غزوہ احدمیں ہزیمت کے بعدصحابہ کرام حضور صلى الله عليه و سلم کے گرد جمع ہونے لگے آپ صلى الله عليه و سلم زخمی ہوچکے تھے ۔اکثر صحابہ کرام بھی زخمی ہوئے ۔حفاظت کی غرض سے وہ احد کی گھاٹی میں اتر گئے۔قریش کا خیال تھا کہ انھوں نے بدر کی شکست کابدلہ چکادیاہے ، تاہم اس بات کے پیش نظر کہ وہ مسلمانوں کی قوت کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتے ، وہ مکہ کی چل پڑے۔
رسول اکرم صلى الله عليه و سلم کو خدشہ تھا کہ ممکن ہے ،اسی ندامت کے پیش نظر کہ قریش واپس پلیٹیں اورمدینہ پر حملہ کردیں ، احد کے دوسرے روز غزوہ میں حصہ لینے والے صحابہ کرام کو جمع کیااور کفار کا تعاقب کرنے کاحکم دیا۔ اگر چہ بنو عبد القیس نے ابوسفیان کی طرف سے دیے گئے لالچ کے تحت اسلامی لشکر کو قریب کی طاقت اور اجتماع سے ہراساں کرنا چاہا، تاہم مسلمان حوصلہ ہارنے کے بجائے پکاراٹھے ۔ حسنبا اللّٰہ ونعم الوکیل ۔ ۲۲
اگر چہ صحابہ کی اکثریت شدید زخمی حالت میں تھی اور بعض کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے ، حتی کہ ان کے رفقاانھیں سہارا دے رہے تھے ۔ ۲۳ تاہم حکم پیغمبر پرلبیک کہتے ہوئے وہ ان مشکل ترین لمحات میں اپنی جانوں کانذرانہ لیے حاضر ہوگئے ۔ وہ حضور صلى الله عليه و سلم کی معیت میں مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوئے ۔
مشرکین مکہ نے [مدینے سے ۳۶میل دور مقام روحاپر پہنچ کر ] پڑاؤ ڈالا تو اسلام کی قوت کے مکمل خاتمے اورمدینہ پر دوسرا حملہ کرنے کے بارے میں آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے ، تاہم جب انھیں معلوم ہوا کہ شکست کھانے کے باوجود مسلمان فوری طور پر ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو وہ اس حملے کی جرات نہ کرسکے اور مکہ کی طرف چلنے بنے ۔
نبی کریم صلى الله عليه و سلم کی اس فراست اورجنگی حکمت عملی کانتیجہ یہ نکلا کہ شکست خوردگی کام یابی میں بدل گئی اوردشمن مدینہ پر چڑھائی کاحوصلہ نہ کرسکا۔مسلمانوں کے عزم اوراستقلال کو دیکھتے ہوئے اپنے ناپاک ارادوں پر عمل نہ سکا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے اس تعاقب میں شامل اصحاب کو ان الفاظ میں یاد کیاہے
(آل عمران ۳ : ۱۷۲تا۱۷۴)
جنھوں نے باوجود زخم کھانے کے اللہ اور رسول (کے حکم )کو قبول کیا، جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیز گار ہیں ، ان کے لیے بڑا ثواب ہے ۔(جب ) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمھارے (مقابلے کے )لیے (لشکرکثیر )جمع کیا ہے تو ان سے ڈور۔ تو ان کاایمان اور زیادہ ہوگیا اورکہنے لگے ۔'ہم کواللہ ہی کافی ہے اور و ہ بہت اچھا کارساز ہے ۔' پھروہ اللہ کی نعمتوں اوراس کے فضل کے ساتھ (خوش وخرم) واپس آئے ، ان کو کسی طرح کاضر ر نہ پہنچا اوروہ اللہ کی خوش نودی کے تابع رہے اور بڑے فضل کا مالک ہے۔
رسول اکرم صلى الله عليه و سلم کو خدشہ تھا کہ ممکن ہے ،اسی ندامت کے پیش نظر کہ قریش واپس پلیٹیں اورمدینہ پر حملہ کردیں ، احد کے دوسرے روز غزوہ میں حصہ لینے والے صحابہ کرام کو جمع کیااور کفار کا تعاقب کرنے کاحکم دیا۔ اگر چہ بنو عبد القیس نے ابوسفیان کی طرف سے دیے گئے لالچ کے تحت اسلامی لشکر کو قریب کی طاقت اور اجتماع سے ہراساں کرنا چاہا، تاہم مسلمان حوصلہ ہارنے کے بجائے پکاراٹھے ۔ حسنبا اللّٰہ ونعم الوکیل ۔ ۲۲
اگر چہ صحابہ کی اکثریت شدید زخمی حالت میں تھی اور بعض کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے ، حتی کہ ان کے رفقاانھیں سہارا دے رہے تھے ۔ ۲۳ تاہم حکم پیغمبر پرلبیک کہتے ہوئے وہ ان مشکل ترین لمحات میں اپنی جانوں کانذرانہ لیے حاضر ہوگئے ۔ وہ حضور صلى الله عليه و سلم کی معیت میں مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوئے ۔
مشرکین مکہ نے [مدینے سے ۳۶میل دور مقام روحاپر پہنچ کر ] پڑاؤ ڈالا تو اسلام کی قوت کے مکمل خاتمے اورمدینہ پر دوسرا حملہ کرنے کے بارے میں آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے ، تاہم جب انھیں معلوم ہوا کہ شکست کھانے کے باوجود مسلمان فوری طور پر ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو وہ اس حملے کی جرات نہ کرسکے اور مکہ کی طرف چلنے بنے ۔
نبی کریم صلى الله عليه و سلم کی اس فراست اورجنگی حکمت عملی کانتیجہ یہ نکلا کہ شکست خوردگی کام یابی میں بدل گئی اوردشمن مدینہ پر چڑھائی کاحوصلہ نہ کرسکا۔مسلمانوں کے عزم اوراستقلال کو دیکھتے ہوئے اپنے ناپاک ارادوں پر عمل نہ سکا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے اس تعاقب میں شامل اصحاب کو ان الفاظ میں یاد کیاہے
(آل عمران ۳ : ۱۷۲تا۱۷۴)
جنھوں نے باوجود زخم کھانے کے اللہ اور رسول (کے حکم )کو قبول کیا، جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیز گار ہیں ، ان کے لیے بڑا ثواب ہے ۔(جب ) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمھارے (مقابلے کے )لیے (لشکرکثیر )جمع کیا ہے تو ان سے ڈور۔ تو ان کاایمان اور زیادہ ہوگیا اورکہنے لگے ۔'ہم کواللہ ہی کافی ہے اور و ہ بہت اچھا کارساز ہے ۔' پھروہ اللہ کی نعمتوں اوراس کے فضل کے ساتھ (خوش وخرم) واپس آئے ، ان کو کسی طرح کاضر ر نہ پہنچا اوروہ اللہ کی خوش نودی کے تابع رہے اور بڑے فضل کا مالک ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔