رسول اکرم صلى الله عليه و سلم ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور مغربی سمت جبل اُحد کی طرف روانہ ہوئے ،جس کے دامن میں کچھ چراگاہیں بھی تھیں ، ابن ہشام کے مطابق مدینہ اوراُحد کے درمیان عبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں کولے کر اسلامی لشکر سے الگ ہوگیا۔۴ لڑائی سے کچھ دیر قبل رونماہونے والے اس واقعہ سے اسلامی لشکر میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی اوربنوسلمہ اوربنوحارثہ کے لوگوں نے بھی علیحدگی کے متعلق سوچنا شروع کردیا، [اُس وقت تم میں سے دو جماعتوں (بنوسلمہ اور بنوحارثہ)نے جی چھوڑدینا چاہا،مگر اللہ ان کا مددگار تھا۔اورمومنوں کوخدا ہی پربھروساکرنا چاہیے ۔' ۷] یوں وہ اس اقدام سے بازرہے.
نبی کریم صلى الله عليه و سلم باقی سات سوجاں نثاروں کے ساتھ آگے بڑھے ۔مشرکین مکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اورجنگی سازوسامان بھی ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے صف بندی اس طرح کی کہ پہاڑلشکر کی پست پر تھا اورمخالف سامنے ،تاہم پیچھے کی طرف ایک گھاٹی ایسی تھی ،جہاں سے دشمن اچانک حملہ آور ہوسکتاتھا،چناں چہاس مقام پر حضور صلى الله عليه و سلم نے عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیراندازوں کاایک دستہ تعینات کردیا اورانھیں ہدایت کردی گئی کہ ادھر سے آنے والوں کوروکےرکھنا اورکسی بھی صورت اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ اگر تم لوگ دیکھو کہ پرندے ہمیں اُچک رہے ہیں ،تب بھی اپنی جگہ سے مت ہلنا۔۸
مصعب بن عمیر ایک بار پھر حضور صلى الله عليه و سلم کے علم سے سرفراز ہوئے ۔زبیر بن عوام کو سواروں کی قیادت سونپی گئی اورحمزہ کوپیدال فوج کی ۔یوں یہ لشکر جنگ کے لیے تیار ہوگیا ۔اپنے ساتھیوں کے حوصلے بڑھانے کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے تلوار بے نیام کی اورکہا۔ 'کون ہے،جو اس تلوار کا حق اداکرے ۔'ابودجانہ نے دریافت کیا۔'حضور ! اس کاحق کیاہے ؟'فرمایا ۔'اس کاحق یہ ہے کہ اس سے دشمن کواس قدر قتل کروکہ یہ ٹیڑھی ہوجائے۔' انودجانہ نے تلوارلی اوردشمن پر ٹوٹ پڑے ۔' ۹
سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن بن جحش نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ ان کا مقابلہ دشمن کے بہادرترین افراد سے ہو، جب کہ حضور صلى الله عليه و سلم کے چچا شیرخدا حمزہ اپنے سینے پرشترمرغ کاپر سجائے ہوئے تھے ۔اس موقع پر آیات نازل ہوئیں ، جن میں سابقہ انبیا کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔ارشاد ہوتاہے:
(عمران ۳: ۱۴۶تا۱۴۸)
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں ، جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ (اللہ کے دشمنون سے )لڑے ہیں ۔تو جو مصیبتیں ان پر راہ خدا میں واقع ہوئیں ،ان کے سبب انھوں نے نہ ہمت ہاری اورنہ بزدلی کی ،نہ (کافروں سے )دبے ۔اوراللہ استقلال رکھنے والوں کودوست رکھتا ہے اور (اس حالت میں )ان کے منہ سے کوئی بات نکلتی تویہی کہ اے پرورگار !ہمارے گناہ اورزیادتیاں ،جو ہم اپنے کاموں میں کرتے رہے ہیں، معاف فرما اورہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت کر۔تواللہ نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیااور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ(دے گا)اور اللہ نیکوکاروں کو دوست رکھتاہے.
جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں نے کفارکو اس قدر آسانی سے شکست سے دوچار کردیا کہ ابودجانہ حضور صلى الله عليه و سلم کی عطاکی ہوئی تلوار لہراتے ہوئے قریش کی صفوں کو چیرتے ہوئے اندر تک گھس گئے ۔یہاں قریش کے سردار ابوسفیان کی بیوی (جوانھیں جوش ولولہ دلارہی تھی )پر تلوا راٹھائی ،لیکن (جب اس کی ہائے پکار سے پتاچلا کہ یہ عورت ہے تو)یہ سوچ کر کہ حضور صلى الله عليه و سلم کی تلوار پر حرف نہ آئے ،اسے چھوڑ دیا۔ ۱۰
علی نے کفارکے علم بردار طلحہ بن ابی طلحہ کو قتل کردیا ۔اس کے بعد علم بلند کرنے والوں کوعلی ،عاصم بن ثابت او رزبیر بن عوام نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعدازاں مسلمان جنگ جوؤں میں حمزہ ،علی ،ابودجانہ،زبیر بن عوام اورمقدادبن عمرونے دشمن کی صفیں الٹ کررکھ دیں ،جس سے دشمن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مشرکین میدان جنگ سے بھاگ نکلے تومسلمان مال غنیمت سمیٹنے لگے ۔ادھر جب تیر اندازوں نے یہ منظر دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ اللہ نے دشمن کو شکست سے دوچارکردیاہے اورہمارے بھائی غنیمت سمیٹ رہے ہیں ، لہذا پمیں بھی ان کے ساتھ شاملہوجانا چاہیے ۔
عبداللہ بن جبیران کے پیچھے لپکے اور حضور صلى الله عليه و سلم کاحکم یاد دلاکرانھیں روکتے رہے ،لیکن وہ کہنے لگے ۔ 'جو صورت حال رونما ہوچکی ہے ،اس کے پیش نظرتو آپ صلى الله عليه و سلم نے ایسا نہیں فرمایاتھا ۔' چناں چہ چند تیر اندازوں کے علاوہ باقی [چالیس تیرانداز] مال غنیمت کی طرف دوڑپڑے ۔قریش کے شہ سوار خالدبن ولید نے مسلمانوں کو مال واسباب میں مشغول پایا تو اس موقع سے فائدے اٹھانے کے لیے تیزی سے احد کا چکر کاٹ کر باقی تیر اندازوں پرحملہ کردیا۔عبداللہ بن جبیر اوران کے چند ساتھیوں نے بھرپور مزاحمت کی ، لیکن وہ دشمن کو روکنے میں کام یاب نہ ہوسکے ۔
صورت حال کی تبدیلی کے بعد شکست خوردہ کفار پلٹے اور سامنے سے مسلمانوں پر بھرپور حملہ کرکے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔اس دو طرفہ یورش سے مسلمانوں میں ابتر ی پھیل گئی ۔دشمن آپ صلى الله عليه و سلم کوکسی بھی صورت گرفتا رکرنا چاہتاتھا، اس لیے اس نے ہر طرف سے تلواروں ،نیزوں اورپتھروں سے حملہ کردیا۔اس موقع پر چند جاں نثاروں نے بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے آپ صلى الله عليه و سلم کے گرد حفاظتی حصار بنائے رکھا۔
ابوسفیا ن کی بیوی ہند،جس کا باپ ا۲وربھائی بدرمیں قتل کردیے گئے تھے ، اپنے حبشی غلام کو حمزہ کے قتل پر اکسایا۔جنگ کا پانسہ پلٹا تو حمزہ بھپرے ہوئے شیر کی طرح کفار کی صفوں میں گھس گئے ۔وہ کم وبیش ان کے تیس جنگ جوؤں کو موت کے گھاٹ اتارچکے تھے کہ وحشی نے ،جو موقع کی تاک میں تھا،نیزہ پھینکا ،جوناف کے تھوڑا سانیچے لگا اورران کو چیرتاہوا آگے نکل گیا ۔ہندآگے بڑھی ،ان کا پیٹ چاک کرایا، لاش کی بے حرمتی کی اوران کاکلیجہ نکال کر چبایا۔ ۱۱
مصعب بن عمیر حضور صلى الله عليه و سلم کاوفاع کرتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوگئے ،مصعب کی شکل وصورت حضور صلى الله عليه و سلم سے مشابہ تھی ،اس لیے ابن قمیہ پکارنے لگاکہ محمد صلى الله عليه و سلم(نعوذباللہ)قتل کردیے گئے ۔اسی اثنامیں آپ صلى الله عليه و سلم تلوار کے وار اور پتھروں کی ضربوں سے زخمی ہوکر [پوشیدہ ]گڑھے میں گرگئے ،خون بہنے لگا ، جسے آپ صلى الله عليه و سلم نے ہاتھوں سے صاف کیا اوردعا کی ۔ 'اے اللہ !میری قوم کو معاف فرما، کیوں کہ وہ سچائی نہیں جانتی ۔' ۱۲
جب حضور صلى الله عليه و سلم کی شہادت کی افواہ پھیلی توصحابہ کرام حوصلہ ہار بیٹھے ،تاہم علی ،ابودجانہ،سہل بن حنیف،طلحہ بن عبیداللہ،انس بن نضیر،عبداللہ بن جحش بڑی بے جگری سے لڑتےرہے ۔بعض مسلمان خواتین بھی اس نازک مرحلے پر میدان جنگ میں کود پڑیں ۔ان میں بنودینار کی ایک خاتون سمیرا اپنے شہید شوہر،باپ او ربھائی کے بجائے حضور صلى الله عليه و سلم سے استفسار کرتی رہیں۔آپ صلى الله عليه و سلم کودیکھا توپکار اٹھیں۔ 'یارسول اللہ !آپ سلامت ہیں تومیرے نزدیک کسی غم کو کوئی اہمیت نہیں ۔ ۱۳
حضور صلى الله عليه و سلمکےجاں نثاروں میں شامل ایک خاتون اُم عمارہ کے متعلق آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ صبر وتحمل کامالک کون ہوسکتاہے ؟اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں ے عرض کیا۔ 'یارسول اللہ !اللہ سے دعاکیجیے کہ جنت میں مجھے آپ کاتقرب نصیب ہو۔' رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے دعا فرمائی۔ 'اے اللہ!جنت میں اسے مرا قرب عطافرما۔' اس کے جواب میں وہ کہنے لگیں ۔ 'اب مجھے کچھ بھی ہو جائے ، مجھے کوئی رنج نہیں ۔' ۱۴
حضور صلى الله عليه و سلم سے متعلق اس افواہ کوسنتے ہی انس بن نضر[کہنے لگے کہ جس عظیم مقصد کے لیے حضور صلى الله عليه و سلم نے اپنی جان قربان کردی ،تم بھی اسی مقصد کے لیے اپنی جان فداکردو۔یہ کہتے ہوئے وہ دشمن پر ٹوٹ پڑے اور]بڑی بہادری سے لڑتے ہوئؕے شہید ہوگئے ۔ان کے جسم پر اسی زخم تھے ۔ ۱۵ سعد بن ربیع کو دیکھا گیا توان کے جسم پر ستر زخم تھے اور وہ نزع کی حالت میں کہہ رہے تھے ۔ 'حضور صلى الله عليه و سلم کومبادک باد پہنچا دیجیے ۔مجھے احدکے عقب سے جنت کی خوش بو آرہی ہے۔' ۱۶
انودجانہ اورسہل بن حنیف کے علاوہ علی بھی حضور صلى الله عليه و سلم کے گردڈھال بنے ہوئے تھے ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے پہاڑی پرچڑھ آنے والے کفارکی طرف اشارہ کیا توعلی نے انھیں پیچھے دھکیل دیا۔پھر دوسری اورتیسری مرتبہ بھی علی نے دشمن کوق نیچے اترنے پر مجبور کردیا۔ ۱۷
حضور صلى الله عليه و سلم کے جاں نثاروں کی جرات وشجاعت کےباوجود شکست کے آثاریقینی تھے کہ اتنے میں کعب بن مالک آپ صلى الله عليه و سلم کودیکھتے ہی پکار اٹھے ۔ 'مبارک ہو، یہ ہیں حضور صلى الله عليه و سلم۔' یہ سنناتھا کہ منتشر صحابہ ہر طرف سے آپ صلى الله عليه و سلم کی جانب دوڑے ،آپ صلى الله عليه و سلم کے گرد حصار بنالیا اورپہاڑکی گھاٹی میں لے گئے ۔
ہزیمت کے اسباب:
اس شکست کے اسباب جاننے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ حضور صلى الله عليه و سلمکے بعد دنیا میں افضل ترین ہستیاں صحابہ کرام ہی کی ہیں ۔وہ اس عظیم ہستی کے رفقا اورتربیت یافتہ تھے ، جو وجہ تخلیق کائنات ہے اورجنھیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاگیا ہے ۔قاعدہ ہے کہ درجات کی بلند ی سے ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے ،لہذا اطاعت الہی اوراطاعت رسول صلى الله عليه و سلم میں صحابہ کرام کوزیادہ سنجیدہ ہوناچاہیے تھا ۔قرآن میں ارشادہوتاہے: (احزاب ۳۳: ۳۰تا۳۲)
اے پیغمبر کی بیویو!تم میں سے جوکوئی صریح ناشائستہ حرکت کرے گی ، اس کو دونی سزادی جائے گی اوریہ (بات )اللہ کو آسان ہے ۔اورجو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار رہے گی اورعمل نیک کرے گی ،اس کو ہم دونا ثواب دیں گے اوراس کے لیے ہم نے عزت کی روزی تیار کررکھی ہے ۔اے پیغمبر کی بیویو!تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔]
اسی طرح صحابہ سے سرزد ہونے والی معمولی لغرش بھی ان کی بزرگی وعظمت کے سبب سخت گرفت کا موجب بن سکتی ہے ۔یہی وہ ہستیاں ہیں ،جن کے اخلاق واعمال آئندہ نسلوں کے لیے ایک نمونہ تھے ،اسی لیے ان سے ایمان واخلاص اورعبادت ومعاملات میں بلند ترمقام پر متمکن ہونے کا مطالبہ تھا۔
اللہ تعالی نے اس جماعت کو بہترین جماعت قرار دیاہے ، جونیکی کاحکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اوراللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ۱۸ اوراسی طرح انھیں امت وسط کہا گیا ہے،تاکہ وہ لوگوں پرگواہ بنیں اورنبی کریم صلى الله عليه و سلم اُن پر ۔ ۱۹ مدینہ کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں میں ایک گروہ منافقین کا بھی تھا، لہذا اللہ تعالی ان دوگروہوں میں امتیاز واضح کرنا چاہتاتھا۔ ۲۰ غزوہ احدنے مومنوں اورمنافقوں کے درمیان خط کھینچ دیااوریوں اسلامی ریاست پہلے سے زیادہ مستحکم اورناقابل تسخیر ہوگئی ۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد ان وجوہات کی نشان دہی کی جاتی ہے ، جن کی موجودگی میں جنگ کے دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرناپڑا۔
مجاہدین کے کمانڈرانچیف احکامات خداوندی کے پیش نظرمدینہ میں قلعہ بند ہوکر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے ، تاہم چند کم تجربہ کار جوشیلے نوجوانوں نے شوق شہادت میں کھلےمیدان میں جنگ کو ترجیح دی ۔یہ فیصلہ درست نہ تھا،کیوں کہ نبی اکرم صلى الله عليه و سلم ،جوہر جنگ میں ایک نئی تدبیر اختیار کرتے تھے ،بہ خوبی جانتے تھے کہ خود قریش کھلے میدان میں لڑنے کا ذہن بنا کر روانہ ہوئے ہیں۔
صحابہ کی طرف سے دوسری بڑی کوتاہی اس وقت سرزد ہوئی ،جب حضور صلى الله عليه و سلم کی سخت ہدایت کونظر انداز کرتے ہوئے تیر اندازوں نے جبل رماۃ کو چھوڑ دیا۔حضور صلى الله عليه و سلم کے اس فرمان سے کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ،اگر چہ تم یہ دیکھو کہ میدا جنگ میں برسرپیکار تمھارے بھائی کوپرندے اچک رہے ہیں، انھو ں نے روگردانی کی اورمال غنیمت کی طرف دوڑ پڑے ۔
مسلمانوں کے لشکر کا ایک تہائی گروہ ،جومنافقین ہر مشتمل تھا، احد کے راستے ہی میں مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کرکے مدینہ پلٹ گیا، جس سے مسلمان لشکر میں بددلی پھیل گئی۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ بنوسلمہ اوربنو حارثہ کو بھی بہ مشکل واپسی سے روکا گیا۔اس کے باوجود منافقین کاایک طبقہ لشکر میں موجودتھا،جومجاہدین کےحوصلے پست کررہاتھا۔
صحابہ کی ایک خاصی تعداد خاطر خواہ صبر وتحمل کامظاہر ہ نہ کرسکی ۔ انھوں نے تقوے کے بنیادی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیاوی مال ومتاع کوترجیح دی ۔
مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جب تک حضور صلى الله عليه و سلم ان کے درمیان موجود ہیں، اللہ تعالی ان کو نصرت بھیجتا رہے گا اورایسی صورت میں کفاران پر ہرگز غالب نہیں آسکیں گے ،تاہم اس ہزیمت سے انھیں معلوم ہوگیا کہ نصرت الہی کے لیے [ایمان وعبادت کے علاوہ ]فہم وفراست ،غور وفکر ،حکمت عملی اورثابت قدمی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔انھیں اس بات کاعلم ہوگیا کہ یہ دنیا آزمائش گاہ ہے ۔
ارشادباری تعالی ہے
(آل عمران ۳ : ۱۳۷تا۱۴۱)
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ،توتم زمین میں سیرکرکے دیکھ لوکہ جھٹلانے والوں کو کیساانجام ہوا۔یہ (قرآن )لوگوں کے لیے بیان صریح اوراہل تقوی کے لیے ہدایت اورنصیحت ہے ۔اور(دیکھو) بے دل نہ ہونا اورنہ کسی طرح کاغم کرنا ،اگر تم مومن (صادق)ہو توتم ہی غالب رہوگے ۔اوراگر تمھیں زخم (شکست)لگاہے تو ان لوگوں کوبھی ایسا زخم لگ چکاہے ۔اوریہ دن ہیں کہ ہم ان کولوگوں میں بدلتے رہتے ہیں ۔ اوراس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو متمیز کردے اور تم میں سے گواہ بنائے ۔ اوراللہ بے انصافوں کوپسند نہیں کرتا۔اوریہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو خالص(مومن ) بنادے اورکافروں کو نابود کردے ۔
v وہ صحابہ ؓ جوکسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے ،اللہ کے حضور اپنی شہادت کی دعائیں کیاکرتے تھے ۔وہ دین اسلام کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے دیدارالہی سے مستفیض ہوناچاہتے تھے ۔ان میں سے چند اس غزوہ میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ، مثلا عبد اللہ ؓ نم جحش ،انس ؓ بن نضر،سعدؓ بن ربیع،عمروؓ بن جموح بن زیداورابو سعدؓ بن خثیمہ ۔تاہم کچھ صحابہ کرام ؓ کواس لمحے کا مزید انتظا رکرنا پڑا۔
قرآن نے ان سب کی توصیف ان الفاظ میں بیان کی ہے : (احزاب ۳۳ : ۲۳)
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جواقرارانھوں نے اللہ سے کیاتھا، اسکوسچ کردکھایاتوان میں ایسے ہیں،جواپنی نذرسے فارغ ہوگئےاوربعض ایسے ہیں کہ انتظارکررہے ہیں اورانھوں نے (اپنے قول کو)ذرابھی نہیں بدلا۔
v ہر طرح کی کام یابی اللہ کے قبضے قدرت میں ہے ۔وہ جو چاہتاہے ،کرتاہے اوروہ کسی کے آگے جواب دہ بھی نہیں ۔توحید کاایمان کاتقاضا ہے کہ ایک مومن بہر صورت اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی چیز کواپنے لیے مخصوص نہ کرلے ۔غزوہ احد میں شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدر میں قطعی کام یابی پر مسلمانوں میں احسا س تفاخر پیدا ہوگیا تھا اوروہ اسے اپنی حکمت عملی اور بعض مادی اسباب سے منسوب کرنے لگے تھے ۔
v احد میں ناکامی کاایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش کے لشکر میں خالد بن ولید، عکرمہ بن ابوجہل ،عمر وبن العاص اورابن ہشام وغیرہ ایسے قابل ذکر جنگ جو شامل تھے ، جنھیں مستقبل میں من جانب اللہ اسلام کا شرف حاصل تھ ۔مستقبل میں ان کی طرف سے اسلام کی خدمات کے پیش نظر اللہ تعالی ان کے احساس تفاخرکو مکمل طور پر مٹانے سے بچانا چاہتاتھا۔اسی کے پیش نظر ترکی کے ایک عظیم مفکر بدیع الزماں سعید نورسی کہتے ہیں کہ غزوہ احدکے دوسرے مرحلے میں مستقبلکے صحابہ نے حال کے صحابہ کرام ؓ کوشکست سے دوچار کردیا۔۲
درج ذیل آیات سے اس شکست کی وجوہات اور عواقب و نتائج اوراس کے پس منظر میں پوشیدہ حکمتوں کی نشان دہی ہوتی ہے :
(آل عمران ۱۴۲:۳)
کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ(بے آزمائش ) بہشت میں جاداخل ہوگے ،(حالاں کہ ) ابھی اللہ نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور(یہ بھی مقصود ہے کہ )وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے ۔
(آل عمران ۳ :۱۴۴تا۱۴۵)
اور محمد (صلى الله عليه و سلم) تو صرف (اللہ کے )پیغمبر ہیں ، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ۔بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ؟)اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تواللہ کاکچھ نقصان نہیں کرسکے گا۔ اورخد اشکر گزاروں کو(بڑا )ثواب دے گا ۔اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر مرجائے ۔(اس نے موت کا)وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا )بدلہ چاہے ،اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالب ثواب ہو، اُس کو وہاں اجر عطا کریں گے ۔اور ہم شکر گزاروں کو عن قریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۵۲تا۱۵۳)
اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا، (یعنی ) اُس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کررہے تھے ، یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے ، اللہ نے تم کو دکھا دیا ۔ اس کے بعد تم نے ہمت ہاردی اور حکم (پیغمبر ) میں جھگڑا کرنے لگے اور اُس کی نافرمانی کی۔ بعض تو تم میں سے دنیا کے خواست گار تھے اور بعض آخرت کے طالب ۔ اس وقت اللہ نے تم کو ان (کے مقابلے )میں پھیر (کر بھگا )دیا،تاکہ تمھاری آزمائش کرے اور اس نے تمھارا قصور معاف کردیا۔ اوراللہ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والاہے (وہ وقت بھی یادکرنے کے لائق ہے) جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ تم کو تمھارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھےتو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا ،تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے ، اس سے تم اندوہ ناک نہ ہو ۔اور اللہ تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔
(آل عمران ۳: ۱۵۵)
جولوگ تم میں سے (احدکے دن)جب کہ (مومنوں اورکافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں ، (جنگ سے )بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلادیا، مگر اللہ نے ان کا قصور معاف کردیا۔ بے شک اللہ بخشنے والا (اور)بردبارہے۔
(آل عمران ۳ : ۱۵۶تا ۱۵۸)
مومنو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا ، جو کفر کرتے ہیں اوران کے (مسلمان )بھائی جب (اللہ کی راہ میں )سفر کریں (اور مرجائیں ) یا جہاد کو نکلیں (او رمارے جائیں ) توانکی نسبت کہتے ہیں کہ اگروہ ہمارے پاس رہتے ہیں تونہ مرتے اورنہ مارے جاتے ۔ ان باتوں سے مقصو د یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کے دلوں میں افسو سپیداکردے ۔اور زندگی او رموت تو اللہ ہی دیتاہے ۔اوراللہ تمھارے سب کاموں کودیکھ رہاہے ۔اور اگر تم اللہ کے رستے میں مارے جاؤ یامرجاؤ تو جو (مال و متاع ) لوگ جمع کرتے ہیں ، اس سے خد اکی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے ۔ اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ ، اللہ کے حضور میں ضرور اکٹھے کیے جاؤ گے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۰)
اگر اللہ تمھارا مددگار ہے توتم پر کوئی غالب نہیں آسکتااوراگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمھاری مدد کرے ۔ اور مومنوں کوچاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۵تا۱۶۷)
(بھلایہ ) کیا (بات ہے کہ )جب (احد کے دن کفار کے ہاتھ سے )تم پر مصیبت واقع ہوئی ۔ حالاں کہ (جنگ بدر میں )اس سے دو چند مصیبت تمھارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے ) آفت(ہم پر )کہاں سے آپڑی ۔کہہ دو کہ تمھاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبرکے حکم کے خلاف کیا)بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مقابلے کے دن واقع ہوئی ،سو اللہ کے حکم سے (واقع ہوئی ) اور (ا س سے ) یہ مقصود تھا کہ اللہ مومنوں کو اچھی طرح معلوم کرلے ۔اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے اور (جب )اُن سے کہا گیا کہ آؤ، اللہ کے رستے میں جنگ کرویا (کافروں کے )حملوں کو روکو تو کہنے لگے کہ اگر ہم کولڑائی کی خبر ہوتی ےتو ہم ضرور تمھارے ساتھ رہتے ۔یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے ۔منہ سے و ہ باتیں کہتے ہیں ، جو ان کے دل میں نہیں ہیں ۔او رجو کچھ یہ چھپاتے ہیں ، اللہ اس سے خوب واقف ہے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۹تا۱۷۱)
جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ، اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا، (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں ،) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اوران کو رز ق مل رہاہے ۔ جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھاہے ، اس میں خوش ہیں او ر جولوگ اُن کے پیچھے رہ گئے اور(شہیدہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے، ان کی نسبت خوشیاں منارہے ہیں کہ (قیامت کے دن )ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اورنہ وہ غم ناک ہوں گے ۔ اور اللہ کے انعامات اورفضل سے خوش ہورہے ہیں اوراس سے کہ اللہ مومنوں کااجر ضائع نہیں کرتا۔
(آل عمران۳ :۱۷۹)
(لوگو!)جب تک اللہ ناپاک کوپاک سے الگ نہ کردے گا،مومنوں کو اس حال میں ، جس میں تم ہو،ہرگز نہیں رہنے دے گا۔اوراللہ تم کو غیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا،البتہ اللہ اپنے پیغمبر وں میں سے ،جسے چاہتاہے ، انتخاب کرلیتا ہے توتم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔اور اگر ایمان لاؤ گے اور پرہیز گاری کروگے تو تم کو اجر عظیم ملے گا۔
نبی کریم صلى الله عليه و سلم باقی سات سوجاں نثاروں کے ساتھ آگے بڑھے ۔مشرکین مکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اورجنگی سازوسامان بھی ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے صف بندی اس طرح کی کہ پہاڑلشکر کی پست پر تھا اورمخالف سامنے ،تاہم پیچھے کی طرف ایک گھاٹی ایسی تھی ،جہاں سے دشمن اچانک حملہ آور ہوسکتاتھا،چناں چہاس مقام پر حضور صلى الله عليه و سلم نے عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیراندازوں کاایک دستہ تعینات کردیا اورانھیں ہدایت کردی گئی کہ ادھر سے آنے والوں کوروکےرکھنا اورکسی بھی صورت اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ اگر تم لوگ دیکھو کہ پرندے ہمیں اُچک رہے ہیں ،تب بھی اپنی جگہ سے مت ہلنا۔۸
مصعب بن عمیر ایک بار پھر حضور صلى الله عليه و سلم کے علم سے سرفراز ہوئے ۔زبیر بن عوام کو سواروں کی قیادت سونپی گئی اورحمزہ کوپیدال فوج کی ۔یوں یہ لشکر جنگ کے لیے تیار ہوگیا ۔اپنے ساتھیوں کے حوصلے بڑھانے کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے تلوار بے نیام کی اورکہا۔ 'کون ہے،جو اس تلوار کا حق اداکرے ۔'ابودجانہ نے دریافت کیا۔'حضور ! اس کاحق کیاہے ؟'فرمایا ۔'اس کاحق یہ ہے کہ اس سے دشمن کواس قدر قتل کروکہ یہ ٹیڑھی ہوجائے۔' انودجانہ نے تلوارلی اوردشمن پر ٹوٹ پڑے ۔' ۹
سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن بن جحش نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ ان کا مقابلہ دشمن کے بہادرترین افراد سے ہو، جب کہ حضور صلى الله عليه و سلم کے چچا شیرخدا حمزہ اپنے سینے پرشترمرغ کاپر سجائے ہوئے تھے ۔اس موقع پر آیات نازل ہوئیں ، جن میں سابقہ انبیا کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔ارشاد ہوتاہے:
(عمران ۳: ۱۴۶تا۱۴۸)
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں ، جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ (اللہ کے دشمنون سے )لڑے ہیں ۔تو جو مصیبتیں ان پر راہ خدا میں واقع ہوئیں ،ان کے سبب انھوں نے نہ ہمت ہاری اورنہ بزدلی کی ،نہ (کافروں سے )دبے ۔اوراللہ استقلال رکھنے والوں کودوست رکھتا ہے اور (اس حالت میں )ان کے منہ سے کوئی بات نکلتی تویہی کہ اے پرورگار !ہمارے گناہ اورزیادتیاں ،جو ہم اپنے کاموں میں کرتے رہے ہیں، معاف فرما اورہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت کر۔تواللہ نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیااور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ(دے گا)اور اللہ نیکوکاروں کو دوست رکھتاہے.
جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں نے کفارکو اس قدر آسانی سے شکست سے دوچار کردیا کہ ابودجانہ حضور صلى الله عليه و سلم کی عطاکی ہوئی تلوار لہراتے ہوئے قریش کی صفوں کو چیرتے ہوئے اندر تک گھس گئے ۔یہاں قریش کے سردار ابوسفیان کی بیوی (جوانھیں جوش ولولہ دلارہی تھی )پر تلوا راٹھائی ،لیکن (جب اس کی ہائے پکار سے پتاچلا کہ یہ عورت ہے تو)یہ سوچ کر کہ حضور صلى الله عليه و سلم کی تلوار پر حرف نہ آئے ،اسے چھوڑ دیا۔ ۱۰
علی نے کفارکے علم بردار طلحہ بن ابی طلحہ کو قتل کردیا ۔اس کے بعد علم بلند کرنے والوں کوعلی ،عاصم بن ثابت او رزبیر بن عوام نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعدازاں مسلمان جنگ جوؤں میں حمزہ ،علی ،ابودجانہ،زبیر بن عوام اورمقدادبن عمرونے دشمن کی صفیں الٹ کررکھ دیں ،جس سے دشمن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مشرکین میدان جنگ سے بھاگ نکلے تومسلمان مال غنیمت سمیٹنے لگے ۔ادھر جب تیر اندازوں نے یہ منظر دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ اللہ نے دشمن کو شکست سے دوچارکردیاہے اورہمارے بھائی غنیمت سمیٹ رہے ہیں ، لہذا پمیں بھی ان کے ساتھ شاملہوجانا چاہیے ۔
عبداللہ بن جبیران کے پیچھے لپکے اور حضور صلى الله عليه و سلم کاحکم یاد دلاکرانھیں روکتے رہے ،لیکن وہ کہنے لگے ۔ 'جو صورت حال رونما ہوچکی ہے ،اس کے پیش نظرتو آپ صلى الله عليه و سلم نے ایسا نہیں فرمایاتھا ۔' چناں چہ چند تیر اندازوں کے علاوہ باقی [چالیس تیرانداز] مال غنیمت کی طرف دوڑپڑے ۔قریش کے شہ سوار خالدبن ولید نے مسلمانوں کو مال واسباب میں مشغول پایا تو اس موقع سے فائدے اٹھانے کے لیے تیزی سے احد کا چکر کاٹ کر باقی تیر اندازوں پرحملہ کردیا۔عبداللہ بن جبیر اوران کے چند ساتھیوں نے بھرپور مزاحمت کی ، لیکن وہ دشمن کو روکنے میں کام یاب نہ ہوسکے ۔
صورت حال کی تبدیلی کے بعد شکست خوردہ کفار پلٹے اور سامنے سے مسلمانوں پر بھرپور حملہ کرکے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔اس دو طرفہ یورش سے مسلمانوں میں ابتر ی پھیل گئی ۔دشمن آپ صلى الله عليه و سلم کوکسی بھی صورت گرفتا رکرنا چاہتاتھا، اس لیے اس نے ہر طرف سے تلواروں ،نیزوں اورپتھروں سے حملہ کردیا۔اس موقع پر چند جاں نثاروں نے بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے آپ صلى الله عليه و سلم کے گرد حفاظتی حصار بنائے رکھا۔
ابوسفیا ن کی بیوی ہند،جس کا باپ ا۲وربھائی بدرمیں قتل کردیے گئے تھے ، اپنے حبشی غلام کو حمزہ کے قتل پر اکسایا۔جنگ کا پانسہ پلٹا تو حمزہ بھپرے ہوئے شیر کی طرح کفار کی صفوں میں گھس گئے ۔وہ کم وبیش ان کے تیس جنگ جوؤں کو موت کے گھاٹ اتارچکے تھے کہ وحشی نے ،جو موقع کی تاک میں تھا،نیزہ پھینکا ،جوناف کے تھوڑا سانیچے لگا اورران کو چیرتاہوا آگے نکل گیا ۔ہندآگے بڑھی ،ان کا پیٹ چاک کرایا، لاش کی بے حرمتی کی اوران کاکلیجہ نکال کر چبایا۔ ۱۱
مصعب بن عمیر حضور صلى الله عليه و سلم کاوفاع کرتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوگئے ،مصعب کی شکل وصورت حضور صلى الله عليه و سلم سے مشابہ تھی ،اس لیے ابن قمیہ پکارنے لگاکہ محمد صلى الله عليه و سلم(نعوذباللہ)قتل کردیے گئے ۔اسی اثنامیں آپ صلى الله عليه و سلم تلوار کے وار اور پتھروں کی ضربوں سے زخمی ہوکر [پوشیدہ ]گڑھے میں گرگئے ،خون بہنے لگا ، جسے آپ صلى الله عليه و سلم نے ہاتھوں سے صاف کیا اوردعا کی ۔ 'اے اللہ !میری قوم کو معاف فرما، کیوں کہ وہ سچائی نہیں جانتی ۔' ۱۲
جب حضور صلى الله عليه و سلم کی شہادت کی افواہ پھیلی توصحابہ کرام حوصلہ ہار بیٹھے ،تاہم علی ،ابودجانہ،سہل بن حنیف،طلحہ بن عبیداللہ،انس بن نضیر،عبداللہ بن جحش بڑی بے جگری سے لڑتےرہے ۔بعض مسلمان خواتین بھی اس نازک مرحلے پر میدان جنگ میں کود پڑیں ۔ان میں بنودینار کی ایک خاتون سمیرا اپنے شہید شوہر،باپ او ربھائی کے بجائے حضور صلى الله عليه و سلم سے استفسار کرتی رہیں۔آپ صلى الله عليه و سلم کودیکھا توپکار اٹھیں۔ 'یارسول اللہ !آپ سلامت ہیں تومیرے نزدیک کسی غم کو کوئی اہمیت نہیں ۔ ۱۳
حضور صلى الله عليه و سلمکےجاں نثاروں میں شامل ایک خاتون اُم عمارہ کے متعلق آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ صبر وتحمل کامالک کون ہوسکتاہے ؟اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں ے عرض کیا۔ 'یارسول اللہ !اللہ سے دعاکیجیے کہ جنت میں مجھے آپ کاتقرب نصیب ہو۔' رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے دعا فرمائی۔ 'اے اللہ!جنت میں اسے مرا قرب عطافرما۔' اس کے جواب میں وہ کہنے لگیں ۔ 'اب مجھے کچھ بھی ہو جائے ، مجھے کوئی رنج نہیں ۔' ۱۴
حضور صلى الله عليه و سلم سے متعلق اس افواہ کوسنتے ہی انس بن نضر[کہنے لگے کہ جس عظیم مقصد کے لیے حضور صلى الله عليه و سلم نے اپنی جان قربان کردی ،تم بھی اسی مقصد کے لیے اپنی جان فداکردو۔یہ کہتے ہوئے وہ دشمن پر ٹوٹ پڑے اور]بڑی بہادری سے لڑتے ہوئؕے شہید ہوگئے ۔ان کے جسم پر اسی زخم تھے ۔ ۱۵ سعد بن ربیع کو دیکھا گیا توان کے جسم پر ستر زخم تھے اور وہ نزع کی حالت میں کہہ رہے تھے ۔ 'حضور صلى الله عليه و سلم کومبادک باد پہنچا دیجیے ۔مجھے احدکے عقب سے جنت کی خوش بو آرہی ہے۔' ۱۶
انودجانہ اورسہل بن حنیف کے علاوہ علی بھی حضور صلى الله عليه و سلم کے گردڈھال بنے ہوئے تھے ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے پہاڑی پرچڑھ آنے والے کفارکی طرف اشارہ کیا توعلی نے انھیں پیچھے دھکیل دیا۔پھر دوسری اورتیسری مرتبہ بھی علی نے دشمن کوق نیچے اترنے پر مجبور کردیا۔ ۱۷
حضور صلى الله عليه و سلم کے جاں نثاروں کی جرات وشجاعت کےباوجود شکست کے آثاریقینی تھے کہ اتنے میں کعب بن مالک آپ صلى الله عليه و سلم کودیکھتے ہی پکار اٹھے ۔ 'مبارک ہو، یہ ہیں حضور صلى الله عليه و سلم۔' یہ سنناتھا کہ منتشر صحابہ ہر طرف سے آپ صلى الله عليه و سلم کی جانب دوڑے ،آپ صلى الله عليه و سلم کے گرد حصار بنالیا اورپہاڑکی گھاٹی میں لے گئے ۔
ہزیمت کے اسباب:
اس شکست کے اسباب جاننے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ حضور صلى الله عليه و سلمکے بعد دنیا میں افضل ترین ہستیاں صحابہ کرام ہی کی ہیں ۔وہ اس عظیم ہستی کے رفقا اورتربیت یافتہ تھے ، جو وجہ تخلیق کائنات ہے اورجنھیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاگیا ہے ۔قاعدہ ہے کہ درجات کی بلند ی سے ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے ،لہذا اطاعت الہی اوراطاعت رسول صلى الله عليه و سلم میں صحابہ کرام کوزیادہ سنجیدہ ہوناچاہیے تھا ۔قرآن میں ارشادہوتاہے: (احزاب ۳۳: ۳۰تا۳۲)
اے پیغمبر کی بیویو!تم میں سے جوکوئی صریح ناشائستہ حرکت کرے گی ، اس کو دونی سزادی جائے گی اوریہ (بات )اللہ کو آسان ہے ۔اورجو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار رہے گی اورعمل نیک کرے گی ،اس کو ہم دونا ثواب دیں گے اوراس کے لیے ہم نے عزت کی روزی تیار کررکھی ہے ۔اے پیغمبر کی بیویو!تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔]
اسی طرح صحابہ سے سرزد ہونے والی معمولی لغرش بھی ان کی بزرگی وعظمت کے سبب سخت گرفت کا موجب بن سکتی ہے ۔یہی وہ ہستیاں ہیں ،جن کے اخلاق واعمال آئندہ نسلوں کے لیے ایک نمونہ تھے ،اسی لیے ان سے ایمان واخلاص اورعبادت ومعاملات میں بلند ترمقام پر متمکن ہونے کا مطالبہ تھا۔
اللہ تعالی نے اس جماعت کو بہترین جماعت قرار دیاہے ، جونیکی کاحکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اوراللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ۱۸ اوراسی طرح انھیں امت وسط کہا گیا ہے،تاکہ وہ لوگوں پرگواہ بنیں اورنبی کریم صلى الله عليه و سلم اُن پر ۔ ۱۹ مدینہ کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں میں ایک گروہ منافقین کا بھی تھا، لہذا اللہ تعالی ان دوگروہوں میں امتیاز واضح کرنا چاہتاتھا۔ ۲۰ غزوہ احدنے مومنوں اورمنافقوں کے درمیان خط کھینچ دیااوریوں اسلامی ریاست پہلے سے زیادہ مستحکم اورناقابل تسخیر ہوگئی ۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد ان وجوہات کی نشان دہی کی جاتی ہے ، جن کی موجودگی میں جنگ کے دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرناپڑا۔
مجاہدین کے کمانڈرانچیف احکامات خداوندی کے پیش نظرمدینہ میں قلعہ بند ہوکر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے ، تاہم چند کم تجربہ کار جوشیلے نوجوانوں نے شوق شہادت میں کھلےمیدان میں جنگ کو ترجیح دی ۔یہ فیصلہ درست نہ تھا،کیوں کہ نبی اکرم صلى الله عليه و سلم ،جوہر جنگ میں ایک نئی تدبیر اختیار کرتے تھے ،بہ خوبی جانتے تھے کہ خود قریش کھلے میدان میں لڑنے کا ذہن بنا کر روانہ ہوئے ہیں۔
صحابہ کی طرف سے دوسری بڑی کوتاہی اس وقت سرزد ہوئی ،جب حضور صلى الله عليه و سلم کی سخت ہدایت کونظر انداز کرتے ہوئے تیر اندازوں نے جبل رماۃ کو چھوڑ دیا۔حضور صلى الله عليه و سلم کے اس فرمان سے کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ،اگر چہ تم یہ دیکھو کہ میدا جنگ میں برسرپیکار تمھارے بھائی کوپرندے اچک رہے ہیں، انھو ں نے روگردانی کی اورمال غنیمت کی طرف دوڑ پڑے ۔
مسلمانوں کے لشکر کا ایک تہائی گروہ ،جومنافقین ہر مشتمل تھا، احد کے راستے ہی میں مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کرکے مدینہ پلٹ گیا، جس سے مسلمان لشکر میں بددلی پھیل گئی۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ بنوسلمہ اوربنو حارثہ کو بھی بہ مشکل واپسی سے روکا گیا۔اس کے باوجود منافقین کاایک طبقہ لشکر میں موجودتھا،جومجاہدین کےحوصلے پست کررہاتھا۔
صحابہ کی ایک خاصی تعداد خاطر خواہ صبر وتحمل کامظاہر ہ نہ کرسکی ۔ انھوں نے تقوے کے بنیادی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیاوی مال ومتاع کوترجیح دی ۔
مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جب تک حضور صلى الله عليه و سلم ان کے درمیان موجود ہیں، اللہ تعالی ان کو نصرت بھیجتا رہے گا اورایسی صورت میں کفاران پر ہرگز غالب نہیں آسکیں گے ،تاہم اس ہزیمت سے انھیں معلوم ہوگیا کہ نصرت الہی کے لیے [ایمان وعبادت کے علاوہ ]فہم وفراست ،غور وفکر ،حکمت عملی اورثابت قدمی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔انھیں اس بات کاعلم ہوگیا کہ یہ دنیا آزمائش گاہ ہے ۔
ارشادباری تعالی ہے
(آل عمران ۳ : ۱۳۷تا۱۴۱)
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ،توتم زمین میں سیرکرکے دیکھ لوکہ جھٹلانے والوں کو کیساانجام ہوا۔یہ (قرآن )لوگوں کے لیے بیان صریح اوراہل تقوی کے لیے ہدایت اورنصیحت ہے ۔اور(دیکھو) بے دل نہ ہونا اورنہ کسی طرح کاغم کرنا ،اگر تم مومن (صادق)ہو توتم ہی غالب رہوگے ۔اوراگر تمھیں زخم (شکست)لگاہے تو ان لوگوں کوبھی ایسا زخم لگ چکاہے ۔اوریہ دن ہیں کہ ہم ان کولوگوں میں بدلتے رہتے ہیں ۔ اوراس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو متمیز کردے اور تم میں سے گواہ بنائے ۔ اوراللہ بے انصافوں کوپسند نہیں کرتا۔اوریہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو خالص(مومن ) بنادے اورکافروں کو نابود کردے ۔
v وہ صحابہ ؓ جوکسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے ،اللہ کے حضور اپنی شہادت کی دعائیں کیاکرتے تھے ۔وہ دین اسلام کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے دیدارالہی سے مستفیض ہوناچاہتے تھے ۔ان میں سے چند اس غزوہ میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ، مثلا عبد اللہ ؓ نم جحش ،انس ؓ بن نضر،سعدؓ بن ربیع،عمروؓ بن جموح بن زیداورابو سعدؓ بن خثیمہ ۔تاہم کچھ صحابہ کرام ؓ کواس لمحے کا مزید انتظا رکرنا پڑا۔
قرآن نے ان سب کی توصیف ان الفاظ میں بیان کی ہے : (احزاب ۳۳ : ۲۳)
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جواقرارانھوں نے اللہ سے کیاتھا، اسکوسچ کردکھایاتوان میں ایسے ہیں،جواپنی نذرسے فارغ ہوگئےاوربعض ایسے ہیں کہ انتظارکررہے ہیں اورانھوں نے (اپنے قول کو)ذرابھی نہیں بدلا۔
v ہر طرح کی کام یابی اللہ کے قبضے قدرت میں ہے ۔وہ جو چاہتاہے ،کرتاہے اوروہ کسی کے آگے جواب دہ بھی نہیں ۔توحید کاایمان کاتقاضا ہے کہ ایک مومن بہر صورت اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی چیز کواپنے لیے مخصوص نہ کرلے ۔غزوہ احد میں شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدر میں قطعی کام یابی پر مسلمانوں میں احسا س تفاخر پیدا ہوگیا تھا اوروہ اسے اپنی حکمت عملی اور بعض مادی اسباب سے منسوب کرنے لگے تھے ۔
v احد میں ناکامی کاایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش کے لشکر میں خالد بن ولید، عکرمہ بن ابوجہل ،عمر وبن العاص اورابن ہشام وغیرہ ایسے قابل ذکر جنگ جو شامل تھے ، جنھیں مستقبل میں من جانب اللہ اسلام کا شرف حاصل تھ ۔مستقبل میں ان کی طرف سے اسلام کی خدمات کے پیش نظر اللہ تعالی ان کے احساس تفاخرکو مکمل طور پر مٹانے سے بچانا چاہتاتھا۔اسی کے پیش نظر ترکی کے ایک عظیم مفکر بدیع الزماں سعید نورسی کہتے ہیں کہ غزوہ احدکے دوسرے مرحلے میں مستقبلکے صحابہ نے حال کے صحابہ کرام ؓ کوشکست سے دوچار کردیا۔۲
درج ذیل آیات سے اس شکست کی وجوہات اور عواقب و نتائج اوراس کے پس منظر میں پوشیدہ حکمتوں کی نشان دہی ہوتی ہے :
(آل عمران ۱۴۲:۳)
کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ(بے آزمائش ) بہشت میں جاداخل ہوگے ،(حالاں کہ ) ابھی اللہ نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور(یہ بھی مقصود ہے کہ )وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے ۔
(آل عمران ۳ :۱۴۴تا۱۴۵)
اور محمد (صلى الله عليه و سلم) تو صرف (اللہ کے )پیغمبر ہیں ، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ۔بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ؟)اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تواللہ کاکچھ نقصان نہیں کرسکے گا۔ اورخد اشکر گزاروں کو(بڑا )ثواب دے گا ۔اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر مرجائے ۔(اس نے موت کا)وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا )بدلہ چاہے ،اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالب ثواب ہو، اُس کو وہاں اجر عطا کریں گے ۔اور ہم شکر گزاروں کو عن قریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۵۲تا۱۵۳)
اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا، (یعنی ) اُس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کررہے تھے ، یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے ، اللہ نے تم کو دکھا دیا ۔ اس کے بعد تم نے ہمت ہاردی اور حکم (پیغمبر ) میں جھگڑا کرنے لگے اور اُس کی نافرمانی کی۔ بعض تو تم میں سے دنیا کے خواست گار تھے اور بعض آخرت کے طالب ۔ اس وقت اللہ نے تم کو ان (کے مقابلے )میں پھیر (کر بھگا )دیا،تاکہ تمھاری آزمائش کرے اور اس نے تمھارا قصور معاف کردیا۔ اوراللہ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والاہے (وہ وقت بھی یادکرنے کے لائق ہے) جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ تم کو تمھارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھےتو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا ،تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے ، اس سے تم اندوہ ناک نہ ہو ۔اور اللہ تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔
(آل عمران ۳: ۱۵۵)
جولوگ تم میں سے (احدکے دن)جب کہ (مومنوں اورکافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں ، (جنگ سے )بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلادیا، مگر اللہ نے ان کا قصور معاف کردیا۔ بے شک اللہ بخشنے والا (اور)بردبارہے۔
(آل عمران ۳ : ۱۵۶تا ۱۵۸)
مومنو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا ، جو کفر کرتے ہیں اوران کے (مسلمان )بھائی جب (اللہ کی راہ میں )سفر کریں (اور مرجائیں ) یا جہاد کو نکلیں (او رمارے جائیں ) توانکی نسبت کہتے ہیں کہ اگروہ ہمارے پاس رہتے ہیں تونہ مرتے اورنہ مارے جاتے ۔ ان باتوں سے مقصو د یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کے دلوں میں افسو سپیداکردے ۔اور زندگی او رموت تو اللہ ہی دیتاہے ۔اوراللہ تمھارے سب کاموں کودیکھ رہاہے ۔اور اگر تم اللہ کے رستے میں مارے جاؤ یامرجاؤ تو جو (مال و متاع ) لوگ جمع کرتے ہیں ، اس سے خد اکی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے ۔ اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ ، اللہ کے حضور میں ضرور اکٹھے کیے جاؤ گے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۰)
اگر اللہ تمھارا مددگار ہے توتم پر کوئی غالب نہیں آسکتااوراگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمھاری مدد کرے ۔ اور مومنوں کوچاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۵تا۱۶۷)
(بھلایہ ) کیا (بات ہے کہ )جب (احد کے دن کفار کے ہاتھ سے )تم پر مصیبت واقع ہوئی ۔ حالاں کہ (جنگ بدر میں )اس سے دو چند مصیبت تمھارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے ) آفت(ہم پر )کہاں سے آپڑی ۔کہہ دو کہ تمھاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبرکے حکم کے خلاف کیا)بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مقابلے کے دن واقع ہوئی ،سو اللہ کے حکم سے (واقع ہوئی ) اور (ا س سے ) یہ مقصود تھا کہ اللہ مومنوں کو اچھی طرح معلوم کرلے ۔اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے اور (جب )اُن سے کہا گیا کہ آؤ، اللہ کے رستے میں جنگ کرویا (کافروں کے )حملوں کو روکو تو کہنے لگے کہ اگر ہم کولڑائی کی خبر ہوتی ےتو ہم ضرور تمھارے ساتھ رہتے ۔یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے ۔منہ سے و ہ باتیں کہتے ہیں ، جو ان کے دل میں نہیں ہیں ۔او رجو کچھ یہ چھپاتے ہیں ، اللہ اس سے خوب واقف ہے ۔
(آل عمران ۳ : ۱۶۹تا۱۷۱)
جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ، اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا، (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں ،) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اوران کو رز ق مل رہاہے ۔ جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھاہے ، اس میں خوش ہیں او ر جولوگ اُن کے پیچھے رہ گئے اور(شہیدہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے، ان کی نسبت خوشیاں منارہے ہیں کہ (قیامت کے دن )ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اورنہ وہ غم ناک ہوں گے ۔ اور اللہ کے انعامات اورفضل سے خوش ہورہے ہیں اوراس سے کہ اللہ مومنوں کااجر ضائع نہیں کرتا۔
(آل عمران۳ :۱۷۹)
(لوگو!)جب تک اللہ ناپاک کوپاک سے الگ نہ کردے گا،مومنوں کو اس حال میں ، جس میں تم ہو،ہرگز نہیں رہنے دے گا۔اوراللہ تم کو غیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا،البتہ اللہ اپنے پیغمبر وں میں سے ،جسے چاہتاہے ، انتخاب کرلیتا ہے توتم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔اور اگر ایمان لاؤ گے اور پرہیز گاری کروگے تو تم کو اجر عظیم ملے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔