Dec 13, 2014

سورة المزمل

سورة المزمل کی پہلی آیت میں المزمل کو اس سورة کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس سورة کے دو رکوع ہیں۔ پہلا رکوع 3 نبوی میں مکہ معظمہ میں نازل ہوا اور دوسرا رکوع 1 ہجری میں مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔
”بخاری و مسلم اور ترمذی نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو غار حرا سے واپس آتے ہوئے جبریل علیہ اسلام کو فضا میں دیکھا تو آپ ﷺ پر کپکپی طاری ہو گئی اور گھر پہنچتے ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا ؛ ” زملونی و ثرونی “ کہ مجھے فورا کمبل اوڑھاوٴ ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ازراہ لطف و محبت آپ کو المزمل او سورة مدثر میں المدثر کا خطاب دیا۔“ (تیسیراالرحمان البیان القرآن 1656/2 )
صاحب ضیاء القرآن اس سورة کے مضامین و موضوع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ” ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ سے اپنے حبیب کو سحر خیزی کی تلقین فرمائی ہے کہ آپ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم و بیش مصروف عبادت رہا کریں کیونکہ رات کی خاموشیوں میں تلاوت قرآن اور ذکرِ الہٰی سے روح کی توانائیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت کی عبادت سے اسرار الہٰیہ پر مطلع ہونے کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے پر جو فرائض عائد کئے گئے ہیں اُن سے عمدگی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کی قوت او ر ہمت پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے رکوع میں نماز تہجد تخفیف فرما دی گئی ہے۔ نصف شب جاگ کر عبادت کرنا عامل لوگو ں کیلئے ازبس دشوار ہے۔ ان میں کئی بیمار ، کئی مسافر اور کئی جہاد میں مصروف ہوتے ہیں۔ دن بھر کی تھکاوٹ اُن کو چور چور کر دیتی ہے۔ اسلئے اُن کیلئے نرمی فرما دی کہ جتنی دیر آسانی سے تلاوت و عبادت کر سکیں اُتنا ہی کافی ہے۔ فرض نمازوں کی سختی سے پابندی کریں اور زکوة ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ( ضیاء القرآن 400'300 )
سید قطب شہید فرماتے ہیں؛ ” اس سورة کا سبب نزول یہ ہوا کہ قریش دارلند وہ میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف خفیہ تدبر کرنے کیلئے آپ ﷺ کی لائی ہوئی دعوت کے خلاف سازش کرنے کی خاطر جمع ہوئے۔ آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو غمگین ہوئے “ ( تفسیر فی ظلال القرآن 349-10 )
شروع سورة میں آنحضرت کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ راتوں کو اُٹھ کر اللہ کی عباد ت کیا کریں تاکہ آپ ﷺ کے اندر نبوت کا بار عظیم اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو اور یہ حکم نبوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوا ہوگا اور اس کے ساتھ نماز تہجد میں آپ ْﷺ کو قرآن مجید کی تلاوت کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے اس چیز کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ اُس وقت قرآن مجید اتنا نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرات کی جاسکے۔ اس کے بعد آپ کو کفار کی طرف سے زیادتیوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفار کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے او اُن کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے آپ کی طرف اسی طر ح رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون نے رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے بڑی سختی کے ساتھ اُس کو پکڑ لیا، اگر تم نے بھی انکار کیا تو تم بھی میرے عذاب سے بچ نہ سکو گے۔ دوسرا رکوع د س سال بعدنازل ہوا۔ اس رکوع میں نماز تہجد میں تخفیف کی گئی ہے اور اس سے ساتھ پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور صحیح طریقہ سے زکوة ادا کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بھلائی کاکام تم دنیا میں کرو گے وہ ضائع نہیں ہوں گے۔ اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴ گے ، وہی بہتر جانتا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے ۔ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، وہ بے شک بہت غفور و رحیم ہے۔  (تفہیم القرآن 125'164/6 )

عبدالرشید عراقی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads