Dec 10, 2014

اسلام کیا ہے؟

 اگر آپ اسلام کا مطالعہ انگلش میں کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔۔۔
What is Islam ?


اسلام کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

جواب
اسلام کا لفظ س، ل، م، سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے :

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِه وَيَدِه.

’’بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

1. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده، 1 : 13، رقم : 10
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب : تفاضل الاسلام و ای اموره أفصل، 1 : 65، رقم : 40

اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ ’اسلام‘ بنا ہے۔ لغت کی رو سے لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے۔

1۔ اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَهْدِيْ بِهِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ.

’’اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے۔‘‘

المائدة، 5 : 16

2۔ ’اسلام‘ کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

اِذْ قَالَ لَه رَبُّه اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo

’’اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا : (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے : میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیاo‘‘

البقرة، 2 : 131

3۔ ’اسلام‘ میں تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘

البقرة، 2 : 208

4۔ اسی طرح ایک بلند و بالا درخت کو بھی عربی لغت میں السّلم کہا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا معانی کے لحاظ سے لغوی طور پر اسلام سے مراد امن پانا، سر تسلیم خم کرنا، صلح و آشتی اور بلندی کے ہیں۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ جن گمبھیر مسائل میں ہم گھرے ہوئے ہیں ، ان سے ہمیں نجات ملے ، ہماری مشکلات ختم ہوں
اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور عہد شکنی اور اسلام سے انحراف کی سزا سے ہم بچ جائیں
تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، اور وہ ہے :
قرآن و سنت کی تعلیمات کے نفاذ کا یہ راستہ ہے اسلام کو اپنانے اور اپنی زندگیوں کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا ۔
محض چند عبادات کو رسوم و عادات کے طور پر ادا کر لینا ، اسلام نہیں ہے
زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی ہدایات و تعلیمات اور اس کے اصول و ضوابط کو اختیار کرنا اسلام ہے ۔
جیسے قرآن نے اہل ِ ایمان سے خطاب کر کے کہا ہے

اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ ۔
( البقرہ : ٢٠٨ )

جن لوگوں نے کہا کہ ، ہمارا رب اللہ ہے ، پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ۔ ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔
(سورۃ : حٰم السجدۃ ، آیت:٣٠)

اس آیت میں اُن لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے ، اس سے انحراف نہیں کیا۔
یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت و اطاعت کی۔

سفیان بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں :
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
کہو کہ '' میں اللہ پر ایمان لایا '' اور اس پر ڈٹ جاؤ !!
( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب : جامع اوصاف الاسلام )

اسلام کے معنی ہی ، خود سپردگی ، اللہ کے حکم کے آگے سر جھکا دینا اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینا ہے۔
اس میں من مانی کارروائیوں کی اجازت نہیں ہے ، اس لیے کہ اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خطاب کر کے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے :

بھلا جس شخص نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ، کیا ( اے پیغمبر ! ) آپ اس کے وکیل ہیں ؟
( الفرقان : ٤٣)

یعنی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اسے اللہ کی گرفت سے چھڑا سکتے ہیں ؟

اسی طرح اسلام میں غیروں کی نقالی بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
'' جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ، وہ انہیں میں سے ہے ۔ ''
 ( سنن ابي داؤد ، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ، رقم الحدیث : ٤٠٣٣)



کچھ اپنے الفاظ میں

٭1٭
اسلام اللہ کا بھیجا ہوادین ہے۔ اس کوبنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کا تعلق ایمان و اخلاق سے ہے اور دوسرے کا قانون سے۔ ایمان میں کچھ حقائق ہیں، جن کو ہمیں ماننا ہے اور اپنی اخلاقی تطہیر کرنی ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے۔ انبیا علیہم السلام اصلاً اسی مقصد کے لیے آئے ہیں۔ یعنی انسان کو ان حقائق کے بارے میں علم دیا جائے جن کو وہ خود دریافت نہیں کر سکتا تھا۔ اسے بتایا جائے کہ اس کا ایک پروردگار ہے، اسے اس کے سامنے ایک دن جواب دہ ہونا ہے، اس پروردگار کی رضا جوئی کے لیے اسے زندگی بسر کرنی ہے۔ یہ بنیادی حقیقت ہی اصل دین ہے۔

دین دنیا کے اندر انسان کے تزکیے کی دعوت ہے۔ تزکیہ قرآن مجید کی اصطلاح ہے۔ اسی کو قرآن مجید دین کا مقصد کہتا ہے۔ اس کا مطلب اپنے آپ کو اخلاقی لحاظ سے پاک کرنا، اپنے بدن کی تطہیر کرنا، اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو پاکیزہ رکھنا ہے۔ یہ تزکیہ انسان کی انفرادی زندگی سے بھی متعلق ہے، اور اجتماعی زندگی سے بھی۔

اس کے بعد قانون ہے۔ قانون سے مراد وہ احکام ہیں جن کی پابندی آپ کو کرنا ہوتی ہے اور یہ احکام چیزوں کو ایک قاعدے ضابطے میں باندھ دیتے ہیں۔ اسی کو شریعت کہتے ہیں۔ شریعت کا لفظ قانون ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تورات کو اسی وجہ سے تورات کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف قانون ہے۔ تورات کا لفظ قدیم عبرانی زبان میں قانون ہی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ قرآن مجید اس مقصد کے لیے لفظ 'کتاب' بھی استعمال کرتا ہے اور 'شریعت' بھی۔ قانون کا تعلق زندگی کے بہت سے معاملات سے ہے۔ قرآن نے سیاست، معیشت، جہاد سے متعلق بھی قانون دیا ہے اور دعوت و تبلیغ سے متعلق بھی۔

اس میں جو ایمانیات ہیں، وہ پانچ ہیں۔ اللہ پر ایمان، اللہ کے فرشتوں پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اللہ کے نبیوں پر ایمان اور قیامت کے دن پر ایمان۔ یہ چیزیں مسلمان کو مسلمان کی حیثیت سے لازماً ماننا ہوتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان میں سے ایک چیز کا بھی اگر آپ انکار کرتے ہیں تو آپ ایک بڑی حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں۔ اللہ اس کائنات کا پروردگار ہے، اس کے فرشتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ انسانوں کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے۔ انسانوں میں سے وہ پیغمبروں کا انتخاب کرتا ہے۔ پیغمبروں کو قول فیصل کی حیثیت سے وہ اپنی کتابیں دیتا ہے اور کتابیں جس چیز کے بارے میں خبردار کرتی ہیں، وہ قیامت کا دن ہے۔ انسان کو ایک دن مرنا ہے اور موت کے بعد ایک عظیم دن واقع ہونے والا ہے، اور اس دن انسان کو اپنے پروردگار کے سامنے جواب دہ ہونا ہو گا۔ یہ پوری کی پوری ایک ہی بات ہے جس کو انسان مانتا ہے۔ جب انسان اس کو مانتا ہے تو پھر وہ ایمان کے ساتھ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔

٭2٭
اسلام ، آخری آسمانی دین بلکہ دیگر ادیان کے مقابلہ میں کامل ترین دین ہے ، دینِ اسلام کے ماننے والوں کو مُسلم یا مسلمان کہا جاتا ہے اس وقت دنیا کی کل آبادی میں سے ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں ۔

دین اسلام کی رو سے پروردگارِ عالم نے حضرت محمد بن عبد اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنا آخری رسول بنا کر بھیجا اور اپنے مقرّب فرشتے حضرت جبرائیل امین کے ذریعہ قرآن مجید کو آخری آسمانی کتاب کے عنوان سے پیغمبراکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر نازل کیا ۔

اسلام کی نگاہ میں حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، ایوب ، خضر ، موسیٰ ، داود، سلیمان ، زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السّلام اور دیگر تمام انبیائے الٰہی عظیم شخصیات اور معصوم افراد تھے جنہوں نے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ، انہوں نے لوگوں کو توحید و وحدانیت ، عدل و انصاف ، محبّت ، مساوات اور بھائی چارہ ،عفّت و پاکدامنی ، برائیوں سے دوری اور اجتناب ، اچھے اخلاق ، عبادت اور بندگی نیز روزِ قیامت پر ایمان کی دعوت دی ، انہوں نے ظالموں سے مقابلہ کیا ، اس راستہ میں بہت سے انبیاء درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ، سرکارِ دو عالم حضرت ِ محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلسلۂ نبوّت و رسالت کی آخری کڑی ہیں ،آنحضرتﷺ نے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات کو زندہ کیا اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

دینِ اسلام کی بنیاد" توحید " اس کا سب سے اہم رکن "ولایت "اور اس کا سب سے میٹھا پھل "اخلاقی محاسن "اور مکارم ہیں ۔ دینِ اسلام کی رو سے پروردگارِعالم نے آئمّۂ معصومین علیہم السّلام کو اس لئے امامت کی ذمّہ داری سونپی ہے تاکہ وہ پیغمبراکرم ﷺ کی رحلت کے بعد امّت کی ولایت اور ہدایت کا بیڑا اٹھائیں، سلسلۂ امامت کی پہلی فرد حضرت علی علیہ السّلام اور آخری فرد حضرت مھدیٔ موعود ہیں۔ قرآنی آیات اور اسلامی عقائد کی رو سے حضرت عیسیٰ مسیح (ع) کو سولی پر نہیں لٹکایا گیا بلکہ وہ آسمان پر عروج کر گئے ہیں اور آخری زمانہ میں آسمان سے نیچے اتریں گے اور امام مھدی(عج) کے انقلاب میں ، عدل و انصاف پر مبنی عالمی حکومت کے قیام میں ان کی مدد فرمائیں گے ۔ اسلامی عقائد کی رو سے انسان جاوید اور پایندہ ہے ،موت کی وجہ سے اس کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا کے خاتمہ کے بعد ایک دوسری دنیا بھی ہے جہاں نیک کردار اور اچھے لوگ جنّت میں جائیں گے انہیں ان کے اعمال کا بہترین صلہ دیا جائے گا ، بد کردار اور برے لوگ جہنّم میں داخل ہوں گے ، وہ اپنے ظلم و ستم اور برے اعمال کی سزا پائیں گے۔ ہر وہ شخص جو دل سے شہادتین (خدا کی وحدانیت اور پیغمبراکرمﷺ کی رسالت) پر اعتقاد رکھے اور زبان سے اس کا اقرار بھی کرے ، مسلمان شمار ہوتا ہے ، اوراس پر اسلام کے تمام احکام جاری ہوتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads