دیگر اشیاء کی مالیت کا حساب: دیگر اشیاء مثلاََ شیئرز، بانڈز، بنک سیونگ اور دیگر سیونگز پر زکوٰۃ انکی موجودہ مالیت کے حساب سے ہوگی۔
زکوٰۃ سے استثنا: تین چیزیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں یعنی پیداواریا تجارت اور کاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی اشیاء اور حد نصاب سے کم سرمایہ۔مثال کے طور پر ٹریکٹر، ہل جوتنے والے جانور، ٹیکسی، کرائے پر دیا ہوا مکان، کسی مکینک کے اوزار ، فیکٹری کی مشینیں وغیرہ زکوٰۃ سے مستثنی ہیں کیونکہ یہ سب پیداوار یا تجارت کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی تمام اشیاء بھی مستثنی ہیں جیسے رہائشی مکان یا فلیٹ، مکان بنوانے والے پلاٹ،کپڑے، برتن، سواری، کمپیوٹر، فرج ، ٹی وی، اے سی وغیرہ۔ تیسرا یہ کہ اگر سیونگز نصاب سے کم ہیں تو وہ بھی زکوٰۃ سے مستثنی ہیں۔
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات :
زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جاسکتی ہے؟ اس کے متعلق بھی کئی عملی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو زکوٰۃ دینا: اس میں پہلا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ زکوٰۃ ریاست کو دی جائے یا افرا د کو۔ ہماری حکومت صرف بنک اکاؤنٹ، شیئرز، بانڈز وغیرہ پر زکوٰۃ لیتی ہے اگر آپ کا حکومت پر اعتماد ہے تو ٹھیک وگرنہ آپ ڈیکلریشن جمع کر کے اکا ؤنٹ پر زکوٰۃ سے استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔چنانچہ زکوٰۃ فقیروں، مسکینوں ، تاوان زدہ لوگوں، مسافروں کی بہبود اور اللہ کی راہ میں خرچ کی جاسکتی ہے(التوبہ ۹:۶۰)۔
ادارے کو زکوٰۃ دینا: اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ آیا زکوٰۃ فرد کو دینا لازم ہے یا یہ کسی ادرے کو بھی دی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے تملیک کی شرط کے بارے میں دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ کے لئے کسی شخص کو اسکا مالک بنانا ضروری ہے چنانچہ انکے مطابق زکوٰۃ فرد کو دی جائے گی، ادارے کو نہیں۔ البتہ وہ فقہی گروہ جو زکوٰۃ کے لئے ملکیت کی شرط عائد کرتے ہیں انکے مدارس اور ادارے بھی زکوٰۃ لینے کی اپیل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ دوسرے نقطۂ نظر کے مطابق زکوٰۃ فرد اور ادارے دونوں ہی کو دی جاسکتی ہے۔ان دو آراء میں آپ کا جس پر اطمینان ہو عمل کرلیں۔
۵۔دیگر ہدایات :
۱۔زکوٰۃ جس کو ادا کریں اسکی عزت نفس مجروح نہ ہونے دیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ رقم دیتے وقت یہ بتائیں کہ یہ زکوٰۃ ہے۔
۲۔ ان رشتے داروں اور ساتھیوں کو نظر میں رکھیں جو مستحق تو ہیں لیکن کھل کر اظہا ر نہیں کر سکتے۔
۳۔ زکوٰۃ میں کوشش کریں کہ زیادہ مال چلا جائے لیکن کم نہ جائے۔
۴۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کسی صاحبِ حیثیت ( صا حبِ نصا ب) شخص کو نہیں دی جا سکتی، یہ بات درست نہیں۔ اگر ایک صاحب نصاب شخص کسی مالی مشکل ( جیسے سفر کی بے سرو سامانی، قرض کی ادائیگی، بچوں کی شادی یا تعلیم وغیر ہ ) میں گرفتا ر ہو گیا ہے تو اسے بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
۵۔ زکوٰۃ کو دس لوگوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اگر ایک ہی فرد کو دی جائے تو اس سے وہ کوئی بڑی ضرورت پوری کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں آپ اور سامنے والے کی ترجیحات ہی کوئی حتمی فیصلہ کرسکتی ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ سید کو دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ قیامت تک اس کی ممانعت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ سید کو زکوٰۃ کی ممانعت نبی کریمﷺ کے دور تک محدود تھی کیونکہ آپ ﷺ کے لئے مال غنیمت میں ایک حصہ معین تھا جبکہ آج سید کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے لئے آج اس قسم کی کوئی سہولت نہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔