Dec 12, 2014

دجال کا حلیہ اور اسکی جنت و جہنم

خدائی کے دعوے دار دجال کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا اور وہ خدائی کا دعویٰ فرما رہے ہوں گے، اور ایسا نہ ہو گا کہ وہ لفظ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گا، بلکہ پڑھے لکھے لوگ تو رہے ایک طرف، ان پڑھ لوگ بھی اسے پڑھ سکیں گے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ دجال اکبر کی آنکھوں کے درمیان اس طرح لفظِ کافر لکھنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے کہ اسے دنیا کا کوئی صابن اور کیمیکل نہ مٹا سکے، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان پڑھ لوگوں میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کر دے، اور اس زمانے میں اس طرح کے خوارق اور خلاف عادت امور پیش آ رہے ہوں گے لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے، ایک تو یہ کہ بعض روایات میں دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ”کافر“ حروفِ تہجی کے ساتھ الگ الگ کر کے لکھنے کا تذکرہ ملتا ہے یعنی یہ لفظ اس طرح ”ک ف ر“ لکھا ہو گا، اور بعض روایات میں حروفِ تہجی کے ساتھ لکھا ہونے کی تصریح نہیں ہے، اس لیے اس ناکارہ کی رائے میں حروفِ تہجی والی روایت راجح ہے، تاہم معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہو گا، اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ لفظ حقیقتً اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یا حدیث میں اس کا مجازی معنی مراد ہے؟ سو اس سلسلے میں بھی علماء کی دو رائیں ہیں، بعض علماء اس کا مجازی معنی مراد لیتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ دجال اکبر کے چہرے پر ہی ایسی علامات ہوں گی جن سے اس کا حادث ہونا ثابت ہوتا ہو گا، ان علامات کو لفظِ کافر سے ذکر فرما دیا گیا ہے ، لیکن اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کتابت اپنے حقیقی معنی میں ہی ہے، اور حقیقی طور پر اس کی آنکھوں کے درمیان لفظِ کافر لکھا ہو گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ اس کے کفر اور اس کے جھوٹ کی واضح علامت اس کے چہرے پر ہی نمایاں فرما دے، تا کہ ہر آدمی اسے شناخت کر سکے، اس کے جھوٹا اور کافر ہونے کا یقین کر سکے اور اس کے فتنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
تیسری قابل وضاحت بات دجالِ اکبر کی جنت اور جہنم سے متعلق ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو ڈھیل دیتا ہے تو اس کی رسی خوب دراز کر دیتا ہے اور جب اسے سزا دینے کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اس رسی کو کھینچ لیتا ہے، دجالِ اکبر جب خدائی کا دعویٰ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ڈھیل دے گا، حتی کہ دجال اپنے ساتھ جنت اور جہنم کو لیے پھرتا ہو گا، جب کسی پر اپنا انعام کرنا چاہے گا تو اسے اپنی جنت میں داخل کر دے گا، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جہنم ہو گی، اور جب کسی کو سزا دینا چاہے گا تو اسے اپنی جہنم میں داخل کر دے گا، بظاہر وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جنت ہو گی، لوگ جب اس کے ساتھ جنت اور جہنم کو دیکھیں گے تو خوفزدہ ہوں گے اور اس پر ایمان لانے لگیں گے، خاص طور پر جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے دجال کو اپنا رب نہیں مانا، دجال نے انہیں بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا، وہ مزید مرعوب ہو جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جس چیز کو جنت سمجھ رہے ہوں گے، وہ ان کی نظر یا ان کی سوچ کا دھوکہ اور غلط فہمی ہو گی، حقیقت میں وہ جہنم ہو گی اور جس چیز کو لو گ جہنم سمجھ رہے ہوں گے ، وہ ان کی غلط فہمی ہو گی اور ان کی نظر کا دھوکہ ہو گا، حقیقت میں وہ جنت ہو گی، اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا اگر کسی آدمی کو دجال کا زمانہ مل جائے اور وہ آزمائش میں پڑ جائے تو اسے چاہیے کہ بے کھٹکے دجال کی جہنم میں چھلانگ لگا دے، وہ آگ اس کیلئے اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جائے گی جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام کیلئے بن گئی تھی اور اسے اس سے کچھ نقصان نہ ہوگا، لیکن اگر وہ اس کی جنت میں کود گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، اور وہ خسارے میں پڑ گیا۔
رہی یہ بات کہ کیا واقعی دجال کے ساتھ جنت اور جہنم ہوں گے، یا یہ نعمت و راحت اور سزا و تکلیف سے کنایہ ہے؟ سو اس سلسلے میں محدثین نے دو رائیں اختیار کی ہیں، جن محدثین نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے ، ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے دجال کو جس جنت اور جہنم پر حکم چلانے کا موقع عطا فرمائے گا، اس کی ظاہری اور بیرونی حالت تو دجال کی خواہش کے مطابق ہی رہے گی لیکن اندرونی اور حقیقی کیفیت اس کے برعکس ہو گی۔ اس لیے نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس موقع پر انسان اپنی آنکھوں پر اعتماد نہ کرے، بلکہ نبی ﷺ کے حکم پر اعتماد کرے، اپنی بصارت کو ایک طرف رکھ دے اور ایمانی بصیرت سے کام لے، اور بعض محدثین نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے ، ان کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ دجال کو رب مان کر اس پر ایمان لے آئیں گے، دجال ان پر اپنے انعام و اکرام کی بارش برسا دے گا، یوں ان کی دنیا بھی جنت بن جائے گی، تاہم آخرت میں اس عیاشی کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہ ہو گا، اور جو لوگ دجال کو اپنا رب ماننے سے انکار کر دیں گے، دجال انہیں طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کر دے گا جس کی وجہ سے یہ دنیا ہی ان کیلئے جہنم بن جائے گی، لیکن دنیا کی ان تکلیفوں کا انجام آخرت میں جنت کے سوا کچھ نہیں ہو گا، اس لیے انسان کو چاہیے کہ بصارت کی بجائے اس موقع پر بصیرت سے کام لے تا کہ دنیا میں بھی سرخرو ہو اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا ہوا۔ واللہ اعلم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads