Dec 10, 2014

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہ حیثیت رحمت اللعالمین

دنیا ایک ایساآئینہ خانہ ہے ،جس میں ہر سو اللہ تعالی کے اسمائے حسنی جلوہ افروز ہیں ۔ وہ سب سے پہلے الرحمن اور الرحیم کی حیثیت سے متعارف ہوا،اسی لیے مسلمان ہر نیک کام کا آغازبسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتے ہیں ۔ دنیا کی بقا کادارومدار اسی صف الہی پر ہے ۔ یہ نام سب سے پہلے رزاقی کو ظاہر کرتاہے ، کیوں کہ اسی سےتحفظ حیات کی ضمانت فراہم ہوتی ہے ۔زندگی بہ ذات خود پروردگار عالم کا ایک اَن مول عطیہ ہے، تاہم سچی او رابدی زندگی کو آخرت کی ہے ۔ یاد رہے کہ انسان رضائےالہی کے حصولسے ہی زندگی کودوام بخش سکتاہے ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالی نے اپنی نبی معبوث کیے اور اپنی نبی نوع انساسن کی ہدایت کے لیے اپناکلام نازل کیا۔ سورۃ الرحمن میں ارشاد ہوتاہے :

(الرحمن ۱:۵۵تا۴)

(اللہ، جو)نہایت مہربان،اسی نے قرآن کی تعلیم فرماءی ۔اسی نے انسان کوپیداکیا۔ اسی نے اس کو بولناسکھایا۔

حیات مستعار کاہر لمحہ اُخروی زندگی کے لیے ایک ریہرسل کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام مخلوقات اسی سمت گام زن ہیں ۔ہر کاوش میں حکم پوشیدہ ہے اور ہر کامرانی میں قدرتی آفات یا سماجی مسائل کو انسانی نقطہ نظر سے رحمت خداوندی سے ، متصادم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ان کی مثال کالے سیاہ بادلوں سے دی جاسکتی ہے ،جن کی گرج اور چمک سے انسان سہم جاتاہے ،تاہم یہی بارشوں کا سبب بنتے ہیں،جن سے کھیت نمو پاتے ہیں۔گویا ایک ذرےسے لے کر عظیم کہکشاں تک کائنات کی ہر شے رحمت باری کے گن گاتی ہے ۔

صوفیا کے نزدیک کائنات ایسی تخلیقی کتاب ہے ، جو اللہ کی منشا سے معرض وجود میں آئی۔کتاب کائنات ،جسے سمجھنے سے انسان عاجز دکھائی دیتا ہے ، بے معنی رہ جاتی اور مقاصد الہی بے نتیجہ ٹھہرتے ، اگر اس نے اپنے حبیب صلى الله عليه و سلم کوکائنات کے مفاہیم سے آگاہ کرنے کے لیے پیدا نہ فرمایا ہوتا۔ نوع انسانی کی ہدایت کی غرض سے اس نے اپنے محبوب صلى الله عليه و سلم کے توسط سے قرآنی احکامات نازل کیے ۔ان احکامات پر عمل کرکے ہی انسان حیات ابدی کا مستحق قرار پاتاہے ۔ قرآن وحی الہی کی آخری اور جامع صورت ہے ، اسلام مکمل اورآفاق دین اور حضور صلى الله عليه و سلم کی ذات پیکر لطف و کرم،جنھیں اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین بنا کربھیجا۔

حضور صلى الله عليه و سلم کی ہستی کی مثال یوں دی جاسکتی ہے ،جیسے کسی تپتے ہوئے صحرا میں ایک ٹھنڈے میٹھے پانی کاچشمہ یاپھر کائنات کی تاریکیوں میں منبع نور۔ یہ وہ چشمہ ہے ، جس سے ہر کوئی اپنی پیاس کے مطابق سیراب ہوسکتاہے اوراپنے ظاہر وباطن کی ہرقسم کی آلائشوں سے پاک اور نورایمان سے منور کرسکتاہے ۔

حضور صلى الله عليه و سلم نے اسلام کو ایک ایسے دین کی صورت میں پیش کیا، جس کے دائرہ رحمت میں پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے ۔ باوجودیکہ انسانی حقوق کے کچھ نام نہاد علم بردار الزام دھرتے ہیں کہ اسلام بہ زورِ شمشیر پھیلا، تاہم حقائق اس کے منافی ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جوکسی جانور کی ہلاکت پر توواویلاکرتے ہیں یا اپنی قوم کے فرد کی تکلیف پر تو شور مچاتے ہیں ، لیکن دیگر اقوام کی غارت گری کے وقت سب کچھ بھول جاتے ہیں ان کے سبھی قوانین خود غرضی اور نفس پرستی پر مبنی ہیں ، اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ جذبہ ترحم کا غلط استعمال بے رحمی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور بعض اوقات تو انتہائی مہلک ہوتاہے ۔

یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی ناکارہ اورسڑے ہوئے عضو کی جراحی جسم کے لیے باعث راحت ہوتی ہے ۔آکسیجن اور ہائیڈروجن کے حیات پر ورامتزاج میں سے کسی عنصر کی شرح میں کمی بیشی ہول نال صورت خال پیداکردیتی ہے ،لہذا یہ جانناازحد ضروری ہے کہ کون عفوردرگزر کا کس حد تک مستحق ہے ۔جس طرح ایک بھیڑیے سے درگزر کامطلب اس کو زندگی کی ترغیب دینا یاکسی فسادی کو معاف کرنا اس فتنہ پروری کو فروغ دینا ہے ۔ عفوودرگزر کابنیادی تقاضا برائی کا سدباب ہے ۔ حضور صلى الله عليه و سلم کاارشاد ہے کہ اپنے بھائی کی مددکرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔صحابہ نے عرض کیا 'یارسول اللہ !ہم اپنے ظالم بھائی کی مدد کیسے کریں ؟ فرمایا۔'اسے ظلم سے روک کر۔ ' لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ظلم زیادتی سے تسکین پانے والوں کے ہاتھ توڑ دیے جائیں ، ورنہ دنیا پر ظالموں کا غلبہ ہوجائے گا۔

تمام مخلوقات آپ صلى الله عليه و سلم کے سایہ رحمت میں پناہ گرین ہیں ۔بلاشبہ آپ صلى الله عليه و سلم ناقابل تسخیرجرنیل اورایک مدبرحکمران تھے ۔ آپ صلى الله عليه و سلم ان بات سے بہ خوبی آاگاہ تھے کہ اگر دنیا کوظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑدیاگیاتوبےبساورلاچارانسان ناقابل تصور جو استبدادکاشکارہوجائیں گے ۔آپ صلى الله عليه و سلم چاہتے تھے کہ بکری کابچہ بھی بھیڑیوں سے بےخطرہوکرزندگی گزارسکے۔درحقیقت حضور صلى الله عليه و سلم بنی نوع انسان کی ہدایت کے طالب تھےاورآپ صلى الله عليه و سلم کو اس بات کی ہمیشہ لاحق رہتی تھی جیساکہ قرآن پاک میں ہے:
 (کہف ۱۸:۶)

(اے پیغمبر !)اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید ان کے پیچھے رنج کر کرکے اپنے تئیں ہلاک کردوگے ۔

تاہم آپ صلى الله عليه و سلم ان لوگوں کے حق میں کیاکرسکتے تھے ،جوکفرپر ٹوٹ گئے اورآپ صلى الله عليه و سلم اورپیغام حق کو مٹانے کے لیے جنگ پر تلے ہوئے تھے ،چناں چہ رحمت اللعالمین ہونے کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم کواپنے دشمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑے ۔ رحمت اللعالمین ہونے کے ناتے ہی غزوہ اُحد میں زخمی ہوکر بھی آپ صلى الله عليه و سلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی کہ اے اللہ !میری قوم کو ہدایت فرما،کیوں کہ نہ نہیں جانتے ۔!

اہل مکہ نے آپ صلى الله عليه و سلم پر ظلم و ستم کی انتہاکردی ،حتی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کوہجرت پر مجبورکردیاگیااور پانچ برسات تک مسلمانوں کوقریش کی لشکر کشی کاسامناکرنا پڑا۔پھر جب اپنی نبوت اکیسویں برس میں آپ صلى الله عليه و سلم نے بغیر کسی خوں ریزی کے مکہ فتح کرلیا تو کسی فیصلے کے منتظر اہل مکہ سے دریافت کیا ۔'لوگو!تمھارے خیال میں میں تم سے کیسا سلوک کرنے والاہوں ؟'سب نے یک زباں ہوکر کہا ۔'بہت اچھا،کیوں کہ آپ صلى الله عليه و سلم کریم ہیں اور کریمباپ کے بیٹے ۔'اس پر آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا ۔'جاؤ ،تم سب آزاد ہو؛ آج کسی سےکو ئی سرزنش نہیں۔اللہ تمھیں معاف کرے ،وہ بڑا رحم فرمانے والاہے ۔'

اس واقعے کے بعد سوا آٹھ سوسال بعد استنبول کی فتح کے وقت ساتویں عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتح نے یہی الفاظ دہرائے ۔یہی اسلام کاآفاقی نظریہ رحمت ہے۔

مومنین کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم کی محبت کوءی حد نہیں ۔ قرآن میں آپ صلى الله عليه و سلم کی اس صفت کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
 (توبہ۹:۱۲۸)

(لوگو!تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئےہیں ۔تمھاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اورتمھاری بھلا۴ی کے بہت خواہش مند ہیں اورمومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور)مہربان ہیں ۔

آپ صلى الله عليه و سلم مومنوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آتے ۔اور[مومنین کے

سرپرست اعلی ہیں اور]پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں ۔

یہی وجہ ہےکہ جب ایک صحابی کاانتقال ہوگیاتوتکفین وتدفین کے وقت موجوداصحاب سے دریافت کیا کہ کیا اس کےذمے کسی کا قرض ہے ؟جب آپ صلى الله عليه و سلم کو معلوم ہواکہ میت مقروض ہے تو درج بالا آیت تلاوت فرمائی اوراعلان کیا ۔ 'میں اس میت کا ولی ہوں، قرض خواہ مجھ سے وصول کرے ۔

آپ صلى الله عليه و سلم کی رحمت کا داءرہ منافقین اورمشرکین تک پھیلا ہواتھا ۔ آپ صلى الله عليه و سلم ان منافقین سے بہ خوبی آگاہ تھے ۔اس کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم نے ان کا راز فاش نہ کیا ،تاکہ وہ ظاہر ایمان لانے کے بعد مکمل شہری حقوق سے مستفید ہو سکیں ۔جب تک وہ منافقین مسلمانوں کے درمیان رہے،حیات بعدازممات سے متعلق ان کے انکار میں کمی بیشی ہوتی رہی ہوگی ،تاہم آپ صلى الله عليه و سلم کے وجودمبارک کی برکت سے اللہ تعالی نے منکرین کو گزشتہ اقوام کے انجام کے برخلاف مکمل تباہی سے بچائے رکھا:

 (الانفال۸:۳۳)

اوراللہ ایسانہ تھا کہ جب تک تم ان میں تھے ، انھیں عذاب دیتا؛اورنہ ایسا تھا کہ وہ بخشش مانگیں اورانھیں عذاب دے۔

اس آیت کے مخاطب عہد رسول صلى الله عليه و سلم ہی کے نہیں، بلکہ قیامت تک کے کفار ہیں ۔اللہ تعالی انسانوں کو اس وقت تک تباہ نہیں کرے گا،جب تک اس کے حبیب صلى الله عليه و سلم کے ماننے والے دنیا میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں توبہ کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا رکھاگیا ہے ،یعنی کوئی بھی شخص اسلام قبول کرکے اللہ تعالی سے بخشش کا طالب ہوسکتاہے ،چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کی کسی کافر سے عداوت درحقیقت اس سے شفقت کے سبب سے ہے ۔ امیر المومنین عمر نے ایک اسی سالہ راہب کودیکھا توآب دیدہ ہوگئے ۔دریافت کیاگیا توفرمایا:اللہ تعالی نے اسے طویل عمر عنایت کی ،لیکن یہ صراطِ مستقیم نہ پاسکا۔

عمر اُسی رسول صلى الله عليه و سلم کے صحابی تھے ،جس نے فرمایاتھا ۔'میں لوگوں پرلعنت ملامت کرنے والانہیں،بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیاہوں۔'

حضور صلى الله عليه و سلم کاارشاد ہے ۔'میں محمد ہوں،احمد ہوں،خاتم النبیین ہوں، حاشر ہوں،التواب ہوں اور نبی رحمت ہوں۔'

جبریل علیہ السلام بھی حضور صلى الله عليه و سلم پر نزول قرآن کے باعث اس رحمت سے فیض یاب ہوئے ۔ایک دفعہ آپ صلى الله عليه و سلم نے جبریل علیہ السلام سے دریافت کیاکہ کیا قرآنی رحمت میں آپ کا بھی حصہ ہے ؟توانھوں نے جواب دیا۔'یارسول اللہ !ہاں ۔' اور اس طرح وضاحت کی :

مجھے اپنی آخرت کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا،تاہم جب یہ آیت نازل ہوئی [بے شک یہ (قرآن )فرشتہ عالی مقام کی زبان کاپیغام ہے ، جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے درجے والا]سردار(اور)امانت دار ہے ۔تو مجھے اپنی آخرت کی ضمانت مل گئی۔

جب ماعز کوایک جرم کے بدلے سزادی گئی توایک صحابی کو کہتے سناگیا ۔ 'اس نے ایک پوشید ہ فعل کو ظاہرکیا اورکتے کی موت مرا۔'حضور صلى الله عليه و سلم نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔'تم نے اپنے بھائی کی غیبت کی ہے۔اس کی توبہ اوراللہ سے طلب مغفرت کو دنیا کے تمام گناہ گاروں پر تقسیم کردیاجائے توان کی مغفرت کے لےلیے کافی ہے۔

بنو مقرن کے ایک آدمی نے اپنی ایک لونڈی کو زَدو کوب کیا تو اس نے حضور صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنےآقاکی شکایت کی ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے اسے بلا بھیجا اور فرمایا۔'تم نے اسے بغیر کسی معقول وجہ کے مارا پیٹا ہے ،لہذا ان اسے آزاد کر

دو۔'اس کے لیے لونڈی کو آزاد کرنا عذاب آخرت کے مقابلے میں زیادہ سہل تھا۔

حضور صلى الله عليه و سلم بچو ں سے بالخصوص شفقت کااظہار فرماتے ۔جب کسی بچےکو آب دیدہ دیکھتے تواس کے قریب بیٹھ جاتے اوراس سے پیار کرتے ۔درحقیقت آپ صلى الله عليه و سلم بچوں کی تکلیف کو ماؤں سے بھی زیادہ محسوس کرتے تھے ۔ ایک دفعہ فرمایا کہ جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو اگرچہ چاہتاہوں کہ قیام کو طویل کروں ،لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتاہوں تو ماؤں کی بے چینی کے پیش نظر اسے مختصر کردیتاہوں۔

آپ صلى الله عليه و سلم بچوں کو اٹھالیتے اور سینے سے لگاتے ۔ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه و سلم نے اپنے نواسوں حسن و حسین کوسینے سے چمٹایا ہواتھا کہ اقرع بن حابس کہنے لگے ۔ 'میرے دس بچے ہیں ،لیکن میں نے کسی کو بوسہ تک نہیں دیا۔'آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'جودوسروں پر رحم نہیں کرتا ،اس پررحم نہیں کیا جائے گا۔'۱۳

ایک اور موقع پر آپ صلى الله عليه و سلم نے ارشاد فرمایا ؛'اگر اللہ نے تمھارے دل سےمحبت چھین لی ہے تو میں کیاکرسکتاہوں۔'۱۴

آپ صلى الله عليه و سلم کایہ بھی ارشادہے کہ تم زمین پر لوگوں سےمحبت کرو، اللہ عرش پرتم سے محبت کرے گا۔۱۵

ایک دفعہ سعد بن عبادہ بیمار ہوگئے ،حضور صلى الله عليه و سلم ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے ۔اپنے پیارے صحابی کی نازک حالت کے پیش نظرآپ صلى الله عليه و سلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،فرمایا۔'اللہ ان آنسوؤں کی وجہ سے سزا نہیں دیتا اور نہ ہی اس غم کی وجہ سے ،البتہ اس کے سبب سزا دیتاہے ۔' اورآپ صلى الله عليه و سلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔۱۶

جب عثمان بن مظعون کاانتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه و سلم آب دیدہ ہوگئے۔تکفین کے دوران ایک عورت کہنے لگی ۔'عثمان ایک پرندے کی مانند اڑے ہو ئے جنت میں

داخل ہو ئیں گے ۔' اس قدر دل شکستگی کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم نے اس کی تصحیح کی اور فرمایا ۔'تمھیں کیسے علم ہوا کہ وہ جنت میں چلے گئے ؟جب کہ مجھے نبی ہونے کے باوجود اس کا علم نہیں ۔'۱۷

بیواؤں اوریتیموں ،ناداروں اورلاچاروں کی ہمیشہ دست گیری آپ صلى الله عليه و سلم کامعمول تھا۔غارحرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد جب آپ صلى الله عليه و سلم گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائیں توآپ صلى الله عليه و سلم کی زوجہ محترمہ خدیجہ نے عرض کیا۔' مجھے امید ہے کہ اللہ آپ صلى الله عليه و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمائے گا۔آپ صلى الله عليه و سلم صادق وامین ہیں ، صلہ رحمی کرنےوالے ، ناداروں اورلاچاروں کی دست گیری کرنے والے ہیں اورمسافروں کی میزبانی کرتے ہیں۔'۱۸

آپ صلى الله عليه و سلم کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ،بلکہ آپ صلى الله عليه و سلم کی ذات حیوانات کے لیے بھی باعث شفقت ہے ۔آپ صلى الله عليه و سلمنے بتایا کہ ایک فاحشہ کو اللہ تعالی نے توفیق دی اوروہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب سے جنت کی حق دار ٹھہری ، اسی طرح ایک اور عورت ایک بلی کو بھوکوں مارنے کے جرم میں جہنم رسید کردی گئی۔۱۹

ایک غزوہ وے واپسی پر کچھ صحابہ نے ایک گھونسلےسے پرندے کے بچوں کو نکال کر پھینک دیا۔جب ان کی ماں پلٹی تواپنے بچوں کو گھونسلے میں نہ پاکر چلانے لگی ۔حضور صلى الله عليه و سلم کوعلم ہوا توسخت ناراض ہو ئے اورحکم دیا کہ انھیں واپس گھونسلے میں رکھ دیاجائے ۔۲۰

ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ ایک پیغمبر کو محض چیونٹیوں کے بل کو جلا دینےکے باعث اللہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑاتھا۔۲۱

ایک دفعہ آپ صلى الله عليه و سلم منی میں تھے کہ صحابہ نے ایک سانپ کو مارنا چاہا، تاہم وہ کہیں چھپ گیا ۔آپ صلى الله عليه و سلم کچھ فاصلے پراس منظر کو دیکھ رہے تھے ،آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا ۔'تم اس کےظلم سے بچ گئے اوروہ تمھارے ظلم سے محفوظ رہا۔'۲۲

ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور صلى الله عليه و سلم نے ایک آدمی کو ذبح کرنے کے لیے بھیڑ کے سامنے چھری تیزکرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا۔'کیاتم اسے ذبح کرنے سے پہلے ماردینا چاہتے ہو۔۲۳

عبد اللہ بن جعفر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلى الله عليه و سلم اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ مدینہ کے کسی باغ میں تشریف لے گئے،جس کے ایک کونے میں ایک اونٹ بلبلا رہا تھا۔حضور صلى الله عليه و سلم کودیکھتے ہی اس کے آنسو نکل آئے ۔آپ صلى الله عليه و سلم اس کے پاس تشریف لے گئے اورتھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھے رہے، پھر اس کے مالک کو خبردار کیا کہ اس کی خوراک پر خصوصی توجہ دے ۔۲۴

انسانی حقوق کےموجودہ عہدے کے دعوے داروں کے برعکس آ پ صلى الله عليه و سلم کی محبت و شفقت تمام جان داروں کواپنے حلقے میں لیے ہوءے تھی ۔اس سلسلے میں آپ صلى الله عليه و سلم نے توازن قائم رکھا ۔آپ صلى الله عليه و سلم کسی بھی انسان کے مقابلے میں زیادہ رحیم و شفیق تھے ۔آپ صلى الله عليه و سلم کو رب کائنات اورخالق ارض و سمانے جن و انس اور دیگر مخلوقات کی ہدایت اورفلاح کے لیے معبوث کیا۔ آپ صلى الله عليه و سلم نے خود کو دوسروں کے لیے وقف کررکھاتھا ، کیوں کہ اللہ تعالی نے آپ صلى الله عليه و سلم کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔

آپ صلى الله عليه و سلم کی رحمت کی جھلک نرم خوئی اور رحم دلی سے ظاہر ہوتی ہے ۔ضد اور اشتعال جیسے جذبات کا آپ صلى الله عليه و سلم سے کچھ تعلق نہ تھا ۔ انھیں اوصاف کے باعث آپ صلى الله عليه و سلم کےراستے کی تمام مشکلات اورکاوٹیں کام یابی اورکامرانی میں تبدیل ہوتی چلی گئیں ۔

بدرکی فتح کے بعدغزوہ اُحدمسلمانان مدینہ کےلیے نہایت نازک مرحلہ تھا ۔ اگرچہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم کی رائے تھی کہ شہر میں قلعہ بندہوکر دشمن کامقابلہ کیاجائے،

تاہم صحابہ کی کثریت نے مدینہ سے باہر کھلے میدان میں لڑنے پر زور دیا۔ پھر جب دونوں لشکر اُحد کے دامن میں آمنے سامنے ہوئے تو آپ صلى الله عليه و سلم نے درہ عینین پر پچاس تیرانداز کو تعینات کیااورحکم دیاکہ بغیر اجازت کے اپنی جگہ نہ چھوڑیں، گوتم یہ دیکھو کہ مسلمان دشمن پر غالب آگئے ہیں۔

جنگ کے پہلے مرحلے میں دشمن کے مقابلے میں ایک تہائی مسلمان مشرکین کو شکست دے ہی چکے تھے کہ انھیں میدان جنگ سے بھاگتے ہوئے دیکھ کر تیر انداز حضور صلى الله عليه و سلمکے حکم کو بھول گئے اوراپنی جگہ سےہٹ گئے ۔اہل مکہ کے نام ور کمانڈر خالد بن ولید نے یہ صورت حال دیکھی تو پہاڑی کاچکر کاٹ کر عقب سے مسلمانون پر حملہ کردیا ۔ میدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے مشرکین پلٹ آئے اورنتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان دشمن کے گھیرے میں آگئے ۔ستر مسلمان شہید ہوگئے ،حتی کہ حضور صلى الله عليه و سلم کو بھی زخم آئے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر آپ صلى الله عليه و سلم میدان میں جنگ کے حامی صحابہ یاان تیراندازوں کی سرزنش کرسکتے تھے ، تاہم آہ صلى الله عليه و سلم نے نہایت نرم روی کامظاہرہ کیا ۔ارشاد ہوتاہے :
 (آل عمران۳:۱۵۹)

(اے محمد!)اللہ کی مہربانی سے تمھاری افتاد مزاج اُن لوگوں کے لیے نرم واقع ہوئی ہے اوراگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تویہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔توان کو معاف کردواور ان کے لیے (اللہ سے )مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کرلیا کرواورجب (کسی کام کا )عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔بے شک اللہ بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتاہے۔

مذکورہ آیت میں وانستہ غلطی کے مرتکب افراد سے قاءد کی طرف سے نرمی اورتحمل کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عوام سے مشاورت کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے ۔

آپ صلى الله عليه و سلم کا عفور درگزردراصل الغفار ،الکریم ، العفور جیسی صفات باری تعالی کا مظہرہے ۔ اللہ تعالی لوگوں کی نافرمانی اورکفر کی وجہ سے ان کا رزق نہیں روکتا۔اگر چہ انسانوں کی اکثریت کفر، شرک یانافرمانی کا ارتکاب کرتی ہے ، اس کے باوجود سورج انھیں روشنی وحرارت سے فیض یاب کرتاہے ، بادل سیراب کرتے ہیں اور زمین مختلف اقسام کے پھلوں اوراناج کے ذریعے رزق بہم پہنچاتی ہے ۔یہ سب اس لیے ہیں کہ اللہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ؛اور یہی صفات باری ہیں ، جن کی جھلک آپ صلى الله عليه و سلم کے صبر وبرداشت اور عفور ودرگزر سے اظہار پاتی ہے۔

حضور صلى الله عليه و سلم خود کوابراہیم علیہ السلام کے مشابہ قرار دیاکرتے تھے، [جن کےبارے میں ارشادباری ہے۔]'بے شک ابراہیم تحمل والے ، نرم دل اوررجوع کرنے والے تھے ۔۲۵[اور اللہ نے آپ صلى الله عليه و سلم کو صفت بیان کی ہے کہ (لوگو!) تمھارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں ،تمھاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمھاری بھلاءی کے بہت خواہش مندہیں ،اور]مومنو ں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور)مہربان ہیں ۔۲۶ابراہیم علیہ السلام لوگوں کی طرف سے ایذارسانی کے باوجود ناراض نہ ہوتے ، حتی کہ دشمنوں تک کی خیرخواہی کرتے۔آپ اللہ کے حضور سربہ سجود ہوتے اور گڑگڑاتے ۔آپ امن پسند او رصلح جو انسان تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ کوآگ میں پھینکاگیاتووہ اللہ کے حکم سے ان کےلیےموجب سلامتی بن گئی ۔۲۷ اسی طرح حضور صلى الله عليه و سلم نے ان لوگوں کے لیے بددعا نہ کی ،جو آپ صلى الله عليه و سلم کو تکالیف پہنچاتے رہے ۔جب آپ صلى الله عليه و سلم کی زوجہ محترمہ اُم المومنین عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو باوجودیکہ اللہ تعالی نے ان کی برات کااعلان فرمادیا، آپ صلى الله عليه و سلم نے تہمت طرازوں کو کوئی سزانہ دی ۔اکثر اوقات یوں بھی ہوتا کہ کوئی بدوی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر ناشائستگی کامظاہر ہ کرتا تو ضبط وتحمل سے کام لیتے ۔کمال حساس ہونے کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم ددست دشمن ہر ایک سے درگز رفرماتے ۔آپ صلى الله عليه و سلم کی حساسیت اس حد تک تھی کہ سوئی کی چبھن کو دوسروں سے زیادہ محسو س کرتے تھے ، اس کے باوجود لوگوں کی ناگوار باتوں کو برداشت کرلیتے تھے ۔

جیسا کہ بیان کیا جاچکاہے کہ غزوہ حنین کے بعد جس وقت حضور صلى الله عليه و سلم مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے ، ذوالخوایصرہ نامی شخص معترض ہوا۔'اے محمد!انصاف سے کام لو۔' آپ صلى الله عليه و سلم کی بعثت کا مقصد ہی عدل وانصاف کافروغ تھا ۔عمر اس گستاخی پر پکار اٹھے ۔'یارسول اللہ !مجھے حکم دیجیے،میں اس منافق کا سر قلم کردوں۔'آپ صلى الله عليه و سلم نے صرف اتنا کہا۔'جب میرے پاس انصاف نہ ہوگا توکس کے پاس ہوگا۔'۲۸

اس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ یہ ایک بغاوت میں شامل ہوگا۔یہ پیش گوئی علی کے دورخلافت میں پوری ہوئی ،جب وہ معرکہ نہروان میں خارجیوں کی طرف سے امیر کے خلاف لڑتا ہوا ماراگیا۔

دس سال تک حضور صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں حاضر رہنے والے انس بن مالک کاکہنا ہے کہ آپ صلى الله عليه و سلم کبھی ناراض نہ ہوئے ۔کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد ایک یہودی عورت [سلام بن مشکم کی بیوی زینب بن حارث ]نے آپ صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری پیش کی ،تاہم پہلا نوالہ منہ میں ڈالنے سے پہلے سے آپ صلى الله عليه و سلم نے اپنے رفقا کواس کھانے سے روک دیا اورفرمایا ۔'بکری مجھے بتا رہی ہے کہ اس میں زہر ملا یا گیاہے ۔' حضور صلى الله عليه و سلم نے اس عورت کوبلا بھیجااور پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟وہ کہنے لگی ۔'اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ صلى الله عليه و سلم کا کچھ نہ بگاڑتا ،لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو میں لوگوں کو آپ سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔' حضور صلى الله عليه و سلم نے قتل کی سازش کے باوجود اسے معاف کردیا۔ ۲۹ بشر [بن براء بن معرور]ایک لقمہ کھاچکے تھے ، جس کے اثر سے وہ انتقالکرگئے [لہذااس حادثے کے بعد اس عورت کو قصاص کے طور پر قتل کردیا گیا۔۳۰]۔

ایک دفعہ جب آ پ صلى الله عليه و سلم صحابہ سے گفتگو کے بعد حجرہ مبارک کی طرف تشریف لے جارہے تھے ،ایک بدوی نےآپ صلى الله عليه و سلم کادامن پکڑ لیا اورکہنے لگا ۔ 'اے محمد !میرا حق مجھے دیجیے۔میرے دواونٹوں کولدوا دیجیے ، چاہے اپنی دولت سے اور چاہے اپنے باپ کی دولت سے ۔' اس گستاخی پر کسی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجائے آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔' یہ جو چاہتاہے ،اسے دے دو۔'۳۱

زید بن سنان نے اپنے قبول اسلام سے قبل کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلى الله عليه و سلم نے کچھ رقم مجھ سے لی ہوئی تھی ،میں مدت معیاد ختم ہونے سے پہلے جاپہنچا اور توہین آمیز لہجے میں کہنے لگا۔' بنو ابو مطلب قرض لوٹاتے وقت ہمیشہ بہانے تراشتے ہیں ۔' یہ دیکھ کر عمر غصے سے بے تاب ہوگئے اورمجھے للکارا۔'اور دشمن خدا !گستاخی کرتاہے ۔اگر ہم میں اوریہود میں معاہدہ نہ ہواہوتاتو میں تیری گردن اڑادیتا۔ ذرا اپنے لہجے پرغورکر۔'توحضور صلى الله عليه و سلم نےمتبسم اندازمیں فرمایا۔'اے عمر! اس آدمی کاقرض اداکردواوراس سےسخت کلام کرنےکےعوض بیس صاع زیادہ دینا ۔'

باقی واقعہ بیان کرتے ہوئے عمر کہتے ہیں کہ جب ہم جارہے تھے توراستے میں زید نے کہا۔'اے عمر !تم مجھ سے ناراض ہوگئے ؟ جب کہ اس طریق کار سے میرا مقصد توراۃ میں پیغمبر آخر الزماں کے متعلق بیان کی گئی نشانیوں کو جانچنا تھا۔توراۃ کی اس آیت میں بیان کیاگیا ہے ۔' ان کا ضبط ان کی ناراضی میں حاوی ہے،وہ صبر و تحمل کے اعتبار سے بہت بلند مقام پر فائز ہیں ۔' ان کاضبط وبرداشت کر پرکھنے کے لیے میں نے یہ سب کچھ کیا۔اب مجھے یقین ہوگیاہے کہ توراۃ کی بشارت کے مطابق آپ

صلى الله عليه و سلم اللہ کے سچے نبی ہیں، لہذا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلى الله عليه و سلم اللہ کےآخری رسول ہیں ۔'۳۲

حضور صلى الله عليه و سلم کے انھیں اوصاف حمیدہ کو دیکھتے ہوئے اپنے وقت کے اس معروف یہودی عالم زین بن سنان نے اسلام قبول کرلیا ۔رضی اللہ تعالی عنہ ۔

حضور اکرم صلى الله عليه و سلم احکامات خداوندی پر بہ ذات خودسختی سے کاربندتھے ۔کوئی شخص نفلی عبادت میں آپ صلى الله عليه و سلم کی ہم سری نہ کرسکتاتھا۔معصوم ہونے کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم رات گئے تک اللہ کے حضور گڑگڑاتے اور مسلسل دودو،تین تین روزے رکھتے ۔آپ صلى الله عليه و سلم کاہر لمحہ یاد الہی میں گزرتا ،تاہم امت پرکسی قسم کابوجھ آپ صلى الله عليه و سلم کو گوارانہ تھا، یہی وجہ ہے کہ حضور صلى الله عليه و سلم نوافل کو مسجد کے بجائے گھر پر ادافرماتے ۔ ایک موقع پرلوگوں نے کسی مسجد کے امام کے بارے میں شکایت کی کہ وہ جماعت کو طول دیتاہے ،آپ صلى الله عليه و سلم منبر پر ےتشریف لے گئے اور فرمایا ۔'لوگوں کونماز سے دور کرنے والو!تم میں سے جو امام ہو،اسے چاہیے کہ جماعت کو طول نہ دے ۔ممکن ہے مقتدیوں میں کوئی بیمارہو یاضعیف ہو یاکسی کوجلدی ہو،۳۳

ایک دفعہ معاذ بن جبل کے بارے میں لوگوں نے آپ صلى الله عليه و سلم سے شکایت کی کہ وہ نماز عشا میں طویل قیام کرتے ہیں ۔ معاذ سے گہری محبت کے باوجود آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا ۔' کیا تم خرابی پھیلانا چاہتے ہو ؟کیا تم خرابی پھیلانا چاہتے ہو؟کیا تم خرابی پھیلانا چاہتے ہو؟'

آپ صلى الله عليه و سلم کی قوت برداشت اورصبر وتحمل نے دلوں کو تسخیر کرلیااور یہی بات مسلمانوں میں اتحادو اتفاق کاموجب بنی۔جیسا کہ اللہ تعالی کافرماناہے کہ (اے محمد!) اگر تم بد خواورسخت دل ہوتے تو یہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔۳۵ جب کہ جن لوگوں نے دیدار سے مستفیض ہوگئے ، وہ صحابی کے مرتبے تک پہنچ گئے ،مثلاً سردار قریش خالد بن ولید کی وجہ سے غزوہ احد میں لشکر اسلام کو شدید جانی نقصان ہوا تھا، تاہم ان کے قبول اسلام سے اگلے دن جب انھیں اسلامی لشکر میں شامل نہ کیاگیا تووہ آب دیدہ ہوگئے ۔

اسی طرح عکرمہ اورعمروبن العاص نے بھی حضور صلى الله عليه و سلم اورمسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں، تاہم قبول اسلام کے بعد کمانڈر اورعامل کی حیثیت سے انھوں نے اسلام کے لیے نہایت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں ۔ابوجہل کے بھائی ابن ہشام نے وصال بنی صلى الله عليه و سلم سے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا اوروہ اتنے صادق مسلمان ثابت ہوئے کہ آپ صلى الله عليه و سلم کی رحلت کے دو سال بعد لڑی جانے والی جنگ یرموک میں زخموں سے چور ہونے اورحالت نزع کے باوجود پانی خود پینے کے بجائے اپنے قریب کراہتے ہوئے حذیفہ کی طرف بڑھادیااوریوں اپنے مسلمان بھائی کوخود پر توجیح دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔۳۶

یہی وہ ہستیاں ہیں ،جنھون نے حضور صلى الله عليه و سلم کی حیات مبارکہ ہی میں اعلی مراتب حاصل کرلیے تھے ۔ ان کا شمار صحابہ کرام میں ہوتاہے ، جو اپنے قبول اسلام کے باعث حضور صلى الله عليه و سلم کے بعد جملہ مسلمانوں سے زیادہ متبرک اوربرگزیدہ ہستیاں ہیں ۔ بیسیوں صدی کے عظیم مفکر اور مجدد سعیدنورسی لکھتے ہیں ۔'مجھے زندگی میں پہلی اورآخری مرتبہ دوران نماز انتہائی خشوع و خضوع عطاکیا ۔میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عبادت وریاضت کے ذریعے قرب الہی تو حاصل کیاجاسکتاہے ،تاہم صحابی کے درجہ حاصل کرنا کسی طور ممکن نہیں ہے۔۳۷

صحابہ حضور صلى الله عليه و سلم کے ترتیب یافتہ افراد تھے ۔صحابہ کی عظمت کایہ بین ثبوت ہے کہ وہ قلیل تعداد کے باوجود محض چند عشروں میں ایشیا اورافریقہ کے دوردراز علاقوں تک اسلام کاپیغام پہنچانے میں کام یاب ہوگئے ؛ اوران علاقوں میں اسلام کی جڑیں اتنی گہرائی تک پہنچ گئیں کہ روئے زمین سے اسے نابود کرنے کی غرض سے جدید ٹیکنالوجی کے باوجود یہ دین ہرروز نئی توانائی حاصل کررہاہے اورحقیقت یہ ہے کہ مستقبل کے انسان کی نجات کا یہی واحد راستہ ہے ۔صحابہ نے دور جہالت کی وحشی قوم کو اس قدر مہذب بنادیاکہ وہ قیامنت تک کے لیے دنیا کے ایک قابل ذکر حصے کی معلم اورتاریخ کی اعلی ترین تہذیبی اقدارکی امین قرارپائی ۔

آپ صلى الله عليه و سلم کمال اعتدال پسند واقع ہوئے ۔آپ صلى الله عليه و سلم کی رحمت اللعالمین انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہوئی اورنہ ہی آپ صلى الله عليه و سلم نے عفوودرگزر کی وجہ سے ظلم وزیادتی اورقانون شکنی سے صرف نظر کیا۔ مثال کے طور پر ایک معرکے میں اسامہ بن زید نے دشمن کےایک سوار کو زیر کرلیا،جب وہ اسے قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا، تاہم اسامہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ موت کے خوف سے مسلمان ہو رہاہے ، اسے قتل کردیا۔آپ صلى الله عليه و سلم کوعلم ہوا توسخت برہم ہوئے اورفرمایا۔'تو نے اس کا سینہ چیر کر دیکھا تھا کہ تجھے معلوم جاتا کہ اس کے دل میں کلمہ پڑھا تھا یا نہیں ۔' (مطلب یہ کہ دل کاحال تجھے کہاں سے معلوم ہوا۔) پھر آپ صلى الله عليه و سلم باربار یہی فرماتے رہے ،یہاں تک کہ میں نے آرزو کی ،کاش !میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تواسلام لانے کے بعد ایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا،کیوں کہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں)۔۳۸

ایک دن ابوذر غفاری نے طیش میں آکر بلال کوتوہین آمیز لہجے میں کہا۔ سیاہ فام عورت کی اولاد!' بلال روتے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورتمام روداد بیان کی ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے ابوذر غفاری کو بلا بھیجا اورفرمایا۔'تم میں ابھی تک جاہلیت کی علامتیں پائی جاتی ہیں ۔' شرمندگی کے مارے ابو ذر زمین پر لیٹ گئے اور عرض کرنے لگے ۔ 'ابو ذر اُس وقت تک سرنہ اٹھائے گا ، جب تک بلال اپنا پاؤں اس کی گردن پر نہ رکھ دے ۔' اس پر بلال نے انھیں معاف کردیا۔۳۹

یہ حقیقت ہے کہ عرب کی وحشی اورغیر مہذب قوم میں باہمی اخوت اور احترام انسانیت کی خصوصیات اسلام کی بہ دولت ہی پیدا ہوسکیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads