ہمارے معاشرے میں تعزیت کے متعلق بہت سی رسومات ایسی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں تعزیت کے متعلق آگاہ کریں کہ اس کے آداب کیا ہیں؟
تعزیت کا لغوی معنی تسلی دینا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت زدہ یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا، انہیں تسلی دینا، صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جن سے ان کا غم ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ میت کے لئے دعا کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جز و ایمان ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا لباس پہنائیں گے۔ (ابن ماجہ، الجنائز: ۱۶۰۱)۔
محققین حدیث نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو احادیث صحیحہ میں نقل کیا ہے۔(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ: ۱۹۵)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اسے قیامت کے دن مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۷)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے بایں الفاظ تعزیت کی تھی: ’’اللہ ہی کیلئے تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کر کے اس کا اجر و ثواب لینا چاہیے۔ (بخاری، الجنائز: ۱۲۸۴) مختلف احادیث کے پیش نظر تعزیت کے درج ذیل آداب ہیں
٭ اہل میت سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کیلئے دعا خیر کی جائے اور انہیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔
٭ گھر والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کے لئے وقت اور مال کی قربانی دی جائے۔
٭ تعزیت کیلئے مناسب وقت کا انتخاب اور محدود مدت کیلئے ان کے ہاں ٹھہرا جائے۔
٭ کھانے پینے کے اوقات میں ان کے ہاں جانے سے پرہیز کیا جائے تا کہ وہ خواہ مخواہ تکلف میں نہ پڑیں۔
٭ وہاں بیٹھ کر لغو گفتگو نہ کی جائے اور سنت کے مطابق ان کے غم میں شریک ہو کر میت کیلئے دعا مغفرت کی جائے۔
٭ مروجہ طریقہ تعزیت سے گریز کریں جیسا کہ آنے والا ’’فاتحہ‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگواتا ہے۔
٭ وہاں فارغ نہ بیٹھیں بلکہ ذکر اور دعا و استغفار میں خود کو مصروف رکھیں۔
تعزیت کا لغوی معنی تسلی دینا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت زدہ یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا، انہیں تسلی دینا، صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جن سے ان کا غم ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ میت کے لئے دعا کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جز و ایمان ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا لباس پہنائیں گے۔ (ابن ماجہ، الجنائز: ۱۶۰۱)۔
محققین حدیث نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو احادیث صحیحہ میں نقل کیا ہے۔(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ: ۱۹۵)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اسے قیامت کے دن مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۷)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے بایں الفاظ تعزیت کی تھی: ’’اللہ ہی کیلئے تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کر کے اس کا اجر و ثواب لینا چاہیے۔ (بخاری، الجنائز: ۱۲۸۴) مختلف احادیث کے پیش نظر تعزیت کے درج ذیل آداب ہیں
٭ اہل میت سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کیلئے دعا خیر کی جائے اور انہیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔
٭ گھر والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کے لئے وقت اور مال کی قربانی دی جائے۔
٭ تعزیت کیلئے مناسب وقت کا انتخاب اور محدود مدت کیلئے ان کے ہاں ٹھہرا جائے۔
٭ کھانے پینے کے اوقات میں ان کے ہاں جانے سے پرہیز کیا جائے تا کہ وہ خواہ مخواہ تکلف میں نہ پڑیں۔
٭ وہاں بیٹھ کر لغو گفتگو نہ کی جائے اور سنت کے مطابق ان کے غم میں شریک ہو کر میت کیلئے دعا مغفرت کی جائے۔
٭ مروجہ طریقہ تعزیت سے گریز کریں جیسا کہ آنے والا ’’فاتحہ‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگواتا ہے۔
٭ وہاں فارغ نہ بیٹھیں بلکہ ذکر اور دعا و استغفار میں خود کو مصروف رکھیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔