ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ: ” اورجس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے کہ وہ گمراہ ہو اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے (انعام126.)
عربی لغت میں”صدر“ سینے کو کہتے ہیں اور سینے کی اہمیت دل کی وجہ سے ہے قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور انسانی وجود میں سب سے اہم قلب یعنی دل ہے دل کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید نے کہیں بھی دماغ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہدایت وگمراہی‘ عقل وشعور ، اسلام اور ایمان کاتعلق دل سے قائم کیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا”انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب، آگاہ رہو وہ دل ہے“ قرآن مجید کے مطابق معنوی لحاظ سے دل کی دو قسمیں ہیں۔.1 ہدایت یافتہ اور روشن و منوردل ترجمہ ”پس جس کا سینہ اللہ تعالی نے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پرہو جاتا ہے۔غافل وتاریک دل کیلئے ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ”تباہی ہے سخت دلوں کے لئے جواللہ کے ذکر سے غافل ہیں“ قرآن مجید کے مطابق دلوں کا اطمینان صرف اللہ تعالی کے ذکر سے ہی ممکن ہے فرمایا گیا ترجمہ ”بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون واطمینان ملتا ہے“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کونسا ذکر کرنا پسند فرماتا ہے خیال رہے کہ اس کا جواب سورة الاخراب کی 56 نمبر آیت میں موجود ہے۔ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالی اوراس کے فرشتے اس نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی مل کرآپﷺ پردرود بھیجو اورسلام بھیجو نہایت عاجزی کے ساتھ“۔ یہ آیت مبارکہ ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ کاچہرہ مبارک گلنار ہوگیا اور فرمایا۔
”مجھے مبارک باد پیش کرو کہ آج وہ آیت نازل ہوئی جو دنیا اور مافیھا کی ہر چیز سے بہتر ہے“ اس پر میں نے کہا ”اے اللہ کے رسولﷺ آپ کو یہ نعمت مبارک ہو“ ۔ صحیح بخاری شریف میں ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ جب اس بابرکت عمل کی نسبت اللہ تعالی سے کی جائے تو صلوة کامطلب ہے کہ اللہ تعالی فرشتوں کی بھری محفل میں اپنے محبوب محمدﷺ کی تعریف وثناء کرتا ہے۔
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اللہ تعالی کی طرف سے صلوة کا مطلب دعائے خیر اور امت کی طرف سے اس کا مطلب درود شریف‘ دعا اور آپﷺ کی تعظیم وتکریم کرنا ہے“۔مذکورہ بالا آیت تین پہلووٴں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
قدامت درود: یعنی جب سے اللہ تعالیٰ ہے اورجب سے فرشتے ہیں اتنا ہی درود شریف بھی قدیم ہے کیونکہ وہ تب ہی سے آپﷺ پر درود شریف بھیج رہے ہیں“۔
قدوقامت ِ درود : یعنی اللہ تعالیٰ جو لامحدود ہے اس کی طرف سے درود شریف کی معنویت بھی لامحدود ہوگی‘ فرشتوں کے درود کی مقدار اورقدرو قیمت کا صحیح اندازہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اگر مخلوق کو دس حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے تو نو حصے فرشتوں کے ہوں گے اورایک حصہ باقی تمام مخلوق کا۔
مداومت درود : اس کامطلب یہ ہے کہ درود شریف کا عمل ابد تک جاری رہے گا۔درود شریف زمان ومکاں کی قیود سے آزاد ہے یہ مخصوص زمانے یا مخصوص وقت کی بجائے ہر زمانے اور ہر وقت میں پڑھا جانے والا عمل ہے۔ کائنات کے درہم برہم ہونے پربھی اوراللہ تعالی اوراس کے فرشتوں کا اس نبی مکرمﷺ پردرود شریف بھیجنے کا عمل جاری و ساری رہے گا۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق سنتِ الیہ اورسنتِ ملائکہ کے عمل کو عظمت اور رفعتِ شان بیان کرنے کے بعد پھر ایمان والو کو اس کا باقاعدہ حکم دیا گیا۔ ترجمہ ”اے ایمان والو مل کر درود شریف بھیجو اور سلام بھیجو خوب خوب عاجزی کے ساتھ۔
دنیا میں دن رات کے ہر لمحہ اذان اورنماز جاری ہے اورکوئی نماز اور اذان ایسی نہیں ہے جس میں ذکرالٰہی کے ساتھ ذکر رسولﷺ موجود نہ ہو یہ ”ورفعنالک ذکرک“ کی ایک مثال ہے مسلمان دن میں 44 رکعتوں میں 16مرتبہ درودشریف اور23 مرتبہ حضورﷺ پر ان الفاظ میں سلام بھیجتے ہیں۔صحاح ستہ میں درود ابراہیمی کے 36 صحیفے منقول ہیں۔ حضرت ابو ہریراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ ”جوشخص مجھ پرایک بار درود پڑھے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر498)۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم روٴف ورحیمﷺ نے فرمایا۔ ترجمہ: جومجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اوراس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں گے (نسائی حدیث نمبر1296)۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت ہے کہ میں نے حضور سید المرسلین کو یہ فرماتے سنا” مجھ پر درود شریف بھیجا کرو تمہارا درود شریف مجھے پہنچتا ہے‘ تم جہاں بھی ہو۔ ابوداوٴد حدیث نمبر(2042)
الحمد اللہ حضورﷺ کا اپنی امت کودرود شریف کی تلقین و ترغیب کرنا آپﷺ کا ہم پر ایک اور احسانِ عظیم ہے کیونکہ اس طرح درود شریف بھیج کرامتِ محمدﷺ پر سنتِ الیہہ اورسنتِ ملائکہ میں شامل ہوجاتی ہے“ یہ وہ واحد مشترکہ عمل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے اور فرشتوں کے ساتھ مومنین کو بھی شامل کیا ہے۔
پروفیسر عفت خالد
عربی لغت میں”صدر“ سینے کو کہتے ہیں اور سینے کی اہمیت دل کی وجہ سے ہے قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور انسانی وجود میں سب سے اہم قلب یعنی دل ہے دل کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید نے کہیں بھی دماغ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہدایت وگمراہی‘ عقل وشعور ، اسلام اور ایمان کاتعلق دل سے قائم کیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا”انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب، آگاہ رہو وہ دل ہے“ قرآن مجید کے مطابق معنوی لحاظ سے دل کی دو قسمیں ہیں۔.1 ہدایت یافتہ اور روشن و منوردل ترجمہ ”پس جس کا سینہ اللہ تعالی نے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پرہو جاتا ہے۔غافل وتاریک دل کیلئے ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ”تباہی ہے سخت دلوں کے لئے جواللہ کے ذکر سے غافل ہیں“ قرآن مجید کے مطابق دلوں کا اطمینان صرف اللہ تعالی کے ذکر سے ہی ممکن ہے فرمایا گیا ترجمہ ”بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون واطمینان ملتا ہے“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کونسا ذکر کرنا پسند فرماتا ہے خیال رہے کہ اس کا جواب سورة الاخراب کی 56 نمبر آیت میں موجود ہے۔ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالی اوراس کے فرشتے اس نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی مل کرآپﷺ پردرود بھیجو اورسلام بھیجو نہایت عاجزی کے ساتھ“۔ یہ آیت مبارکہ ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ کاچہرہ مبارک گلنار ہوگیا اور فرمایا۔
”مجھے مبارک باد پیش کرو کہ آج وہ آیت نازل ہوئی جو دنیا اور مافیھا کی ہر چیز سے بہتر ہے“ اس پر میں نے کہا ”اے اللہ کے رسولﷺ آپ کو یہ نعمت مبارک ہو“ ۔ صحیح بخاری شریف میں ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ جب اس بابرکت عمل کی نسبت اللہ تعالی سے کی جائے تو صلوة کامطلب ہے کہ اللہ تعالی فرشتوں کی بھری محفل میں اپنے محبوب محمدﷺ کی تعریف وثناء کرتا ہے۔
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اللہ تعالی کی طرف سے صلوة کا مطلب دعائے خیر اور امت کی طرف سے اس کا مطلب درود شریف‘ دعا اور آپﷺ کی تعظیم وتکریم کرنا ہے“۔مذکورہ بالا آیت تین پہلووٴں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
قدامت درود: یعنی جب سے اللہ تعالیٰ ہے اورجب سے فرشتے ہیں اتنا ہی درود شریف بھی قدیم ہے کیونکہ وہ تب ہی سے آپﷺ پر درود شریف بھیج رہے ہیں“۔
قدوقامت ِ درود : یعنی اللہ تعالیٰ جو لامحدود ہے اس کی طرف سے درود شریف کی معنویت بھی لامحدود ہوگی‘ فرشتوں کے درود کی مقدار اورقدرو قیمت کا صحیح اندازہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اگر مخلوق کو دس حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے تو نو حصے فرشتوں کے ہوں گے اورایک حصہ باقی تمام مخلوق کا۔
مداومت درود : اس کامطلب یہ ہے کہ درود شریف کا عمل ابد تک جاری رہے گا۔درود شریف زمان ومکاں کی قیود سے آزاد ہے یہ مخصوص زمانے یا مخصوص وقت کی بجائے ہر زمانے اور ہر وقت میں پڑھا جانے والا عمل ہے۔ کائنات کے درہم برہم ہونے پربھی اوراللہ تعالی اوراس کے فرشتوں کا اس نبی مکرمﷺ پردرود شریف بھیجنے کا عمل جاری و ساری رہے گا۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق سنتِ الیہ اورسنتِ ملائکہ کے عمل کو عظمت اور رفعتِ شان بیان کرنے کے بعد پھر ایمان والو کو اس کا باقاعدہ حکم دیا گیا۔ ترجمہ ”اے ایمان والو مل کر درود شریف بھیجو اور سلام بھیجو خوب خوب عاجزی کے ساتھ۔
دنیا میں دن رات کے ہر لمحہ اذان اورنماز جاری ہے اورکوئی نماز اور اذان ایسی نہیں ہے جس میں ذکرالٰہی کے ساتھ ذکر رسولﷺ موجود نہ ہو یہ ”ورفعنالک ذکرک“ کی ایک مثال ہے مسلمان دن میں 44 رکعتوں میں 16مرتبہ درودشریف اور23 مرتبہ حضورﷺ پر ان الفاظ میں سلام بھیجتے ہیں۔صحاح ستہ میں درود ابراہیمی کے 36 صحیفے منقول ہیں۔ حضرت ابو ہریراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ ”جوشخص مجھ پرایک بار درود پڑھے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر498)۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم روٴف ورحیمﷺ نے فرمایا۔ ترجمہ: جومجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اوراس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں گے (نسائی حدیث نمبر1296)۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت ہے کہ میں نے حضور سید المرسلین کو یہ فرماتے سنا” مجھ پر درود شریف بھیجا کرو تمہارا درود شریف مجھے پہنچتا ہے‘ تم جہاں بھی ہو۔ ابوداوٴد حدیث نمبر(2042)
الحمد اللہ حضورﷺ کا اپنی امت کودرود شریف کی تلقین و ترغیب کرنا آپﷺ کا ہم پر ایک اور احسانِ عظیم ہے کیونکہ اس طرح درود شریف بھیج کرامتِ محمدﷺ پر سنتِ الیہہ اورسنتِ ملائکہ میں شامل ہوجاتی ہے“ یہ وہ واحد مشترکہ عمل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے اور فرشتوں کے ساتھ مومنین کو بھی شامل کیا ہے۔
پروفیسر عفت خالد
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔