نبی کریم صلى الله عليه و سلم کی مدینہ تشریف آوری کے ساتھ ہی کفر واسلام کی کش مکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ۔جیساکہ مولانا مودودی ؒ نے تفہیم القرآن میں بیان کیا ہے کہ مکہ میں حضور صلى الله عليه و سلمبنیادی عقائد کی تشریح و تفسیر اورصحابہ کرام کی اخلاقی و روحانی تربیت میں مصروف رہے ۔آپ صلى الله عليه و سلم کی مدینہ آمد کے بعد عرب کے مختلف قبائل اورعلاقوں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگےتوان میں سے بعض یہاں آکر آباد بھی ہوگئے ۔اگر چہ مسلمانوں کےتصرف میں مدینہ کا چھوٹا ساقصبہ تھا، تاہم سارا عرب ان کے خلاف متحد ہوگیا اورانھیں روئے زمین سے نابود کرنے کے لیے سازشیں تیار کی جانے لگیں ۔
ان حالات میں مسلمانوں کی بقا کاانحصار درج ذیل عوامل پر تھا:
اسلام دشمن پروپیگنڈاکا پوری جرات کے ساتھ جواب دیا جائے ،تاکہ مخالفین کو اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اورشکوک وشبہات پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
گھروں سے بے دخلی ،پورے ملک کی مخالفت، مالی مشکلات ، عدم تحفظ اور خطرات کے باوجود مایوس ہونے کے بجائے حضور صلى الله عليه و سلم کے غلام کی حیثیت سے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا جائے۔
اہل مکہ کی طرف سے چھینے گئے مال واسباب کے حصول کے لیے کوئی طریق کار وضع کیاجائے ۔
قریش انھیں مدینے تک محصور رکھنا چاہتے ہیں ،لہذا ان کے لاؤ لشکر اور ہتھیاروں کی بہتا ت سے مرعوب ہونے کے بجائے عزم وہمت اورسامان حرب کی فراہمی کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہاجائے ۔
مسلمانوں کو مشرکین مکہ اور اس کے حواری قبائل کی مخالفت کے علاوہ مدینہ میں یہودیوں کے تین قبائل کابھی سامنا تھا۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکاہےکہ معاشی اعتبار سے مدینہ میں انھیں غلبہ حاصل تھا ۔اگر چہ وہ ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے ،تاہم بنی اسرائیل سے تعلق نہ ہونے کے سبب انھوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مدینہ میں آپ صلى الله عليه و سلم کی بڑھتی ہوئی عظمت وشوکت کے پیش نظر انھوں نے بہ امر مجبوری آپ صلى الله عليه و سلم سے معاہدے توکرلیے ،لیکن در پردہ دین اسلام کو گزندپہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے ۔ان کے ایک شاعر کعب بن اشرف کوہی لیجیے ،جو اپنی نظموں میں آپ صلى الله عليه و سلم کاتمسخر اڑانے اور مخالفین کو مشتعل کرنے کی بھرپور کوشش کرتارہتاتھا۔
اہل یہودکےساتھ ساتھ مدینے میں اسلام کومنافقین سے بھی خطرات لاحق تھے مفاقین میں سے ایک طبقہ ایساتھا ، جو مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے بہ ظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔کچھ لوگ مدینہ میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کے پیش نظر مصلحت کے تحت دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، تاہم انھوں نے دشمنان اسلام سے بھی رابطہ استوار رکھا، تاکہ فریقین میں جنگ وجدل کی صورت میں ہر ایک انھیں اپنا حمایتی تصور کرے ۔تیسر ے وہ لوگ ، جوابھی تک ذہنی کش مکش میں مبتلا تھے ، تاہم اپنے قبائل یاخاندان کی دیکھا دیکھیی کلمہ پڑھنے پر مجبور تھے۔منافقین کا ایک گروہ ایسا بھی تھا ،جواسلام کی حقانیت کو توتسلیم کرتاتھا، لیکن روایتی طرزحیات ، توہمات اور رسم ورواج سے کنارہ کش ہونے اور اسلامی ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے اورفرائض کی ادائی میں دشواری محسوس کرتا تھا۔
ان حالات میں مسلمانوں کی بقا کاانحصار درج ذیل عوامل پر تھا:
اسلام دشمن پروپیگنڈاکا پوری جرات کے ساتھ جواب دیا جائے ،تاکہ مخالفین کو اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اورشکوک وشبہات پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
گھروں سے بے دخلی ،پورے ملک کی مخالفت، مالی مشکلات ، عدم تحفظ اور خطرات کے باوجود مایوس ہونے کے بجائے حضور صلى الله عليه و سلم کے غلام کی حیثیت سے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا جائے۔
اہل مکہ کی طرف سے چھینے گئے مال واسباب کے حصول کے لیے کوئی طریق کار وضع کیاجائے ۔
قریش انھیں مدینے تک محصور رکھنا چاہتے ہیں ،لہذا ان کے لاؤ لشکر اور ہتھیاروں کی بہتا ت سے مرعوب ہونے کے بجائے عزم وہمت اورسامان حرب کی فراہمی کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہاجائے ۔
مسلمانوں کو مشرکین مکہ اور اس کے حواری قبائل کی مخالفت کے علاوہ مدینہ میں یہودیوں کے تین قبائل کابھی سامنا تھا۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکاہےکہ معاشی اعتبار سے مدینہ میں انھیں غلبہ حاصل تھا ۔اگر چہ وہ ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے ،تاہم بنی اسرائیل سے تعلق نہ ہونے کے سبب انھوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مدینہ میں آپ صلى الله عليه و سلم کی بڑھتی ہوئی عظمت وشوکت کے پیش نظر انھوں نے بہ امر مجبوری آپ صلى الله عليه و سلم سے معاہدے توکرلیے ،لیکن در پردہ دین اسلام کو گزندپہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے ۔ان کے ایک شاعر کعب بن اشرف کوہی لیجیے ،جو اپنی نظموں میں آپ صلى الله عليه و سلم کاتمسخر اڑانے اور مخالفین کو مشتعل کرنے کی بھرپور کوشش کرتارہتاتھا۔
اہل یہودکےساتھ ساتھ مدینے میں اسلام کومنافقین سے بھی خطرات لاحق تھے مفاقین میں سے ایک طبقہ ایساتھا ، جو مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے بہ ظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔کچھ لوگ مدینہ میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کے پیش نظر مصلحت کے تحت دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، تاہم انھوں نے دشمنان اسلام سے بھی رابطہ استوار رکھا، تاکہ فریقین میں جنگ وجدل کی صورت میں ہر ایک انھیں اپنا حمایتی تصور کرے ۔تیسر ے وہ لوگ ، جوابھی تک ذہنی کش مکش میں مبتلا تھے ، تاہم اپنے قبائل یاخاندان کی دیکھا دیکھیی کلمہ پڑھنے پر مجبور تھے۔منافقین کا ایک گروہ ایسا بھی تھا ،جواسلام کی حقانیت کو توتسلیم کرتاتھا، لیکن روایتی طرزحیات ، توہمات اور رسم ورواج سے کنارہ کش ہونے اور اسلامی ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے اورفرائض کی ادائی میں دشواری محسوس کرتا تھا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔