ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا اس بات پر یقین پخته سے پخته تر ھوتا جا رھا ہے کہ واقعی الله جو کرتا ھے،بہتر کرتا ھے-
میں عبدالرحمن، لاھور میں رھتا ھوں- میوزک کا بے حد شیدائی تھا- پنجاب یونیورسٹی سے بزنس کی تعلیم میں گریجوئیشن کی- والدین کے پاس اتنا پیسه نھی تھا که مجھے مزید تعلیم دلوا سکتے- کیوں که مزید تعلیم کے لیے لاکھوں روپے درکار تھے- ایک سوچ یه بھی تھی که اگر پاکستان سے ماسٹرز کربھی لیا تو فائده کچھ بھی نھی ھونا کیوں که نوکری نھی ملتی- فیصله ھوا که مجھے تعلیم کے لیے لندن بھیجا جاۓ- والدین نے لوگوں سے ادھار پکڑا، کچھ زیورات بیچے اور 6 لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کر کے لندن کی ایک یونیورسٹی میں فیس جمع کروا دی-
ویزه کے لیے اپلائی کیا مگر بنک اسٹیٹمنٹ نا ھونے کی وجه سے ویزه مسترد کر دیا گیا- دوسری بار اپلائی کیا اور پھر ویزه مسترد کر دیا گیا
اس بات نے مجھے زندگی کے شدید ترین ڈیپریشن کے دور سے گذارا- کیوں که نا صرف ویزه مسترد ھوۓ بلکه والدین کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی داؤ پر لگ گئی- نوکری بھی چھوٹ گئی اور گھر میں مشکلات نے بھرپور انداز میں ڈیرے ڈال لیے- فیس کے پھنسنے کی وجه سے والد صاحب بیمار ھو گئے- الغرض اندھیروں اور مایوسیوں نے ھم کو شدید ترین انداز میں گھیر لیا- اسی دوران میں نے مسجد جانا شروع کر دیا، علماء کرام اور الله کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کر لی- نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم اور صحابه کرام کی زندگی کے واقعات کا مطالعه شروع کیا، روز کتاب پڑھتا اور ان کی مشکلات لیکن دین پر ثابت قدمی کو پڑھ کے روتا جاتا- اور الله سے اپنے گناھوں پر توبه کیے جاتا- میوزک بھی چھوڑ دیا اور فلمیں ڈرامے بھی چھوڑ دیے اور الله کی عبادت میں لگ گیا- ایسی روحانیت اور سکون مجھے کبھی کسی جگه نا ملے جو سجدوں نے مجھے عطا کیا- اسی سال اعتکاف میں بیٹھ گیا اور میری ذات میں مزید نکھار آتا گیا-
کچھ عرصے بعد میری فیس بھی واپس آ گئی، مجھے اچھی نوکری بھی مل گئی، میرے والد بھی ٹھیک ھو گئے اور اب میں کچھ دنوں بعد سعودی عرب جا رھا ھوں جھاں پر الله کے دربار عالی شان اور پیارے نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے مزار اقدس پر حاضری نصیب ھو گی-
میں الله کا بے حد مشکور ھوں که اس نے میری زندگی میں مشکل دن پیدا کیا اور مجھے آزمایا اور توفیق دی که میں آزمائش میں کامیاب ھو جاؤں- میں نے کبھی بھی اس مشکل دور میں الله رب العزت کی شان میں شکوه نھی کیا (یا الله اگر انجانے میں ھوا بھی ھو تو معاف کر دینا)-
حضرت علی کرم الله وجه الکریم سے کسی نے پوچھا، مشکل اور آزمائش میں کیا فرق ھے تو آپ نے فرمایا: که مشکل وه ھے جو بندے کو الله سے دور کردے اور آزمائش وه ھے جو بندے کو الله کے قریب کردے-
بات مختصر یه ھے که الله رب العزت کی ذات ھماری شه رگ سے بھی قریب ھے- الله پاک کے نزدیک جو زیاده محبوب ھے اس کی آزمائش اور امتحان زیاده ھوگا- انبیاء کرام کی زندگی دیکھ لیں که کیا کیا وقت نھی آیا ان پر- حضرت ابراھیم علیه السلام کو حکم ھوا که بیٹے کو وربان کرو اور ایک بار آگ میں بھی ڈال دیا گیا- حضرت یوسف علیه السلام کو کنوئیں میں ڈالا گیا اور جیل میں بھی رھے- نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے دندان مبارک شھید ھوۓ- مشرکین مکه نے طرح طرح کی تکالیف دیں- طائف میں آواره لڑکے آپ علیه السلام کو 9 کلو میٹر تک پتھر مارتے رھے- تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رھے جھاں پر آپ اور آپ کے اصحاب نے درختوں کے پتے تک کھاۓ- لیکن الله کی رضا پر راضی رھے- کیوں که الله کبھی بھی بندے کا برا نھی چاھتے بلکه یه آزمائشیں بنده مومن کو مزید نکھارتی ھیں- الله رب العزت ھم سب کو اس کی رضا پر ھی رضا مند رکھے- ھم اس کی مخلوق ھیں ، ھماری کیا مجال کے اپنے رب کے آگے شکوه کریں- ھماری اوقات ھے ھی کیا؟ اے انسان اگر تو اپنی پیدائش کے عمل پر غور کر لے اور یه سوچے که جو عوامل مرد اور عورت کو ناپاک کر دیتے ھیں ھم اسی سے پیدا ھوۓ ھیں تو انسان کبھی الله سے شکوه نا کرے اور غرور و تکبر اس کے قریب بھی نا بھٹکے-
میں عبدالرحمن، لاھور میں رھتا ھوں- میوزک کا بے حد شیدائی تھا- پنجاب یونیورسٹی سے بزنس کی تعلیم میں گریجوئیشن کی- والدین کے پاس اتنا پیسه نھی تھا که مجھے مزید تعلیم دلوا سکتے- کیوں که مزید تعلیم کے لیے لاکھوں روپے درکار تھے- ایک سوچ یه بھی تھی که اگر پاکستان سے ماسٹرز کربھی لیا تو فائده کچھ بھی نھی ھونا کیوں که نوکری نھی ملتی- فیصله ھوا که مجھے تعلیم کے لیے لندن بھیجا جاۓ- والدین نے لوگوں سے ادھار پکڑا، کچھ زیورات بیچے اور 6 لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کر کے لندن کی ایک یونیورسٹی میں فیس جمع کروا دی-
ویزه کے لیے اپلائی کیا مگر بنک اسٹیٹمنٹ نا ھونے کی وجه سے ویزه مسترد کر دیا گیا- دوسری بار اپلائی کیا اور پھر ویزه مسترد کر دیا گیا
اس بات نے مجھے زندگی کے شدید ترین ڈیپریشن کے دور سے گذارا- کیوں که نا صرف ویزه مسترد ھوۓ بلکه والدین کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی داؤ پر لگ گئی- نوکری بھی چھوٹ گئی اور گھر میں مشکلات نے بھرپور انداز میں ڈیرے ڈال لیے- فیس کے پھنسنے کی وجه سے والد صاحب بیمار ھو گئے- الغرض اندھیروں اور مایوسیوں نے ھم کو شدید ترین انداز میں گھیر لیا- اسی دوران میں نے مسجد جانا شروع کر دیا، علماء کرام اور الله کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کر لی- نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم اور صحابه کرام کی زندگی کے واقعات کا مطالعه شروع کیا، روز کتاب پڑھتا اور ان کی مشکلات لیکن دین پر ثابت قدمی کو پڑھ کے روتا جاتا- اور الله سے اپنے گناھوں پر توبه کیے جاتا- میوزک بھی چھوڑ دیا اور فلمیں ڈرامے بھی چھوڑ دیے اور الله کی عبادت میں لگ گیا- ایسی روحانیت اور سکون مجھے کبھی کسی جگه نا ملے جو سجدوں نے مجھے عطا کیا- اسی سال اعتکاف میں بیٹھ گیا اور میری ذات میں مزید نکھار آتا گیا-
کچھ عرصے بعد میری فیس بھی واپس آ گئی، مجھے اچھی نوکری بھی مل گئی، میرے والد بھی ٹھیک ھو گئے اور اب میں کچھ دنوں بعد سعودی عرب جا رھا ھوں جھاں پر الله کے دربار عالی شان اور پیارے نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے مزار اقدس پر حاضری نصیب ھو گی-
میں الله کا بے حد مشکور ھوں که اس نے میری زندگی میں مشکل دن پیدا کیا اور مجھے آزمایا اور توفیق دی که میں آزمائش میں کامیاب ھو جاؤں- میں نے کبھی بھی اس مشکل دور میں الله رب العزت کی شان میں شکوه نھی کیا (یا الله اگر انجانے میں ھوا بھی ھو تو معاف کر دینا)-
حضرت علی کرم الله وجه الکریم سے کسی نے پوچھا، مشکل اور آزمائش میں کیا فرق ھے تو آپ نے فرمایا: که مشکل وه ھے جو بندے کو الله سے دور کردے اور آزمائش وه ھے جو بندے کو الله کے قریب کردے-
بات مختصر یه ھے که الله رب العزت کی ذات ھماری شه رگ سے بھی قریب ھے- الله پاک کے نزدیک جو زیاده محبوب ھے اس کی آزمائش اور امتحان زیاده ھوگا- انبیاء کرام کی زندگی دیکھ لیں که کیا کیا وقت نھی آیا ان پر- حضرت ابراھیم علیه السلام کو حکم ھوا که بیٹے کو وربان کرو اور ایک بار آگ میں بھی ڈال دیا گیا- حضرت یوسف علیه السلام کو کنوئیں میں ڈالا گیا اور جیل میں بھی رھے- نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے دندان مبارک شھید ھوۓ- مشرکین مکه نے طرح طرح کی تکالیف دیں- طائف میں آواره لڑکے آپ علیه السلام کو 9 کلو میٹر تک پتھر مارتے رھے- تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رھے جھاں پر آپ اور آپ کے اصحاب نے درختوں کے پتے تک کھاۓ- لیکن الله کی رضا پر راضی رھے- کیوں که الله کبھی بھی بندے کا برا نھی چاھتے بلکه یه آزمائشیں بنده مومن کو مزید نکھارتی ھیں- الله رب العزت ھم سب کو اس کی رضا پر ھی رضا مند رکھے- ھم اس کی مخلوق ھیں ، ھماری کیا مجال کے اپنے رب کے آگے شکوه کریں- ھماری اوقات ھے ھی کیا؟ اے انسان اگر تو اپنی پیدائش کے عمل پر غور کر لے اور یه سوچے که جو عوامل مرد اور عورت کو ناپاک کر دیتے ھیں ھم اسی سے پیدا ھوۓ ھیں تو انسان کبھی الله سے شکوه نا کرے اور غرور و تکبر اس کے قریب بھی نا بھٹکے-
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔