قاری ظفر اقبال
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فتنہ دجال کی ہمہ گیری اور اس کے زمانے میں مسلمانوں پر پیش آنے والے سخت مصائب و مشکلات کا تذکرہ فرمایا ، نبی ﷺ نے اس پر اتنا تفصیلی کلام کیا کہ لوگ اسے اپنے انتہائی قریب سمجھنے لگے اور یہ انسان کی فطرت ہے
نبی کریم ﷺکا فرمان ہے جس وقت دجال کا خروج ہو گا تو دو میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہو گی، یا تو میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا یا نہیں، اگر میں تمہارے درمیان موجود ہوا تو پھر تمہیں گھبرانے اور فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اس لیے آپ میرے بندوں کو طور پہاڑ پر سمیٹ لیجئے، پھر اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیج دے گا، وہ ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے دکھائی دیں گے، ان کا پہلا دستہ بحیرہء طبریہ سے گذرے گا تو اس کا سارا پانی پی جائے گا، اور جب آخری دستہ گذرے گا تو کہے گا کہ کبھی یہاں بھی پانی ہوتا ہو گا، اس موقع پر اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے صحابہ محصورہوکر رہ جائیں گے، حتی کہ تمہارے نزدیک جس طرح آج کل سو دینار کی اہمیت ہے، اس زمانے میں ایک بیل کی سری سو دینار سے بہتر معلوم ہو گی، یہ حالات دیکھ کر حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے صحابہ کرام اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں پر ایک کیڑا مسلط فرما دے گا جس کیوجہ سے وہ سب کے سب یک لخت مر جائیں گے جیسے ایک ہی جان ہو، اس کے بعد اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُتر کر زمین پر آئیں گے، تو انہیں زمین پر ایک بالشت برابر جگہ بھی ایسی نہ ملے گی جہاں سے یاجوج و ماجوج کی علامات اور ان کی بدبو نہ آ رہی ہو، اس پر اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے، وہ پرندے ان کی لاشیں اْٹھا کر وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کو منظور ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا جس سے کوئی کچا پکا گھر چھپا ہوا نہیں رہے گا، اور زمین دھل کر باغ کی طرح ہو جائے گی، پھر زمین کو حکم دیا جائے گا کہ اپنے پھل اُگا اور اپنی برکتیں واپس لا،چنانچہ اس زمانے میں لوگوں کی ایک جماعت ایک انار سے سیراب ہو جایا کرے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کر لیا کرے گی، اسی طرح دودھ میں بھی برکت ہو جائے گی حتی کہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو کافی ہو جایا کرے گا، اسی طرح دودھیاری گائے کا دودھ لوگوں کے پورے قبیلے کو کافی ہو جایا کرے گا، لوگ اسی طرح وقت گذارتے رہیں گے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے پہنچے گی، اور ہر مومن و مسلم کی روح قبض کر لے گی، اور صرف بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح سرِعام اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کیا کریں گے اور انہی لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔
تشریح: فتنہ دجال کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث دار ہوئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ مفصل روایت یہی ہے، اس لیے اس کے مندرجات پر ہمیں تفصیلی کلام کرنا ہے، جو ذیل میں نمبروار پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلی) یہ حدیث امام مسلم کے علاوہ امام ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، اور امام احمد نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں انہی حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے حضرت نواس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار شامی صحابہ میں ہوتا ہے، ان کے والد حضرت سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہِ نبوت میں ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے تھے، اور نبی ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی۔
دوسری) ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فتنہ دجال کی ہمہ گیری اور اس کے زمانے میں مسلمانوں پر پیش آنے والے سخت مصائب و مشکلات کا تذکرہ فرمایا ، نبی ﷺ نے اس پر اتنا تفصیلی کلام کیا کہ لوگ اسے اپنے انتہائی قریب سمجھنے لگے اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے سامنے کسی کا حلیہ اور اس کے حالات بیان کیے جاتے ہیں تو اس کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور اس کا ایک تصوراتی خاکہ اس کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے، پھر جب اس سے انسان کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے ہر وقت یہ دھڑ کہ لگا رہتا ہے کہ کہیں میں اس کا شکار نہ ہو جاؤں، چنانچہ بعض اوقات یہی تصورات اور اندیشے اس پر اتنے غالب آجاتے ہیں کہ اس کے چہرے پر جھلکتی فکر مندی اس کی اندرونی کیفیت کی چغلی کھانے لگتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، صبح کی مجلس میں نبی ﷺ نے ان کے سامنے اس زمانے کے جو نشیب و فراز بیان کیے تھے، سارا دن وہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھرتے رہے، چنانچہ شام کی مجلس میں نبی ﷺ نے ان کے چہروں کو دیکھ کر ان کی کیفیت کا اندازہ لگالیا اور انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فتنہ دجال یقینا خوفزہ کر دینے والی چیز ہے لیکن مجھے تمہارے متعلق جتنا اندیشہ دوسری چیزوں مثلاً دنیا کی
زیبائش و آرائش میں مگن ہو جانے سے ہے۔
نبی کریم ﷺکا فرمان ہے جس وقت دجال کا خروج ہو گا تو دو میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہو گی، یا تو میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا یا نہیں، اگر میں تمہارے درمیان موجود ہوا تو پھر تمہیں گھبرانے اور فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا، اور اگر میں تمہارے درمیان موجود نہ ہوا تب بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہبانی کرے گا، اس طرح نبیﷺ نے لوگوں کو تسلی دی اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ جس طرح تم فتنہ دجال سے خوف زدہ ہو رہے ہو، اس سے کہیں زیادہ تمہیں فتنہء دنیا سے خوف زدہ ہونا چاہیے، کیونکہ دجال سے خطرہ تو صرف ان لوگوں کو ہو گا جو اس کے زمانے کو دیکھیں گے اور دنیا سے ہر شخص کو خطرہ ہے، جو شخص اس کے فتنے میں گرفتار ہو جاتا ہے وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔
تیسری) بعض حضرات کے ذہن میں اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ بات نبیﷺ نے خود ہی متعین فرما دی ہے کہ دجال کا خروج آخر زمانے میں ہو گا اور اسے حضرت عیسی علیہ السلام قتل فرمائیں گے تو پھر اس جملے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے کہ اگر وہ میری موجودگی میں نکل آیا، ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع تو نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی اس احتمال کا کوئی مطلب بنتا ہے؟ سو اس کا جواب ہمارے محدثین نے یہ دیا ہے کہ نبیﷺ نے اس احتمال کا ذکر علی سبیل الفرض کیا ہے، یعنی یہ تو طے ہے کہ دجال آخر زمانے میں ہی آئے گا لیکن اگر تم خوف زدہ ہو گئے ہو اور تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ درختوں کے اس جھنڈ سے نکل کر تم پر حملہ نہ کردے، تو اولاً یہ بات سمجھ لو کہ وہ ابھی نہیں آئے گا لیکن اگر بالفرض وہ بھی آجائے تب بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں تمہارے درمیان موجود ہوں، میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ احتمال نفس الامر میں بھی موجود ہے، بلکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے اردو زبان میں کسی ناممکن چیز کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ فرض کرو، اگر ایسا ہو بھی گیا تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس جملے کو بھی اسی طرح سمجھنا چاہیے۔
چوتھی) نبیﷺ نے دجال کا حلیہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نوجوان ہو گا یعنی بوڑھا یا ادھیڑ عمر نہ ہو گا اور اس کے سر کے بال گھنگھریالے ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گنجا نہ ہو گا، اور اس کی ایک آنکھ بھینگی ہو گی۔ نبیﷺ نے اسے زمانہء جاہلیت میں مر جانے والے عبدالعزی نامی ایک مشرک آدمی کے ساتھ تشبیہ دی، مقصد یہ تھا کہ جن لوگوں نے عبدالعزی کو دیکھا ہے، وہ سمجھ لیں کہ دجال بھی اسی کے قریب قریب ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ مجموعی طور پر دی گئی ہے، یہ مقصد نہیں ہے کہ دجال مکمل طور پر عبدالعزی کی فوٹو کاپی ہو گا کیونکہ دجال کی بدصورتی ہر قسم کی بدصورتی پر غالب ہو گی، تاہم وہ عبدالعزی سے بہت حد تک مشابہت رکھتا ہو گا۔
پانچویں) نبیﷺ نے فتنہء دجال سے بچنے کیلئے حفاظتی تدبیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ اگر کسی شخص کی زندگی میں دجال کا خروج ہو جائے اور وہ اس کے فتنے سے بچنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات اس کے سامنے پڑھنا شروع کر دے، دجال اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا، اسی وجہ سے عام حالات میں بھی سورہ کہف پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ فتنہء دجال سے حفاظت کیلئے یہ نہایت مجرب نسخہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ روایات میں سورہء کہف کی ابتدائی آیات کی تعیین میں اختلاف نظر آتا ہے، چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی تین آیات کی تلاوت کر لیا کرے، وہ فتنہء دجال سے محفوظ رہے گا اور بعض روایات میں دس آیات کا ذکر آتا ہے ، ملا علی قاری نے ان دونوں باتوں میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ دس آیتوں والی روایات بعد کے زمانے کی ہیں اور جو شخص دس آیتوں پر عمل کرے گا، اس میں تین پر عمل خود بخود ہو جائے گا لیکن تین پر عمل کرنے کی صورت میں دس پر عمل نہیں ہوتا، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تین آیتوں کا تعلق پڑھنے کے ساتھ ہے اور دس آیتوں کا تعلق حفظ کرنے کے ساتھ ہے، اور زیادہ صحیح جواب یہ ہے کہ سورہ کہف کی تین آیتوں کی تلاوت بھی انسان کو فتنہء دجال سے محفوظ کر دینے کیلئے کافی ہے۔ تاہم دس آیات کی تلاوت میں احتیاط زیادہ ہے، اور احتیاط کے پہلو کو ہی ترجیح دینی چاہیے۔
چھٹی) اس حدیث کے مطابق دجال کا خروج شام اورعراق کے درمیان کسی جگہ سے ہو گا، اس کی مکمل تفصیل حضرت تمیم داری کی روایت میں اپنے موقع پر آئے گی۔ خروج کے بعد دجال دائیں بائیں فساد پھیلانا شروع کر دے گا، یاد رہنا چاہیے کہ دجال کے فساد پھیلانے سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ وہ امن عامہ کو تباہ کر دے گا، بلکہ اس میں وہ تمام خرابیاں شامل ہیں جو دینی یا دنیوی اعتبار سے نقصان دہ ہوں، مثلاً لوگوں کا ایمان خراب کرنا، نبوت کا اور پھر خدائی کا دعوی کرنا، خلق خدا کو گمراہ کرنا، اپنے ماننے والوں کو نوازنا اور نہ ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردینا، یہ تمام چیزیں اس ”فساد“ کے مفہوم میں شامل ہیں، اسی لیے نبیﷺ نے لوگوں کی نصیحت فرمائی ہے کہ اس موقع پر ثابت قدم رہنا، اپنے ایمان میں ڈگمگا ہٹ پیدا نہ ہونے دینا، خواہ دجال سے تمہارا آمنا سامنا ہو یا نہ ہو، اپنے ایمان کی حفاظت کرنا، اگر اس سے آمنا سامنا ہو جائے تو اپنے دین و ایمان پر ڈٹ جانا ،کیونکہ اس کا فتنہ زیادہ عرصہ تک باقی نہ رہ سکے گا اور بہت جلد وہ اپنے بدترین انجام کو پہنچے گا، اور اگر تم اس سے دور ہو تو دور ہی رہنا، اس کے قریب جانے کی کوشش نہ کرنا ، کیونکہ جب کوئی شخص اس کے پاس جائے گا تو موٴمن ہو گا اور واپس آئے گا تو اس کے دل میں طرح طرح کے شکوک و شبہات جنم لے ۔رہے ہوں گے اور وہ مختلف قسم کے وساوس کا شکار ہو چکا ہو گا۔
دجال کا حلیہ اور اسکی جنت و جہنم
خدائی کے دعوے دار دجال کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا اور وہ خدائی
کا دعویٰ فرما رہے ہوں گے، اور ایسا نہ ہو گا کہ وہ لفظ لوگوں کی نگاہوں سے
اوجھل ہو گا، بلکہ پڑھے لکھے لوگ تو رہے ایک طرف، ان پڑھ لوگ بھی اسے پڑھ
سکیں گے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ دجال اکبر کی آنکھوں کے
درمیان اس طرح لفظِ کافر لکھنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے کہ اسے دنیا کا کوئی
صابن اور کیمیکل نہ مٹا سکے، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان پڑھ لوگوں
میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کر دے، اور اس زمانے میں اس طرح کے خوارق اور
خلاف عادت امور پیش آ رہے ہوں گے لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے، ایک تو یہ کہ بعض روایات میں دجال
کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ”کافر“ حروفِ تہجی کے ساتھ الگ الگ کر کے
لکھنے کا تذکرہ ملتا ہے یعنی یہ لفظ اس طرح ”ک ف ر“ لکھا ہو گا، اور بعض
روایات میں حروفِ تہجی کے ساتھ لکھا ہونے کی تصریح نہیں ہے، اس لیے اس
ناکارہ کی رائے میں حروفِ تہجی والی روایت راجح ہے، تاہم معنی دونوں صورتوں
میں ایک ہی ہو گا، اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ لفظ حقیقتً اس کی آنکھوں کے
درمیان لکھا ہو گا یا حدیث میں اس کا مجازی معنی مراد ہے؟ سو اس سلسلے میں
بھی علماء کی دو رائیں ہیں، بعض علماء اس کا مجازی معنی مراد لیتے ہیں، ان
کا یہ کہنا ہے کہ دجال اکبر کے چہرے پر ہی ایسی علامات ہوں گی جن سے اس کا
حادث ہونا ثابت ہوتا ہو گا، ان علامات کو لفظِ کافر سے ذکر فرما دیا گیا
ہے ، لیکن اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کتابت اپنے حقیقی معنی میں ہی
ہے، اور حقیقی طور پر اس کی آنکھوں کے درمیان لفظِ کافر لکھا ہو گا، اور یہ
اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ اس کے کفر اور اس کے جھوٹ کی
واضح علامت اس کے چہرے پر ہی نمایاں فرما دے، تا کہ ہر آدمی اسے شناخت کر
سکے، اس کے جھوٹا اور کافر ہونے کا یقین کر سکے اور اس کے فتنے سے اپنے آپ
کو بچائے۔
تیسری قابل وضاحت بات دجالِ اکبر کی جنت اور جہنم سے متعلق
ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو ڈھیل دیتا ہے تو اس کی رسی خوب دراز کر دیتا ہے
اور جب اسے سزا دینے کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اس رسی کو کھینچ لیتا ہے،
دجالِ اکبر جب خدائی کا دعویٰ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ڈھیل دے گا،
حتی کہ دجال اپنے ساتھ جنت اور جہنم کو لیے پھرتا ہو گا، جب کسی پر اپنا
انعام کرنا چاہے گا تو اسے اپنی جنت میں داخل کر دے گا، جو درحقیقت اللہ
تعالیٰ کی جہنم ہو گی، اور جب کسی کو سزا دینا چاہے گا تو اسے اپنی جہنم
میں داخل کر دے گا، بظاہر وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی لیکن حقیقت میں اللہ
تعالیٰ کی جنت ہو گی، لوگ جب اس کے ساتھ جنت اور جہنم کو دیکھیں گے تو
خوفزدہ ہوں گے اور اس پر ایمان لانے لگیں گے، خاص طور پر جب وہ یہ دیکھیں
گے کہ جن لوگوں نے دجال کو اپنا رب نہیں مانا، دجال نے انہیں بھڑکتے ہوئے
شعلوں کی نذر کر دیا، وہ مزید مرعوب ہو جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ
جس چیز کو جنت سمجھ رہے ہوں گے، وہ ان کی نظر یا ان کی سوچ کا دھوکہ اور
غلط فہمی ہو گی، حقیقت میں وہ جہنم ہو گی اور جس چیز کو لو گ جہنم سمجھ رہے
ہوں گے ، وہ ان کی غلط فہمی ہو گی اور ان کی نظر کا دھوکہ ہو گا، حقیقت
میں وہ جنت ہو گی، اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا اگر کسی آدمی کو دجال کا زمانہ
مل جائے اور وہ آزمائش میں پڑ جائے تو اسے چاہیے کہ بے کھٹکے دجال کی جہنم
میں چھلانگ لگا دے، وہ آگ اس کیلئے اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جائے
گی جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام کیلئے بن گئی تھی اور اسے اس سے کچھ
نقصان نہ ہوگا، لیکن اگر وہ اس کی جنت میں کود گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ
اس نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، اور وہ خسارے میں پڑ گیا۔
رہی یہ بات کہ
کیا واقعی دجال کے ساتھ جنت اور جہنم ہوں گے، یا یہ نعمت و راحت اور سزا و
تکلیف سے کنایہ ہے؟ سو اس سلسلے میں محدثین نے دو رائیں اختیار کی ہیں، جن
محدثین نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے ، ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
اپنی قدرت سے دجال کو جس جنت اور جہنم پر حکم چلانے کا موقع عطا فرمائے گا،
اس کی ظاہری اور بیرونی حالت تو دجال کی خواہش کے مطابق ہی رہے گی لیکن
اندرونی اور حقیقی کیفیت اس کے برعکس ہو گی۔ اس لیے نبی ﷺ کے فرمان کا
مفہوم یہ ہے کہ اس موقع پر انسان اپنی آنکھوں پر اعتماد نہ کرے، بلکہ نبی ﷺ
کے حکم پر اعتماد کرے، اپنی بصارت کو ایک طرف رکھ دے اور ایمانی بصیرت سے
کام لے، اور بعض محدثین نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے ، ان کا یہ کہنا ہے
کہ جو لوگ دجال کو رب مان کر اس پر ایمان لے آئیں گے، دجال ان پر اپنے
انعام و اکرام کی بارش برسا دے گا، یوں ان کی دنیا بھی جنت بن جائے گی،
تاہم آخرت میں اس عیاشی کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہ ہو گا، اور جو لوگ
دجال کو اپنا رب ماننے سے انکار کر دیں گے، دجال انہیں طرح طرح کی تکلیفوں
میں مبتلا کر دے گا جس کی وجہ سے یہ دنیا ہی ان کیلئے جہنم بن جائے گی،
لیکن دنیا کی ان تکلیفوں کا انجام آخرت میں جنت کے سوا کچھ نہیں ہو گا، اس
لیے انسان کو چاہیے کہ بصارت کی بجائے اس موقع پر بصیرت سے کام لے تا کہ
دنیا میں بھی سرخرو ہو اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا ہوا۔ واللہ اعلم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔