Dec 10, 2014

(نعوذباللہ) اللہ کوکس نے پیداکیا؟

یہ سوال اکثر پوچھا جاتاہے۔میں اسے سیدنامحمدﷺکی نبوت کی دلیل سمجھتاہوں۔ آپﷺکی بتائی ہوئی غیب کی خبروں کودرست ثابت ہوتادیکھ کرمیری گردن احتراماًجھک جاتی ہے اور زبان سے بے اختیار نکلتاہے: ‘‘أشھدأن محمداًرسول اللہ‘‘

بلاشبہ آپﷺاللہ تعالیٰ کے معززرسول ہیں۔آپﷺنے قیامت تک پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایسے بتایا، جیسے آپﷺٹیلی وژن کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ہر واقعہ دیکھ کربتارہے ہوں۔آپﷺکی بتائی ہوئی ہرخبرصداقت پرمبنی ہے۔جن احکام وحوادث کے پیش آنے کی آپﷺنے پیش گوئی فرمائی تھی وہ آپﷺکی پیش گوئی کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئے۔اسی ضمن میں آپﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایاتھا:‘‘لوگ مسلسل یہ سوال کرتے رہیں گے کہ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ ہرچیز کے خالق ہیں،لیکن اللہ کوکس نے پیداکیاہے؟ مسلم، الاعتصام، ۳

جب مجھ سے یہ سوال کیاگیاتومیں نے دل میں کہا:‘‘أشھد أن محمداً رسول اللہ(یارسول اللہ)آپ نے سچ فرمایااورمیں سچ دیکھ رہاہوں۔’’جن لوگوں نے اناپرستی وفرعونیت کی بناپرسرکشی اختیارکی اوراسباب کی طرف الوہیت کی نسبت کرکے ہرچیز کی وضاحت کرنے کی کوشش کی،ان کی سوچ کے گھٹیا پن اور فکری انحطاط کواس سے بہترانداز میں نہیں بیان کیاجاسکتا۔

اب ہم اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔یہ سوال عموماًمنکرین خدا کرتے ہیں اورعام طورپرسادہ لوح لوگ اس قسم کے سوالات سے تذبذب کاشکارہوجاتے ہیں،کیونکہ وہ لامتناہی کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی اسباب کے تسلسل کے ہمیشہ جاری رہنے کے بارے میں درست رائے قائم کرسکتے ہیں۔اس کے سوا اس خودفریبی کی اورکیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟

یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ شک اورتذبذب میں مبتلارہتے ہیں،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کوبھی عام اسباب کی طرح کا ایک سبب سمجھتے ہیں کہ جس کے لیے کسی دوسرے سبب کی ضرورت ہوتی ہے،گویااللہ تعالیٰ بھی کسی دوسرے سبب کا سبب اورنتیجہ ہیں، حالانکہ یہ سراسروہم ہے،جس کی وجہ خالق کی معرفت سے محرومی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مسبب الاسباب ہیں اوران کے وجود کی کوئی ابتدا نہیں۔

علمائے کرام نے مخصوص قواعد کی روشنی میں یہ ثابت کیاہے کہ اسباب کا لامحدود تسلسل جاری نہیں رہ سکتا،نیزانہوں نے مسبب الاسباب جواللہ تعالیٰ کی ذات ہے، کے اثبات پر بھی دلائل پیش کیے ہیں۔آئندہ سطورمیں دوایک مثالوں کی روشنی میں ان کے افکارکاخلاصہ پیش کرنامناسب معلوم ہوتاہے۔علمائے کرام لکھتے ہیں کہ اسباب کے سلسلے کے بلاتوقف جاری رہنے کا قائل ہونااسباب کی حقیقت سے ناواقفیت اورخالقِ کائنات سے غفلت کا نتیجہ ہے،نیزیہ احتمال بھی درست نہیں کہ اسباب ازل سے مسلسل ظہورپذیر ہورہے ہوں گے۔ایسے احتمال کی جستجو سراسر فریب ہے، مثلاًاگرہم کہیں کہ زمین کی نباتات کی شادابی کاتعلق ہوا،پانی اورسورج سے ہے، ہوا،پانی اورسورج کاوجود بعض مادی اجزاء مثلاًآکسیجن،ہائیڈروجن،کاربن اورنائیٹروجن وغیرہ پرموقوف ہے، ان مادی اجزاء کاوجودان سے چھوٹے اجزاء پرمبنی ہے اوران چھوٹے اجزاء کا وجود ان سے بھی چھوٹے اجزاء پرموقوف ہے۔

اس تسلسل کے لامتناہی زمانے تک جاری رہنے اوراس کی روشنی میں اشیاء کے ظہورکے ممکن ہونے کا قائل ہوناسراسردھوکااورفریب ہے،خصوصاًجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ مادے کی اضدادبھی موجودہیں،میٹافزکس، فزکس پرغالب ہے اورپہلے سبب سے لے کر آخری سبب تک سارے کے سارے اسباب چندقوانین کے ضمن میں ایسی ہم آہنگی اوریکسانیت کے ساتھ کام کرتے ہیں،جیسے وہ اپنے فرائض سرانجام دینے پرمامورہوں۔

بلاشبہ یہ کہناکہ یہ چیزاُس سے اور وہ چیزاِس سے وجودمیں آئی،مسئلے کاکوئی حل پیش نہیں کرتا،بلکہ اسے اوربھی پیچیدہ اورگھمبیربنادیتاہے،کیونکہ اسے مسئلے کا ممکنہ حل سمجھناایسے ہی ہے جیسے ‘‘انڈامرغی سے یامرغی انڈے سے پیداہوئی۔’’کے معمّے کوازل سے جاری سمجھا جائے۔یہ خیال اوردعوی اس وقت تک بے معنی اورناقابل حل رہے گا،جب تک ہم انڈے یامرغی کے وجود کوغیرمتناہی قدرت کی حامل ازلی ہستی کی طرف منسوب نہ کریں گے ،لیکن جونہی ہم انہیں قائم بذاتہ ازلی خالق کی طرف منسوب کریں گے مسئلہ حل ہوجائے گا،کیونکہ اس صورت میں خواہ ایک خلیے پرمشتمل انڈے کی تخلیق پہلے ہوئی ہویابقائے نسل کے لیے انڈے دینے کی صلاحیت کی حامل مرغی کی پیدائش پہلے ہوئی ہو، بات ایک ہی ہے، اس سے نتیجے پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

لہٰذا مسئلے کے اس پہلو کو نظرانداز کرکے‘‘یہ چیزاُس سے اوروہ چیز اِس سے پیداہوئی’’ کی تکرارکاکوئی نتیجہ نکلتاہے اورنہ ہی اس سے ابہام دورہوتاہے،کیونکہ اس قسم کے جواب سے اور بہت سے سوالات پیداہوتے ہیں، مثلاًبارش کاتعلق بادلوں سے ہے،بادلوں کاتعلق مثبت اورمنفی ایٹموں سے ہے۔ ان ایٹموں کاتعلق بخارات سے ہے، بخارات کاتعلق پانی سے ہے اور بالآخر پانی کاتعلق پانی کوبنانے والے عناصرسے ہے۔آپ نے دیکھاکہ چندہی مراحل کے بعد تسلسل ختم ہوجاتاہے،لیکن تسلسل کے رک جانے کے باوجود انسان اپنے ذہن کی تسلی کے لیے مختلف قسم کے مفروضے قائم کرنے لگتاہے کہ ممکن ہے یہ ایسے ہو... ایسے ہو ... یاپھرایسے ہو ... ۔ واضح حکمت عملی کے تحت ظہورپذیرہونے والی انتہائی منظم اورہم آہنگ دنیاکی اس قسم کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش بچگانہ باتوں کے سواکچھ نہیں،بلکہ یہ علمی آفاق واہداف کوغلط راستے پرڈال کرانہیں ہمیشہ تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہے،کیونکہ ہرنتیجے کے لیے کسی نہ کسی سبب کا ہوناناگزیرہے،لیکن محض غیرمنطقی اورغیرمعقول اسباب کے اضافے یاتسلسل سے ان میں معقولیت پیداہوتی ہے اورنہ ہی منطق کے ساتھ ہم آہنگی، لہٰذاایسی خام خیالی ناممکن کوممکن سمجھنے کے مترادف ہے۔

اس بات کوایک مثال سے سمجھئے:فرض کریں میں ایک ایسی کرسی پربیٹھاہوں،جس کی پچھلی دوٹانگیں نہیں ہیں، لیکن اس کرسی کوگرنے سے بچانے کے لیے اسے ایسی ہی ایک اورکرسی کا سہارادیاگیاہے،اس دوسری کرسی کو اسی جیسی تیسری کرسی کا سہارادیاگیاہے اوریہ سلسلہ ایسی لامتناہی تعدادتک جاری رہا، جسے عقل حیطۂ خیال میں لاسکتی ہے اورنہ ہی زمان ومکان اپنی حدود میں محصورکرسکتے ہیں،لیکن اس کے باوجودجب تک ان تمام کرسیوں کوکسی چارپاؤں والی مکمل کرسی کا سہارانہیں ملے گا ،اس وقت تک اس لامتناہی تسلسل کاکوئی فائدہ نہ ہوگا۔

ایک اورمثال لیجئے:فرض کریں ہمارے سامنے ایک صفرہے۔اگراس صفرکی بائیں طرف کسی عددکا اضافہ نہ کیاجائے تویہ صفرصفر ہی رہے گا، اگرچہ اس کی تعدادکھربوں میں ہی کیوں نہ ہوجائے،لیکن جیسے ہی اس کی بائیں جانب کسی عددکااضافہ کیاجائے گا،صفر کو اس عددکے مطابق قیمت حاصل ہوجائے گی۔اس سے یہ ثابت ہواکہ اگرکسی چیز کامستقل اورقائم بذاتہ وجودنہ ہوتو اسی جیسی دیگرعاجز اشیاء اسے وجودبخشنے میں کوئی کردارادانہیں کرسکتیں،کیونکہ کسی خاص پہلوسے عجز کے وصف سے موصوف اشیاء کی کثرت عجزواحتیاج میں محض زیادتی کاہی باعث بنتی ہے۔ حتیٰ کہ اگربفرض المحال ہم اسباب کی تاثیر کو تسلیم کرلیں تب بھی علم طبیعیات کا قانون ‘‘تناسب علت’’سبب اوراس کے نتیجے کے درمیان معقول تناسب کے پائے جانے کوضروری قرار دیتاہے، لہٰذاکرۂ ارض کے زندگی کے ظہورکے لیے سازگار ماحول میں تبدیل ہونے سے لے کرعقل وشعورسے بہرہ مندانسان کے وجودمیں آنے تک تمام مظاہرکے پیچھے معقول اور بقدر ضرورت طاقت وقدرت کے حامل اسباب کی تلاش ناگزیرہے۔

لیکن کرۂ ارض کی موجودہ صورتِ حال یعنی اس کی رفتار،سورج سے فاصلہ، کرۂ فضائی، طبعی گردش، محورکے جھکاؤکی مقدار، ہوامیں شامل گیسوں کی مقدار اوراقسام ، ارضی اورنباتاتی طبقات،سمندراوران میں جاری وساری مخفی قوانین ،ہوائیں اوران کی مختلف ذمہ داریاں ...غرض ہم آہنگی ویکسانیت کے ساتھ وقوع پذیرہونے والے ہزاروں نہیں لاکھوں واقعات کاسبب اندھے بہرے اسباب یاالل ٹپ اتفاقات کو قرارنہیں دیاجاسکتا۔ایسی کوئی بھی کاوش عقل کے ذریعے عقل کے مقام کوگرانے کے مترادف ہوگی۔

جب علمائے کرام نے‘‘دوروتسلسل’’کی دلیل کے ذریعے اسباب کی نفی کرکے انہیں مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایااورثابت کیاکہ تمام‘‘ممکن الوجود’’اشیاء اوراسباب وعلل‘‘واجب الوجود’’کی محتاج ہیں تودرحقیقت انہوں نے توحیدکے اثبات کی راہ ہموارکی،تاہم اس نتیجے تک اس سے محفوظ ترطریقے سے پہنچنابھی ممکن ہے۔خالق کائنات کے ہرہرکام میں ہم اس کی جھلک اورنشانی دیکھ سکتے ہیں، لہٰذااللہ تعالیٰ کے وجودپرایک نہیں،بلکہ ہزاروں دلائل موجود ہیں۔جب سے سائنسی علوم نے کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاناشروع کیاہے ہرعلم اپنی مخصوص زبان میں واضح طورپروجودِخداوندی کااعلان کررہاہے۔اس موضوع پربہت سی اہم کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔قارئین کوان کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔

غرض اللہ تعالیٰ ہرچیزکے موجد و خالق ہیں اورہرچیزعدم سے وجودمیں آئی ہے،چونکہ اللہ تعالیٰ‘‘اللہ’’ہیں، اس لیے انہیں کسی نے پیدانہیں کیا۔ساری مخلوق عاجز و محتاج ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کاوجودکسی دوسرے کی احتیاج کے بغیر قائم بذاتہ ہے۔اس کی ذات علی الاطلاق مستغنی ہے۔ ہرچیزاس کے سہارے سے قائم ہے۔ ہرناقابل حل دکھائی دینے والاعقدہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے سے حل ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ خالق و موجدہیں۔ان کے وجودکودوام حاصل ہے۔وہ پیدا کرنے والے ہیں۔وہ سب کچھ ہیں۔ وہی ابتدا ہیں وہی انتہا ہیں، لہٰذا ان کے لیے کسی مسبب کو کیسے تلاش کیاجاسکتاہے؟

ہم دوایک مثالوں سے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثال کے طورپر میرے جسم کومیری ٹانگوں نے اٹھایاہواہے اورمیری ٹانگوں کا بوجھ زمین نے اٹھایاہواہے۔زمین کی صورت میں میری ٹانگوں کابوجھ اٹھانے والی ایک معقول چیزکاعلم ہونے کے بعد دیگر خارجی اسباب تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ایک اورمثال لیجئے، ریل گاڑی کی آخری بوگی کو اس سے آگے والی بوگی کھینچتی ہے اورآگے والی بوگی کواس سے آگے والی بوگی کھینچتی ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ ریل گاڑی کے محرک انجن تک جاپہنچتا ہے۔جب ہم اس محرک تک پہنچتے ہیں توہم کہتے ہیں کہ یہ محرک اپنے آپ کوبذاتِ خود حرکت دے رہاہے۔یہ تواللہ تعالیٰ کی پیداکردہ اشیاء کی مثالیں ہیں۔فریب زدہ لوگ کتنے ہی اسباب کیوں نہ تبدیل کرلیں اورایک سبب سے دوسرے سبب کی طرف منتقل کیوں نہ ہوجائیں،آخرکاروہ ایسے سبب پرپہنچیں گے، جس کے بعد کسی دوسرے سبب کی طرف منتقل ہوناان کے ممکن نہ ہوگا۔ایسی صورت میں ہم ان سے پوچھیں گے کہ اسباب کی انتہاکیاہے؟اس سبب کے بعد کون سا سبب ہے؟

ایک اور وجہ سے بھی بعض لوگوں کے افکار میں پراگندگی آتی ہے۔وہ یہ کہ بنی نوعِ انسان کا محدود فکر ازل کے مفہوم کوپوری طرح سمجھنے سے قاصرہے،یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ مادے کو ازلیت کے وصف کے ساتھ موصوف کرتے ہیں اورماضی بعیدمیں بعض ناقابل فہم اشیاء کے وقوع پذیر ہونے کوممکن سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ازل زمانہ ماضی کی انتہاسے عبارت نہیں،بلکہ اس کی حقیقت ’’لازمان‘‘ہے۔اگرزمانے کی مقدارکھربوں سال ہوتب بھی اس کی حیثیت ازل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں،نیزیہ سب جانتے ہیں کہ اسباب کے تسلسل کی بنیاد کی حیثیت رکھنے والے مادے کی مخصوص ابتداہے۔الیکٹرانز کی گردش، نیوکلیس کے طبیعیاتی اسرار،سورج میں وقوع پذیرہونے، شعاعوں کے اخراجات کاباعث بننے والے پیچیدہ تعاملات اورساری کائنات میں جاری وساری تھرموڈائنامک کادوسرا قانون سب کے سب واضح طورپراس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ہرچیز کی ایک انتہاہے اوریہ بات بدیہی طورپرثابت ہے کہ جس چیزکی انتہاہوتی ہے، اس کی ابتدابھی ہوتی ہے۔

لہٰذا وجودکی نعمت سے بہرہ مند ہرچیز خالق کاپتابتاتی ہے،نیزاس کے وجودکی فناخالق کے اول وآخر ہونے کی دلیل ہے،کیونکہ اگریہ قاعدہ درست ہے کہ جس کی ابتدا ہوتی ہے، اس کی انتہا بھی ہوتی ہے تویہ قاعدہ بھی لازماًدرست ہوناچاہیے کہ جس کی ابتدا نہیں اس کی انتہا بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ مادہ اوراس سے تیارہونے والی اشیاء آج اگرموجودہیں توکل نہ ہوں گی،لیکن کائنات کا فنا کی طرف سست روی سے سفر اورمادے کی بتدریج فنا بعض اوقات بہت سے لوگوں کو دھوکے میں مبتلا کردیتی ہے،تاہم طویل عرصے کے دوران وسعت پانے والے ان تمام جہانوں کا انجام بالآخر فنا ہی ہے، مزیدبرآں بعض تحقیقات کے مطابق موجودہ مادہ بلاشبہ تغیرپذیرہے۔اسے دوبارہ ریل گاڑی کی مثال سے سمجھئے:

فرض کریں ایک ریل گاڑی ‘‘ازمیر’’شہرسے‘‘تورکوتلو’’شہرکی طرف روانہ ہوئی۔ دونوں شہروں کے درمیان مسافت ۵۵کلومیٹرہے اورفرض کریں سفر کے آغاز میں ریل گاڑی کی رفتار۵۵ کلومیٹرفی گھنٹہ تھی، جس کا مطلب یہ ہواکہ اس نے یہ سفرایک گھنٹے میں طے کرنا تھا، لیکن آدھے گھنٹے کے بعد جب ساڑھے ستائیس کلومیٹرمسافت باقی رہ گئی ، اس کی رفتار نصف ہوگئی، جس کا مطلب یہ ہواکہ وہ اس مسافت کا نصف آدھے گھنٹے میں طے کرے گی۔فرض کریں اس ریل گاڑی کی رفتارہرنصف گھنٹے کے بعد آدھی ہوجاتی ہے۔بظاہر یوں دکھائی دیتاہے کہ یہ ریل گاڑی کبھی بھی‘‘تورکوتلو’’نہیں پہنچ پائے گی۔اگرچہ وہ کبھی نہ کبھی اس شہرتک ضرورپہنچے گی،لیکن اس کی اس قدرسست رفتاری کی وجہ سے اس کی سواریوں کو یوں لگے گا جیسے وہ کبھی بھی شہرتک نہیں پہنچیں گی۔

اسی طرح مادہ بھی ٹوٹ پھوٹ کی طرف رواں دواں ہے اورایسایقیناہوگا،خواہ اس میں لاکھوں سال ہی کیوں نہ لگ جائیں۔اس سے ثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ جس کا وجودکسی دوسرے کا محتاج نہیں،کے سواہرچیز فانی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہیں اورہرچیز کے خالق ہیں۔اللہ تعالیٰ کومخلوق سمجھنا سادہ پن ہے،جس کا سبب خالق کومخلوق کی صفات کے ساتھ موصوف کرنااورخالق اورمخلوق کے درمیان تمیز نہ کرناہے۔جن بے دینوں اورمنکرین خدانے یہ شرمناک خیال پیش کیاہے،ان کا مقصد اپنے آپ کوعقل مندثابت کرناہے،لیکن انہیں معلوم نہیں کہ یہ دعوی کرکے انہوں نے کھلے بندوں عقل و دانش مندی کی تضحیک کی ہے۔آج کون مادے کی ازلیت کادعوی اورالوہیت کا انکار کرسکتاہے؟ایسا دعوی نہ صرف تعجب خیز،بلکہ جہالت وتعصب کی علامت بن چکاہے۔

لیکن اشیاء وواقعات کے حقائق تک رسائی نہ پاسکنے والے بعض مادہ پرست لوگ مادے پرآنے والی فنا اورٹوٹ پھوٹ کوسمجھتے ہیں اورنہ ہی اس فناکاادراک رکھتے ہیں،جوایٹم کا مقدر ہے۔وہ ان حقائق کوجان لینے کے باوجودبھی بعض سادہ لوح لوگوں کوبے وقوف بنانے کے لیے اس قسم کے دعوے کرتے رہیں گے،لیکن اللہ تعالیٰ کوہرچیزکا علم ہے اور وہ حقیقت حال سے بخوبی واقف ہے۔

خصوصی تشکُر: فتح اللہ گلن

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads