آ پ نے اکثریہ محاورہ سناہوگا۔ایک مینڈک کنویں کے اندرپیداہوا، پلا، بڑھااورپروان چڑھا۔اس نے اپنے اردگردایک تاریک ماحول دیکھا،سیلن، بدبواورایک تنگ سادائرہ۔صبح وشام اس کاگذربسراسی محدوددنیامیں ہواکرتا۔اس کی غذابھی چندغلیظ کیڑے تھے۔ایک دن ایک اورمینڈک باہرسے اس کنویں میںآگرا۔اس نے کنویں کے مینڈک کوبتایاکہ باہرکی دنیابہت وسیع ہے،وہاں سبزہ ہے،کھلاآسمان ہے،وسیع زمین ہے اورآزادزندگی ہے۔لیکن کنویں کامینڈک ان تمام باتوں کوسمجھ ہی نہیں سکتاتھاکیوں کہ وہ توکنویں کامینڈک تھا۔
ہم میں سے اکثرمتمدن شہری بھی کنویں کے مینڈک بنتے جارہے ہیں۔ہم انسانوں کے بنائے ہوئے ماحول میں شب وروزبسرکرتے ہیں۔صبح آفس کے لیے گاڑی لی،شام تک آفس کی چاردیواری میں محدودرہے اورپھرسواری میں گھرآگئے۔کسی چھٹی والے دن اگرکوئی تفریح بھی ہوئی توہوٹل وغیرہ چلے گئے۔اگرہم غورکریں توہماراتمام وقت انسان کی بنائی ہوئی مادی چیزوں کے ساتھ ہی بسرہوتاہے۔جس کے نتیجے میں مادیت ہی جنم لیتی ہے۔ہمارے اردگردفطرت کی دنیابھی ہے۔جس سے روحانیت پیداہوتی ہے۔لیکن ہم اس کی طرف نگاہ بھی نہیں ڈالتے کیونکہ ہم خوفزدہ ہیں کہ کہیںیہ مادی وسائل ہم سے چھن نہ جائیں۔اگرہم اس مادی کنویں سے باہرنکلیں توپتاچلے گاکہ ہمارے اوپرپھیلاہو نیلگوں اآسمان ہے جہاں خدابلندیوں کی جانب دعوت دے رہاہے۔ایستادہ پہاڑہیں جوانسان کومضبوطی کاسبق دے رہے ہیں،شام کے ڈھلتے ہوئے سائے ہیں جوہمیں خداکے حضورجھکناسکھارہے ہیں،بہتے ہوئے دریاہیں جو رواں دواں زندگی کااظہارکررہے ہیں۔ساحل کی ٹکراتی موجیں ہیں جوعمل پیہم کاپیام سنارہی ہیں،پتھرپرگرتاہواپانی کا قطرہ ہے جوناممکن کوممکن بنارہاہے۔
غرض یہ چڑیوں کی چہچہاہٹ،بلبلوں کی نغمگی،شفق کی لالی،درختوں کی چھاؤں اوردیگرمظاہرفطرت انسان کوایک روحانی دنیاکی جانب بلارہے ہیں وہ ایسے خداکی جانب بلارہے ہیں جو اسے ایک کامل تر دنیاکی جانب لے جانا چاہتا ہے۔لیکن انسان نے بھی عزم کرلیاہے کہ وہ ان کی جانب ایک نظربھی نہیں ڈالے گا،وہ ہرگزاس مادی کنویں کی بدبو،سیلن اورمحدودیت کو چھوڑنے کے لیے تیارنہیں کیونکہ وہ توکنویں کامینڈک ہے۔جس کی دماغی صلاحیت کنویں سے باہرکی حسین اورپرسکون زندگی کوسمجھنے سے قاصرہے۔
ہم میں سے اکثرمتمدن شہری بھی کنویں کے مینڈک بنتے جارہے ہیں۔ہم انسانوں کے بنائے ہوئے ماحول میں شب وروزبسرکرتے ہیں۔صبح آفس کے لیے گاڑی لی،شام تک آفس کی چاردیواری میں محدودرہے اورپھرسواری میں گھرآگئے۔کسی چھٹی والے دن اگرکوئی تفریح بھی ہوئی توہوٹل وغیرہ چلے گئے۔اگرہم غورکریں توہماراتمام وقت انسان کی بنائی ہوئی مادی چیزوں کے ساتھ ہی بسرہوتاہے۔جس کے نتیجے میں مادیت ہی جنم لیتی ہے۔ہمارے اردگردفطرت کی دنیابھی ہے۔جس سے روحانیت پیداہوتی ہے۔لیکن ہم اس کی طرف نگاہ بھی نہیں ڈالتے کیونکہ ہم خوفزدہ ہیں کہ کہیںیہ مادی وسائل ہم سے چھن نہ جائیں۔اگرہم اس مادی کنویں سے باہرنکلیں توپتاچلے گاکہ ہمارے اوپرپھیلاہو نیلگوں اآسمان ہے جہاں خدابلندیوں کی جانب دعوت دے رہاہے۔ایستادہ پہاڑہیں جوانسان کومضبوطی کاسبق دے رہے ہیں،شام کے ڈھلتے ہوئے سائے ہیں جوہمیں خداکے حضورجھکناسکھارہے ہیں،بہتے ہوئے دریاہیں جو رواں دواں زندگی کااظہارکررہے ہیں۔ساحل کی ٹکراتی موجیں ہیں جوعمل پیہم کاپیام سنارہی ہیں،پتھرپرگرتاہواپانی کا قطرہ ہے جوناممکن کوممکن بنارہاہے۔
غرض یہ چڑیوں کی چہچہاہٹ،بلبلوں کی نغمگی،شفق کی لالی،درختوں کی چھاؤں اوردیگرمظاہرفطرت انسان کوایک روحانی دنیاکی جانب بلارہے ہیں وہ ایسے خداکی جانب بلارہے ہیں جو اسے ایک کامل تر دنیاکی جانب لے جانا چاہتا ہے۔لیکن انسان نے بھی عزم کرلیاہے کہ وہ ان کی جانب ایک نظربھی نہیں ڈالے گا،وہ ہرگزاس مادی کنویں کی بدبو،سیلن اورمحدودیت کو چھوڑنے کے لیے تیارنہیں کیونکہ وہ توکنویں کامینڈک ہے۔جس کی دماغی صلاحیت کنویں سے باہرکی حسین اورپرسکون زندگی کوسمجھنے سے قاصرہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔