محمودوایاز کانام کس نے نہیں سن رکھا؟ایاز ہندستان کے شہنشاہ محمودکاایک انتہائی وفادارغلام تھا۔ محموداس غلام پربے انتہا اعتماد کیاکرتا۔اس بناء پراکثروزرا ءایازسے حسدکرتے کہ ایک غلام کوہم جیسے اعلیٰ لوگوں پرفوقیت دی جارہی ہے۔
ایک دن کاواقعہ ہے کہ محموداپنے درباریوں کے ساتھ تخت پربراجمان تھا۔دربارمیں بادشاہ کوایک ککڑی پیش کی گئی جوبادشاہ سمیت تمام درباریوں میں تقسیم ہوئی۔ ککڑی انتہائی کڑوی تھی۔بادشاہ سمیت سب لوگوں نے اسے تھوک دیا لیکن محمودکاوفادارغلام ایازمزے سے وہ ککڑی کھا تارہا ۔بادشاہ نے ایازسے دریافت کیا:’’کیاتمھیں یہ ککڑی کڑوی نہیں لگی؟‘‘ایازنے کہا "کیوں نہیں جہاں پناہ، ککڑی توکڑوی ہی ہے‘‘۔ محمودنے پوچھا:’’توتم نے اسے تھوکاکیوں نہیں؟‘‘ایازنے کہا:’’حضورآپ کے ہاتھوں سے میں نے بے شمار میٹھے پھل کھائے ہیں۔اب اگرایک پھل کڑوانکل آیاتوغلامی کا تقاضا ہے کہ اسے صبر کے ساتھ کھالیا جائے۔‘‘
ہم سب خداۓربِّ ذوالجلال کے غلام ہیں ہم نے اپنی ہر خواہش، ہر پسند اور ہر ناپسند کوخداکے حکم کے تابع کرنے کاعہدکیاہے۔یہ آقا و غلام کا رشتہ دراصل اسی عہدکی بنیادہے۔وہ آقا مختار ہے کہ ہماری نافرمانی پرسزادے اورہماری فرمانبرداری پرانعام سے نوازے ۔لیکن اگراس کے عذاب کا خوف اور انعام کی لالچ ہی کی وجہ سے ہم اسکی اطاعت کریں تومناسب نہ ہوگا۔ ایک اور بندگی کا مقام وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا کہ جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ آپ اللہ کی عبادت اتنی زیادہ کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ تو ہر قسم کی لغزش سے پاک کردئے گئے ہیں ۔ تو آپ کا جواب ہوتا" کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟"
ایک ملازم صرف اس لیے اپنے مالک اور سربراہ کاکہنامانتا ہے کہ ایسانہ کرے توا ملازمت سے برخاست کیاجاسکتاہے۔جبکہ اطاعت کی صورت میں اسے تنخواہ اور ترقی سے نوازاجائے گا۔اس نوکرکی اپنے مالک سے کوئی جذباتی وابستگی اورمحبت نہیں ہوتی۔ااسے محض تنخواہ اور دیگر مراعات سے سروکار ہوتا ہے۔
لہذاکوئی شخص اگرخداکی فرمانبرداری محض جزاکی لالچ اورسزاکے خوف سے کررہاہے توخداکے بارے میں اس کاتصوفقط’’انتظامی‘‘نوعیت کاہے۔اس شخص میں خدا کیلئے کوئی جذباتی وابستگی ،لگاؤ،محبت یاوفاداری کا جذبہ پیدانہیں ہوسکتا۔ایسا شخص اگرخداکے احکامات کی ظاہری تعمیل کرتاہے توبے روح نمازیں،تقویٰ سے عاری روزے،دکھاوے پرمبنی انفاق،ریاسے بھرپورحج اور فہم سے عاری وظیفے تو وجودمیں آتے ہیں ایسا شخص خداکوحقیقی منعم سمجھنے سے قاصررہتاہے بلکہ وہ ایک آجراورخدا میں تفریق ہی نہیں کرپاتا۔
دوسری جانب ایک اورشخص ہے جوخداکی غلامی کی بنیادوفاداری اورمحبت کوبناتاہے اورخداسے محبت کاطریقہ بھی وہی اپناتاہے جوخودخداکابتایاہوا ہے۔چنانچہ یہ شخص جب روزو شب کا اُلٹ پھیر، دھوپ کی تمازت ، سائے کی ٹھنڈک،سردی کی گلابی شامیں، میلوں دور پھیلا نیلگوں سمندر، ساحل پراٹھکلیاں کرتے ہوئے پرندے،بارش کی مست بوندیں، افق پربکھری قوس و قزح اور دیگر نظارے دیکھتاہے توسجدے میں گرجاتاہے۔وہ خود کو اپنے آقاکے احسانوں تلے محسوس کرتاہے۔لہٰذا وہ خداسے محبت کرنے کے لیے اس کی جانب لپکتاہے کہ کہیں یہ نعمتیں فراہم کرنے والاخدااس سے ناراض نہ ہوجائے ۔
اگر ہم خدا کو ایک انتظامی حثیت سے مانتے ہیں توہمارارویہ اُن وزراجیسا ہے جومیٹھاپھل لینے کیلئے توبے تاب ہیں لیکن کڑوے پھل کوتھوک دیتے ہیں۔جو درحقیقت بادشاہ کے وفادارنہیں بلکہ اس کی طاقت کے وفادارہیں۔جن کاکوئی جذباتی رشتہ اُس بادشاہ سے نہیں۔ دوسری صورت میں ہم ایازکی طرح وفادارغلام ہیں اوروفاداری کاتقاضا ہے کہ کڑواپھل بھی اسی طرح قبول کرلیاجائے جس طرح میٹھے پھل۔اس رویہ کے بعدچلچلاتی ہوئی دھوپ بھی بری نہیں لگتی اورٹھٹھرتی ہوئی راتیں فرحت بخش بن جاتی ہیں۔پھرہرطرح کی مصیبت گواراہوتی ہے کیونکہ یہ سب اس منعمِ حقیقی کی جانب سے ہے جوہمیں ان گنت میٹھے پھل کھلاچکا۔اب اگرکوئی پھل اس نے آزمائش کے لیے کڑوادے دیاتوکیا اسے تھوک دیا جائے؟
ایک دن کاواقعہ ہے کہ محموداپنے درباریوں کے ساتھ تخت پربراجمان تھا۔دربارمیں بادشاہ کوایک ککڑی پیش کی گئی جوبادشاہ سمیت تمام درباریوں میں تقسیم ہوئی۔ ککڑی انتہائی کڑوی تھی۔بادشاہ سمیت سب لوگوں نے اسے تھوک دیا لیکن محمودکاوفادارغلام ایازمزے سے وہ ککڑی کھا تارہا ۔بادشاہ نے ایازسے دریافت کیا:’’کیاتمھیں یہ ککڑی کڑوی نہیں لگی؟‘‘ایازنے کہا "کیوں نہیں جہاں پناہ، ککڑی توکڑوی ہی ہے‘‘۔ محمودنے پوچھا:’’توتم نے اسے تھوکاکیوں نہیں؟‘‘ایازنے کہا:’’حضورآپ کے ہاتھوں سے میں نے بے شمار میٹھے پھل کھائے ہیں۔اب اگرایک پھل کڑوانکل آیاتوغلامی کا تقاضا ہے کہ اسے صبر کے ساتھ کھالیا جائے۔‘‘
ہم سب خداۓربِّ ذوالجلال کے غلام ہیں ہم نے اپنی ہر خواہش، ہر پسند اور ہر ناپسند کوخداکے حکم کے تابع کرنے کاعہدکیاہے۔یہ آقا و غلام کا رشتہ دراصل اسی عہدکی بنیادہے۔وہ آقا مختار ہے کہ ہماری نافرمانی پرسزادے اورہماری فرمانبرداری پرانعام سے نوازے ۔لیکن اگراس کے عذاب کا خوف اور انعام کی لالچ ہی کی وجہ سے ہم اسکی اطاعت کریں تومناسب نہ ہوگا۔ ایک اور بندگی کا مقام وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا کہ جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ آپ اللہ کی عبادت اتنی زیادہ کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ تو ہر قسم کی لغزش سے پاک کردئے گئے ہیں ۔ تو آپ کا جواب ہوتا" کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟"
ایک ملازم صرف اس لیے اپنے مالک اور سربراہ کاکہنامانتا ہے کہ ایسانہ کرے توا ملازمت سے برخاست کیاجاسکتاہے۔جبکہ اطاعت کی صورت میں اسے تنخواہ اور ترقی سے نوازاجائے گا۔اس نوکرکی اپنے مالک سے کوئی جذباتی وابستگی اورمحبت نہیں ہوتی۔ااسے محض تنخواہ اور دیگر مراعات سے سروکار ہوتا ہے۔
لہذاکوئی شخص اگرخداکی فرمانبرداری محض جزاکی لالچ اورسزاکے خوف سے کررہاہے توخداکے بارے میں اس کاتصوفقط’’انتظامی‘‘نوعیت کاہے۔اس شخص میں خدا کیلئے کوئی جذباتی وابستگی ،لگاؤ،محبت یاوفاداری کا جذبہ پیدانہیں ہوسکتا۔ایسا شخص اگرخداکے احکامات کی ظاہری تعمیل کرتاہے توبے روح نمازیں،تقویٰ سے عاری روزے،دکھاوے پرمبنی انفاق،ریاسے بھرپورحج اور فہم سے عاری وظیفے تو وجودمیں آتے ہیں ایسا شخص خداکوحقیقی منعم سمجھنے سے قاصررہتاہے بلکہ وہ ایک آجراورخدا میں تفریق ہی نہیں کرپاتا۔
دوسری جانب ایک اورشخص ہے جوخداکی غلامی کی بنیادوفاداری اورمحبت کوبناتاہے اورخداسے محبت کاطریقہ بھی وہی اپناتاہے جوخودخداکابتایاہوا ہے۔چنانچہ یہ شخص جب روزو شب کا اُلٹ پھیر، دھوپ کی تمازت ، سائے کی ٹھنڈک،سردی کی گلابی شامیں، میلوں دور پھیلا نیلگوں سمندر، ساحل پراٹھکلیاں کرتے ہوئے پرندے،بارش کی مست بوندیں، افق پربکھری قوس و قزح اور دیگر نظارے دیکھتاہے توسجدے میں گرجاتاہے۔وہ خود کو اپنے آقاکے احسانوں تلے محسوس کرتاہے۔لہٰذا وہ خداسے محبت کرنے کے لیے اس کی جانب لپکتاہے کہ کہیں یہ نعمتیں فراہم کرنے والاخدااس سے ناراض نہ ہوجائے ۔
اگر ہم خدا کو ایک انتظامی حثیت سے مانتے ہیں توہمارارویہ اُن وزراجیسا ہے جومیٹھاپھل لینے کیلئے توبے تاب ہیں لیکن کڑوے پھل کوتھوک دیتے ہیں۔جو درحقیقت بادشاہ کے وفادارنہیں بلکہ اس کی طاقت کے وفادارہیں۔جن کاکوئی جذباتی رشتہ اُس بادشاہ سے نہیں۔ دوسری صورت میں ہم ایازکی طرح وفادارغلام ہیں اوروفاداری کاتقاضا ہے کہ کڑواپھل بھی اسی طرح قبول کرلیاجائے جس طرح میٹھے پھل۔اس رویہ کے بعدچلچلاتی ہوئی دھوپ بھی بری نہیں لگتی اورٹھٹھرتی ہوئی راتیں فرحت بخش بن جاتی ہیں۔پھرہرطرح کی مصیبت گواراہوتی ہے کیونکہ یہ سب اس منعمِ حقیقی کی جانب سے ہے جوہمیں ان گنت میٹھے پھل کھلاچکا۔اب اگرکوئی پھل اس نے آزمائش کے لیے کڑوادے دیاتوکیا اسے تھوک دیا جائے؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔