اس ضمن میں اگرچہ قابل ذکر اختلاف نہیں ہے۔ لیکن دو آراء ہوسکتی ہیں • روایت پسند علماء کے نزدیک لکڑی کی مسواک کرنے سے ہی سنت ادا ہوگی۔ • معتدل جدید علماء کے نزدیک دانت صاف کرنا سنت ہے۔ اس کے لیے جو چیز مرضی استعمال کی جائے۔
روایت پسندقدیم علماء اپنے حق میں وہ دلائل پیش کرسکتے ہیں جن میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی کی مسواک کی، نیز یہ حضرات برش کے نقصانات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ معتدل علماءجدت پسند علماء یہ کہتے ہیں کہ مسواک سے اصل مقصود صفائی کا حصول ہے۔ اس لیے سنت اس سے ادا ہوجائے گی۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ گندگی اور دانتوں کی زردی کو ختم کردینے والی چیزوں میں سے جس چیز سے بھی مسواک کی جائے کافی ہے کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر دانتوں کو محض انگلی سے ملا تو یہ کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اسے مسواک سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
سید سابق رقمطراز ہیں:
’’ ہر وہ چیز کہ جس سے دانتوں کی زردی ختم ہوجائے اور نظافت پیدا ہوجائے تو اس سے سنت حاصل ہوجائے گی، جیسے ٹوٹھ برش یا انگلی ہے۔‘‘
انگلی کو مسواک کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ امام نووی کی اس بارےمیں رائے آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ شیخ البانی کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ جبکہ سید سابق رحمہ اللہ اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انگلی وغیرہ سے مسواک کی سنت ادا ہوجاتی ہے۔ سید سابق رحمہ اللہ نے طبرانی کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِنْجَوَيْهِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِيدُ ، قَالَ : ثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ ، عَنْعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " الرَّجُلُ يَذْهَبُ فُوهُ أَيَسْتَاكُ ؟ قَالَ : نَعَمْ . قُلْتُ : فَأَيَّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ؟ قَالَ : يُدْخِلُ أُصْبُعَهُ فِي فِيهِ فَيُدَلِّكَهُ هَكَذَا ، وَأَشَارَ بِإِصْبِعِهِ إِلَى فِيهِ
’’عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ بندہ کے جس کے دانت گر جائیں تو وہ مسواک کرے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کس طرح؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی انگلی کو منہ میں ڈال کر رگڑ لے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے منہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں عیسی بن عبد اللہ الانصاری ضعیف ہے۔ نیز یہ بھی ہے کہ انگلی سے دانت صاف نہیں ہوتے۔ اور پھر مسواک کا مقصد صرف دانت صاف کرنا ہی نہیں بلکہ زبان کی صفائی بھی اس سے کی جاتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چیز ثابت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسواک کرتے تو’’ اع اع ‘‘کی آواز آتی:
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَسْتَنُّ بِسِوَاكٍ بِيَدِهِ يَقُولُ أُعْ أُعْ وَالسِّوَاكُ فِي فِيهِ كَأَنَّه يَتَهَوَّعُ
’’ابو بردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ اپنے ہاتھ سے مسواک کررہے تھے اور اع اع کی آواز نکال رہے تھے۔ اور اس وقت مسواک آپ کے منہ میں تھی۔ آپ کی آواز سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ گویا آپ قے کرنا چاہتے ہوں۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رجعت پسند علماء جس چیز کو دلیل بناتے ہیں تو معتدل جدت پسند علماء یہ کہتے ہیں کہ اس اصول کو اگر بڑے پیمانے پر لاگو کیا جائے تو موجودہ دور میں زندگی اجیرن ہوجائے۔ لوگوں کو جانوروں پر سواری کرنا پڑے، علاج و معالجہ کے انہی طریقہ کار کو استعمال کیا جائے ،وغیرہ۔ اس میں ایک ضمنی اختلاف انگلی سے دانت صاف کرنے کے بارے میں بھی ہے۔قائلین اس بارے میں مروی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ جبکہ عدم قائلین کہتے ہیں کہ پیش کی جانی والی روایت ضعیف ہے ۔ اور چونکہ انگلی سے دانت بھی صاف نہیں ہوتے اس لیے اس کو مسواک کی سنت کا متبادل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
روایت پسندقدیم علماء اپنے حق میں وہ دلائل پیش کرسکتے ہیں جن میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی کی مسواک کی، نیز یہ حضرات برش کے نقصانات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ معتدل علماءجدت پسند علماء یہ کہتے ہیں کہ مسواک سے اصل مقصود صفائی کا حصول ہے۔ اس لیے سنت اس سے ادا ہوجائے گی۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ گندگی اور دانتوں کی زردی کو ختم کردینے والی چیزوں میں سے جس چیز سے بھی مسواک کی جائے کافی ہے کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر دانتوں کو محض انگلی سے ملا تو یہ کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اسے مسواک سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
سید سابق رقمطراز ہیں:
’’ ہر وہ چیز کہ جس سے دانتوں کی زردی ختم ہوجائے اور نظافت پیدا ہوجائے تو اس سے سنت حاصل ہوجائے گی، جیسے ٹوٹھ برش یا انگلی ہے۔‘‘
انگلی کو مسواک کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ امام نووی کی اس بارےمیں رائے آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ شیخ البانی کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ جبکہ سید سابق رحمہ اللہ اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انگلی وغیرہ سے مسواک کی سنت ادا ہوجاتی ہے۔ سید سابق رحمہ اللہ نے طبرانی کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِنْجَوَيْهِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ ، قَالَ : ثَنَا الْوَلِيدُ ، قَالَ : ثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ ، عَنْعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " الرَّجُلُ يَذْهَبُ فُوهُ أَيَسْتَاكُ ؟ قَالَ : نَعَمْ . قُلْتُ : فَأَيَّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ؟ قَالَ : يُدْخِلُ أُصْبُعَهُ فِي فِيهِ فَيُدَلِّكَهُ هَكَذَا ، وَأَشَارَ بِإِصْبِعِهِ إِلَى فِيهِ
’’عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ بندہ کے جس کے دانت گر جائیں تو وہ مسواک کرے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کس طرح؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی انگلی کو منہ میں ڈال کر رگڑ لے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے منہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں عیسی بن عبد اللہ الانصاری ضعیف ہے۔ نیز یہ بھی ہے کہ انگلی سے دانت صاف نہیں ہوتے۔ اور پھر مسواک کا مقصد صرف دانت صاف کرنا ہی نہیں بلکہ زبان کی صفائی بھی اس سے کی جاتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چیز ثابت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسواک کرتے تو’’ اع اع ‘‘کی آواز آتی:
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَسْتَنُّ بِسِوَاكٍ بِيَدِهِ يَقُولُ أُعْ أُعْ وَالسِّوَاكُ فِي فِيهِ كَأَنَّه يَتَهَوَّعُ
’’ابو بردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ اپنے ہاتھ سے مسواک کررہے تھے اور اع اع کی آواز نکال رہے تھے۔ اور اس وقت مسواک آپ کے منہ میں تھی۔ آپ کی آواز سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ گویا آپ قے کرنا چاہتے ہوں۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رجعت پسند علماء جس چیز کو دلیل بناتے ہیں تو معتدل جدت پسند علماء یہ کہتے ہیں کہ اس اصول کو اگر بڑے پیمانے پر لاگو کیا جائے تو موجودہ دور میں زندگی اجیرن ہوجائے۔ لوگوں کو جانوروں پر سواری کرنا پڑے، علاج و معالجہ کے انہی طریقہ کار کو استعمال کیا جائے ،وغیرہ۔ اس میں ایک ضمنی اختلاف انگلی سے دانت صاف کرنے کے بارے میں بھی ہے۔قائلین اس بارے میں مروی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ جبکہ عدم قائلین کہتے ہیں کہ پیش کی جانی والی روایت ضعیف ہے ۔ اور چونکہ انگلی سے دانت بھی صاف نہیں ہوتے اس لیے اس کو مسواک کی سنت کا متبادل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔