اسلام دنیا و آخرت میں انسان کی انفرادی واجتماعی فلاح کا ضامن ہے ۔ شرک سے مکمل اجتناب ،اللہ پر کامل ایمان اوراس کی بندگی کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوقات سے محبت اس کا بنیادی تقاضا ہے۔مخلوق سے گہری محبت ہی حب الہی کی علامت ہے ۔ تو حید پر ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان دوسری مخلوقات کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا شروع کردے ۔
لفظ 'اسلام ' کامادہ'س ل م'ہے ، جس کےمعنی امن اورتسلیم کے ہیں ۔ اسلام کائنات میں اللہ کےجاری وساری لطف وکرم کا اظہار ہے ۔سوائے انسان کےباقی تمام مخلوقات اسی آفاقی نظام حیات کی پابند ہے اور اس سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ کائنات کا ہر ذرہ قانون الہی کا پابند او رمطیع ہے ،حتی کہ ایک منکر اور مشرک بھی جسمانی اعتبار سے پیدائشی مسلم ہے ۔آغاز حمل سے مٹی میں مل جانے تک انسان کا ایک ایک عضو ،ایک ایک خلیہ احکامات خداوندی کاتابع رہتاہے ۔
اسلام کا تصور توحید ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں انسانی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے ۔ بےکنار کائنات کی ہر شے توحید کی پابند ہے اور انسان بھی اس کائنات کاایک جزو ہے ۔اگرچہ فطرت کے عمومی قوانین سے الگ بنی نوع انسان کے لیے کچھ خاص ضابطے ےشکیل دئیے گئے ہیں ، تاہم یہ بھی دیگر مظاہر پر لاگو قوانین سے ہم آہنگ ہیں ۔قوانین فطرت کی پابند دیگر مخلوقات کے برعکس انسان کو اپنے راستے کے تعین کی آزادی بخشی گئی ہے ۔اس نے یہ آزادی خود کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنے کی ذمہ داری قبول کرکے حاصل کی ہے ۔انسان اسی آزادی سے سرفرازی اور برتری کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔یہی وہ راستہ ہے ، جس پر اللہ تعالی نے انسانی فطرت کو پید اکیا ہے
(روم۳۰:۳۰)
تو تم ایک طرف کے ہو کر دین (اللہ کے راستے )پر سیدھا منہ یے چلے جاؤ (اور )اللہ کی فطرت کو ،جس اس نے لوگوں کوپیداکیاہے ، (اختیار کےے رہو)۔ اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت)میں تغیروتبدل نہیں ہوسکتا۔یہی سیدھا دین ہے،لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے ۔
اسلام آفاقی نظام ،یگانگت کامظہر اور بے نظیر ضابطہ حیات ہے ، جو مادی اور مابعد الطبیعاتی ،عقلی ومثالی ،جسمانی وروحانی پہلوؤں میں توازن قائم رکھتاہے ۔اسلام کا نظام حیات انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔اس طرح انسان اپنی ذات ،انسانیت اور فطرت کے ساتھ امن وسلامتی کارشتہ قائم رکھتاہے ، جس سے دنیا وآخرت کی کامرانیاں اورکامیابیاں اس کا مقدر قرار پاتی ہیں ۔
اپنی زندگی کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے اپنی معرفت حاصل کرنی چاہیے ۔ یہ تبھی ممکن ہے ، جب انسان اپنی توانائیوں کو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود میں رہتے ہوئے آزادانہ استعمال کرے ۔ان حدود سے عدم واقفیت کی بناپر وہ دھوکا دہی اورجنسی بے راہ روی جیسے امراض کاشکار ہوجائے گا تو عقل کے بے محابا استعمال کے باعث دوسروں کا استحصال کرنے لگے گا، اس لیے انسانی صلاحیتوں کو بے مہار ہونے سے بچانا ہوگا، عقل کوحکمت کے ماتحت لاناہوگااوراس کی نفسیاتی وجسمانی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنا ہوگا۔یہ بات یاد رکھنا چاہیےکہ انسان معاشرتی حیوان ہے ، اس لیے اگر وہ احکامات خداوندی کااحترام نہیں کرےگا تو ایسے سماج میں غلط کاری ، ناانصافی ،ناجائز منافع خوری ،نافرمانی اوربغاوت کاارتکاب ہونے لگے گا۔
اللہ غلط کاری اورنافرمانی کو پسند نہیں کرتا ۔وہ چاہتاہے کہ انسان امن و سلامتی سے زندگی گزارے ،تاکہ ان کے مابین عدل وانصاف کو فروغ حاصل ہو، لہذا مومنوں پر فرض ہے کہ وہ دنیا میں عدل کو غالب کریں ۔اسی ذمہ داری کو سلام نے جہاد کا نام دیاہے۔
جہاد فی سبیل اللہ
لفظ 'جہاد'کے معنی حق کی حمایت میں انتہائی کوشش کے ہیں۔ یہ لفظ جنگ کے مترادف نہیں ، جسے عربی میں قتال کے لیے استعمال کیاجاتاہے ۔رضائے الہی کے حصول کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد لفظ 'جہاد 'کے معنوی حدود میں داخل ہے ۔ مجاہد وہ شخص ہے ، جو خلوص دل سے خودکو اس مقصد کے لیےوقف کردیتاہے اوراپنی تمام ترجسمانی ،ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو اس راستے میں صرف کرتاہے اوراپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے مخالف قوتوں کو زیر کرتاہے ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک کی پروانہیں کرتا۔جہاد فی سبیل اللہ ایسی جدوجہدکانام ہے، جواللہ تعالی کی خوش نودی کے حصول ، دین کے غلبے اوراحکامات الہی کے فروغ کے لیے کی جائے۔
مزید برآں اس کامقصد امربالمعروف اور نھی عن المنکر بھی ہے ،تاکہ اسلام کاپیغام دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچایا جائء اورعالم گیر بنیادوں پر اسلامی اخوت کو فروغ دیاجائے ۔اسلامی اخوت کو قرآن نے مثالی برادری کانام دیاہے ، جس کا مطالبہ ہے کہ پیغام مصطفوی کی ترویج کی ہر ممکن کوشش کی جائے اوراُسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر دوسروں کے لیے عملی نمونہ پیش کیا جائے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
(بقرہ۲:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تم کوامت معتدل بنایاہے ،تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں )تم پر گواہ بنیں ۔
جہاد کے پہلو
نبی اکرم صلى الله عليه و سلم پر پہلی وحی 'اقرا' یعنی 'پرھو'کاحکم لائی ۔یہ حکم ایسے وقت نازل ہوا۔جب انسان علم وآگہی سے عاری تھا ۔مقصد یہ تھا کہ تخلیق کائنات اورنظام کائنات سے متعلق مشیت ایزوی کو سمجھنے کے لیے مومن ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو بروے کار لائے ۔جہالت کے باعث زندگی میں در آنے والے بابل عقائد کو اس معرفت کی روشنی میں اپنے قلب ونظر سے دور کرے اورمشاہدے اورتفکر کے نورسے علم وآگہی کی شمع منو رکرے ۔
اللہ تعالی نے انسان کو محض دماغ سے نہیں نوازا، بلکہ کئی ایک حواس بھی عطاکیے ہیں ، جو اپنی اپنی تسکین طلب ہیں، چناں چہ ایک طرف انسان کائنات میں آشکار مظاہر سے اپنے ذہن کو روشن کرے گا تو دوسری جانب اس کا دل گناہوں سے پاک ہوتا چلاجائے گا ۔اللہ کی حکمت کو تسلیم کرنے او راس سے ہر لمحہ بخشش کا طالب رہنے کی وجہ سے وہ متوازن زندگی بسر کرے گا۔ وہ اللہ سے مغفرت کاطلب گار ہوتے ہوئے خواہشات نفسانی پر قابو پالے گااور نماز کے ذریعے صراط مستقیم کی دعا کرتا رہے گا۔
بلاشبہ آپ صلى الله عليه و سلم ہر قسم کی آلائشوں سے مبراتھے ، تاہم 'اقرا'کی آیت میں یہ حکم پوشید ہ تھا کہ نبی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیے ۔کلام الہی لوگوں تک پہنچائیےاورکائنات میں اللہ کی نشانیوں سے انھیں آگاہ کیجیے۔یوں ان کے ذہنوں کو زمانہ جاہلیت کی ضعیف الاعتقادی اوران کے قلوب کو گناہوں سے پاک کیجیے ۔ قرآنی آیات اورکائنات میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں سے ذہنی وروحانی اعتبار سے انھیں منور کیجیے ۔ارشاد باری تعالی ہے۔
(بقرہ ۲:۱۵۱)
جس طرح (من جملہ اورنعمتوں کے)ہم نے تم میں تمھیں سےایک رسول بھیجے ہیں ، جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمھیں پاک بناتے اورکتاب (یعنی قرآن) اوردانائی سکھاتے ہیں اورایسی باتیں بتاتے ہیں،جوتم پہلے نہیں جانتے تھے ۔
انسان کو ناتر اشیدہ کرداروں کوپیغمبران خدا نے ہی درست کیاہے ، ان کے سماعتوں کے قفل کھولے ہیں اورآنکھوں سے جہالت کے پردے ہٹائے ہیں ۔انبیاکرام ؑ کی ہدایات پر عمل کرکے ہی انسان کو قوانین فطرت کو سمجھنے اوراشیاومظاہر کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ان ہستیوں کی پیروی سے ہی انسان نیابت الہی کے مرتبےپر فائز ہوسکتاہے ۔علاوہ ازیں وہ کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔چوں کہ قرّآن اللہ کی آخری کتاب ہے ،جواس کے آخری نبی پر نازل ہوئی ، لہذا کتاب سے مراد قرآن اورحکمت سے مراد حضور صلى الله عليه و سلم کی سنت ہے ۔پس جو حقیقی رہنمائی چاہتاہے ، اسے چاہیے کہ قرآن وسنت پر عمل پیر ا ہو۔
حضور صلى الله عليه و سلم نے ہمیں وہ کچھ بتایا ، جوہم نہیں جانتے تھے ۔انسانیت روز قیامت تک آپ صلى الله عليه و سلم کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتی رہے گی ۔برائیوں کی نجاست سے بچنے او رپاکیزگی حاصل کرنے کا سلیقہ آپ صلى الله عليه و سلم ہی نے بتایا ۔آپ صلى الله عليه و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیراہوکر کتنے ہی لوگ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شمار ہونے لگے ۔ ان میں علی ؓ بھی ہیں ، جو فرماتے ہیں کہ غیب اورمبادیات اسلام پر میرا علم ویقین اتنا مکمل ہے کہ اگر ان تمام پردوں کو ہٹابھی دیاجائے تومیرے ایمان میں سرمواضامہ نہ ہو۔ان کے علاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، امام غزالی ،امام ربانی ، فضیل ابن عیاض ، ابراہیم بن ادھم اوربشر الخافی کاشمار بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں میں ہوتاہے ۔
تعلیمات مصطفوی کی روشنی سے انسانی ذہن کے اُفق پر سے جہالت کے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے اوراسی کی چراغ کی لو میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیےگئے ۔
مومن اپنے ایمان کی تازگی وتقویت کے لیے جہاد کاسہار الیتاہے ،جس طرح ایک درخت کا پھل تو اس کی لمبی لمبی شاخوں کے سروں پر ہوتاہے ،حالاں کہ اس کی خوراک زمین سے کشیدہورہی ہوتی ہے؛اسی طرح مومن کے ایمان کی تازگی اس کے جذبہ جہاد سے نموپذیر ہوتی ہے۔ جب کسی مایوس اور قنوطی شخص کو دیکھیں تویقین کرلیں کہ اس نے جدوجہد کاراستہ ترک کردیاہے ۔جذبہ جہاد کا تسلسل انسان کے جوش وخروش کو ماند نہیں پڑنے دیتا اوراسی سے اس کی سرگرمیوں کودائرہ وسیع تر ہونے لگتاہے ۔
جہاد کی دواقسام ہیں؛ توہمات ،نفسانی خواہشات اورترغیبات سے نبرآزمارہتے ہوئے ذہنی وروحانی صلاحیتوں کو بیدارکرنا جہاد اکبرہے،جب کہ دوسرے انسانوں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی ترغیب دینا جہاد اصغر ۔اگرچہ اللہ کی راہ میں لڑائی کو ہی جہاد اصغر کہا جاتاہے ،تاہم اس کا دائرہ میدان جنگ تک محدود نہیں ۔جنگ کے بلاوے پرلبیک کہنے سے میدان جنگ میں پیش ہوجانے تک سبھی افعال اسی لفظ کی ذیل میں آتے ہیں ۔گویائی ، خاموشی، تبسم ، رنجیدگی ،میل ملاقات،جدائی ،غرض انفرادی یا اجتماعی طورپرعالم گیرانسانی بہبودکےلیے اٹھایاجانے والاہرقدم جہاداصغرمیں شامل ہے۔
جہاد اصغر کادار ومدا ر ہر قسم کے سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ جنگی تیاری اور میدان جنگ میں کارکردگی پر ہے، جب کہ جہاد اکبر اپنے نفس کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے ۔ جہاد کی ان دونوں اقسام میں کوئی تضاد نہیں ۔نفسانی خواہشات پر غلبہ پانے والے ہی جہاد اصغر میں حصہ لینے کاحوصلہ رکھتے ہیں اوروہاں سے پلٹنے والے ہی جہاد اکبر میں کامران ہوسکتے ہیں۔
جہاد اصغر کاتارک اگرچہ روحانی انحطاط کاذمہ دار ہوتاہے ،تاہم وہ اس خسارے سے محفوظ رہ سکتاہے ۔ کائنات کی ہر شے ہر وقت اللہ کی حمد وثنا میں مصروف ہے ، جس سے اس ذات باری کی موجودگی اوروحدانیت کااظہارہوتاہے اورممکن ہے کہ ایک انسان ان نشانیوں میں سے کسی سے ہدایت حاصل کرلے اورصراط مستقیم پر چلنے لگے ، اسی لیے کہا جاتاہے کہ کائنات میں ہدایت حاصل کرنے کے اسی قدر زیادہ مواقع ہیں ،جس قدر مخلوقات کی سانسیں۔جہاد اصغر سے پلٹنے والاانسان دنیاوی خواہشات وترغیبات کاشکار ہوسکتاہے ۔کامرانی اسے فخر وغرور،آسائش پسندی اورکاہلی میں مبتلاکرسکتی ہےاورممکن ہے ،وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب اس کےآرام وسکون کاوقت ہے ۔یہی وہ خطرات ہیں ، جو جہاد اصغر سے واپس آنے والے کو دبوچنے کے لیے تیا ر کھڑے ہوتے ہیں ، اسی لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے کسی غزوے میں فتح کے بعد مدینہ لوٹتے ہوئے صحابہ اکرم ؓ کو خبردار کردیا کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبرکی طرف لوٹ رہے ہیں ۔جہاد اکبر میں کامیابی اورحیوانی ونفسانی خواہشات کے خلاف جدوجہد کاانحصار اللہ کے دین کی حمایت پر ہے ۔اگر کوئی گم راہی سے بچنا چاہتاہے تو ضروری ہے کہ فقط رضائے الہی کاحصول ہی اس کا مقصد حیات ہو اوراس کے اعمال،حتی کہ سونے ، جاگنے ،کسی کاروبار کی منتخب کرنے یااس کی تربیت حاصل کرنے جیسے امور بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے ہوں ۔ارشاد باری تعالی ہے:
(محمد۴۷:۷)
اے ایمان والو!اگرتم اللہ کی مددکروگے تو وہ بھی تمھاری مددکرے گااورتم کو ثابت قدم رکھے گا۔
آپ صلى الله عليه و سلم کی ذات جہاد کی ان دونوں اقسام سے پوری طرح مزین تھی ۔ غزواۃ میں آپ صلى الله عليه و سلم کے اس فقید المثال عزم۔۔۔
لفظ 'اسلام ' کامادہ'س ل م'ہے ، جس کےمعنی امن اورتسلیم کے ہیں ۔ اسلام کائنات میں اللہ کےجاری وساری لطف وکرم کا اظہار ہے ۔سوائے انسان کےباقی تمام مخلوقات اسی آفاقی نظام حیات کی پابند ہے اور اس سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ کائنات کا ہر ذرہ قانون الہی کا پابند او رمطیع ہے ،حتی کہ ایک منکر اور مشرک بھی جسمانی اعتبار سے پیدائشی مسلم ہے ۔آغاز حمل سے مٹی میں مل جانے تک انسان کا ایک ایک عضو ،ایک ایک خلیہ احکامات خداوندی کاتابع رہتاہے ۔
اسلام کا تصور توحید ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں انسانی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے ۔ بےکنار کائنات کی ہر شے توحید کی پابند ہے اور انسان بھی اس کائنات کاایک جزو ہے ۔اگرچہ فطرت کے عمومی قوانین سے الگ بنی نوع انسان کے لیے کچھ خاص ضابطے ےشکیل دئیے گئے ہیں ، تاہم یہ بھی دیگر مظاہر پر لاگو قوانین سے ہم آہنگ ہیں ۔قوانین فطرت کی پابند دیگر مخلوقات کے برعکس انسان کو اپنے راستے کے تعین کی آزادی بخشی گئی ہے ۔اس نے یہ آزادی خود کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنے کی ذمہ داری قبول کرکے حاصل کی ہے ۔انسان اسی آزادی سے سرفرازی اور برتری کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔یہی وہ راستہ ہے ، جس پر اللہ تعالی نے انسانی فطرت کو پید اکیا ہے
(روم۳۰:۳۰)
تو تم ایک طرف کے ہو کر دین (اللہ کے راستے )پر سیدھا منہ یے چلے جاؤ (اور )اللہ کی فطرت کو ،جس اس نے لوگوں کوپیداکیاہے ، (اختیار کےے رہو)۔ اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت)میں تغیروتبدل نہیں ہوسکتا۔یہی سیدھا دین ہے،لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے ۔
اسلام آفاقی نظام ،یگانگت کامظہر اور بے نظیر ضابطہ حیات ہے ، جو مادی اور مابعد الطبیعاتی ،عقلی ومثالی ،جسمانی وروحانی پہلوؤں میں توازن قائم رکھتاہے ۔اسلام کا نظام حیات انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔اس طرح انسان اپنی ذات ،انسانیت اور فطرت کے ساتھ امن وسلامتی کارشتہ قائم رکھتاہے ، جس سے دنیا وآخرت کی کامرانیاں اورکامیابیاں اس کا مقدر قرار پاتی ہیں ۔
اپنی زندگی کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے اپنی معرفت حاصل کرنی چاہیے ۔ یہ تبھی ممکن ہے ، جب انسان اپنی توانائیوں کو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود میں رہتے ہوئے آزادانہ استعمال کرے ۔ان حدود سے عدم واقفیت کی بناپر وہ دھوکا دہی اورجنسی بے راہ روی جیسے امراض کاشکار ہوجائے گا تو عقل کے بے محابا استعمال کے باعث دوسروں کا استحصال کرنے لگے گا، اس لیے انسانی صلاحیتوں کو بے مہار ہونے سے بچانا ہوگا، عقل کوحکمت کے ماتحت لاناہوگااوراس کی نفسیاتی وجسمانی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنا ہوگا۔یہ بات یاد رکھنا چاہیےکہ انسان معاشرتی حیوان ہے ، اس لیے اگر وہ احکامات خداوندی کااحترام نہیں کرےگا تو ایسے سماج میں غلط کاری ، ناانصافی ،ناجائز منافع خوری ،نافرمانی اوربغاوت کاارتکاب ہونے لگے گا۔
اللہ غلط کاری اورنافرمانی کو پسند نہیں کرتا ۔وہ چاہتاہے کہ انسان امن و سلامتی سے زندگی گزارے ،تاکہ ان کے مابین عدل وانصاف کو فروغ حاصل ہو، لہذا مومنوں پر فرض ہے کہ وہ دنیا میں عدل کو غالب کریں ۔اسی ذمہ داری کو سلام نے جہاد کا نام دیاہے۔
جہاد فی سبیل اللہ
لفظ 'جہاد'کے معنی حق کی حمایت میں انتہائی کوشش کے ہیں۔ یہ لفظ جنگ کے مترادف نہیں ، جسے عربی میں قتال کے لیے استعمال کیاجاتاہے ۔رضائے الہی کے حصول کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد لفظ 'جہاد 'کے معنوی حدود میں داخل ہے ۔ مجاہد وہ شخص ہے ، جو خلوص دل سے خودکو اس مقصد کے لیےوقف کردیتاہے اوراپنی تمام ترجسمانی ،ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو اس راستے میں صرف کرتاہے اوراپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے مخالف قوتوں کو زیر کرتاہے ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک کی پروانہیں کرتا۔جہاد فی سبیل اللہ ایسی جدوجہدکانام ہے، جواللہ تعالی کی خوش نودی کے حصول ، دین کے غلبے اوراحکامات الہی کے فروغ کے لیے کی جائے۔
مزید برآں اس کامقصد امربالمعروف اور نھی عن المنکر بھی ہے ،تاکہ اسلام کاپیغام دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچایا جائء اورعالم گیر بنیادوں پر اسلامی اخوت کو فروغ دیاجائے ۔اسلامی اخوت کو قرآن نے مثالی برادری کانام دیاہے ، جس کا مطالبہ ہے کہ پیغام مصطفوی کی ترویج کی ہر ممکن کوشش کی جائے اوراُسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر دوسروں کے لیے عملی نمونہ پیش کیا جائے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
(بقرہ۲:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تم کوامت معتدل بنایاہے ،تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں )تم پر گواہ بنیں ۔
جہاد کے پہلو
نبی اکرم صلى الله عليه و سلم پر پہلی وحی 'اقرا' یعنی 'پرھو'کاحکم لائی ۔یہ حکم ایسے وقت نازل ہوا۔جب انسان علم وآگہی سے عاری تھا ۔مقصد یہ تھا کہ تخلیق کائنات اورنظام کائنات سے متعلق مشیت ایزوی کو سمجھنے کے لیے مومن ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو بروے کار لائے ۔جہالت کے باعث زندگی میں در آنے والے بابل عقائد کو اس معرفت کی روشنی میں اپنے قلب ونظر سے دور کرے اورمشاہدے اورتفکر کے نورسے علم وآگہی کی شمع منو رکرے ۔
اللہ تعالی نے انسان کو محض دماغ سے نہیں نوازا، بلکہ کئی ایک حواس بھی عطاکیے ہیں ، جو اپنی اپنی تسکین طلب ہیں، چناں چہ ایک طرف انسان کائنات میں آشکار مظاہر سے اپنے ذہن کو روشن کرے گا تو دوسری جانب اس کا دل گناہوں سے پاک ہوتا چلاجائے گا ۔اللہ کی حکمت کو تسلیم کرنے او راس سے ہر لمحہ بخشش کا طالب رہنے کی وجہ سے وہ متوازن زندگی بسر کرے گا۔ وہ اللہ سے مغفرت کاطلب گار ہوتے ہوئے خواہشات نفسانی پر قابو پالے گااور نماز کے ذریعے صراط مستقیم کی دعا کرتا رہے گا۔
بلاشبہ آپ صلى الله عليه و سلم ہر قسم کی آلائشوں سے مبراتھے ، تاہم 'اقرا'کی آیت میں یہ حکم پوشید ہ تھا کہ نبی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیے ۔کلام الہی لوگوں تک پہنچائیےاورکائنات میں اللہ کی نشانیوں سے انھیں آگاہ کیجیے۔یوں ان کے ذہنوں کو زمانہ جاہلیت کی ضعیف الاعتقادی اوران کے قلوب کو گناہوں سے پاک کیجیے ۔ قرآنی آیات اورکائنات میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں سے ذہنی وروحانی اعتبار سے انھیں منور کیجیے ۔ارشاد باری تعالی ہے۔
(بقرہ ۲:۱۵۱)
جس طرح (من جملہ اورنعمتوں کے)ہم نے تم میں تمھیں سےایک رسول بھیجے ہیں ، جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمھیں پاک بناتے اورکتاب (یعنی قرآن) اوردانائی سکھاتے ہیں اورایسی باتیں بتاتے ہیں،جوتم پہلے نہیں جانتے تھے ۔
انسان کو ناتر اشیدہ کرداروں کوپیغمبران خدا نے ہی درست کیاہے ، ان کے سماعتوں کے قفل کھولے ہیں اورآنکھوں سے جہالت کے پردے ہٹائے ہیں ۔انبیاکرام ؑ کی ہدایات پر عمل کرکے ہی انسان کو قوانین فطرت کو سمجھنے اوراشیاومظاہر کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ان ہستیوں کی پیروی سے ہی انسان نیابت الہی کے مرتبےپر فائز ہوسکتاہے ۔علاوہ ازیں وہ کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔چوں کہ قرّآن اللہ کی آخری کتاب ہے ،جواس کے آخری نبی پر نازل ہوئی ، لہذا کتاب سے مراد قرآن اورحکمت سے مراد حضور صلى الله عليه و سلم کی سنت ہے ۔پس جو حقیقی رہنمائی چاہتاہے ، اسے چاہیے کہ قرآن وسنت پر عمل پیر ا ہو۔
حضور صلى الله عليه و سلم نے ہمیں وہ کچھ بتایا ، جوہم نہیں جانتے تھے ۔انسانیت روز قیامت تک آپ صلى الله عليه و سلم کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتی رہے گی ۔برائیوں کی نجاست سے بچنے او رپاکیزگی حاصل کرنے کا سلیقہ آپ صلى الله عليه و سلم ہی نے بتایا ۔آپ صلى الله عليه و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیراہوکر کتنے ہی لوگ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شمار ہونے لگے ۔ ان میں علی ؓ بھی ہیں ، جو فرماتے ہیں کہ غیب اورمبادیات اسلام پر میرا علم ویقین اتنا مکمل ہے کہ اگر ان تمام پردوں کو ہٹابھی دیاجائے تومیرے ایمان میں سرمواضامہ نہ ہو۔ان کے علاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، امام غزالی ،امام ربانی ، فضیل ابن عیاض ، ابراہیم بن ادھم اوربشر الخافی کاشمار بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں میں ہوتاہے ۔
تعلیمات مصطفوی کی روشنی سے انسانی ذہن کے اُفق پر سے جہالت کے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے اوراسی کی چراغ کی لو میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیےگئے ۔
مومن اپنے ایمان کی تازگی وتقویت کے لیے جہاد کاسہار الیتاہے ،جس طرح ایک درخت کا پھل تو اس کی لمبی لمبی شاخوں کے سروں پر ہوتاہے ،حالاں کہ اس کی خوراک زمین سے کشیدہورہی ہوتی ہے؛اسی طرح مومن کے ایمان کی تازگی اس کے جذبہ جہاد سے نموپذیر ہوتی ہے۔ جب کسی مایوس اور قنوطی شخص کو دیکھیں تویقین کرلیں کہ اس نے جدوجہد کاراستہ ترک کردیاہے ۔جذبہ جہاد کا تسلسل انسان کے جوش وخروش کو ماند نہیں پڑنے دیتا اوراسی سے اس کی سرگرمیوں کودائرہ وسیع تر ہونے لگتاہے ۔
جہاد کی دواقسام ہیں؛ توہمات ،نفسانی خواہشات اورترغیبات سے نبرآزمارہتے ہوئے ذہنی وروحانی صلاحیتوں کو بیدارکرنا جہاد اکبرہے،جب کہ دوسرے انسانوں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی ترغیب دینا جہاد اصغر ۔اگرچہ اللہ کی راہ میں لڑائی کو ہی جہاد اصغر کہا جاتاہے ،تاہم اس کا دائرہ میدان جنگ تک محدود نہیں ۔جنگ کے بلاوے پرلبیک کہنے سے میدان جنگ میں پیش ہوجانے تک سبھی افعال اسی لفظ کی ذیل میں آتے ہیں ۔گویائی ، خاموشی، تبسم ، رنجیدگی ،میل ملاقات،جدائی ،غرض انفرادی یا اجتماعی طورپرعالم گیرانسانی بہبودکےلیے اٹھایاجانے والاہرقدم جہاداصغرمیں شامل ہے۔
جہاد اصغر کادار ومدا ر ہر قسم کے سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ جنگی تیاری اور میدان جنگ میں کارکردگی پر ہے، جب کہ جہاد اکبر اپنے نفس کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے ۔ جہاد کی ان دونوں اقسام میں کوئی تضاد نہیں ۔نفسانی خواہشات پر غلبہ پانے والے ہی جہاد اصغر میں حصہ لینے کاحوصلہ رکھتے ہیں اوروہاں سے پلٹنے والے ہی جہاد اکبر میں کامران ہوسکتے ہیں۔
جہاد اصغر کاتارک اگرچہ روحانی انحطاط کاذمہ دار ہوتاہے ،تاہم وہ اس خسارے سے محفوظ رہ سکتاہے ۔ کائنات کی ہر شے ہر وقت اللہ کی حمد وثنا میں مصروف ہے ، جس سے اس ذات باری کی موجودگی اوروحدانیت کااظہارہوتاہے اورممکن ہے کہ ایک انسان ان نشانیوں میں سے کسی سے ہدایت حاصل کرلے اورصراط مستقیم پر چلنے لگے ، اسی لیے کہا جاتاہے کہ کائنات میں ہدایت حاصل کرنے کے اسی قدر زیادہ مواقع ہیں ،جس قدر مخلوقات کی سانسیں۔جہاد اصغر سے پلٹنے والاانسان دنیاوی خواہشات وترغیبات کاشکار ہوسکتاہے ۔کامرانی اسے فخر وغرور،آسائش پسندی اورکاہلی میں مبتلاکرسکتی ہےاورممکن ہے ،وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب اس کےآرام وسکون کاوقت ہے ۔یہی وہ خطرات ہیں ، جو جہاد اصغر سے واپس آنے والے کو دبوچنے کے لیے تیا ر کھڑے ہوتے ہیں ، اسی لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے کسی غزوے میں فتح کے بعد مدینہ لوٹتے ہوئے صحابہ اکرم ؓ کو خبردار کردیا کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبرکی طرف لوٹ رہے ہیں ۔جہاد اکبر میں کامیابی اورحیوانی ونفسانی خواہشات کے خلاف جدوجہد کاانحصار اللہ کے دین کی حمایت پر ہے ۔اگر کوئی گم راہی سے بچنا چاہتاہے تو ضروری ہے کہ فقط رضائے الہی کاحصول ہی اس کا مقصد حیات ہو اوراس کے اعمال،حتی کہ سونے ، جاگنے ،کسی کاروبار کی منتخب کرنے یااس کی تربیت حاصل کرنے جیسے امور بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے ہوں ۔ارشاد باری تعالی ہے:
(محمد۴۷:۷)
اے ایمان والو!اگرتم اللہ کی مددکروگے تو وہ بھی تمھاری مددکرے گااورتم کو ثابت قدم رکھے گا۔
آپ صلى الله عليه و سلم کی ذات جہاد کی ان دونوں اقسام سے پوری طرح مزین تھی ۔ غزواۃ میں آپ صلى الله عليه و سلم کے اس فقید المثال عزم۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔