اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔
وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔
اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔
اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟
بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔
ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔
ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔
لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔
ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘
جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا
کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
} اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن{
’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو)۔)
وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔
اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔
اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟
بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔
ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔
ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔
لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔
ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘
جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا
کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
} اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن{
’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو)۔)
النمل
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔