سوال: اگر ہر چیز خدا کی مرضی ہی سے ہوتی ہے اور اس نے ہر چیز کا پہلے سے فیصلہ کر رکھا ہے تو پھر دنیا کے امتحان کا کیا مقصد ہے؟ اس صورت میں جہنم میں ڈالا جانا کیا ناانصافی نہ ہو گی؟
جواب: جو بات آپ نے بیان کی ہےے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ایک انسان کے اعمال پہلے سے طے (Pre-determined) کر رکھے ہیں جن کے مطابق وہ کسی کو جنت اور کسی کو جہنم میں ڈال دے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس جبرو اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے ہر بات کا علم ہے۔ اس کے علم سے ہم نیک یا برے اعمال کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتے۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ فر ض کریں ایک عالم کو مستقبل بینی کا علم ہے یعنی وہ اپنے علم کے ذریعے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے اس علم کو استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کرلیتا ہے کہ احمد فلاں تاریخ کو اپنے ارادے سے ایک لڑکی کو ورغلائے گا اور پھر اسے اغوا کرکے اس سے بدکاری کرے گا۔ وہ عالم یہ بات اپنی کاپی میں نوٹ کرلیتا ہے۔ چنانچہ احمد اس مقررہ تاریخ کو اس لڑکی کو اغوا کرتا اور اپنے آزادانہ اختیار و ارادے سے اس لڑکی سے بدکاری کرتا ہے۔
احمد کا زنا کرنا اس عالم کے علم غیب کی بنا پر نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنے آزادانہ اختیار سے یہ فعل انجام دیا۔ دنیا کی کوئی عدالت اسے اس جرم سے محض اس بنا پر بری نہیں کرسکتی کہ یہ بات فلاں عالم کے علم میں پہلے سے تھی۔ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کا بھی ہے۔ اللہ نے اپنے غیب کے علم سے معلوم کررکھا ہے کہ کون کیا گناہ یا نیکی کا کام کرے گا۔ یہ ساری باتیں اللہ نے لکھ رکھی ہیں اور اس لکھے ہوئے علم کو عام طور پر تقدیر سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نیکی اور بدی کے انتخاب میں کوئی شخص محض اس تقدیر کی بنا پر مجبور نہیں ہوتا بلکہ وہ آزاد ہوتا ہے چنانچہ وہ جزا و سزا کا مستحق ٹہرتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔