مولانا مجیب الرحمن انقلابی
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں (از صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(۱)خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(۲)جب میں سات برس کی تھی تو آپ نے مجھ سے نکاح کیا،
(۳)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(۴)میرے سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(۵)حضور جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(۶)میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(۷)میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(۸) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(۹) آپ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی (مستدرک حاکم)
آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو (صحیح بخاری)۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام الموٴمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپ نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر حضور کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداوٴد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضور سے مل جاتا ہے۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔ (بخاری حصہ اول)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضور) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضورسے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ”نورخانہ“ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سات سال کی عمر میں حضور سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اتنی کمسنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں۔بقول حضرت سید سلمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ، ”کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مسکن تھا۔ آپ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نبی کریم نے عورتوں کے لئے حج ہی کو جہاد ارشاد فرمایا ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف)۔ حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت اور ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔ حضرت غزوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔ آپ بے حد رحم دل تھیں لوگوں کی معمولی تکالیف کا اتنا گہرا اثر لیتیں کہ روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر آپ پر جو تہمت لگی اس کے بعدام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں
اسی طرح غزوہ ذات الریقح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ 58ھ رمضان المبارک میں آپ رحمت دو عالم کی حر م اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں۔ سیدنا حضرت ابوھریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں (از صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(۱)خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(۲)جب میں سات برس کی تھی تو آپ نے مجھ سے نکاح کیا،
(۳)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(۴)میرے سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(۵)حضور جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(۶)میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(۷)میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(۸) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(۹) آپ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی (مستدرک حاکم)
آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو (صحیح بخاری)۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام الموٴمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپ نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر حضور کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداوٴد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضور سے مل جاتا ہے۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔ (بخاری حصہ اول)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضور) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضورسے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ”نورخانہ“ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سات سال کی عمر میں حضور سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اتنی کمسنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں۔بقول حضرت سید سلمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ، ”کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مسکن تھا۔ آپ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نبی کریم نے عورتوں کے لئے حج ہی کو جہاد ارشاد فرمایا ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف)۔ حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت اور ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔ حضرت غزوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔ آپ بے حد رحم دل تھیں لوگوں کی معمولی تکالیف کا اتنا گہرا اثر لیتیں کہ روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر آپ پر جو تہمت لگی اس کے بعدام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں
اسی طرح غزوہ ذات الریقح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ 58ھ رمضان المبارک میں آپ رحمت دو عالم کی حر م اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں۔ سیدنا حضرت ابوھریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔