Dec 14, 2014

حضرت یوسف علیہ السلام

کنویں میں اندھیرا ہے ،ایک بچہ اسی کنویں میں کسی نجات دہندہ کا انتظار کر تے ہوئے اپنے بھائیوں کی بے وفائی پر حیران ہے کہ وہ اپنے حسد کی بنا پر اسے کنویں میں دھکیل کرچلے گئے۔ اچانک محسوس ہوا کہ کنویں کے سرے پر کچھ لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے بچے کو نکالا اور اسے سامانِ تجارت بنا کر چل دئیے۔مصر پہنچ کر ان لوگوں نے بچے کو غلام بنا کر فروخت کردیا۔ اس طرح اس بچے پر دوہری مصیبت آپڑی۔ ایک تو وہ اپنے ماں باپ کے سائے سے محروم ہو گیا دوسرا وہ آزاد سے غلام بن بیٹھا۔ اس طرح اب ایسی زندگی کا آغاز ہو اجو والدین سے دوری اور غلامانہ مشقت سے عبارت تھی۔ زندگی کی گاڑی آگے بڑھی لیکن جونہی اس نے بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، اس پر ایک اورافتاد آپڑی۔اس کے آقا کی بیوی اپنے نوجوان غلام پر فریفتہ ہو چلی۔اس نے اس فرشتہ صفت انسان پر ڈورے ڈالنے شروع کئے اور ایک دن موقع پا کر اس سے اپنی سفلی خواہش کا اظہار کر دیانوجوان نے خدا کی نصرت کے ساتھ خود کو اس عمل سے محفوظ رکھا۔لیکن ابھی معاملہ ختم نہ ہوا تھا ۔اس عورت نے قید خانے میں ڈلوانے کی دھمکی دے ڈالی۔ نوجوان نے جسم کی قید کو روح کی قید پر فوقیت دی اور قید خانے کی زندگی کا آغاز کیا۔ کئی سال وہاں پابندِ سلاسل رہا ۔ بالآخر بادشاہ کی مداخلت سے قید سے رہائی پائی اور ریاست کے اہم عہدے پر فائز ہوا۔
یقیناََ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف ؑ تھے۔ حضرت یوسف ؑ کی زندگی کے نشیب و فراز خدا کی حکمت، اسکی قدرت، اسکا اندازِ آزمائیش اور دنیوی مشکلات کی خدا کے نزدیک اہمیت کا پتا دیتے ہیں۔یہ خدا کی قدرت تھی کہ ایک کنویں میں پڑے لاوارث بچے کو مصر کی حکمرانی عطا کی۔ یہ اسکی حکمت تھی کہ تھی کہ کئی برسوں حضرت یوسف ؑ کو قید خانے میں مقید رکھا اور ایک مناسب وقت پر باہر نکالا۔ اس اتار چڑھاؤ میں حضرت یوسف ؑ کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کس طرح وہ مصیبتو ں پر صبر، توکل، تفویض اوررضا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس واقعے میں خدا کا دنیا کی نعمتوں پر نقطۂ نظر بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوانی، یہ ماں باپ کا سایہ، یہ آزادی کی زندگی سب ہی خدا کی نعمتیں ہیں لیکن ایک بڑے مقصد کے حصول کے لئے بعض اوقات انکی قربانی دینا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر خدا ماں باپ سے دور کردے تو اس پر راضی رہنا سنت پیغمبر ہے، اگر ایک طرف گناہ کا بلاوہ اور دوسری جانب کئی برسوں کی قید ہو تو خدا کی فرماں برداری کو ہر مصلحت پر فوقیت دیناہی دین ہے۔ غرض حضرت یوسف ؑ کے قصے کا خلاصہ خدا کی قضا (مشیت و آزمائش) پر رضا، خدا کی منع کردہ عمل سے بچنے کے لیئے دنیوی مفادات کی قربانی ، خدا کی دی ہوئی مشکلات پر ثابت قدمی، ہر مشکل میں خود کو خدا کے سپر کرنا اور ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسی پر بھرسہ کرناہے۔
مشکل اصطلاحات کی وضاحت:
اکثر اوقات مذہبی طور پر استعمال ہونے والی اصطلاحات زیادہ استعمال کی وجہ سے اپنا اصل مفہوم کھو دیتی ہیں یا پھر اہلِ زبان انہیں پرانی ہونے کی وجہ سے اتعمال کرنا ترک کر دیتے ہیں۔چنانچہ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اہم اصطلاحات کی وضاحات کردی جائے۔
۱۔خدا کی حکمت: حکمت کا مطلب دانائی، معاملہ فہمی، سمجھ بوجھ اور صورتِ حال و مستقبل کا درست ادراک ہے۔ مثلاََ خدا کو یقیناََ علم اور ادراک تھا کہ حضرت یوسف کو اگر کنویں میں ڈالا گیا، یا غلام بنایا گیا اور یا پھر قید خانے میں ڈالا گیا تو اس کا نتیجہ مثبت ہے یعنی مصر کی بادشاہی۔ ایک عام آدمی اگر ان مصیبتوں کو دیکھے تو ہر گز اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس میں کیا بہتری ہے۔
۲۔ خدا کی قدرت: حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنے آزاد ارادے سے انہیں کنویں میں ڈالا، قافلے والوں نے انہیں اپنے مفاد کے غلام بنا کر بیچا اور عزیزِ مصر کی بیوی نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے حضرت یوسف پر الزام لگا کر انہیں قید خانے بھجوادیا ۔لیکن اللہ کی قدرت کہ اور طاقت کہ اس نے ان (بظاہر)نا موافق حالات کے باوجود اپنا مطلوبہ نتیجہ نکال لیا اور حضرت یوسف کو مصر کی سرفرازی اور اپنی پیغمبری سے سرفراز کردیا۔
۳۔ خدا کی آزمائش: حضرت یوسف کی جسمانی اور نفسیاتی مشکلات درحقیقت خدا کی آزمائش تھی کہ کس طرح ایک بندۂ مومن اپنے رب کی دی ہوئی صعوبتیں برداشت کرکے اپنے رب پر اعتراض، شکایت ، واویلا کرنے سے باز رہتا اور خود کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔
۴۔ توکل: حضرت یوسف نے مستقبل میں ملنے والی کامیابیو ں سے قطع نظر ہر ہر قدم پر اپنے رب پر بھروسا اور اعتماد کیا کہ وہ اس مشکل میں ساتھ ہے اور اس مصیبت سے وہی بچا سکتا ہے۔
تفویض و رضا: توکل کے بعد ضروری نہیں کہ نتیجہ مطلوبہ ہی نکلے۔ لہٰذا حضرت یوسف کا خود کو خدا کے سپرد کر دینا کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے بندے کو لے جائیں، اسے آزمائیں، اسکی تربیت کریں، اسکے ارتقا کے لئے اقدامات کریں۔ یہ تفویض ہے۔ پھر اس سپردگی میں پیدا ہونے والے دل کے وسوسوں اور نفس کے جائز تقاضوں پر قابو کرتے ہوئے خدا کی مشیت پر اعتراض کرنے سے گریز کرنا رضا ہے ۔
صبر: اللہ کی دی ہوئی آزمائشوں پر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہنااور اپنے نظریہ و عمل میں لغزش نہ آنے دینا صبر ہے۔اس میں توکل، تفویض اور رضا شامل ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads