ایک شخص معمولی حیثیت کا تها-پهر وه ترقی کر کے دولت مند بن گیا- جب وه معمولی حیثیت کا تها تو وه زیاده خوش ریتا تها- دولت آنے کے بعد وه پریشان رہنے لگا- اس کے ایک پرانے دوست نے پوچها، یہ تمہارا کیا حال هو گیا ہے- پہلے تم ہنستے بولتے تهے-هم لوگوں کے ساته کافی وقت گزارتے تهے-اب تم اداس نظر آنے لگے هو- اس نے جواب دیا، میرے اوپر دولت کی بجلی گری ہے " دولت نے مجهہ کو نئے نئے مسائل میں الجها دیا ہے- پہلے همارے بچے همارے پاس تهے، هم ان کو دیکهہ کر خوش هوتے تهے- آج ہر بچہ هم سے دور ہے- کوئی یورپ ، امریکہ پڑهنے گیا هوا ہے- کوئی دور کسی مقام پر ملازم ہے- جن بچوں کو پہلے هم میاں بیوی دیکهہ کر خوش هوتے تهے-آج هم ان کے سایہ کے لیے ترستے ہیں-بهیڑوں کا فارم ہے تو خیال لگا هوا ہے کہ اتنی قیمتی بهیڑیں ہیں ، پتہ نہیں ان کا کیا هوا- ٹرک چل رہے ہیں تو اس کی فکر ہے کہ کہیں ایکسڈنٹ نہ هو گیا هو- دکانیں ہیں تو ان کی پریشانی کہ ملازم کہیں گڑبڑ نہ کر رہے هوں- غرض جتنی زیاده دولت ہے اتنی ہی زیاده فکر ہے-سیلزٹیکس، انکم ٹیکس اور طرح طرح کے قانونی جهگڑے اس کے علاوه ہیں-زندگی لطف سے خالی هو کر بس مسائل اور پیچیدگیوں کا مجموعہ بن گئ ہے- جو دولت آدمی کو سکون نہ دے بلکہ بے چین کر دے اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ ----------- وه ایک بجلی ہے جو آدمی کے اوپر گر پڑی ہے
دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا جائے تو وه عذاب ہے مگر اللہ کے راستہ میں خرچ کیا جائے تو وه نعمت بن جائے گی۔
دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا جائے تو وه عذاب ہے مگر اللہ کے راستہ میں خرچ کیا جائے تو وه نعمت بن جائے گی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔