کافی سال پہلے کی بات ہے آزاد کشمیر میں ایک مدرسہ تھا جہاں پر کچھ مسافر بچے پڑھتے تھے ۔ اسی علاقے میں ایک نواب قسم کا آدمی رہتا تھا جو طلباء سے بہت محبت کرتا تھا اور انکی خدمت کرکے خوش ہوتا تھا ۔ وہ روزانہ اپنے گھر کھانا پکواتا اور سالن والا برتن اپنے سر پر رکھ کر خود مدرسہ پہنچا کرآتا ۔ کافی عرصہ سے اس کا یہی معمول تھا ۔ ایک دن وہ حسب معمول اپنے نوکر کے ساتھ ان طلباء کا کھانا لے کر آرہا تھا ۔ سالن والا برتن اس نے سر پر رکھا ہوا تھا اور روٹیاں وغیرہ نوکر نے پکڑی ہوئی تھیں ۔ رستے میں ایک جگہ اس مدرسے کے کچھ طلباء کھڑے باتیں کررہے تھے ۔ انہوں نے نواب صاحب کو آتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ نواب صاحب جب انکے قریب سے گذرے تو انہوں نے سنا کہ وہ طلباء انہیں کے بارے میں باتیں کررہے ہیں اور جیسے کہ اکثر طلباء زمانہ طالب علمی میں کچھ لاابالی ہوتے ہیں وہ طلباء بھی کہہ رہے تھے کہ یار آج ہمارا بیل ابھی تک کھانا لے کر نہیں آیا ۔ نہ جانے آج ہمارا بیل کہاں رہ گیا ۔ نواب صاحب نے جب اپنے نوکر کی موجودگی میں یہ بات سنی تو انہیں بہت بری لگی ۔ انہوں نے سوچا کہ میں روز انکے لیے کھانا لے کر آتا ہوں انکی خدمت کرتا ہوں اور یہ مجھے اپنا بیل سمجھتے ہیں ۔ میرے ملازم کے سامنے میری کیا عزت رہ گئی ہوگئی ۔ اسے بہت دکھ ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ بس آج کے بعد انکے لیے کھانا لے کر نہیں آؤں گا یہ ناقدرے لوگ ہیں ۔ اسی رات جب وہ سویا تو اس نے ایک خواب دیکھا ۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ قیامت قائم ہوچکی ہے سب کا حساب کتاب ہورہا ہے ۔ لوگ پل صراط پر سے گذر رہے ہیں ، کوئی تو پل سے پار ہوگئے ہیں اور کوئی پل پر سے کٹ کٹ کے نیچے جہنم میں گر رہے ہیں ۔ اسے بہت پریشانی ہوئی کہ میں پل کسی طرح پار کروں پتہ نہیں میرا کیا بنے گا ۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ وہی طلباء جنہوں نے اسے بیل کہا تھا اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پل صراط کی طرف جارہے ہیں ، انکے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں ہے اچانک ان میں سے ایک طالب علم کی نظر نواب صاحب پر پڑی تو اس نے دوسرے سے کہا وہ دیکھو ہمارا بیل کھڑا ہے ۔ دوسرے نے نواب صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگا کہ یار اس بیل نے ہماری بہت خدمت کی ہے چلو اسے بھی ساتھ لے چلتے ہیں ۔ انہوں نے نواب صاحب کا ہاتھ پکڑا اور نہایت آرام سے انہیں پل صراط پار کراکے جنت میں لے گئے
نواب صاحب کی آنکھ کھل گئی اورانہوں نے اپنے فیصلے پر توبہ کی اور اگلے دن تمام طلباء کی اپنے گھر میں دعوت کی اور گھر والوں سے کہا کہ تم لوگ صرف کھانا پکا کر دے دینا باقی ہر کام میں خود کروں گا ۔ اور پھر اپنے ہاتھ سے سب کو کھانا ڈال ڈال کر دیا اور انکی خدمت کی ۔ اس کے بعد بھی جب تک وہ زندہ رہا ان طلباء کی خدمت کرتا رہا اور کبھی کبھی کہا کرتا تھا اپنے بیل کو بھول نہ جانا، اپنے بیل کو پل صراط پر بھی یاد رکھنا۔
نواب صاحب کی آنکھ کھل گئی اورانہوں نے اپنے فیصلے پر توبہ کی اور اگلے دن تمام طلباء کی اپنے گھر میں دعوت کی اور گھر والوں سے کہا کہ تم لوگ صرف کھانا پکا کر دے دینا باقی ہر کام میں خود کروں گا ۔ اور پھر اپنے ہاتھ سے سب کو کھانا ڈال ڈال کر دیا اور انکی خدمت کی ۔ اس کے بعد بھی جب تک وہ زندہ رہا ان طلباء کی خدمت کرتا رہا اور کبھی کبھی کہا کرتا تھا اپنے بیل کو بھول نہ جانا، اپنے بیل کو پل صراط پر بھی یاد رکھنا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔