حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (570ء (54 قھ) یا 571ء (53 قھ) تا 632ء (10ھ)) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور انکی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جنکو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلیۓ دنیا میں بھیجا۔ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ [2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ انکا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدمناف کے والد کا انتقال انکی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب انکی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت اللعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القابات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ سلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام انسان کو پہنچایا وہ یہ ہے
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیۓ خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے لوگ ان کی امت میں شامل ہیں۔
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
خاندانِ مبارک
نسب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )۔
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔
پہلی وحی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔
مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
ء619 میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
معراج
مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی
ء620 میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
مدنی زندگی
ہجرت
622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
میثاقِ مدینہ
میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہود و مشرکین کی سازشیں
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعنک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک بابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔
جنگیں
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
غزوہ بدر : 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
غزوہ احد :7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
صلح حدیبیہ
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔
حکمرانوں کو خطوط
صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔
اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
حجۃ الوداع
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ [21] ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
امہات المؤمنین
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔
حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔
مشہور صحابہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
حضرت بلال رضی اللہ عنہ
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن جعفرالطیار رضی اللہ عنہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
حضرت حذیفھ بن یمان رضی اللہ عنہ
غیر مسلم مشاہیر کے خیالات
مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔ تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔
آپؐ کی پیشنگوئی دیگر مذاہب میں
آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئی" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔
محمّدۖ کا ذکر عیسائیت کی کتابوں میں
آپؐ کی پیش گوئی عیسائیت کی کتابوں میں کی گئ ہے۔
محمّدۖ کا ذکر بائبل میں
بائبل کے دو حصّے ہیں، عہدنامہ ِ جدید اور عہدنامہ ِقدیم ۔ عیسیٰ کے بعثت سے پہلے کے کتب اورصحائف کوعہدنامہ ِقدیم کہا جاتا ہیں جبکہ عیسیٰ کے بعثت کے بعد کے کتب اور خطوط کوعہدنامہ ِجدید کہا جاتا ہے۔
محمّدۖ کا ذکر عہدنامہ ِقدیم میں:(Old Testament)
قرآن مجید کے سورة اعراف سورہ نمبر٧ آیت ١٥٧ میں ذکر ہے کہ:
”وہ لوگ جو ایسے رسولۖ،نبی اُمی(ان پڑھ) کی پیروی کرتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔”
1) محمّدۖ کی پیش گوئی کی گئی توریت کی پانچویں کتاب ڈیوٹرانمی (کتابِ استثنا) میں(Deuteronomy):
اﷲتعالیٰ موسٰی سے فرماتا ہے ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا) کے سورةنمبر ١٨ آیت ١٨ میں:
”میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کرونگا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا،اور میں اپنے الفاظ اسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔”
عیسائی یہ دعویٰ کرتے ہے کہ یہ پیش گوئی عیسی کے بارے میں ہے کیونکہ عیسی موسی کی طرح تھے۔موسی بھی یہودی تھے، عیسی بھی یہودی تھے۔موسی بھی پیغبر تھے اور عیسی بھی پیغمبر تھے۔
اگراس پیش گوئی کو پورا کرنے کیلئے یہی دو اصول ہیں تو پھر بائبل میں ذکر کیے گئے تمام پیغمبرجوموسی کے بعد آئے مثلاً سلیمان،حِزقیل ،دانیال ، یحیٰ وغیرہ سب یہودی بھی تھے اور پیغمبر بھی۔
حالانکہ یہ محمّدۖ ہے جو موسی کی طرح ہے۔
١) دونوں یعنی موسٰی اور محمّدۖ کے ماں باپ تھے جبکہ عیسیٰ معجزانہ طور پر مرد کے مداخلت کے بغیرپیدا ہوا تھا۔ )متیٰ(Methew) سورة ١آیت ١٨، لوقا(Luke)سورة ١آیت ٣٥، اور قرآن سورة ٣ آیات ٤٧-٤٢)
٢) دونوں نے شادیاں کی اور ان کے بچے بھی تھے جبکہ بائبل کے مطابق عیسی نے شادی نہیں کی اور نہ ہی اُن کے بچے تھے۔
٣) دونوں فطرتی موت مرے۔جبکہ عیسیٰ کوزندہ اُٹھالیا گیا ہے۔ (القران سورة ٤آیت ١٥٨-١٥٧)
محمّدۖ موسی کے بھائیوں میں سے تھے۔عرب یہودیوں کے بھائی ہے۔ابراھیم کے دو بیٹے تھے، اسماعیل اور اسحاق(Isaac) عرب اسماعیل کے اولاد میں سے ہے اور یہودی اسحاق کے اولادمیں سے ہے۔
منہ میں الفاظ ڈالنا
محمّدۖ اُمیّ یعنی ان پڑھ تھے اور وہ اﷲتعالیٰ سے جو کچھ وحی حاصل کرتے،وہ اِسے لفظ بہ لفظ دہرا دیتے۔
”میں تمھارے بھائیوں کے درمیا ن میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا، اورمیں اپنے الفاظ اُسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جیسے میں اُسکو حکم کرونگا۔”
(ڈیوٹرانومی(Deuteronomy) سورة١٨آیت ١٨)
2) :ڈیوٹرانمی کی کتاب کے سورة،١٨ آیت ١٩ میں یہ درج ہے کہ:
”جوکوئی میری اُن باتوں کو جنکو وہ میرا نام لیکر کہے گا، نہ سنے تو میں اُنکا حساب اُن سے لوں گا۔”
3) :محمدۖ کی پیش گوئی کی گئی (Isaiah) کی کتاب میں:
اس کا ذکر(Isaiah) کی کتاب کے سورة ٢٩ آیت ١٢ میں ہے کہ:
”جب کتاب اس کو دی گئی جوکہ ان پڑھ ہے اور کہا کہ اسکو پڑھو میں تمھارے لیے دُعا کرونگا تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔”
جب جبرائیل نے محمدۖ سے کہا کہ ”پڑھ” تو اس نے کہا کہ ”میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔”
4) :محمدۖ کا ذکر نام سے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں کیا گیا:
محمدۖ کا ذکر نام کے ساتھ سلیمان کی مناجات (songs of solomon) کے سورة٥ آیت ١٦ میں کیا گیا ہے۔
“هکّو مامیتاکم وی کلّو محمّد ام زهدودی و زهراسی بینه جروشلم”
یہ ایک عبرانی حوالہ ہے جسکے معنی ہے
”وہ بہت میٹھا ہے،ہاں: وہ بہت پیارا ہے۔ یہ میرا محبوب ہے اور یہ میرا دوست ہے،اے یروشلم کے بیٹیوں”
عبرانی زبان میں لفظ ”اِم”’ احترام کیلئے بولا جاتا ہے۔مثلاً عبرانی زبان میں خُدا کو”اِلُ”کہاجاتا ہے۔لیکن احترام سے اسکو”اِلُ اِم”’پڑھا جاتا ہے۔اسی طرح محمدۖ کے نام کے ساتھ بھی ”اِم” کااضافہ کیا گیا ہے۔لیکن انگریزی میں اسکا ترجمہ لفظ ”پیارا” سے کیا گیا ہے۔لیکن عبرانی زبان کے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں محمدۖ کا نام ابھی بھی موجود ہے۔
محمّد کا ذکر عہد نامہ جدید میں:(New Testament)
قرآن کے سورة الصف سورة ٦١ آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
”اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسی ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل!بلاشبہ میںاﷲتعالیٰ کا رسول ہوں(جو) تمھاری طرف (بھیجا گیاہوں)۔میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کا جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا،اسکا نام ”احمد”ہوگا۔پھر وہ جب کھلی نشانیاں لے کر آیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔”
تمام وہ حوالے جو عہد نامہِ قدیم (Old Testament) میں محمّدۖ کے بارے میں دیئےگئے ہیں وہ یہودیوں کے علاوہ عیسائیوں کیلئے بھی درست ہے۔کیونکہ عیسائی دونوں ،عہد نامہ قدیم(Old Testament) اور عہد نامہِ جدید(New Testament) دونوں کو مانتی ہیں جبکہ یہودی صرف عہد نامہِ قدیم کو مانتے ہے۔
1) یوحنا(John)کی کتاب سورة ١٤ آیت ١٦:
”اور میںخُدا سے دُعا کروں گا اور وہ تمھیں ایک مددگار دے گا جو تمھارے ساتھ،ہمیشہ رہے گا۔”
2) یوحنا(John) کی کتاب سورة ١٥ آیت ٢٦:
”میں تمھارے پاس مددگار بھیجوں گا جو میرے باپ کی طرف سے ہوگا وہ مددگار سچائی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے گا تو میرے بارے میں گواہی دے گا۔”
3) یوحَنّا(John) کی کتاب سورة ١٦ آیت ٧:
”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمھارےلیے مددگار بھیجوں گا۔اگر میں نہ جائوں تو تمھارے پاس مددگار نہ آئے گا۔” ”احمد”یا ”محمدۖ”کا مطلب ہے ”وہ شخص جسکی تعریف کی جاتی ہے”یا ”وہ جسکی تعریف کی گئی ہو”۔یہ تقریباً یونانی لفظ ”پے ری کلایٹس”(Periclytos) کے معنی ہے۔یوحَنّا کی کتاب کے سورة ١٦آیت ١٦، سورة ٥١ آیت ٢٦ اور سورة ١٦ آیت ٧ میں یونانی لفظ”پے ری کلیٹاس”(Peraclytos) کا انگریزی میں ترجمہ(comforter)”کم فرٹر” یعنی مددگار لفظ سے کیا گیا ہے۔حالانکہ (Peraclytos) کے معنی ہے وکیل یا ایک مہربان دوست۔اسکا مطلب مددگارنہیں ہے۔جو انگریزی ترجمہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
(Paracletos)”پے ری کلیٹاس” لفظ (Pariclytos) ”پے ری کلایٹس” کی ٹیٹری شکل ہے۔عیسی نے درحقیقت احمد کا نام لے کر پیش گوئی کی۔نیز یونانی لفظ ”پے راکلیٹ” (Paraclete) محمدۖ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو سارے جہان کیلئے رحمت ہے۔
بعض عیسائی یہ کہتے ہے کہ لفظ مددگار(Comforter) جس کا ذکر ان پیش گوئیوں میں کیاگیاہے،یہ روح لقدس یا روحِ مقدس (Holy spirit) کی طرف اشارہ کرتی ہے۔لیکن یہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہے کیونکہ پیش گوئی میں یہ صاف ذکر ہے کہ جب عیسی اس دنیا سے چلا جائے گا تب مددگار(Comforter)آئے گا۔حالانکہ بائبل(Bible)یہ بتاتی ہے کہ روح القدس تو پہلے سے زمین پر موجود تھا عیسی کے زمانے میں بھی اور اس سے پہلے بھی۔وہ اِلیزبِت(Elizabeth) کے رحم میں موجود تھا اوردوبارہ جب عیسی کی بپتسمہ یا اصطباغ (Baptism) کی جارہی تھی،وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح یہ پیش گوئی صرف اور صرف محمدۖ کے بارے میں ہے اور صرف اسی کا ذکر کرتی ہے۔
4) یوحنا(John) کی انجیل سورة ١٦ آیات١٤-١٢:
”مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے۔”
”لیکن جب روحِ حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔روحِ حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمھیں وہی کہے گا جو کچھ ہونے والا ہے اور وہ میری (یعنی عیسی) کی بڑائی بیان کرے گا۔”
مندرجہ بالاآیت میں روحِ حق کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ محمدۖ کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔
کیونکہ محمدۖ کیلئے یہاں ”روح حق”کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اور محمدۖ کی صفات میں سےایک صفت ”حق”بھی ہے۔جو قرآن مجید میں موجود ہے۔مندرجہ بالاآیت میں یہ بھی کہا گیا کہ جب وہ آئے گا تو:
١) لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔
٢) جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہے گا۔
٣) وہ عیسٰی کی بڑائی بیان کرے گا اور اسکا احترام کرے گا۔
ا – رسول ﷲ ﷺ نے لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائی اور وہ ہے اﷲتعالیٰ کی راہ۔
ب- رسول ﷲ ﷺ نے جو کچھ سُنا وہی کہا اور اپنی خواھش سے کوئی بات نہیں کی۔قرآن میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: ”اور(نبیۖ) اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔نہیں ہے یہ کچھ اور مگر جو اسکو وحی کی جاتی ہے۔” د- رسول ﷲ ﷺ نے کسی بھی نبی کے بارے میں کوئی غلط الفاظ استعمال نہیں کیے۔ وہ ہمیشہ اﷲتعالیٰ کی نبیوں کی تعریف کرتا تھا۔ اور دوسرے نبیوں کے ساتھ ساتھ محمدۖ نے عیسی کی بڑی تعریف کی ہے۔قرآن مجید میں بھی عیسی کی تعریف کئی جگہوں میں کی گئی ہے۔عیسی کو قرآن میں”روح اﷲ” کہاگیا ہے جسکے معنی ہے اﷲتعالیٰ کی رحمت۔ اسکے علاوہ عیسٰی کو ”کلمتہ اﷲ”یعنی اﷲتعالیٰ کا کلام، ”نبی اﷲ”یعنی اﷲتعالیٰ کا نبی اور پیغمبر کے نام سے پکارا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ محمّد کا ذکربائبل میں تفصیل کیا گیا ہے۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیۓ خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے لوگ ان کی امت میں شامل ہیں۔
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
خاندانِ مبارک
نسب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )۔
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔
پہلی وحی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔
مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
ء619 میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
معراج
مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی
ء620 میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
مدنی زندگی
ہجرت
622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
میثاقِ مدینہ
میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہود و مشرکین کی سازشیں
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعنک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک بابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔
جنگیں
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
غزوہ بدر : 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
غزوہ احد :7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
صلح حدیبیہ
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔
حکمرانوں کو خطوط
صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔
اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
حجۃ الوداع
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ [21] ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
امہات المؤمنین
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔
حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔
مشہور صحابہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
حضرت بلال رضی اللہ عنہ
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن جعفرالطیار رضی اللہ عنہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
حضرت حذیفھ بن یمان رضی اللہ عنہ
غیر مسلم مشاہیر کے خیالات
مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔ تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔
آپؐ کی پیشنگوئی دیگر مذاہب میں
آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئی" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔
محمّدۖ کا ذکر عیسائیت کی کتابوں میں
آپؐ کی پیش گوئی عیسائیت کی کتابوں میں کی گئ ہے۔
محمّدۖ کا ذکر بائبل میں
بائبل کے دو حصّے ہیں، عہدنامہ ِ جدید اور عہدنامہ ِقدیم ۔ عیسیٰ کے بعثت سے پہلے کے کتب اورصحائف کوعہدنامہ ِقدیم کہا جاتا ہیں جبکہ عیسیٰ کے بعثت کے بعد کے کتب اور خطوط کوعہدنامہ ِجدید کہا جاتا ہے۔
محمّدۖ کا ذکر عہدنامہ ِقدیم میں:(Old Testament)
قرآن مجید کے سورة اعراف سورہ نمبر٧ آیت ١٥٧ میں ذکر ہے کہ:
”وہ لوگ جو ایسے رسولۖ،نبی اُمی(ان پڑھ) کی پیروی کرتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔”
1) محمّدۖ کی پیش گوئی کی گئی توریت کی پانچویں کتاب ڈیوٹرانمی (کتابِ استثنا) میں(Deuteronomy):
اﷲتعالیٰ موسٰی سے فرماتا ہے ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا) کے سورةنمبر ١٨ آیت ١٨ میں:
”میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کرونگا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا،اور میں اپنے الفاظ اسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔”
عیسائی یہ دعویٰ کرتے ہے کہ یہ پیش گوئی عیسی کے بارے میں ہے کیونکہ عیسی موسی کی طرح تھے۔موسی بھی یہودی تھے، عیسی بھی یہودی تھے۔موسی بھی پیغبر تھے اور عیسی بھی پیغمبر تھے۔
اگراس پیش گوئی کو پورا کرنے کیلئے یہی دو اصول ہیں تو پھر بائبل میں ذکر کیے گئے تمام پیغمبرجوموسی کے بعد آئے مثلاً سلیمان،حِزقیل ،دانیال ، یحیٰ وغیرہ سب یہودی بھی تھے اور پیغمبر بھی۔
حالانکہ یہ محمّدۖ ہے جو موسی کی طرح ہے۔
١) دونوں یعنی موسٰی اور محمّدۖ کے ماں باپ تھے جبکہ عیسیٰ معجزانہ طور پر مرد کے مداخلت کے بغیرپیدا ہوا تھا۔ )متیٰ(Methew) سورة ١آیت ١٨، لوقا(Luke)سورة ١آیت ٣٥، اور قرآن سورة ٣ آیات ٤٧-٤٢)
٢) دونوں نے شادیاں کی اور ان کے بچے بھی تھے جبکہ بائبل کے مطابق عیسی نے شادی نہیں کی اور نہ ہی اُن کے بچے تھے۔
٣) دونوں فطرتی موت مرے۔جبکہ عیسیٰ کوزندہ اُٹھالیا گیا ہے۔ (القران سورة ٤آیت ١٥٨-١٥٧)
محمّدۖ موسی کے بھائیوں میں سے تھے۔عرب یہودیوں کے بھائی ہے۔ابراھیم کے دو بیٹے تھے، اسماعیل اور اسحاق(Isaac) عرب اسماعیل کے اولاد میں سے ہے اور یہودی اسحاق کے اولادمیں سے ہے۔
منہ میں الفاظ ڈالنا
محمّدۖ اُمیّ یعنی ان پڑھ تھے اور وہ اﷲتعالیٰ سے جو کچھ وحی حاصل کرتے،وہ اِسے لفظ بہ لفظ دہرا دیتے۔
”میں تمھارے بھائیوں کے درمیا ن میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا، اورمیں اپنے الفاظ اُسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جیسے میں اُسکو حکم کرونگا۔”
(ڈیوٹرانومی(Deuteronomy) سورة١٨آیت ١٨)
2) :ڈیوٹرانمی کی کتاب کے سورة،١٨ آیت ١٩ میں یہ درج ہے کہ:
”جوکوئی میری اُن باتوں کو جنکو وہ میرا نام لیکر کہے گا، نہ سنے تو میں اُنکا حساب اُن سے لوں گا۔”
3) :محمدۖ کی پیش گوئی کی گئی (Isaiah) کی کتاب میں:
اس کا ذکر(Isaiah) کی کتاب کے سورة ٢٩ آیت ١٢ میں ہے کہ:
”جب کتاب اس کو دی گئی جوکہ ان پڑھ ہے اور کہا کہ اسکو پڑھو میں تمھارے لیے دُعا کرونگا تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔”
جب جبرائیل نے محمدۖ سے کہا کہ ”پڑھ” تو اس نے کہا کہ ”میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔”
4) :محمدۖ کا ذکر نام سے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں کیا گیا:
محمدۖ کا ذکر نام کے ساتھ سلیمان کی مناجات (songs of solomon) کے سورة٥ آیت ١٦ میں کیا گیا ہے۔
“هکّو مامیتاکم وی کلّو محمّد ام زهدودی و زهراسی بینه جروشلم”
یہ ایک عبرانی حوالہ ہے جسکے معنی ہے
”وہ بہت میٹھا ہے،ہاں: وہ بہت پیارا ہے۔ یہ میرا محبوب ہے اور یہ میرا دوست ہے،اے یروشلم کے بیٹیوں”
عبرانی زبان میں لفظ ”اِم”’ احترام کیلئے بولا جاتا ہے۔مثلاً عبرانی زبان میں خُدا کو”اِلُ”کہاجاتا ہے۔لیکن احترام سے اسکو”اِلُ اِم”’پڑھا جاتا ہے۔اسی طرح محمدۖ کے نام کے ساتھ بھی ”اِم” کااضافہ کیا گیا ہے۔لیکن انگریزی میں اسکا ترجمہ لفظ ”پیارا” سے کیا گیا ہے۔لیکن عبرانی زبان کے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں محمدۖ کا نام ابھی بھی موجود ہے۔
محمّد کا ذکر عہد نامہ جدید میں:(New Testament)
قرآن کے سورة الصف سورة ٦١ آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
”اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسی ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل!بلاشبہ میںاﷲتعالیٰ کا رسول ہوں(جو) تمھاری طرف (بھیجا گیاہوں)۔میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کا جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا،اسکا نام ”احمد”ہوگا۔پھر وہ جب کھلی نشانیاں لے کر آیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔”
تمام وہ حوالے جو عہد نامہِ قدیم (Old Testament) میں محمّدۖ کے بارے میں دیئےگئے ہیں وہ یہودیوں کے علاوہ عیسائیوں کیلئے بھی درست ہے۔کیونکہ عیسائی دونوں ،عہد نامہ قدیم(Old Testament) اور عہد نامہِ جدید(New Testament) دونوں کو مانتی ہیں جبکہ یہودی صرف عہد نامہِ قدیم کو مانتے ہے۔
1) یوحنا(John)کی کتاب سورة ١٤ آیت ١٦:
”اور میںخُدا سے دُعا کروں گا اور وہ تمھیں ایک مددگار دے گا جو تمھارے ساتھ،ہمیشہ رہے گا۔”
2) یوحنا(John) کی کتاب سورة ١٥ آیت ٢٦:
”میں تمھارے پاس مددگار بھیجوں گا جو میرے باپ کی طرف سے ہوگا وہ مددگار سچائی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے گا تو میرے بارے میں گواہی دے گا۔”
3) یوحَنّا(John) کی کتاب سورة ١٦ آیت ٧:
”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمھارےلیے مددگار بھیجوں گا۔اگر میں نہ جائوں تو تمھارے پاس مددگار نہ آئے گا۔” ”احمد”یا ”محمدۖ”کا مطلب ہے ”وہ شخص جسکی تعریف کی جاتی ہے”یا ”وہ جسکی تعریف کی گئی ہو”۔یہ تقریباً یونانی لفظ ”پے ری کلایٹس”(Periclytos) کے معنی ہے۔یوحَنّا کی کتاب کے سورة ١٦آیت ١٦، سورة ٥١ آیت ٢٦ اور سورة ١٦ آیت ٧ میں یونانی لفظ”پے ری کلیٹاس”(Peraclytos) کا انگریزی میں ترجمہ(comforter)”کم فرٹر” یعنی مددگار لفظ سے کیا گیا ہے۔حالانکہ (Peraclytos) کے معنی ہے وکیل یا ایک مہربان دوست۔اسکا مطلب مددگارنہیں ہے۔جو انگریزی ترجمہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
(Paracletos)”پے ری کلیٹاس” لفظ (Pariclytos) ”پے ری کلایٹس” کی ٹیٹری شکل ہے۔عیسی نے درحقیقت احمد کا نام لے کر پیش گوئی کی۔نیز یونانی لفظ ”پے راکلیٹ” (Paraclete) محمدۖ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو سارے جہان کیلئے رحمت ہے۔
بعض عیسائی یہ کہتے ہے کہ لفظ مددگار(Comforter) جس کا ذکر ان پیش گوئیوں میں کیاگیاہے،یہ روح لقدس یا روحِ مقدس (Holy spirit) کی طرف اشارہ کرتی ہے۔لیکن یہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہے کیونکہ پیش گوئی میں یہ صاف ذکر ہے کہ جب عیسی اس دنیا سے چلا جائے گا تب مددگار(Comforter)آئے گا۔حالانکہ بائبل(Bible)یہ بتاتی ہے کہ روح القدس تو پہلے سے زمین پر موجود تھا عیسی کے زمانے میں بھی اور اس سے پہلے بھی۔وہ اِلیزبِت(Elizabeth) کے رحم میں موجود تھا اوردوبارہ جب عیسی کی بپتسمہ یا اصطباغ (Baptism) کی جارہی تھی،وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح یہ پیش گوئی صرف اور صرف محمدۖ کے بارے میں ہے اور صرف اسی کا ذکر کرتی ہے۔
4) یوحنا(John) کی انجیل سورة ١٦ آیات١٤-١٢:
”مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے۔”
”لیکن جب روحِ حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔روحِ حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمھیں وہی کہے گا جو کچھ ہونے والا ہے اور وہ میری (یعنی عیسی) کی بڑائی بیان کرے گا۔”
مندرجہ بالاآیت میں روحِ حق کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ محمدۖ کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔
کیونکہ محمدۖ کیلئے یہاں ”روح حق”کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اور محمدۖ کی صفات میں سےایک صفت ”حق”بھی ہے۔جو قرآن مجید میں موجود ہے۔مندرجہ بالاآیت میں یہ بھی کہا گیا کہ جب وہ آئے گا تو:
١) لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔
٢) جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہے گا۔
٣) وہ عیسٰی کی بڑائی بیان کرے گا اور اسکا احترام کرے گا۔
ا – رسول ﷲ ﷺ نے لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائی اور وہ ہے اﷲتعالیٰ کی راہ۔
ب- رسول ﷲ ﷺ نے جو کچھ سُنا وہی کہا اور اپنی خواھش سے کوئی بات نہیں کی۔قرآن میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: ”اور(نبیۖ) اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔نہیں ہے یہ کچھ اور مگر جو اسکو وحی کی جاتی ہے۔” د- رسول ﷲ ﷺ نے کسی بھی نبی کے بارے میں کوئی غلط الفاظ استعمال نہیں کیے۔ وہ ہمیشہ اﷲتعالیٰ کی نبیوں کی تعریف کرتا تھا۔ اور دوسرے نبیوں کے ساتھ ساتھ محمدۖ نے عیسی کی بڑی تعریف کی ہے۔قرآن مجید میں بھی عیسی کی تعریف کئی جگہوں میں کی گئی ہے۔عیسی کو قرآن میں”روح اﷲ” کہاگیا ہے جسکے معنی ہے اﷲتعالیٰ کی رحمت۔ اسکے علاوہ عیسٰی کو ”کلمتہ اﷲ”یعنی اﷲتعالیٰ کا کلام، ”نبی اﷲ”یعنی اﷲتعالیٰ کا نبی اور پیغمبر کے نام سے پکارا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ محمّد کا ذکربائبل میں تفصیل کیا گیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔