قرآنِ کریم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا اوراس کے باسی بہت جلد ایک عظیم حادثے سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ یہ حادثہ قیامت کا وہ زلزلہ ہے جو زمین پر ناقابلِ تصورتباہی برپا کرے گا۔جس حادثے کے نتیجے میں ہمالیہ جیسے بلند پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑ تے پھریں ، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی شدت کیا ہو گی اور اس کے نتیجے میں انسانوں پر کیا گزرے گی۔
قرآنِ کریم کے ایک طالب علم کے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کی موت اس ہولناک طریقے پر کیوں واقع ہو گی۔زندگی کی بساط لپیٹنے کا کوئی آسان طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ مگر لوگ اللہ کے بجائے دوسروں کی بندگی میں لگ گئے ۔ پوری انسانی تاریخ میں بتوں کی پرستش کی جاتی رہی ہے اور آج تاریخ کے ا ختتام پر انسان نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنالیا ہے ۔ایسے میں قیامت کی عظیم تباہی لوگوں کو یہ بتانے آئے گی کہ جس خدا کو انہوں نے نظر انداز کر دیا تھا وہ کس قدر بلند، طاقتور اور صاحبِ جبروت ہستی ہے۔
عقل کا تقاضا تھا کہ عظیم سمندروں کے خالق کے آگے جھکا جائے ۔ لوگ نہ جھکے ۔سو اب سمند ر خود ابل کراس کی گواہی دیں گے ۔فطرت کا تقاضا تھا کہ بلند پہاڑ وں کے مالک کے سامنے سرنگوں ہوا جائے ۔ انسان نہ ہوا۔ اب پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکرخداکی عظمت کا ثبوت دیں گے ۔ پیغمبروں کی تعلیم تھی کہ ساری مخلوق کے رب کواپنی توجہات کاتنہا مرکز بنایا جائے ۔ ابنِ آدم نے اس تعلیم کو بھلادیا۔ اب مخلوق کی مکمل تباہی اسے رب کی بڑ ائی کا احساس دلائے گی۔جولوگ عقل، فطرت اور نبیوں کا پیغام نہ سمجھ سکے ، قیامت ان اندھے ، بہرے غافل لوگوں کو خدا کا تعارف کرائے گی۔اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسے اندھے بہروں کو جھنجوڑ نے کے لیے قیامت جیسی تباہی ہی کی ضرورت ہے ۔
قرآنِ کریم کے ایک طالب علم کے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کی موت اس ہولناک طریقے پر کیوں واقع ہو گی۔زندگی کی بساط لپیٹنے کا کوئی آسان طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ مگر لوگ اللہ کے بجائے دوسروں کی بندگی میں لگ گئے ۔ پوری انسانی تاریخ میں بتوں کی پرستش کی جاتی رہی ہے اور آج تاریخ کے ا ختتام پر انسان نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنالیا ہے ۔ایسے میں قیامت کی عظیم تباہی لوگوں کو یہ بتانے آئے گی کہ جس خدا کو انہوں نے نظر انداز کر دیا تھا وہ کس قدر بلند، طاقتور اور صاحبِ جبروت ہستی ہے۔
عقل کا تقاضا تھا کہ عظیم سمندروں کے خالق کے آگے جھکا جائے ۔ لوگ نہ جھکے ۔سو اب سمند ر خود ابل کراس کی گواہی دیں گے ۔فطرت کا تقاضا تھا کہ بلند پہاڑ وں کے مالک کے سامنے سرنگوں ہوا جائے ۔ انسان نہ ہوا۔ اب پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکرخداکی عظمت کا ثبوت دیں گے ۔ پیغمبروں کی تعلیم تھی کہ ساری مخلوق کے رب کواپنی توجہات کاتنہا مرکز بنایا جائے ۔ ابنِ آدم نے اس تعلیم کو بھلادیا۔ اب مخلوق کی مکمل تباہی اسے رب کی بڑ ائی کا احساس دلائے گی۔جولوگ عقل، فطرت اور نبیوں کا پیغام نہ سمجھ سکے ، قیامت ان اندھے ، بہرے غافل لوگوں کو خدا کا تعارف کرائے گی۔اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسے اندھے بہروں کو جھنجوڑ نے کے لیے قیامت جیسی تباہی ہی کی ضرورت ہے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔