جب سے 2001 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹا ہے، افغان طالبان کے گوشہ نشین لیڈر، ملا محمد عمر کے بارے میں سوالات گردش کرتے رہے ہیں۔
ہر قسم کی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں؛ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ عسکریت پسند گروپوں کی قیادت سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ اور بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ وہ محض تخیل کی پیداوار ہیں، وہ محض ایک نام ہیں، کوئی حقیقی شخصیت نہیں۔
لاہور میں مقیم ایک تجزیہ کار، مبشر بخاری نے کہا "کابل میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے اب تک، کسی طالبان لیڈر نے، گذشتہ 13 برسوں میں ملا عمر کو دیکھنے یا ان سے ملنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔"
بخاری نے کہا کہ کم از کم اتنا ضرور ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بظاہر عسکریت پسندوں کی کمان نہیں کر رہے ہیں۔
بخاری نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "میں سمجھتا ہوں کہ ملیشیا 'خودکار' انداز میں کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔اور اس کے مقامی کمانڈروں نے اپنے 'جہادی' ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے زیادہ طاقت اور آزادی حاصل کر لی ہے۔"
انھوں نے کہا "اگر وہ زندہ ہوتے تو انہیں دیکھ لیا گیا ہوتا".
ان کے وجود کو ثابت کرنا مشکل ہے
دو ہزار ایک کے آخری دنوں میں، جب بین الاقوامی فورسز نے کابل میں سخت گیر حکومت کا خاتمہ کر دیا، تو اطلاعات کے مطابق، ملا عمر دو پہیوں والی ایک گاڑی میں فرار ہو گئے۔ اس کے بعد سے اب تک، ان کے دیکھے یا سنے جانے کی کوئی قابلِ اعتبار رپورٹیں سامنے نہیں آئی ہیں۔
تاہم، ایسی رپورٹیں گردش میں رہی ہیں کہ وہ پاکستان میں شمالی وزیرستان جاتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے ۔ ۔شمالی وزیرستان ایک پاکستانی قبائلی ایجنسی ہے جو تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی)، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کی ایک مقامی شاخ کا ہیڈ کواٹرز تھی۔ اس سال کے جون کے وسط میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے آپریشن ضربِ عصب شروع کیا اور عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا۔ لیکن میڈیا کی ان رپورٹوں کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اس دوران، ملا عمر کا آسیب باقی ہے۔
اس راز کی جزوی وجہ یہ ہے کہ ان کی بہت کم تصویریں دستیاب ہیں۔ اس دور کی تصویریں بھی موجود نہیں جو طالبان کے دورِ اقتدار میں لی گئی تھیں۔ خیال یہ ہے کہ عسکریت پسند تصویروں کو نا پسند کرتے تھے اور انہیں نام و نمود کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
اپنے 20 سالہ طویل صحافیانہ کیریئر میں، صفدر داور، جو ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس (پاکستان کے قبائلی علاقے کے رپورٹروں کی انجمن) کے سابق صدر ہیں، کسی ایسے شخص نے نہیں ملے جس نے ملا عمر کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہو۔
داور، شمالی وزیرستان میں میر علی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا، "میں نے شمالی وزیرستان میں بہت سے طالبان کمانڈروں اور القاعدہ کے لوگوں سے اس طالبان لیڈر کے بارے میں پوچھا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ انھوں نے ملا عمر کو دیکھا ہے یا سنا ہے (ان کی اصل آواز)".
ایک سینیئر جرنلسٹ اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل، مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر یہ خفیہ لیڈر زندہ ہے تو اس نے خود کو بہت اچھی طرح رو پوش کر لیا ہے۔
سولنگی نے سینترل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ اگر ایسا ہے، تو امکان یہ ہے کہ "وہ کہیں پاکستان-افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ہو گا۔ ملیشیا کا یہ لیڈر کتنا سرگرم ہے، یہ پھر بھی معمہ ہے۔
اگر ملا عمر نہیں، تو پھر کمان کس کے پاس ہے؟
اس سے قطع نظر کہ ملا عمر زندہ ہیں یا نہیں، ان کے منظر سے غائب ہونے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر طالبان کی ڈوریاں کون کھینچ رہا ہے۔
پشاور میں مقیم ایک تجزیہ کار، اورنگ زیب خان نے کہا، "میرے خیال میں طالبان کی قیادت حقانی گھرانہ کر رہا ہے۔"
حقانی نیٹ ورک (ایچ این) کے اثر و رسوخ میں سرحد کے دونوں جانب مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔۔ پاکستان میں، افغانستان میں رسد کے راستے کی حفاظت کرنا اور افغانستان میں، جنگ میں سرگرمی سے حصہ لینا۔
اورنگ زیب نے کہا، "عمر ہمیشہ سے تمام معاملات کو بہت خفیہ رکھتے رہے ہیں۔ ممکن ہے جو لوگ ان سے کام لے رہے ہیں، وہ محض ان کو دکھاوے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے 2001 کے بعد افغان جنگ میں ازخود کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں اور جنگجوؤں نے براہِ راست جو بیانات دیے ہیں، ان پر کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔"
اورنگ زیب نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر ملا عمر زندہ ہیں، تو ان کا رول ایک مبصر اور مشیر جیسا ہو گا۔ انھوں نے کہا، "جنگ لڑنے کے لیے، یا جہاد میں شامل جنگجوؤں کی قیادت کے لیے، وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
ہر قسم کی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں؛ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ عسکریت پسند گروپوں کی قیادت سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ اور بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ وہ محض تخیل کی پیداوار ہیں، وہ محض ایک نام ہیں، کوئی حقیقی شخصیت نہیں۔
لاہور میں مقیم ایک تجزیہ کار، مبشر بخاری نے کہا "کابل میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے اب تک، کسی طالبان لیڈر نے، گذشتہ 13 برسوں میں ملا عمر کو دیکھنے یا ان سے ملنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔"
بخاری نے کہا کہ کم از کم اتنا ضرور ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بظاہر عسکریت پسندوں کی کمان نہیں کر رہے ہیں۔
بخاری نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "میں سمجھتا ہوں کہ ملیشیا 'خودکار' انداز میں کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔اور اس کے مقامی کمانڈروں نے اپنے 'جہادی' ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے زیادہ طاقت اور آزادی حاصل کر لی ہے۔"
انھوں نے کہا "اگر وہ زندہ ہوتے تو انہیں دیکھ لیا گیا ہوتا".
ان کے وجود کو ثابت کرنا مشکل ہے
دو ہزار ایک کے آخری دنوں میں، جب بین الاقوامی فورسز نے کابل میں سخت گیر حکومت کا خاتمہ کر دیا، تو اطلاعات کے مطابق، ملا عمر دو پہیوں والی ایک گاڑی میں فرار ہو گئے۔ اس کے بعد سے اب تک، ان کے دیکھے یا سنے جانے کی کوئی قابلِ اعتبار رپورٹیں سامنے نہیں آئی ہیں۔
تاہم، ایسی رپورٹیں گردش میں رہی ہیں کہ وہ پاکستان میں شمالی وزیرستان جاتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے ۔ ۔شمالی وزیرستان ایک پاکستانی قبائلی ایجنسی ہے جو تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی)، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کی ایک مقامی شاخ کا ہیڈ کواٹرز تھی۔ اس سال کے جون کے وسط میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے آپریشن ضربِ عصب شروع کیا اور عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا۔ لیکن میڈیا کی ان رپورٹوں کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اس دوران، ملا عمر کا آسیب باقی ہے۔
اس راز کی جزوی وجہ یہ ہے کہ ان کی بہت کم تصویریں دستیاب ہیں۔ اس دور کی تصویریں بھی موجود نہیں جو طالبان کے دورِ اقتدار میں لی گئی تھیں۔ خیال یہ ہے کہ عسکریت پسند تصویروں کو نا پسند کرتے تھے اور انہیں نام و نمود کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
اپنے 20 سالہ طویل صحافیانہ کیریئر میں، صفدر داور، جو ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس (پاکستان کے قبائلی علاقے کے رپورٹروں کی انجمن) کے سابق صدر ہیں، کسی ایسے شخص نے نہیں ملے جس نے ملا عمر کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہو۔
داور، شمالی وزیرستان میں میر علی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا، "میں نے شمالی وزیرستان میں بہت سے طالبان کمانڈروں اور القاعدہ کے لوگوں سے اس طالبان لیڈر کے بارے میں پوچھا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ انھوں نے ملا عمر کو دیکھا ہے یا سنا ہے (ان کی اصل آواز)".
ایک سینیئر جرنلسٹ اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل، مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر یہ خفیہ لیڈر زندہ ہے تو اس نے خود کو بہت اچھی طرح رو پوش کر لیا ہے۔
سولنگی نے سینترل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ اگر ایسا ہے، تو امکان یہ ہے کہ "وہ کہیں پاکستان-افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ہو گا۔ ملیشیا کا یہ لیڈر کتنا سرگرم ہے، یہ پھر بھی معمہ ہے۔
اگر ملا عمر نہیں، تو پھر کمان کس کے پاس ہے؟
اس سے قطع نظر کہ ملا عمر زندہ ہیں یا نہیں، ان کے منظر سے غائب ہونے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر طالبان کی ڈوریاں کون کھینچ رہا ہے۔
پشاور میں مقیم ایک تجزیہ کار، اورنگ زیب خان نے کہا، "میرے خیال میں طالبان کی قیادت حقانی گھرانہ کر رہا ہے۔"
حقانی نیٹ ورک (ایچ این) کے اثر و رسوخ میں سرحد کے دونوں جانب مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔۔ پاکستان میں، افغانستان میں رسد کے راستے کی حفاظت کرنا اور افغانستان میں، جنگ میں سرگرمی سے حصہ لینا۔
اورنگ زیب نے کہا، "عمر ہمیشہ سے تمام معاملات کو بہت خفیہ رکھتے رہے ہیں۔ ممکن ہے جو لوگ ان سے کام لے رہے ہیں، وہ محض ان کو دکھاوے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے 2001 کے بعد افغان جنگ میں ازخود کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں اور جنگجوؤں نے براہِ راست جو بیانات دیے ہیں، ان پر کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔"
اورنگ زیب نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر ملا عمر زندہ ہیں، تو ان کا رول ایک مبصر اور مشیر جیسا ہو گا۔ انھوں نے کہا، "جنگ لڑنے کے لیے، یا جہاد میں شامل جنگجوؤں کی قیادت کے لیے، وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔