Dec 2, 2014

عشقِ حقیقی

ہماری نئی نسل کو یہ وہم لاحق ہو گیا ہے کہ اگر عشقِ حقیقی منزل ہے تو عشقِ مجازی رستہ ہے۔اورعشقِ مجازی کا رستہ اختیار کئے بغیر عشقِ حقیقی پانا ممکن نہیں۔۔

درحقیقت عشقِ حقیقی تک پہنچنے کے لا تعداد آسان اور کُشادہ راستے ہیں۔۔اور ہاں اُن لا تعداد راستوں میں ایک ٹوٹا پھوٹا،پیچیدہ سا راستہ عشقِ مجازی کا بھی ہے۔
اب یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہم کیوں ایسے ٹوٹے پھوٹے اور نجس راستوں پر چلیں؟ جب کہ منزل تک رسائی کے لئے ہمیں اور بہت سے پاک صاف راستے میسر ہوں ؟
ہم ایسا راستہ کیوں اِختیار کریں جس میں رسوائی کا ڈر ہو، ہجر کے شب و روز ہوں، فرقت کے ماہ و سال ہوں، حزن و ملال کی صدیاں ہو، اور منزل تک پہنچنے کی کوئی ضمانت بھی موجود نہ ہو۔۔

عشقِ مجازی یا لاحاصل عشق ،،اُن لوگوں کے سروں پہ مسلط کیا جاتا ہے جن کا امتحان لینا مقصود ہو یا جن کو آزمائش میں مبتلا کرنا ہو۔پھر جو آزمائش پر پورا اُترتا ہے وہ سیدھی راہ پا لیتا ہے۔جو آزمائش پر پورا نہیں اُتر پاتا وہ کہیں کا نہیں رہتا۔۔
اور وہ جو لوگ خود عشقِ مجازی کو اپنے اوپر مسلط کر کے عشقِ حقیقی کی کھوج میں نکلتے ہیں اُن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آتا ما سوائے ذلت و رسوائی کے۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads