Dec 14, 2014

کیا آخرت میں غیر مسلموں کی نجات ممکن ہے؟

سوال: میں ایسے بہت سے غیر مسلموں کو جانتا ہوں جو کہ اخلاقی اعتبار سے بہت اچھے انسان ہیں، کسی کے ساتھ بددیانتی نہیں کرتے، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، اپنے مذہب کے مطابق خدا کی عبادت کرتے ہیں اور انسانوں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان کا مذہب بڑی حد تک اس کا ماحول متعین کرتا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگوں کے نزدیک تمام غیر مسلم کافر ہیں اور جہنم کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ رائے معقول معلوم نہیں ہوتی۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب: کسی مخصوص فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ آخرت میں کیا معاملہ کرے گا، اس کا علم اسی کے پاس ہے۔ ہمیں اس ضمن میں فتوے بازی سے گریز کرنا چاہئے۔ رہا سوال غیر مسلموں کی نجات کا تو اس معاملے میں قرآن مجید نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ آخرت میں نجات خود کو کسی خاص گروہ سے متعلق کر لینے میں نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق انسان کے نظریات اور عمل سے ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (البقرۃ2:62 ) ’’بے شک جو لوگ اب مسلمان ہوئے، یا یہودی یا عیسائی یا صابی ، ان میں سے جو بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہوگا اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
آخرت کی کامیابی کے لئے دو شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ہمیشہ حق کی تلاش میں رہے اور دوسرے یہ کہ جب حق اس پر واضح ہوجائے تو وہ اسے قبول کرنے میں تامل نہ کرے۔ اگر ہم بہت سے مسلمان کہلانے والوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو وہ ان شرائط پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مسلم و غیر مسلم برابر ہیں۔ ان میں سے جو بھی حق کی تلاش میں رہا اور اس نے حق کو پہچاننے کے بعد اسے قبول کرنے میں دیر نہ لگائی، وہ یقینا کامیاب ہوگا۔ جس نے جان بوجھ کر حق کا انکار کر دیا، وہ ناکام رہا۔
قرآن مجید کی دیگر آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آخرت میں نجات کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالی کے تمام انبیاء پر ایمان لائے۔ اللہ تعالی کے کسی پیغمبر کے بارے میں یہ واضح ہو جائے کہ وہ واقعتاً خدا کے بھیجے ہوئے نبی یا رسول ہیں اوران کا انکار کر دیا جائے تو یہ بدترین جرم ہے اور اس انکار کے بعد نجات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کے لئے قرآن مجید نے کافر کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
رہے ایسے لوگ جنہوں نے حق کی تلاش کی، خواہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہوں یا غیر مسلموں کے، اور ان پر تلاش کے باوجود حق واضح نہ ہوسکا ، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہر انسان صرف اسی بات کے لئے مسؤل ہوگا جو کہ اس تک پہنچی ہے کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا۔ (البقرۃ 2:256) ’’اللہ انسان پر اس کی وسعت کے مطابق ہی بوجھ ڈالتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گا بلکہ تمام معاملات عین انصاف کے مطابق ہوں گے۔
موجودہ دور کے کسی مسلمان یا غیر مسلم کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے حق کو کتنا تلاش کیا اور جب اسے پا لیا تو جان بوجھ کر اس کا انکار کردیا۔ ہمیں دوسروں پر فتویٰ لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں دیکھنا چاہئے کہ حق کو قبول کرنے کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہے؟ کیا ہم حق کی تلاش سے غافل تو نہیں اور اگر ہمارے سامنے کوئی حق پیش کرتا ہے تو کیا ہم اپنی گروہی تعصبات کے تحت اس سے اعراض تو نہیں کرتے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads