Dec 14, 2014

کیا دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟

یہ سوال ہمارے یہاں مختلف الفاظ کے ساتھ پوچھا جاتا ہے کہ کیا مشرک امام کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ یا کیا بدعتی شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟ اسی طرح یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا خلاف سنت نماز پڑھانے والے

امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟ اس سوال کے پیچھے یہ نفسیات کار فرما ہے کہ عموما ایک مسلک کے پیرو اپنےمسلک پر اتنے متعصب ہوتے ہیں کہ انھیں دوسرے مسلک کے لوگوں کے اعمال کو خلاف سنت اور بدعت کہا جاتا ہےاور یہ سوال کسی ایک مسلک کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تقریبا سبھی مسالک کی طرف سے یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اور وجہ واضح کی جاچکی ہے کہ دیگر وجوہات کے ساتھ بنیادی وجہ مسلکی تعصب ہے۔ اس لیے ہم صرف ان اصولوں کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے کہ جن کی بناء پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے۔ ان کی تنفیذ (Application) قارئین کےپر ہے۔
شرک میں مبتلا شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست بالاتفاق درست نہیں ہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ ایسے شخص کی اصلاح کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح جو شخص بدعات میں مبتلا ہو اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کی بدعت مکفِّرہ یعنی جس کے ارتکاب سے وہ کفر کے درجے میں چلا جاتا ہے تو پھر اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔اس کی مزید تفصیل ابھی آیا چاہتی ہے۔ جس شخص کا بنیادی عقائد پر ایمان درست نہ ہو تو بالاتفاق اس کی امامت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص فرشتوں پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی امامت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نے اسلام کی بنیادی چیزوں میں سے ایک کا انکار کردیا۔ لیکن اگر کوئی شخص محض انسان ہونے کے ناطےگناہ کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس کے پیچھے بھی نماز پڑھنا بالاتفاق درست ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنے کام میں دوسرے کو ملوث نہ کرتا ہو اور اس کام کو غلط بھی سمجھتا ہو۔ ا ب ہم بدعت کی مزید تفصیل دیکھتے ہیں:
بدعت کی دو اقسام ہیں:
1. بدعت ُمکفِّرہ
2. بدعت غیر ُمکفِّرہ/ مُفسِّقہ
بدعت مُکَفِّرہ:اس سے مراد ایسا کام ہے جس کے ارتکاب سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے۔ کسی کفریہ کام کے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہےکہ یہ کفریہ کام ہے، لیکن اگر کوئی اس کام کا ارتکاب کرے تو اس پر کفر کا حکم لگانے سے پہلے ان امور کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔ أولا دیکھا جائے کہ کفریہ کام کے ارتکاب کے پیچھے کیا اسباب ہیں۔ اور پھر ان اسباب کا سد باب کیا جائے۔ کفریہ کام بسا اوقات صحیح نص نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ نص اس کے نزدیک ثابت نہیں ہوتی، یا یہ بھی ہوتا کہ اس کو اس میں فہم کی استطاعت نہ ہو یا ممکن ہے کہ اسے کچھ شبہات درپیش ہوں جو اس نص کو ماننے میں رکاوٹ ہوں۔ اس لیے پہلے ان اسباب کو ختم کیا جائے گا۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ زیر بحث کام کا تعلق ایسے امور سے نہ ہو جس میں سلف و خلف میں اختلاف ہو ۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ اتمام حجت اور کفریہ کام کے اسباب کو ختم کرنے کے بعد بھی اس پر کفر کا حکم عام شخص نہیں لگا سکتا بلکہ یہ کام حکومت کے ذمہ داری میں شامل ہے کیونکہ عامی کے ہاتھ اس کا اختیار دینے میں بہت مفاسد ہیں۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ اس کام کا تعلق اصول سے ہو نہ کہ فروع سے۔ اگر اس نے کوئی ایسا کام کیا جس کا تعلق فروع یعنی عملی کاموں سے ہو تو تب اس کو کافر نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس کو کافر قرار دینے کے لیے اس بات کا تعلق عقائد سے ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دیگر علماء اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کام کا تعلق خواہ عمل سے ہو یا عقیدہ سے اس کی تکفیر دیگر شرائط کو ملحوظ رکھ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ بدعت مکفرہ کے مرتکب شخص کے پیچھے بھی بالاتفاق نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ مگر اس کے لیے مذکورہ بالا شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔
بدعت غیر مکفرہ/ مفسِّقہ: یعنی جس کے کرنے سے انسان گناہ گار ہوجاتا ہے مگر اسے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کو فسق و فجور اور نافرمانی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے مکروہ اور ناپسندیدہ ہونے پر اتفاق ہے۔ پھر یہ دو اقسام پر منقسم ہوگا۔ ایک وہ بھی فسق و فجور کی دعوت دیتا ہے اور دوسرا جو صرف اس کام کو اپنے تک محدود رکھتا ہے۔ مؤخر الذکر صورت میں اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
اور اگر کوئی شخص بدعت اور فسق و نافرمانی کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دعوت بھی دیتا ہے ، تو ایسے شخص کو سمجھانا چاہیے اور اگر وہ رک جائے تو ٹھیک ورنہ اسے امامت سے ہٹا دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ شخص اس ذمہ دارانہ منصب کے لائق نہیں ہے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہویعنی اس کو امامت سے معزول کرنے سے فتنہ فساد زیادہ بڑھ جائے اور لوگوں میں انتشار اور افتراق پیدا ہوجائے تو پھر صرف ایسے ائمہ کے پیچھے صرف وہ نماز پڑھی جاسکتی ہے جو صرف انہی کے پیچھے ادا کرنا ممکن ہوں مثلا جمعہ، عیدین وغیرہ۔ اگر کسی اور امام کے پیچھے پڑھنا ممکن ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اگر پھر بھی کوئی اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہے تو یہاں ائمہ اختلاف کرتے ہیں کہ کیا وہ نماز کو دہرائے گا یا نہیں۔ لیکن اگر کوئی پڑھتا ہے تو کیا اس کی نماز مقبول ہے یا اسے دہرانے کی ضرورت ہے اس بارے میں دو آراء ہیں:
• جس شخص نے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھی وہ نماز کو دوبارہ پڑھے گا۔
• ایسا شخص نماز نہیں لوٹائے گا۔
مانعین کے دلائل
جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز درست نہیں ہے اور ایسا شخص نماز کو دہرائے گا ان کے دلائل ذیل میں ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى عَمْرٌو عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِىِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ عَنْ أَبِى سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدٍ - قَالَ أَحْمَدُ - مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ رَجُلاً أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِى الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَنْظُرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ فَرَغَ « لاَ يُصَلِّى لَكُمْ ». فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّىَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « نَعَمْ ». وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ « إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ »
’’ابو سھلہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کروائی۔ اس نے قبلہ کی طرف تھوکا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ تو جب وہ فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ وہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ تو جب اس نے دوبارہ نماز پڑھانا چاہی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منع کردیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتایا۔ اس کے بعد اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تائید کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے) سنن أبی داؤد، الصلوۃ، باب فی کراہیۃ البزاق فی المسجد، حدیث نمبر 481)۔‘‘
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فَثَوَّبَ رَجُلٌ فِى الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ قَالَ اخْرُجْ بِنَا فَإِنَّ هَذِهِ بِدْعَةٌ
’’مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو ایک شخص نے ظہر یا عصر کے وقت الصلوۃ خیر من النوم پڑھ دیا۔ تو انھوں نے فرمایا کہ چلو چلیں کیونکہ یہ بدعت ہے( سنن ابی داؤد، الصلوۃ، باب فی التثویب، حدیث نمبر 538)۔‘‘
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ : « لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ غَيَّرَ تُخُومَ الأرْضِ »
’’علی بن أبی طالب سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی اس شخص پر لعنت کریں جس نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا اور اس پر لعنت کریں جس نے بدعتی شخص کو جگہ دی۔ اور اس پر بھی جس نے اپنے والدین کو لعن طعن کی اور جس نے زمین کے نشانات کو بدلہ تو اس پر بھی( صحیح المسلم، الاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی ولعن فاعلہ، حدیث نمبر 1978)‘‘
اس حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ کسی بدعت کے مرتکب شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے اس کی بدعت کو تائید حاصل ہوگی جبکہ مذکورہ حدیث میں ایسے شخص کی تائید کرنا سخت جرم قرار دیا جارہا ہے۔ اور اس کے لیے لعنت کی بددعا کی جارہی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ الْحَضْرَمِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِىُّ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ الوَرَّاقُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى الأَسْلَمِىُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنِ الْقَاسِمِ السَّامِىِّ مِنْ وَلَدِ سَامَةَ بْنِ لُؤَىٍّ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ أَبِى مَرْثَدٍ الْغَنَوِىِّ وَكَانَ بَدْرِيًّا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إنْ سَرَّكمْ أنْ تُقبَلَ صلاتُكمْ فلْيَؤُمَّكمْ خِيارُكمْ
’’ابو مرثد الغنوی جو بدری صحابی ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ لوگوں کو یہ بات پسند ہے کہ آپ کی نماز مقبول ہو تو آپ میں سے جو بہتر ہو وہ امامت کروائے۔‘‘( سنن دار قطنی، الجنائز، باب نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقوم الامام فوق شئی والناس خلفہ، حدیث نمبر1905)
اسی مفہوم کی ایک اور روایت بھی ہے:
حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة ثنا عمي القاسم بن أبي شيبة ثنا محمد بن يعلى ح وحدثنا محمود بن محمد الواسطي ثنا محمد بن يحيى الازدي ثنا إسماعيل بن أبان الوراق ثنا يحيى بن يعلى الاسلمي عن عبيد الله بن موسى عن القاسم الشامي عن مرثد بن أبي مرثد الغنوي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنْ سَرَّكمْ أنْ تُقْبَلَ صَلاتُكمْ فلْيَؤُمَّكمْ عُلَماؤُكمْ فإنّهُمْ وَفْدُكمْ فِيما بَيْنَكُمْ وبَيْنَ رَبِّكُمْ
’’ ابو مرثد الغنوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ لوگوں کو اگر یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں نماز مقبول ہو تو آپ لوگوں کو علماء نماز پڑھائیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی اور آپ کے درمیان وفد کی حیثیت میں ہیں۔‘‘( نصب الرایۃ، جزء 2، صفحہ نمبر 33)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ : عَلِىُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْبَخْتَرِىِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الدَّقِيقِىُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنِى الْوَلِيدُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى مِنْبَرِهِ يَقُولُ : أَلاَ وَلاَ يَؤُمَّنَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا إِلاَّ أَنْ يَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ يَخَافُ سَيْفَهُ وَسَوْطَهُ
’’جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ خبر دار فاجر شخص مومن کی امامت نہ کروائے۔ ہاں اگر اسے سلطان مجبور کردے اور اسے اس کے نیزے کا تلوار کا خدشہ ہو تو وہ جماعت کروا سکتا ہے۔‘‘( السنن الکبری للبیہقی، الجمعۃ، باب۔۔۔۔، حدیث نمبر 5780)
عن أَبُي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيَفْعَلْ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اگر وہ اسے ہاتھ سے ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو کرے اور اگر وہ اس کی استطاعت نہیں پاتا تو اپنی زبان کے ساتھ روکے پھر اگر اس کی بھی طاقت نہیں پاتا تو دل میں برا جانے۔ اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔‘‘( سنن أبی داؤد، الصلوۃ، باب الخطبۃ یوم العید، حدیث نمبر 1140)
اس حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ اس نے ایسے کام کا ارتکاب کیا جو جائز نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ اس نے ایسے کام کو چھوڑ دیا جس پر تنقید و انکار ضروری تھا۔
اس موقف پر کیے جانے والے اعتراضات:
اعتراض۱: جو حضرات اس بات کے قائلین ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے ابو سھلہ والی روایت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ تھوکنے والے شخص کو آئندہ امام بننے سے منع فرمایا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ نہیں فرمایا کہ نماز دہرا لیجئے کیونکہ ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ اورجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ اس کے امام بننے سے منع فرمایا تو اگر اس روایت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا یہ مفہوم ہوگا کہ ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا افضل نہیں ہے۔
اعتراض۲: ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی اسی نظر سے دیکھا جائے گا کہ انھوں نے افضل کام پر عمل کیا اور اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی۔
اعتراض۳: علی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں بدعتی شخص پر لعنت کی جارہی ہے، تو اس کے بارے میں دیگر دلائل کے تناظر میں یہ کہا جائے گا کہ اس بدعت سے مراد وہ ہے جس سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔
اعتراض۴: أبو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی دونوں روایات ضعیف ہیں کیونکہ ان میں عبد اللہ بن موسی ضعیف ہے۔ نیز یحیی بن یعلی بھی ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے اس روایت کو سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ میں بیان کیا ہے۔( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ، حدیث نمبر 1822)
اعتراض۵: جابر رضی اللہ عنہ والی روایت بھی سندا قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس میں علی بن زید الجدعان ضعیف، عبد اللہ بن محمد العدوی متروک، الولید بن بکیر لین الحدیث ہے۔
اعتراض۶: جبکہ آخری روایت میں یہ بیان نہیں ہوا کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ اس میں جو بیان ہوااس پر اختلاف نہیں ہے کہ برائی کو حتی الامکان روکنا چاہیے۔
قائلین کے دلائل
جو علماء اس بات کے قائلین ہیں کہ اگر کوئی امام فسق و فجور کا شکار ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر قریب ہی کوئی دوسرا امام ہوجو نسبتا اچھا ہو تو پھر ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔
حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ: نُصَلِّي يَوْمَ الْجُمُعَةِ خَلْفَ أُمَرَاءَ فَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ، قَالَ: فَضَرَبَ فَخِذِي ضَرْبَةً أَوْجَعَتْنِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ، عَنْ ذَلِكَ فَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «صَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلَاتَكُمْ مَعَهُمْ نَافِلَةً»
’’ابو العالیہ البراء سے مروی ہے کہ میں نے عبد اللہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم جمعہ کے دن نماز امراء کے پیچھے پڑھتے ہیں۔ وہ نماز کو مؤخر کرتے ہیں۔ تو انھوں نے میرے ران پر ہاتھ مارا کہ جس سے مجھے تکلیف محسوس ہوئی۔ اور کہا کہ میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انھوں نے بھی میری ران پر مارا تھا۔ اور انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز مقررہ وقت پر پڑھ لیا کیجئے اور ان کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو نفل سمجھ لیا کریں۔‘‘( صحیح المسلم، الصلاۃ،باب کراہیۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا المختار۔۔۔۔ ، حدیث نمبر 648)
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ
’’عبید اللہ بن عدی بن خیار سے مروی ہے کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے۔ انھوں نے کہا کہ عام رعایا کی خلافت آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو معاملہ آپ کے ساتھ ہوچکا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ہمیں فتنہ باز امام نماز پڑھاتے ہے تو ہمیں اس میں حرج محسوس ہوتا ہے۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ لوگ جو اچھے اعمال کرتے ہیں ان میں سے بہترین نماز ہے۔ اس لیے جب لوگ اچھا کام کریں تو ان کے ساتھ اچھا کام کرنا چاہیے اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے بچنا چاہیے۔‘‘( ٍصحیح البخاری، الاذان، باب امامۃ المفتون والمبتدع، حدیث نمبر 695)
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِيبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الإِسْمَاعِيلِىُّ أَخْبَرَنِى أَبُو يَعْلَى حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا/عَبْدُ الرَّحَمْنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ الْمَدَنِىُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« يُصَلُّونَ لَكُمْ ، فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ وَلَهُمْ ، وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ »
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ائمہ آپ لوگوں کو نماز پڑھاتےہیں۔ اگر وہ درست راہ پر ہیں تو آپ کے لیے اچھائی اور خیر ہے اور اگر وہ غلط راہ پر ہیں تو نقصان آپ لوگو ں کا نہیں بلکہ ان کا ہے۔‘‘( السنن الکبری للبیہقی، الصلوۃ، باب امامۃ الجنب، حدیث نمبر 4233)
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النُّعْمَانِيُّ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَنَّانٍ , ثنا بَقِيَّةُ , ثنا الْأَشْعَثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , عَنْ مَكْحُولٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ كَانَ عَمِلَ بِالْكَبَائِرِ , وَالْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ بِالْكَبَائِرِ
’’أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان کے ساتھ نماز کی ادائیگی واجب ہے خواہ وہ نیکو کار ہو یا گناہ گار۔ اور اگرچہ اس نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو۔ اور جہاد بھی ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیکو کار ہو یا گناہ گار۔ اور اگرچہ اس نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو۔‘‘( سنن الدار قطنی، العیدین، باب من تجوز الصلاۃ معہ والصلاۃ علیہ، حدیث نمبر1764)
ان حضرات کا یہ دعوی بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر عملی اجماع بھی ہے۔ علامہ شوکانی نیل الأوطار میں رقمطراز ہیں:
ولكنه قد ثبت إجماع أهل العصر الأول من هذه الصحابة ومن معهم من التابعين إجماعًا فعليًا ولا يبعد أن يكون قوليًا على الصلاة خلف الجائرين لأن الأمراء في تلك الأعصار كانوا أئمة الصلوات الخمس فكان الناس لا يؤمهم إلا أمراؤهم في كل بلدة فيها أمير وكانت الدولة إذ ذاك لبني أمية وحالهم وحال أمرائهم لا يخفى
’’لیکن صحابہ اور تابعین کے عصر اول کا ظالم حکمرانوں کے پیچھے نماز درست ہونے پر عملی اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی بعید نہیں کہ قولی اجماع بھی ہوچکا ہو۔ کیونکہ ان زمانوں کے حکمران پانچوں نمازوں کے امام بھی تھے۔ لوگوں کو ان کے حکمران ہی نماز کروایا کرتے۔ ہر شہر میں امیر ہوتا۔ اور ان دنوں حکومت بنی امیہ کے پاس تھی اور ان کا حال کس کی نظر سے مخفی ہے۔‘‘( نیل الأوطار، صفحہ 32/6)
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا مُسَدَّدٌ، أَنَّ أَبَا مُعَاوِيَةَ، وَحَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ، حَدَّثَاهُمْ، وَحَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَتَمُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: صَلَّى عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِمِنًى أَرْبَعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ ". زَادَ عَنْ حَفْصٍ: " وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا "، زَادَ مِنْ هَهُنَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: " ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمُ الطُّرُقُ، فَلَوَدِدْتُ أَنَّ لِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ مُتَقَبَّلَتَيْنِ "، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَشْيَاخِهِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ صَلَّى أَرْبَعًا، فَقِيلَ لَهُ: عِبْتَ عَلَى عُثْمَانَ، ثُمَّ صَلَّيْتَ أَرْبَعًا؟ قَالَ: " الْخِلَافُ شَرٌّ "
’’عبد الرحمن بن یزید سے مروی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منی میں چار رکعات پڑھائیں تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعات پڑھیں اسی طرح ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی دو رکعات پڑھیں۔ حفص سے مروی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ پھر آپ کی خلافت کی ابتدا میں چار رکعات پڑھیں۔ پھر انھوں نے انھیں مکمل کیا۔ یہاں ابو معاویہ سے مروی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ پھر رستے مختلف ہوگئے۔ اور میری چاہت ہے کہ چار رکعات کی بجائے میرے لیے دو مقبول رکعات ہوں۔ اعمش کہتے ہیں کہ معاویہ بن قرۃ نے اپنے اساتذہ سے بیان کیا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے چار رکعات ادا کیں تو ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے تو عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید کی تھی پھر خود چار رکعات پڑھیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اختلاف شر کا باعث ہے۔‘‘( السننالکبری للبیہقی، الصلوۃ، باب من ترک القصر فی السفر غیر رغبۃ عن السنۃ، حدیث نمبر 5434)
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ : شَهِدْتُ ابْنَ عُمَرَ وَالْحَجَّاجُ مُحَاصِرٌ ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَكَانَ مَنْزِلُ ابْنِ عُمَرَ بَيْنَهُمَا ، فَكَانَ رُبَّمَا حَضَرَ الصَّلاَة مَعَ هَؤُلاَءِ وَرُبَّمَا حَضَرَ الصَّلاَة مَعَ هَؤُلاَءِ
’’عمر بن ہانئ سے مروی ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گیاتو اس وقت حجاج نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا گھر ان کے درمیان تھا تو وہ بھی ان کے ساتھ نماز پڑھ لیتے اور کبھی ان کے ساتھ۔‘‘( المصنف لابن ابی شیبۃ، الصلوۃ، باب فی الصلوۃ خلف الامراء، حدیث نمبر 7641)
حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِيلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يُصَلِّيَانِ خَلْفَ مَرْوَانَ
’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما مروان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘( المصنف لابن ابی شیبۃ، الصلوۃ، باب فی الصلوۃ خلف الامراء، حدیث نمبر 7642)
قال عبد الله حدثني معاوية بن صالح عن عبد الكريم البكاء أدركت عشر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كلهم يصلون خلف أئمة الجور
’’عبد الکریم البکاء سے مروی ہے کہ میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا کہ وہ ظالم حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔‘‘( التاریخ الکبیر، باب عبد الکریم، نمبر 1800)
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ : كَانَ عَبْدُ اللهِ يُصَلِّي مَعَهُمْ إذَا أَخَّرُوا عَنِ الْوَقْتِ قَلِيلاً وَيَرَى أَنَّ مَأْثَمَ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ
’’ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرتے جب وہ افضل وقت سے کچھ مؤخر کرتےاور یہ سمجھتے کہ اس کا گناہ انہی پر ہے۔‘‘( المصنف لابن ابی شیبۃ، الصلوۃ، باب فی الصلوۃ خلف الامراء، حدیث نمبر 7648)
وصله سعيد بن منصور عن ابن المبارك عن هشام بن حسان أن الحسن سئل عن الصلاة خلف صاحب البدعة فقال الحسن صل خلفه وعليه بدعته
’’ہشام بن حسان سے مروی ہے کہ حسن بصری سے بدعتی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیجئے۔ بدعت کا وبال اسی پر ہوگا۔‘‘( فتح الباری، ٍصفحہ150/2،صحیح البخاری، الاذان، باب امامۃ المفتون والمبتدع، حدیث نمبر 695)
عن زيد بن أسلم أن ابن عمر كان في زمان الفتنة لا يأتي أمير إلا صلى خلفه ، وأدى إليه زكاة ماله
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ فتنہ کے دور میں ہر امیر کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور اسے مال زکاۃ ادا کرتے۔‘‘( ارواء الغلیل، حدیث نمبر 524)
عن سيف المازني قال : كان ابن عمر يقول : لا أقاتل في الفتنة ، وأصلي وراء من غلب
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے کہ میں فتنہ کے دور میں لڑتا نہیں ہوں اور جو غلبہ پا لے اس کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں۔‘‘( ارواء الغلیل، حدیث نمبر 524)
حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ الْحَضْرَمِىُّ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى فُدَيْكٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِى صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ( قَالَ : سَيَلِيكُمْ بَعْدِى وُلاَةٌ فَيَلِيكُمُ الْبَرُّ بِبِرِّهِ وَالْفَاجِرُ بِفُجُورِهِ فَاسْمَعُوا لَهُمْ وَأَطِيعُوا فِيمَا وَافَقَ الْحَقَّ وَصَلُّوا وَرَاءَهُمْ فَإِنْ أَحْسَنُوا فَلَكُمْ وَلَهُمْ وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ.)).
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد جلد ہی کچھ حکمران ہوں گے تو آپ ان کے ساتھ معاملات درست رکھو گے تو معاملہ درست رہے گا اور اگر معاملہ درست نہ رکھا گیا تو نافرمان شخص سے پالا پڑے گا۔ اس لیے ان کی بات سننا اور جو حق کے موافق ہو اس کی اطاعت کرنا۔ اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا۔ اگر وہ اچھا کام کریں تو یہ آپ لوگوں کے حق میں ہے اور اگر وہ غلط ڈگر پر ہو تو آپ کو تو آپ کا اجر مل جائے گا اور ان کا وبال انہی پر ہوگا۔‘‘( ارواء الغلیل، حدیث نمبر 524، سنن دار قطنی، العیدین، باب صفۃ من تجوز الصلاۃ معہ و الصلاۃ علیہ، حدیث نمبر 1779)
ابو جعفر الطحاوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’ہماری رائے کے مطابق اہل قبلہ میں سے ہر اچھے اور برے کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اسی طرح اہل قبلہ میں سے ہر اچھے اور برے کی نماز جنازہ پڑھنا بھی جائز اور درست ہے۔ (ابو العز علی الحنفی اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نیکوکار اور بدکار کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس روایت کو مکحول نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ اور اسے دار قطنی نے بیان کیا ہے۔ اور کہا کہ مکحول راوی کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اور اس کی سند میں معاویہ بن صالح راوی متکلم فیہ ہے۔ امام مسلم نے صحیح مسلم میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ دار قطنی میں ایک اور روایت بھی مروی ہے۔ یہ روایت ابو داؤد میں بھی ہے۔ مکحول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان کے ساتھ نماز کی ادائیگی واجب ہے خواہ وہ نیکو کار ہو یا گناہ گار۔ اور اگرچہ اس نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو۔ اور جہاد بھی ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیکو کار ہو یا گناہ گار۔ اور اگرچہ اس نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو۔صحیح بخاری میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے۔ حالانکہ حجاج فاسق اور ظالم تھا۔ صحیح بخاری میں ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ائمہ آپ لوگوں کو نماز پڑھاتےہیں۔ اگر وہ درست راہ پر ہیں تو آپ کے لیے اچھائی اور خیر ہے اور اگر وہ غلط راہ پر ہیں تو نقصان آپ لوگو ں کا نہیں بلکہ ان کا ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے اس کی نماز جنازہ پڑھیے اور جو شخص بھی لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھیے۔ امام دار قطنی نے اسے کئی سندوں سے بیان کیا ہے اور اسے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ کسی بھی شخص کے لیے ایسےشخص کی امامت میں نماز پڑھنا جائز ہےجس کے بارے معلوم نہ ہو کہ وہ وہ بدعتی ہے یا نافرمانی والے امور سرانجام دیتا ہے۔ اس پر سبھی کا اتفاق ہے۔ اور مقتدی کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ وہ امام کے عقیدے کی جانچ پڑتال کرتا پھرے ۔ اور پوچھ گچھ کرے کہ آپ کس عقیدے کے حامل ہیں؟ بلکہ وہ ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتا ہے جس کے حالات کا علم نہ ہو۔ اور اگر اس نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ لی جو بدعات کی طرف بلاتا بھی ہے یا واضح غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ جبکہ یہ امام ایسا ہے کہ نماز صرف اسی کی اقتداء میں پڑھی جاسکتی ہے مثلا جمعہ یا عیدین کا امام یا عرفہ میں حج کی نماز کا امام وغیرہ، تو متقد م اور متاخرجمہور کے نزدیک اس کے پیچھے وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔‘‘( شرح عقیدۃ الطحاویۃ 531/2)
ان حضرات کا کہنا ہے کہ اصول ہے کہ جب چھوٹے شر سے بڑا شر حاصل ہورہا ہو تو پھر چھوٹے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ یا چھوٹے شر کو ختم کرتے ہوئے اگر بڑے شر کےپیدا ہونے کا امکان ہو تو تب بھی چھوٹے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ یہاں بڑا شر قتل و غارت گری ، افتراق اور مسلمانوں کے اتحاد کا شیرازہ ختم ہونا ہے۔ جبکہ جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے کہ نماز ان کے پیچھے نماز ہوجائےگی یا نہیں تو اس مسئلہ کا جائز و ناجائز سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ اصول لاگو کیا جائے گا کہ جس کی اکیلے میں نماز ہوجائے تو اس کی امامت میں بھی نماز درست قرار پائے گی۔ ہاں افضل اور مکروہ کی بات یہاں کی جاسکتی ہے۔ ابن تیمیہ فتاوی میں لکھتے ہیں:
’’جب بستی میں صرف ایک ہی مسجد ہو تو فاجر کے پیچھے با جماعت نماز پڑھنا اس کے گھر میں اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ تاکہ اس کام کا یہ نقصان نہ ہو کہ وہ اکیلے نماز پڑھنے کا عادی بن جائے۔ اور اگر یہ ممکن ہو کہ وہ غیر بدعتی شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت اچھا اور افضل ہے۔‘‘( الفتاوی الکبری لابن تیمیۃ، فصل الصلوۃ خلف المبتدع)
اس موقف پر کیے جانے والے اعتراضات:
اعتراض ۱: مانعین قائلین کی طرف سے پیش کی جانے والی کچھ روایات کی سند پر تنقید کرتے ہیں۔ جن روایات کو مکحول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے وہ ضعیف ہیں کیونکہ مکحول کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔
اعتراض۲: اسی طرح عبد الکریم البکاء والی روایت بھی ضعیف ہے۔ اس کی روایات قابل اعتماد قرار نہیں پاتیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اتفاقی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص شرک اور بدعت مکفرہ کا ارتکاب کرلے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جو قبل ازیں بیان ہوچکی ہیں۔ جن کا تعلق ان کو غیر مسلم قرار دینے سے ہے۔ جبکہ اگر کوئی شخص عام انسان ہونے کے ناطے عام غلطی کا شکار ہوتا ہے اور اس کام کو اپنے تک محدود رکھتا ہے تو اس کے پیچھے بالاتفاق نماز پڑھنا درست ہے۔ اختلافی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بدعات و خرافات کا ارتکاب کرتا ہے لیکن اس کے یہ خلاف شریعت کام ایسے نہیں کہ اسے دائرہ اسلام میں نہ رہنے دیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو بھی اس میں ملوث کرتا ہے۔ اور اس علاقے میں اور مسجد بھی نہیں کہ جس میں خاص نمازوں کی ادائیگی کی جاسکے تو پھر آیا اس کے پیچھے نماز پڑھنے والا شخص نماز دہرائے گا یا نہیں؟ ایک فریق کے نزدیک ایسا شخص نماز دہرائے گا جبکہ دوسرے فریق کے نزدیک وہ نماز نہیں دہرائے گا۔ دوسرا گروہ اس ضمن میں ان اصولوں کو اہمیت دیتا ہے:
1. اگر چھوٹے مفسد کو دور کرنے سے بڑی برائی پیدا ہورہی ہو تو پھر چھوٹی کو برداشت کیا جاتا ہے۔
2. جس شخص کی اکیلے میں نماز درست ہے اس کی امامت بھی درست ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads