اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن رمضان کے مہینے کی شان یہ ہے کہ اس میں شان والی کتاب یعنی قرآن مجید کو نازل کیا گیا۔ رمضان المبارک کا مہینہ تو ویسے بھی بہت عظمت والا تھا‘ لیکن نزول قرآن نے اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے۔ اسی لئے رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام سدرة المنہتیٰ سے زمین پر تشریف لائے اور حضور نبی کریم ﷺ سے قرآن مجید کا ورد فرماتے تھے۔ قرآن مجید کی عظمت اور منقبت کیلئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ یہ ”کلام اللہ“ ہے۔ اس کے سامنے کسی کلام کی حیثیت باقی نہیں ۔
مفسرین رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ قرآن مجید پہلی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بیان کردہ علوم کو بھی اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے اور جتنے علوم قیامت تک کیلئے ہیں‘ قرآن مجید نے ان کو بھی اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا‘ یہ علوم سامنے آتے جائیں گے۔
سیدنا حضرت علی کریم اللہ وجہہ کا شعر ہے
ترجمہ:۔ ”قرآن مجید میں سارے علوم موجود ہیں‘ لیکن ہماری عقلیں ان کو پانے سے قاصر ہیں۔ قرآن مجید کے جتنے علوم و مصارف آج تک ہمارے سامنے آئے ہیں‘ وہ صرف اور صرف صاحب وحی پیغمبر حضرت محمدﷺ کے بیان کردہ مطالب و مقاصد کی روشنی میں ہی ہیں۔ کیونکہ قرآنِ مجید کو صرف وہی ہستی جان سکتی ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا۔ موجودہ قرآن مجید‘ بعینہ ان الفاظ کے معافی کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے جن الفاظ و معانی کے ساتھ حضورﷺ پر نازل ہوا ہے۔ ایک زبر اور زیر کا بھی اس میں فرق نہیں ہے اور نہ قیامت تک آئے گا کیونکہ اس کے اتارنے والے نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات و گفتگو کرے تو اس کو چاہئے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ (دیلمی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب گھر میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اورشیاطین دور بھاگ جاتے ہیں اور اپنے رہنے والوں کیلئے وہ گھر فراخ اور کشادہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہو جاتی ہے اور شر و فساد کم ہو جاتا ہے اور جس گھر میں قرآن مجید تلاوت نہ کیا جائے تو اس میں شیاطین حاضر ہوتے ہیں اور فرشتے اس مکان میں نہیں رہتے اور اپنے رہنے والوں کیلئے وہ گھر (باوجود کشادہ ہونے کے) تنگ ہو جاتا ہے اور اس میں خیر و برکت کم ہو جاتی ہے اور شر و فساد زیادہ ہو جاتا ہے۔ (محمد بن نصر) نماز میں وہ فرشتے اس لئے آتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کی سماعت کر سکیں۔ خواہ وہ نماز جہری ہو یا سّری مگر فرشتوں کو تلاوت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے لوگوں میں سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں‘ فرمایا قرآن مجید والے۔ وہ اللہ کے اہل اور خواص ہیں۔ (نسائی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا محمد رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (گناہوں کی وجہ سے) دلوں کو بھی ایسے زنگ لگ جاتا ہے جیسے پانی کی وجہ سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا‘ یا رسول اللہﷺ اس کا علاج کیاہے تو آپﷺ نے فرمایا دو چیزوں سے اس کا علاج ممکن ہے۔ ایک موت کو کثرت سے یاد کرنا کیونکہ اس سے دل نرم ہوتا ہے اور دوسرا قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنا (اس سے دل روشن ہوتا ہے) بیہقی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ اوقات میں آسمان کے دروازے (دعا کیلئے) کھول دیئے جاتے ہیں۔قرآن مجید کی تلاوت کے وقت‘ جنگ میں مسلمانوں اور کافروں کی صف بندی کے وقت‘ بارش کے وقت‘ مظلوم کی دعا کے وقت‘ اذان کے وقت (طبرانی)۔اسی لئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن مجید مکمل تلاوت فرما لیتے تو اس وقت سارے گھروالوں کو جمع کرکے دعا مانگا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس موقع پر دعا قبول ہوتی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت بغیر نماز کے افضل ہے اور بغیر نماز کے تلاوت تسبیح اور تکبر سے افضل ہے اور تسبیح صدقے سے افضل ہے اور صدقہ نفلی روزے سے افضل ہے اور روزہ ڈھال ہے آگ سے۔ (بیہقی)۔
مفسرین رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ قرآن مجید پہلی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بیان کردہ علوم کو بھی اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے اور جتنے علوم قیامت تک کیلئے ہیں‘ قرآن مجید نے ان کو بھی اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا‘ یہ علوم سامنے آتے جائیں گے۔
سیدنا حضرت علی کریم اللہ وجہہ کا شعر ہے
ترجمہ:۔ ”قرآن مجید میں سارے علوم موجود ہیں‘ لیکن ہماری عقلیں ان کو پانے سے قاصر ہیں۔ قرآن مجید کے جتنے علوم و مصارف آج تک ہمارے سامنے آئے ہیں‘ وہ صرف اور صرف صاحب وحی پیغمبر حضرت محمدﷺ کے بیان کردہ مطالب و مقاصد کی روشنی میں ہی ہیں۔ کیونکہ قرآنِ مجید کو صرف وہی ہستی جان سکتی ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا۔ موجودہ قرآن مجید‘ بعینہ ان الفاظ کے معافی کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے جن الفاظ و معانی کے ساتھ حضورﷺ پر نازل ہوا ہے۔ ایک زبر اور زیر کا بھی اس میں فرق نہیں ہے اور نہ قیامت تک آئے گا کیونکہ اس کے اتارنے والے نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات و گفتگو کرے تو اس کو چاہئے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ (دیلمی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب گھر میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اورشیاطین دور بھاگ جاتے ہیں اور اپنے رہنے والوں کیلئے وہ گھر فراخ اور کشادہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہو جاتی ہے اور شر و فساد کم ہو جاتا ہے اور جس گھر میں قرآن مجید تلاوت نہ کیا جائے تو اس میں شیاطین حاضر ہوتے ہیں اور فرشتے اس مکان میں نہیں رہتے اور اپنے رہنے والوں کیلئے وہ گھر (باوجود کشادہ ہونے کے) تنگ ہو جاتا ہے اور اس میں خیر و برکت کم ہو جاتی ہے اور شر و فساد زیادہ ہو جاتا ہے۔ (محمد بن نصر) نماز میں وہ فرشتے اس لئے آتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کی سماعت کر سکیں۔ خواہ وہ نماز جہری ہو یا سّری مگر فرشتوں کو تلاوت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے لوگوں میں سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں‘ فرمایا قرآن مجید والے۔ وہ اللہ کے اہل اور خواص ہیں۔ (نسائی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا محمد رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (گناہوں کی وجہ سے) دلوں کو بھی ایسے زنگ لگ جاتا ہے جیسے پانی کی وجہ سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا‘ یا رسول اللہﷺ اس کا علاج کیاہے تو آپﷺ نے فرمایا دو چیزوں سے اس کا علاج ممکن ہے۔ ایک موت کو کثرت سے یاد کرنا کیونکہ اس سے دل نرم ہوتا ہے اور دوسرا قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنا (اس سے دل روشن ہوتا ہے) بیہقی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ اوقات میں آسمان کے دروازے (دعا کیلئے) کھول دیئے جاتے ہیں۔قرآن مجید کی تلاوت کے وقت‘ جنگ میں مسلمانوں اور کافروں کی صف بندی کے وقت‘ بارش کے وقت‘ مظلوم کی دعا کے وقت‘ اذان کے وقت (طبرانی)۔اسی لئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن مجید مکمل تلاوت فرما لیتے تو اس وقت سارے گھروالوں کو جمع کرکے دعا مانگا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس موقع پر دعا قبول ہوتی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت بغیر نماز کے افضل ہے اور بغیر نماز کے تلاوت تسبیح اور تکبر سے افضل ہے اور تسبیح صدقے سے افضل ہے اور صدقہ نفلی روزے سے افضل ہے اور روزہ ڈھال ہے آگ سے۔ (بیہقی)۔
مولانا محمد امجد خان
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔